Front - The Prophet Muhammed

Saturday, December 28, 2013

PASAND KI SHADI NAKAM KYU ??????

آج اگر کسی کی ارینج میرج ہوجائے تولوگ اسے دقیانوسی خیال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ والدین بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ زندگی بچوں نے گزارنی ہے اس لیے ان کی پسند کو اہمیت دینی چاہیے
ثانیہ اور عاصم کے درمیان سرد جنگ کاآغاز کئی روز پہلے ہی ہوچکا تھا جب عاصم نے دبے الفاظ میں ثانیہ کو جاب کرنے سے منع کردیا تھا لیکن اس خاموش سرد جنگ نے جب لفظوں کاروپ اختیار کیا تو دونوں کی آوازیں گھر کے درودیوار پھلانگ کر بیرونی گیٹ سے باہر جارہی تھیں۔
عاصم میں نے آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ میں جاب نہیں چھوڑ سکتی۔ شادی سے پہلے تو آپ کو جاب کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اب بیٹھے بٹھائے بلاوجہ ناراض کیوں ہورہے ہیں۔ ثانیہ غصے میں بولی۔ دیکھو پہلے بات اور تھی لیکن اب میری فیملی والے تمہاری جاب کرنے کو پسند نہیں کرتے‘ عاصم نے کہا۔ شادی میں نے تم سے کی ہے‘ تمہاری فیملی سے نہیں جو ان کے اعتراضات کی فکر کروں اور اپنی تعلیم ضائع کروں میں نے اتنی بڑی ڈگری گھر بیٹھنے کیلئے حاصل نہیں کی تھی۔ ثانیہ کو اس کے بلاوجہ اعتراض پر شدید غصہ آرہا تھا۔ پہلے تو اسے سمجھنے کے پہلے سے دعوے کرتا تھا۔ اب فیملی کے سامنے پتہ نہیں کیوں بھیگی بلی کی طرح رہتا ہے۔
مجھے پتہ ہے تم شروع ہی سے اتنی ضدی اور ہٹ دھرم ہو‘ تمہارے سامنے شوہر اور اس کی عزت سے زیادہ جاب کی اہمیت ہے۔ اب عاصم کو بھی غصہ آگیا تھا اور دونوں کی بحث طول پکڑ رہی تھی جبکہ فیملی اور محلے والے تماش بینوں کی طرح سے اس محبت کی شادی کو زوال پذیر ہوتے دیکھ رہے تھے۔ عاصم اور ثانیہ نے بزرگوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی اور دونوں میں مصلحت آمیزی کی کوئی گنجائش نہیں نکل رہی تھی کیونکہ اس قسم کے جھگڑے روز ہی کھڑے ہوتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ لڑکی اور لڑکے کی پسند سے کی ہوئی شادی بھی کسی نہ کسی وجہ سے ناکام ہوجاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ فریقین کی اپنی مرضی اختیار کرنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی بدولت حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے جہاں بہت سی دوسری چیزوں کو نئی نسل نے پرانا قرار دے دیا۔ وہاں شادی بیاہ کے معاملات میں بھی نوجوان نسل کی پسند کو اہمیت دی جانے لگی۔انہی بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کے پیش نظر والدین کی سوچ میں بھی کسی حد تک تبدیلی واقع ہوئی‘ پہلے بچوںکے رشتے ناطے طے کرنے کے سلسلے میں والدین کی پسند وناپسند کومحترم سمجھا جاتا تھا اور ان کی زندگی کے اہم فیصلوں کا اختیار والدین اور گھر کے بزرگوں کو ہی حاصل تھا اگر ایک دو واقعات ایسے ہو بھی جاتے کہ بچے اپنی مرضی کرلیں تو انہیں معاشرے میں معیوب نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور عموماً اس طرح کے جملے سننے کو ملتے تھے کہ ”نئی نسل کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ایک ہمارا زمانہ تھا ہم والدین کے سامنے زبان تک نہیں کھولتے تھے جبکہ موجودہ نسل ہر معاملے میں اپنی مرضی کی مالک ہوتی جارہی ہے۔“
80,70 کی دہائی میں کسی حد تک مڈل کلاس میں بھی پسند کی شادی کا رواج زور پکڑ رہا تھا اور یہ وہ دور تھا جب پسند کی شادی کارواج عام ہوتا جارہا تھا اور کسی حد تک والدین نے اسے قبول کرنا شروع کردیا تھا لیکن اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد پسند کی شادی کا رواج اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج اگر کسی کی ارینج میرج ہوجائے تولوگ اسے دقیانوسی خیال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ والدین بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ زندگی بچوں نے گزارنی ہے اس لیے ان کی پسند کو اہمیت دینی چاہیے اور ویسے بھی ارینج میرج میں میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت میں یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کی صورت میں والدین ہی مورد الزام ٹھہرائے جاتے تھے جبکہ لو میرجز میں اگر دونوں فریقین کی آپس میں نہ بنے تو والدین یہ کہہ کر بری الذمہ ہوتے ہیں کہ تم نے اپنی مرضی کی تھی اب جیسے بھی حالات ہیں ان کے ذمہ دار بھی تم خود ہو۔

مذہب اور پسندیدگی
تعلیم نے نوجوانوں کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنی زندگی کے معاملے میں خود مختار ہیں اور ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہر شخص کی ذاتی زندگی کے حوالے سے اس کی پسند کو ترجیح دی ہے۔ اپنے حقوق کی آگہی سے نوجوان نسل کو والدین کے سامنے اپنے حقوق کی آزادی اور پسندیدگی کا احساس دلایا اور آج کے دور میں بہت حد تک والدین اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ شادی بے شک دو خاندانوں کا ملاپ ہے لیکن اس میں مرکزی کرداروں لڑکا اور لڑکی کی پسند کو ضرور اہمیت دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خاندان والوں کی ناچاقی کے باوجود لڑکا اور لڑکی کی پسند کے باعث شادی ہوجاتی ہے لیکن ایسی شادی بعض صورتوں میں تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن بعض صورتوں میں خاندان والوں کی باہمی چپقلش اور دیگر منفی عناصر کی بدولت نتائج مثبت نہیں نکلتے۔

لومیرجز ناکام کیوں؟
والدین کی رضامندی‘ رشتہ داروں کی ناچاقی اور اس طرح کے درپیش دیگر رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ہونے والی شادی بھی ناکام کیوں ہوجاتی ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تو آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پسند اور مرضی سے کی جانیوالی شادی بھی ناکام ہوجاتی ہے۔ محبت کے تحت کی جانے والی شادیوں میں سے 50 فیصد سے زائد شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اور ان میں سے اکثر کی مدت ایک سال یا چند ماہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سی معروف شخصیات ایسی ہیں جن کی شادی کچھ عرصے بعد ہی ناکام ہوجاتی ہے اور پھر وہی فریقین جو ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی دل کھول کر برائیاں کی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کیلئے دلوں میں موجود محبت نفرت کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور بعض اوقات میں تو دونوں فریقین کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے رہتے ہیں لیکن بعض اوقات حالات بالکل برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں اور اتنے ارمانوں اور خواہشات سے کی جانے والی شادی کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ ہوتا یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد شادی کے مضبوط بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو مرد حضرات ساری ذمہ داری عورت پر ڈال دیتے ہیں کہ تمہیں اپنی فرمانبرداری اور سلیقہ شعاری سے نہ صرف میرے والدین کا دل جیتنا ہے بلکہ ان کے ہر ظلم وستم کو خوش اخلاقی سے برداشت کرنا ہے اور دوسری طرف والدین اور دیگر اہل خانہ اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لڑکے نے والدین کی اور بہنوں کی پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی اور شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کی بلکہ وہ اکثر لڑکے کی بجائے آنیوالی بہو کو اس قسم کے طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان حالات میں اگر بیچار ی لڑکی شوہر سے شکوہ کرتی ہے تو الٹا اسے سمجھوتہ کرنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کا لیکچر دیا جاتا ہے جبکہ اس قسم کا سمجھوتہ دل سے نہیں حالات سے کیا جاتا ہے اور حالات کے تحت کیا ہوا سمجھوتہ زیادہ سے زیادہ ایک دوہفتے ہی چلتا ہے اور لڑائی کا کوئی نیا پہلو نکل آتا ہے اور بیچاری سمجھوتہ کرنے والی لڑکی کا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور روز کی گھریلو ناچاقی سے نہ صرف پورے گھر کاماحول ٹینشن کا شکار رہتا ہے بلکہ اکثر حالات میں بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔اگر لڑکی مجبوراً ایسا کرتی ہے تو اکثر والدین اسے یہی سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنا گھر خراب نہ کرے اور جس طرح ممکن ہو گزارا کرے جبکہ ایسی صورتحال میں مرد بھی کسی حد تک قصوروار ہوتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ بیوی اور ماں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط جب ماں کی سنتا ہے تو اسے بیوی غلط لگتی ہے اور بیوی کی باتیں سنتا ہے تو اسے ماں غلط لگتی ہے اور قوت فیصلہ کی کمی ہوجاتی ہے۔

بشکریہ
ماہنامہ عبقری

ازدوجی زندگی میں شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق

حمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الہ الکریم۔اما بعد:
قال اللّٰہ تعالیٰ وَعاَشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔وقال النبی ﷺ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْراً
(۱) میاں کے تعلقات کی اہمیت:
اسلام نے جو معاشرتی نظام قائم کیا ہے اس کی بنیادآپسی بھائی چارہ میل جول اور باہمی محبت والفت پر ہے اور معاشرتی نظام میں بنیادی اہمیت زوجین یعنی میاں بیوی کے تعلقات پر ہے ۔میاں بیوی کے تعلقات کی درستگی ہی کے باعث کوئی بھی معاشرہ مضبوط ومستحکم رہ سکتا ہے ۔ غرض مرد وعورت کے تعلقات کی بہتری کسی معاشرے کی صحت کی علامت اور اس کی ترقی کیلئے بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور جس معاشرہ میں ان دونوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو وہ معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتا بلکہ بہت جلد زوال وادبار کا شکار ہو کر بکھر جاتا ہے ۔اور اسلامی نقطہ نظر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ چنانچہ بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات میں اگر بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی شیطان کو ہوتی ہے جو اس تاک میں رہتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے کارندوں ( چیلوں) کو بھیجتا ہے ( تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں ) تو ان میں سب سے زیادہ مقرب کارندہ وہ ہوگا جو سب سے زیادہ فتنہ گر ہو چنانچہ جب کو ئی کا رندہ ( چیلہ ) آکر اسے یہ رپوٹ دیتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں کام کیا ہے تو کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا ۔ پھر اُن میں سے کوئی ایک کارندہ آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر دی ہے تو وہ اسے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو بہت اچھا ہے یعنی تو نے واقعی کچھ کام کیا ہے اور بعض حدیثوں میں مذکور ہے ـ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأۃً عَلٰی زَوْجِھَا ۔ رواہ مسلم کتاب صٖفات المنافقین ۴؍۲۱۶۷مطبوعہ ریاض۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جس شخص نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف اکسا کر بگاڑ پیدا کردیا تو وہ ہمار آدمی نہیں ہے ا س اعتبار سے جو شخص کسی عورت کو بھڑ کا کر میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے یا تفریق پیدا کرتا ہے یا جھگڑا کھڑا کر دیتا ہے تو وہ حدیث بالا کی رو سے شیطان کا ایجنٹ ہے ۔نیز اس حدیث سے ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہو تی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں عورتیں بہت جلد بد گمان ہو جاتی ہیں اور بد گمانی میں مبتلا ہو کر اپنے شوہر کے بارے میںبری رائے قائم کر لیتی ہیں اور شکوک وشبہات میں مبتلا ہو کر آمادہ جنگ ہو جاتی ہیں ۔

٭ حسن معاشرت کے چند اصول :
میاں بیوی کے تعلقات کی درستی کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اور اس کے استحکام کیلئے ایک بنیادی اور اساسی اہمیت کی چیز ہے ۔ ظاہر ہے کہ میاں بیوی کے میل ملاپ اور ان کے اتحاد واتفاق ہی کی بدولت ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اور مختلف خاندان کا مجموعہ ہی معاشرہ یا سماج یا سوسائٹی کہلاتا ہے لہذا جن خاندانوں میں باہمی جھگڑے پائے جاتے ہیں یا جن میں اتحاد ویگانگت موجود نہ ہو ۔ یا جن میں میاں بیوی کے درمیان تفرقہ اور انتشار پیدا ہو چکا ہو وہ معاشرہ اور سماج حد درجہ کھوکھلا ہو گا اور بہت جلد زوال واد بار کا شکار ہو جائے گا اس اعتبار سے میاں بیوی کے درمیان محبت والفت اور باہمی ہم آہنگی پیدا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ دونوں مل کر اپنے حقوق وفرائض بخوبی ادا کر سکیں اور اپنی اولاد کی بھی صحیح تر بیت کر سکیں ۔ جن کے نازک کندھوں پر اگلے خاندانوں کو سنبھالنے اور انہیںقائم رکھنے کا بار بوجھ رکھا جائے گا ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں بیوی کے درمیان کبھی کوئی اختلاف پیدا ہی نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ اختلاف ضرور پیدا ہوں گے اور زندگی کے مختلف موڑوں پر ان میں اتار چڑھاؤ بھی آئے گا ۔ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ شکایتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہونا ایک فطری بات ہے کیونکہ زندگی ہمیشہ یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں اس لئے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کو بر داشت کرنے اور جہاں تک ہو سکے آپسی اختلافات کو کم سے کم کرنے کی کو شش کرتے رہنا چاہئے اس کے بغیر گاڑی چل نہیں سکتی ۔
قرآن وحدیث میں زوجین کے درمیان حسن معاشرت کے سلسلے میں چند قیمتی اور پیارے اصول بیان کئے گئے ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو خاندانی نظام مضبوط ومستحکم ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں (۱) پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ زوجین یعنی میاں بیوی کے درمیان آپس میں محبت ومروت کا تعلق اس طرح قائم ہو جائے گویا کہ دونوں ایک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہوں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَ مِنْ اٰ یٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَۃً وَّرَحْمَۃً ( سورہ روم :۲۱ ) ترجمہ: اور اس کی ( ربوبیت کی ) نشانیوں میں سے ہے یہ بات کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان کے ذریعہ راحت حاصل کر سکو اور اس نے تمہارے درمیان محبت ومہر بانی پیدا کر دی ہے ۔
چنانچہ زوجین میں جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت ومہربانی کا تعلق پیدا نہ ہو اور ان دونوں کے درمیان خلوص اور ایثار کے جذبات نہ پائے جاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو لوٹنے یا محض وقتی اور عارضی اغراض کے تحت محض جنسی لذت حاصل کر نا مقصود ہو (جیسا کہ آ ج کل مغربی ممالک میں اس کا رواج چل پڑا ہے ) یا وہ محض ایک تجارتی بندھن ہو ( جیسا کہ موجودہ ہندستا نی معاشرہ اس کی تصویر پیش کر ر ہا ہے ) تو ایسے تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ وہ کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں ۔

٭(۲) کسی کی خامی نہیں خوبی دیکھو!
اور اس سلسلے میں دوسرا صول یہ ہے کہ مرد وعورت دونوں اختلافِ مزاج کے باعث ایک دوسرے کو برداشت کر نے کی عادت ڈالیں ۔ چنانچہ اس بارے میں مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت پر ابھارتے ہوئے ارشاد باری ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہو ئے تعلقات کو نبھا نے کی کو شش کریں ۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اگر کسی عورت میں کوئی خامی مو جود ہو تو اس میں کو ئی خوبی بھی ہو سکتی ہے ۔ وَعاَشِرُوْھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِ ھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَئْیًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہٖ خَیْراً کَثِیْراً ( سورہ نساء آیت ۱۹) ترجمہ: تم عورتوں کے ساتھ اچھی زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ چھوڑی ہو ۔اس اصول کی تشریح وتفصیل حدیث نبوی میں اس طرح آئی ہے لَایَغْرِکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمَنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْھَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْھَا آخَرُ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ مومن شخص کسی مومن عورت سے بالکلیہ بغض نہ رکھے اگر وہ اس کی کسی ایک عادت کو نا پسند کر تا ہو تو اس کی کسی دوسری عادت سے راضی ہو گا ۔مسلم کتاب الرضاع ۲؍ ۱۰۹۱۔یہ بات جس طرح عورت پر صادق آتی ہے اسی طرح مرد پر بھی صادق آسکتی ہے ۔ یعنی کسی مرد میں اگر کوئی خامی ہو تو اس میں کچھ خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ لہٰذا زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے ضروری ہے کہ میاں بیوی جہاں تک ہو سکے ایک دوسر ے کو بر داشت کرتے رہیں اور کوئی غیر دانشمندانہ اقدام کرنے سے احتراز کریں ۔

٭زوجین کے درمیان صلح وصفائی:
اس سلسلے میں تیسرا اصول یہ ہے کہ میاں بیوی کی زندگی ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ اس میں مختلف موڑوں پر نشیب وفراز آتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر جہاں تک ہو سکے دونوں کو ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہو ئے آپس ہی میں سمجھوتہ کر لینا چاہئے اور دونوں کو خدا سے ڈرتے ہوئے اور اس کے حدود کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق خلوص اور باہمی خیر خواہی کے ساتھ ادا کرتے رہنا چاہئے ۔ جیساکہ اس سلسلے میں ارشاد باری ہے وَاِنِ مْرأ ۃٍ خَافَتْ مِنْ بَعْلھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَنْ یُّصْلِحَابَیْنِھَمَا صُلْحًا الخ۔ اور اگرکسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی اور بے اعتنائی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح کر لینا اچھی بات ہے طبیعتوں میں ( تھوڑا بہت ) بخل تو ہوتا ہی ہے ( لہٰذا) اگر تم اچھا برتاؤ اور احتیاط کرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی پوری خبر ہے ( سنا:۱؍ ۱۲۸
اس آیت میں مردوں کی زیادتی کی طرف اشارہ ہے اس کے بر عکس اگر زیادتی یا سر کشی عورتوں کی طرف سے ہو ( یعنی با وجود ان کی خاطر مدارات کے ) تو اس صورت میں ان کی تادیب کے حسب ذیل تین طریقے بتائے گئے ہیں ۔
(۱) اول یہ کہ ان کو نرمی اور ملائمت کے ساتھ سمجھایا جائے اور انہیں زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں نا فرمانی سے باز آنے کی تلقین کی جائے ۔ (۲) اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو ان پر نا راضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بستر علیحدہ کر دیئے جا ئیں ،بستر چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ گھر سے باہر چلے جاؤ بلکہ گھر کے اندر ہی رہو، بلکہ تادیب کیلئے کمرہ بدل دو یا بستر بدل دو مگر بالکل بات چیت ختم نہ کرو اس حدیث سے مختلف فقہاء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ مرد کو چار ماہ سے زیادہ باہر جانا بلا عورت کی اجازت کے جائز نہیں۔
(۳) لیکن اگر وہ پھر بھی سیدھی نہ ہوں تو آخری چارہ کار کے طور پر انہیں ہلکی مار دی جائے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْاھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعَ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًْاکَبِیْراً۔اور جن بیبیوں سے تمہیں نافر مانی ( اور سر چڑھنے ) کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤاور (اگر وہ اپنی ہٹ پر قائم رہیں تو) ان کے بستر الگ کردو (اور اگر وہ اس پر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو ان پر (ناحق) الزام لگانے کی کو شش نہ کرو بے شک اللہ (سب کے ) اوپر اور (بہت ) بڑا ہے (لہٰذا) اگر تم زیادتی کروگے تو وہ تم کو سزا دے گا ( سورہ نساٗ : ۳۴) 
لیکن یاد رہے کہ عورتوں کو مارنے کا مطلب بے تحاشا پیٹنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اس کی شرح خود حدیث نبوی میں آئی ہے انہیں بطور تادیب ہلکی سی مار مارنا ہے تا کہ وہ نافر مانی سے باز آجائیں ۔اس کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے امت کو جوآخری نصیحت فر مائی کہ ـ وَاضْرِبُوْاھُنَّ ضَرْبًاغَیْرَمَبْرَحٍ یعنی اول تو مار کا مر حلہ آنا ہی نہ چاہئے اور اگر آئے بھی تو اس صورت کو صرف اس وقت استعمال کیا جائے جب اس کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہ رہے اور اس میں یہ قید لگادی کہ وہ مار تکلیف دینے والی نہ ہو یعنی اس مار سے تکلیف دینا مقصود نہ ہو بلکہ تادیب اور اصلاح مقصود ہو ،الٹے تکلیف دینے والی ایسی مار جائز نہیں کہ نشان پڑ جائے ۔اس کے متعلق ایک خطبہ میں منجملہ اور باتوں کے یہ بات بھی ارشاد فر مائی کہ آپ نے فر مایا یہ بری بات ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جیسے آقا غلام کو مارتا ہے اور دوسری طرف اسی سے اپنی جنسی خواہش بھی پوری کرتا ہے (صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر ۵۲۰۴)یہ کتنی بد اخلاقی اور بے غیرتی کی بات ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو اس طرح مارے جیسے آقا اپنے غلام کو مارتا ہے آپ ﷺ نے کبھی زندگی میں کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھا یا یہی آپ کا طریقہ ہے اور مارنے کی جو اجازت ہے وہ نا گزیر حالات کے اندر ہے بلکہ آپ کی سنت تو یہ ہے آپ کے چہرے پر تبسم ہوتا تھا ۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایاکہ مسلمانو! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت میں لے رکھا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ ( نکاح کے بول ) کے ذریعہ حلال کر لیاہے تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے آدمی کو نہ بٹھائیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہواور اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں ( بطور سزا) ہلکی مار مارو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف طریقہ سے ان کے کھانے کپڑے کا بوجھ اٹھاؤ ( مسلم کتاب الحج ۲؍ ۸۹۰)
(۶) نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث میں عورتوںکو اپنے شوہروں کے بستروں پر نا پسندیدہ لوگوں کو بٹھانے سے جو منع کیا گیا ہے ان میں اجنبی مرد اور وعرتیں اور بیوی کے محرم رشتہ دار بھی شامل ہیں ۔ جن کا گھر میں داخل ہونا اور بیٹھنا شوہروں کی نظر میں نا پسندیدہ ہو۔ اور فقہاء کے نزدیک بیوی کو ایسے تمام لوگوںکو اپنے شوہر کے گھر میں داخل ہو نے کی اجازت دینا جائز نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں گمان ہو کہ ان کا داخلہ شوہر کی نظر میں نا پسندیدہ نہیں ہے ۔ نیز یہ مرد کو حکم ہے کہ عورت کے چہرے پرنہ مارے حدیث میں ہے لَاتَضْرِبُ الْوَجْہِ ۔ کہ عورت کے چہرے پر نہ مارو( ابو داؤد کتاب ا لنکاح ۲؍۲۰۶)
لیکن اگر ان تمام کو ششوں کے باوجود بھی زوجین کے درمیان سمجھوتہ نہ ہو سکے بلکہ آپسی اختلافات بر قرار رہیں تو پھر اس صورت میں مرد عورت دونوں کی جانب سے ایک ایک پنچ یا ثالث کو بٹھا کر تصفیہ کر نے کی کوشش کرنا چاہئے جیساکہ اس سلسلے میں ارشاد باری ہے ۔ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَافَابْعَثُوْاحَکَمًامِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًامِّنْ اَھْلِھَااِنْ یُّرِیْدَااِصْلَاحًایُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھْمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًاخَبِیْراً ۔ اور اگر تم کو میاں بیوی کی باہمی کھٹ پٹ کا اندیشہ ہو تو ایک منصف شخص کو مرد کی طرف سے اور ایک منصف شخص عورت کی طرف سے مقرر کرو۔ اگر یہ صلح کرانا چاہیں تو اللہ میاں بیوی کے درمیان ملاپ کرا دے گا یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا بہت باخبر ہے (نساء :۳۵) 
اگر خدا نخواستہ اس کے بعد بھی مصالحت نہ ہو سکے تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر طلاق ہو سکتی ہے لیکن طلاق دینے سے پہلے یہ ساری کو ششیں ضرور ہو نی چاہیں یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر طلاق داغ ڈالی ۔ طلاق تو مرض کا آخری علاج ہے جب کوئی دوسری دوا کار گر نہ رہ جائے ۔اس بحث سے شریعت کا مزاج اور اس کی حکمت عملی بھی واضح ہو گئی کہ وہ ہر حال میں حسَ معاشرت پر زور دیتی ہے اور حقوق العباد کے سلسلے میں ایک دوسرے کی رعایت کرنے کی تاکید کرتی ہے اور یہ اسلام کے نظام معاشرت کے پیش بہا اصول ہیں جو پورے انسانی معاشرے کے لئے قابل تقلید ہیں۔اگر ان اصولوں پر صحیح معنیٰ میں اور پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام معاشرتی اور سماجی جھگڑے فسادات دور ہو سکتے ہیں اور پورا انسانی معاشرہ امن وامان اور چین وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ضرورت ہے کہ اسلامی اصولوں کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور پھر اس پر پورے خلوص کے ساتھ عمل کیا جائے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے مسلمان اپنی شریعت ،اپنے قانون پر پوری طرح عمل پیرا ہو جائیں تاکہ وہ دوسروں کیلئے اچھا نمونہ بن سکیں کیونکہ کسی دین کے اصول اچھے ہونے کے با وجود وہ صرف کتابوںمیں بند ہوں اور عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہ ہو تو پھر ایسے قیمتی اصولوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لوگ پہلے کسی قوم کے عمل وکردار کو دیکھتے ہیں اور اس کے بعد کسی اور کی طرف نظر ڈالتے ہیں اگر کسی قوم کا عمل صحیح نہ ہو تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس قوم کا دین ہی صحیح نہیں ہے ۔ اب ہم میاں بیوی کے حقوق وفرائض کو بیان کرتے ہیں ۔

٭مرد کے فرائض اور بیوی کے حقوق:
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ میں فضیلت ضرور عطا کی ہے ۔ مگر جس طرح مردوں کے حقوق ہیںاسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں جن کی ادائیگی مردوں پر واجب قرار دی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃًاورعورتوں کے بھی معروف طریقے سے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر عائد ہو تے ہیں ۔لیکن مرووں کو ان پر ایک درجہ فضیلت ہے (سور بقرہ آیت ۲۲۸)
مگر اکثر مرد اپنی مردانگی کے غرور میں یعنی اپنے آپ کو برتر اور عورتوں کو کمتر سمجھتے ہوئے ان کے حقوق غصب کر لیتے ہیں اور ان کا کوئی حق تسلیم کر نے سے انکار کرتے ہوئے من مانی کر نے لگ جاتے ہیں یہ شرعی اور اخلاقی نقطہٗ نظر سے ایک معیوب اور بری بات ہے جس طرح عورت اپنے فرائض اور واجبات ادا کر نے کی ذمہ دار ہے بالکل اسی طرح مرد بھی اپنے فرائض واجبات ادا کر نے کا ذمہ دار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر شخص کو ذمہ دار بنا کر پیدا کیا ہے یہاں پر کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری سے آزاد نہیں ہے ۔اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کُلُّکُمْ رَعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَّ عِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَا ع ٍعَلیٰ اَہْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُولٌعَنْ رَّعِیَّتِہٖ ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اسکی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا اور آدمی بھی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اسکی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا کہ بیوی بچے جو تمہارے ماتحت تھے ان کا کیا حق ادا کیا ۔

٭کامل ایمان والا کون ہے؟:
اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت وفر ماں برداری ایمان کا تقاضا ہے اور ایمان کی علامت اور اس کی کسوٹی اچھے عادات واطوار ہیں جو حسن معاشرت کے طالب ہیں اور حسن معاشرت کا اولین اور پہلا زینہ بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے اس اعتبار سے جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا وہ اخلاق وکرادار کے لحاظ سے اچھا شخص نہیں ہو سکتا اور جو شخص اخلاق وکردار میں ناقص وناکارہ ہو وہ درجہ ایمان ہی میں ناقص وکمزور ہوگا گویا کہ اس کے سینے میں ایمان کی حرارت سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔یہی وہ حقیقت ِعظمیٰ ہے جو اس حدیث نبوی میں بیان کی گئی ہے اَکْمَلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًااَحْسَنُھُمْ خُلُقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِھِمْ خُلُقًا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ایمان کے اعتبار سے کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ سلوک کر نے والے ہوں ( تر مذی کتاب الرضاع ص ۴۲۶جلد ۳)
اللہ رب العزت کا ارشاد پہلے گزر چکا ہے جس میں عورتوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا گیا ہے وَعَاشِرُوْھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ ۔ کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو اس میں تمام مسلمانوں سے خطاب ہے کہ تم خواتین کے ساتھ معروف یعنی نیکی کے ساتھ اچھا سلوک کر کے زندگی گزارو اور ان کے ساتھ اچھی معاشرت برتو ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ یہ عام ہدایت ہے اور حضور ﷺ نے اس آیت کی تشریح اپنے اقوال وافعال سے فر مائی ۔ جب تک اسلام نہیں آیا تھا اور جب تک آپ کی تعلیمات نہیں آئی تھیں اس وقت تک عورت کو ایسی مخلوق سمجھا جاتا تھا جو معاذ اللہ گویا انسانیت سے خارج ہے اور اس کے ساتھ بھیڑ بکریوںجیسا سلوک ہوتا تھا ۔اس کوا نسانیت کے حقوق لوگ دینے سے انکار کرتے تھے ۔حضور ﷺ نے پہلی بار اس دنیا کو جو آسمانی ہدایت سے بے خبر تھی خواتین کے حقوق کا احساس دلایا آپ ﷺ نے فر مایا خِیَارُکُمْ خِیَارْکُمْ لِنِسَائِھِمْ وَاَنَا خِیَارُکُمْ لِنِّسَائِیْ ۔ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جوا پنی خواتین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور میں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے ولا ہوں ( ترمذی ماجاء فی المرأۃ علیٰ زوجھا حدیث نمبر ۱۱۷۲)صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا اِسْتَوْصُوْا بِا لِنّسَائِ خَیْراً ۔ کہ میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں تم میری اس نصیحت کو قبول کر لو۔ اس سے پہلی حدیث میں حضور ﷺ نے اپنی زندگی کو مثال بنا کر پیش کیا کہ کسی بندے کی اچھائی کا پتہ لگانا ہو تو اس کے دوستوں سے نہ پو چھیں پو چھنا ہو تو اس کی بیوی سے ذرا پو چھیں کہ یہ کیسا انسان ہے اگر بیوی کہے اس کی معاشرت اچھی ہے تو وہ اچھا انسان ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ( ترمذی کتاب الرضاع جلد ۳ ص ۴۶۶)

٭ گھر یلو زندگی پورے تمدن کی بنیاد: 
مرد وعورت کے جو تعلقات ہیں اور انسان کی جو گھریلو زندگی ہے وہ پورے تمدن کی بنیاد ہوتی ہے اور اس پر پورے معاشرے اور سماج کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اگر مرد وعورت کے تعلقات ٹھیک ہیں ، خوشگوار ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرہے ہیں تو اس سے گھر کا نظام درست ہوتا ہے اولاد درست ہوتی ہے اور اولاد کے درست ہو نے سے معاشرہ سدھر تا ہے اس پر پو رے معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے لیکن اگر گھر کا نظام خراب ہو اور میاں بیوی کے درمیان رات دن تو تو میں میں ہوتی ہو تو اس سے اولاد پر برُا اثر پڑیگا اور اس کے نتیجہ میں جو قوم تیار ہو گی اس کے بارے میں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی شائستہ قوم کے افراد بن سکتے ہیں یا نہیں ۔ اور یادرکھیںکہ دو باتیں بڑی عام ہیں ایک یہ کہ عورت کی زبان قابو میں نہیں رہتی دوسرے مرد کے ہاتھ قابو میں نہیں رہتے جب تک ایک دوسرے کے حقوق نہ جانیں گے ۔اسی طرح کے جگڑے کھڑے ہوں گے ۔اس لئے تفصیل سے ان کے حقوق کو بیان کیا گیا۔

٭خوشگوار زندگی گزارنے کا ایک گُر:
اللہ تعالیٰ نے عورت کی تخلیق اپنی ابدی حکمت ومصلحت کی بنا پر کچھ اس انداز میں کی ہے کہ اس کی فطرت وطبیعت میں تھوڑی سی کجی یعنی ٹیڑھا پن بھی رکھ دیا ہے جسے برداشت کر نے کی مرد کو تاکید کی گئی ہے اور عورت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ حدیث نبوی میں صراحت مو جود ہے کہ عورت کا ٹیڑھا پن کبھی درست نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی اسے درست کرنا چاہے گا تو اس کا نتیجہ دونوں کے درمیان جدائی یعنی طلاق کی صورت میں ظاہر ہو گا لہٰذا دانش مندی کا تقاضاہ یہ ہے کہ عورت کی اس فطرت اوراس کی نفسیات کے پیش نظر عورت کا استعمال بڑی ہو شیاری سے کیا جائے اس طرح جو مرد عورت کی نفسیات کو پہچان کر اسے ہینڈل کر نے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ ایک خوشگوار اور کا میاب زندگی گزار سکیں گے ۔
دیکھے حدیث نبوی میں فطرت انسانی کے ان رازوں سے پردہ کس طرح اٹھایا گیا جو اس بات میں حکمت ودانش کے پیش بہا موتیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اِسْتَوْصُوْا بِا لِنّسَائِ فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَاِنَّ اَعْوَجَ شَئْیٌ فِی الضِّلَعِ اَعْلَاہُ فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمَہَ کَسَرْتَہُ وَاِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجٌ فَا سْتَوْاصُوْابِالِنّسَائِ ۔حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی ( کی ہڈی) میں زیا دہ ٹیڑھا پن اس کے اوپری حصہ میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس ٹیڑھے پن کو رہنے دوگے تو وہ بر قرار رہے گا لہٰذا تم عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ ( بخاری کتاب الانبیاء ، مسلم کتاب الرضاع ۲؍ ۱۰۹۱)ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت پسلی کی ہڈی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو تم توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تمہیں اس کے ٹیڑھا پن کو برداشت کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا( بخاری کتاب النکاح ۶؍ ۱۲۵)

٭ خوبی دیکھو:
ایک حدیث میں حضور ﷺ نے فر مایا کہ عورت پسلی کی ہڈی سے پیدا کی گئی ہے وہ تمہارے لئے کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی ۔ لہٰذا تم اگر اس سے لطف اندوز ہونا چاہو تو تمہیں اس کے ٹیڑھے پن کو برداشت کرنا پڑے گا اور اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو اسے توڑ دوگے اور اس کا توڑنا طلاق ہوگا ( صحیح مسلم کتاب الرضاع ۲؍۱۰۹۱)حافظ ابن حجر ؒ نے تحریر کیا ہے کہ پسلی کی ہڈی میں زیادہ ٹیڑھا پن اس کے اوپری حصہ میں ہوتا ہے اس سے مراد( ایک قول کے مطابق ) دراصل عورت کی زبان درازی کی طرف اشارہ ہے جو ایک ضرب المثل ہے ان احادیث میں حضور ﷺ نے عورت کے مزاج کے متعلق بڑی اچھی تشبیہ بیان فر مائی ہے اور ایسی عجیب وغریب اورحکیمانہ تشبیہ ہے کہ ایسی تشبیہ ملنا مشکل ہے ۔ یہ جوفر مایا کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔بعض لوگوں نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا فر مایا اس کے بعد حوا علیھا السلام کو انہی کی پسلی سے پیدا کیا ۔
اور بعض علماء نے اس کی دوسری تشریح یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ عورت کی تشبیہ دیتے ہوئے فر مارہے ہیں کہ عورت کی مثال پسلی کی سی ہے کہ جس طرح پسلی دیکھنے میں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے لیکن پسلی کا حسن اور صحت ٹیڑھا ہونے ہی میں ہے چنانچہ کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ اس پسلی کو سیدھا کردںو تو جب اسے سیدھا کرنا چاہے گا تو وہ سیدھی نہیں ہوگی البتہ ٹوٹ جائیگی پھر وہ پسلی نہیں رہے گی اب دوبارہ اس کو ٹیڑھا کر کے پلستر کے ذریعہ جوڑنا ہوگا اس طرح حدیث شریف میں عورت کے بارے میں یہی فرمایا اِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُھَا کَسَرْتَھاَ اگر اس پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ پسلی ٹوٹ جائیگی وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اِسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیھَا عِوَجٌ اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو گے تو اس کے ٹیڑھے ہونے کے باوجود فائدہ اٹھاؤگے یہ عجیب وغریب وحکیمانہ تشبیہ حضور اقدس ﷺ نے بیان فر مائی کہ اس کی صحت ہی اس کے ٹیڑھے ہونے میں ہے اگر وہ سیدھی ہوگی تو وہ بیمار ہے صحیح نہیں ہے ( اصلاحی خطبات ) 

٭یہ عورت کی مذمت کی بات نہیں ہے :
بعض لوگ اس تشبیہ کو عورت کی مذمت میں استعمال کرتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے لہٰذا اسکی اصل ٹیڑھی ہے چنانچہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عورت ٹیڑھی پسلی کی مخلوق ہے گویا اس کو عورت کی مذمت اور برائی کے طور پر استعمال کرتے ہیںحالانکہ خود حضور اقدسﷺ کے ارشاد کا منشاء یہ نہیں ہے ۔

٭ عورت کا ٹیڑھا پن ایک فطری تقاضا ہے :
بات یہ ہے کہ اللہ نے مرد کوکچھ اوصاف دے کر پیدا کیا ہے اور عورت کو کچھ اوصاف دے کر پیدا کیا ہے دونوں کی فطرت اور مزاج میں فرق ہے اس فرق کی وجہ سے مرد عورت کے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ میری طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے حالانکہ عورت کا تمہاری فطرت اور طبیعت کے خلاف ہو نا کوئی عیب نہیں ہے ۔چونکہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو ۔ جیسے کوئی شخص پسلی کو یہ کہے کہ یہ پسلی کے اندر جو ٹیڑھا پن ہے وہ اس کے اندر عیب ہے ظاہر ہے وہ عیب نہیں ہے بلکہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو اس لئے آنحضرت ﷺ یہ ارشاد فرمارہے ہیں اگر تمہیں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو تمہاری طبیعت کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے تم اس کو ٹیڑھا سمجھ رہے ہو تو اس کو اس بنا پر کنڈم نہ کرو بلکہ یہ سمجھو کہ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائیگی اور اگر فائدہ اٹھانا چاہو گے تو اسکے ٹیڑھے پن سے بھی ٹیڑھا ہونے کی حالت میں بھی فائدہ اٹھا سکو گے ۔ حضور ﷺ چونکہ مرد اور عورت کی نفسیات سے واقف ہیں اس لئے حضور ﷺ نے سارے جھگڑے کی جڑ پکڑ لی۔ کہ سارے جھگڑے صرف اس بنا پر ہوتے ہیں کہ مرد یہ چاہتا ہے کہ جیسا میں خود ہوں یہ بھی ویسی بن جائے تو بھائی یہ تو ویسی بننے سے رہی اگر ویسی بنا نا چاہوگے تو ٹوٹ جائیگی اس لئے اس فکر کو تو چھوڑ دو ہاں! جو چیزیں اس کے حق میں اس کے حالات کے لحاظ سے اس کے لئے عیب ہیں اس کی اصلاح کی فکر کرو اور ان کی اصلاح کی فکر بھی مرد کی ذمہ داری ہے لیکن اگر تم یہ چاہو کہ وہ تمہارے مزاج اور طبیعت کے موافق ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا ( اصلاحی خطابات ) 

٭ عورت کو پسلی سے پیدا کر نے میں ایک اور حکمت :
عورت کو اللہ نے مرد کی پسلی سے نکالا اس میں بھی ایک میسج اور پیغام ہے وہ یہ کہ یہاں بیوی کے درمیان گہرا تعلق ہے ۔ ہم نے عورت کو تمہاری پسلی سے نکالا پاؤں سے اس لئے نہیں بنایا کہ تم اسے پاؤں کی جوتی نہ سمجھ لینا اور سر سے اس لئے نہیں بنا یا کہ تم اس کو سر پر نہ بٹھا لینا بلکہ ہم نے اسے پسلی سے بنایا ہے اور یہی تمہارے دل کے سب سے ذیادہ قریب ہے لہذا اے خاوند! تم اپنی بیوی کو دل کے قریب رکھنا تمہاری زندگی اچھی گز رجائے گی( مثالی ازدواجی زندگی کے سنہرے اصول)
خلاصہ یہ کہ عورت کے اچھے وصف کی طرف نگاہ کرو اس سے تمہار ے کو تسلی ہوگی اور بد سلوکی کے راستے بھی بند ہوں گے ۔لہٰذا خاوندوں کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

٭بیوی کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک :
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ،اس وقت نو ازواج مطہرات آپ ﷺ کے نکاح میں تھیں اور ازواج مطہرات آسمان سے نازل کئے ہوئے فرشتے نہیں تھے وہ اسی معاشرے کے افراد تھے اور ان کے درمیان وہ باتیں بھی ہوا کرتی تھیں جو سوکنوں کے درمیان آپس میں ہوا کرتی ہیں وہ مسائل بھی کھڑے ہوتے تھے جو بعض اوقات شوہر اور بیوی میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ ساری عمر نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے کسی خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ جب بھی آپ ﷺ گھر کے اندر داخل ہوئے تو چہرہ انور پر تبسم ہو تا تھا تو سرکار دو عالم ﷺ کی سنت یہی ہے کہ ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے بلکہ ان کے ساتھ پیار ومحبت اور نرمی کا بر تاؤ کیا جائے ۔
٭ میاں بیوی کے تعلقات کی عمدہ ترین مثال: 
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لِّھُنَّ ۔ شادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جائے کہ میاں اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے میاں کے ذریعہ گناہوں سے بچ جائیں اس لئے کہ ان دونوں کو زندگی کاساتھی کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی فر ماں برداری والی زندگی میں ایک دوسرے کے معاون بن جاتے ہیں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ قرآن مجید نے اس تعلق کے بارے میں ایسی مثالیں دی ہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب ایسی مثالیں پیش نہ کر سکا ۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ۔ تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم اپنی بیویوں کا لباس ہو۔
٭ میاں بیوی کو لباس کیوں کہا گیا؟
لباس کے دو فائدے ہیں ایک تو اس سے انسان کے بدن کے عیب چھپ جاتے ہیں ۔اگر بے لباس مرد کو کہیں کہ لوگوں میں چلا جائے تو شرم کے مارے اس کو پسینہ آجائے اور اگر کوئی زبر دستی اسے لوگوں کے سامنے بے لباس کر دے تو جی چاہے گا کہ زمین پھٹے اور میں اندر اتر جاؤں ۔تو لباس کے ذریعہ انسان اپنے جسم کے اعضاء کو چھپاتا ہے ۔ یہ قدرتی شرم وحیا کاتقاضا ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ انسان کو زینت بخشتا ہے جسم تو دو چادر سے بھی چھپ جاتا ہے مگر ہم عموماً اچھا لباس پہن کر جب چلتے ہیں تو لوگ شخصیت کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ کپڑوں نے انسان کی شخصیت کو زیبایش بخشی یہ لباس کا دوسرا فائدہ ہے ۔اسی طرح میاں بیوی کے تعلق سے یہ دو اہم فائدے ہیں ۔ بیوی نہ ہو تو خاوند اپنے جنسی تقاضوں کے پیچھے معلوم نہیں کہاں کہاں منہ مارتا پھرے اور لوگوں کے سامنے ذلت اور رسوائی اٹھاتا پھرے ۔ یوں میاں بیوی کی زندگی کی وجہ سے اس کی شخصیت کے عیب چھپ گئے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر مرد کو اکیلا رہنا پڑے تو گھر کے اندر بے ترتیبی ہوگی اور اس کی زندگی میں جمال نہیں ہوگا بیوی کے آنے سے انسان کی زندگی کو زینت نصیب ہو جاتی ہے ایک تیسری چیز جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو لباس سے زیادہ انسان کے جسم کے قریب ہو ۔ قرآن مجید میں جو لباس کی مثال دی ہے اس سے بتانا مقصود ہے کہ میاں بیوی کو یہ پیغام مل جائے کہ اے خاوند! اب زندگی میں سب سے زیادہ قریب ترین ہستی تمہاری بیوی ہے اور بیوی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تیرے لئے اب زندگی میں قریب ترین ہستی تمہارا خاوند ہے تم دونوں لباس کی طرح ایک دوسرے کے جسم کے قریب ہوجب کو ئی چیز اتنی قریب ہو تی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس سے انسان کو محبت ہوتی ہے ( مثالی ازدواجی زندگی کے چند سنہرے اصول)

٭ ہمارے معاشرے کی خواتین دنیا کی حوریں ہیں:
حضرت تھانویؒ فر مایا کرتے تھے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین دنیا کی حوریں ہیں اور اس کہ وجہ یہ بیان فر مایا کرتے تھے کہ ان کے اندر وفا داری کا وصف ہے ۔ ہاں جب سے مغربی تہذیب وتمدن کا وبال آیا ہے اس وقت سے رفتہ رفتہ یہ وصف بھی ختم ہوتا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر وفاداری کا ایسا وصف رکھا ہے کہ چاہے جو کچھ ہو جائے لیکن یہ اپنے شوہر پر جان نثار کرنے کیلئے تیار ہے اور اس کی نگاہ شوہر کے علاوہ کسی اور پر نہیں پڑتی ۔ یہ اسلام کی برکت ہے کہ مشرق میں آج بھی ایسی جوانیاں ہوتی ہیں جو اپنے گھر سے قدم نکالتی ہیں تو ان کے دلوں میں کسی غیر مرد کا دخل نہیں ہوتا ۔کئی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ مرد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو بچوں کی خاطر اپنی پوری زندگی ایسے ہی گذار دیتی ہیں جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی تو بہار خزاں میں تبدیل ہو گئی مگر یہ خزاں کے موسم میں بھی اپنے پروں کے نیچے اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو چھپا کر اپنی زندگی گزار دیتی ہیں شعر:
چمن کا رنگ گو تونے سرا سراے خزاں بدلا ٭نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا ۔

٭بیوی شوہر کیلئے کتنی قربانی دیتی ہے:
یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں حضور ﷺ نے فر مایا کہ میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں تم اس نصیحت کو قبول کرلو یہ وہی جملہ ہے جو پہلے حدیث میں آچکا ہے اور اگلا جملہ آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا فَاِنَّمَا ھُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ ۔اس لئے کہ وہ خواتین تماہرے پاس تمہارے گھروں میں مقید اور ماتحت رہتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے یہ خواتین کا ایسا وصف بیان فر مایا کہ اگر مرد صرف اس وصف پر غور کر لے تو اس کو کبھی ان کے ساتھ بد سلوکی کا خیال بھی نہ آئے ۔ہمارے حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک نادان غیر تعلیم یافتہ لڑکی سے سبق لو کہ صرف دو بول پڑھ کر جب ایک شوہر سے تعلق قائم ہو گیا ۔ایک نے کہا میں نے نکاح کیا دوسرے نے کہا میں نے قبول کیا ۔اس لڑکی نے اس دو بول کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو اس نے چھوڑا باپ کو اس نے چھوڑا بہن بھائیوں کو اس نے چھوڑا اپنے خاندان کو چھوڑا پورے کنبے کو چھوڑا اور شوہر کی ہو گئی اور اس کے سا تھ آکر اسی کی ہو گئی تو اس دو بول کی اس نادان لڑکی نے اتنی لاج رکھی اور اتنی وفاداری کی تو حضرت فر ماتے ہیں کہ ایک نادان لڑکی تو دو بول کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر ایک کی ہو گئی لیکن تم سے یہ نہ ہو سکا کہ تم یہ دو بول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر اس اللہ کے ہو جاتے جس کے لئے یہ دو بول پڑھے تھے تم سے تو وہ نادان لڑکی اچھی کہ یہ دو بول پڑھ کر اتنی لاج رکھتی ہے تم سے اتنی لاج بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ اس اللہ کے ہو جاؤ ۔

٭ عورت کو اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں :
حضور ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ یہ تمہارے گھروں میں مقید اور پابند رہتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے کہیں جانا جائز نہیں۔ لہٰذا اگر شوہر عورت سے کہدے کہ تم گھر سے باہر نہیں جا سکتیں حتی کہ اپنے عزیز واقارب اور اپنے ماں باپ سے ملنے کیلئے جانے سے منع کر دے تو عورت کو ان سے ملاقات کیلئے گھر سے باہر جانا جائز نہیں البتہ اگر والدین اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے اس کے گھر آجائیں تو اب شوہر ان کے والدین کو ملاقات کیلئے روک نہیں سکتا ۔ غرض حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ دیکھو! اس نے تمہاری خاطر کتنی بڑی قربانی دی ہے اگر با لفرض معاملہ بر عکس ہوتا اور تم سے کہا جاتا کہ تمہاری شادی ہو گی لیکن تمہیں اپناخاندان چھوڑنا پڑے گا اپنے ماں باپ چھوڑ نے ہوں گے تو یہ تمہارے لئے کتنا مشکل کام ہوتا ۔ایک اجنبی ماحول ،اجنبی گھر ،اجنبی آدمی کے ساتھ زندگی بھر نباہ کیلئے وہ مقید ہو گئی اس لئے نبی کریم فر مارہے ہیں کہ کیاتم اس قربانی کا لحاظ نہیں کر و گے ؟ اس قربانی کا لحاظ کرو اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔

٭ دو نوں مل کر زندگی کی گاڑی کو چلائیں :
عورت کو مرد کی اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں یہ تو قانون کی بات تھی لیکن حسن سلوک کی بات یہ ہے کہ وہ اس کی خوشی کا خیال رکھے یہ اس کی خوشی کا خیال رکھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے درمیان یہ تقسیم کار فر مارکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے تمام کام انجام دیتی تھیں قانون کی باریکیوں میں ہر وقت نہ پڑے رہیں بلکہ شوہر بیوی کے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ خوش اسلوبی کا معاملہ کریں اور یہ فطری تقسیم بھی ہے کہ گھر کے کام بیوی کے ذمہ اور باہر کے کام شوہر کے ذمہ ہوںاور اس طرح دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کوچلائیں ۔
٭عورت کا نفقہ واجب ہے :
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک پہلا تقاضا یہ ہے کہ ان کا نان ونفقہ پا بندی کے ساتھ ادا کیا جائے انہیں بلا وجہ مارا نہ جائے اور نہ کوئی تکلیف دی جائے اگر ان سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو انہیں گھر سے باہر نہ کیا جائے بلکہ گھر کے اندر رکھتے ہوئے منا سب طریقہ سے ان کو تنبیہ کی جائے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے آقاء نا مدار ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے کسی ایک شخص پر بیوی کے کیا حقوق وفرائض عائد ہوتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا اَنْ تُطْعِمَھَا اِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوْھَا اِذَاکْتَسَیْتَ ،وَلَا تَضْرِبِِ الْوَجْہَ ،وَلَا تُقَبِحْ وَلَا تَھْجُرْ اِلَّا فِی الْبَیْتِ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب پہنو ( یا کماؤ) تو اسے بھی پہناؤ ۔ اس کے منہ پر مت مارو، برا بھلا مت کہو اور اگر اسے ( بطور سز ا کچھ وقفہ کیلئے ) چھوڑنا ہو تو اپنے ہی گھر میں رکھو ۔اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر کوئی چیز نہ کھائے بلکہ جب بھی وہ کوئی چیز کھائے تو اپنی رفیقہ حیات کو بھی اس میں شریک کرے ۔ بہر حال اس سے ثابت ہے کہ عورتوں کے نفقہ ہی میں نہیں بلکہ ان کی خاطر مدارات میں بھی کوئی کمی نہ ہو نا چاہئے اور یہ چیز حسن معاشرت کیلئے بہت ضروری ہے ۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بھی ذہن میں رکھنے کی ہیں جن پر حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مواعظ میں جا بجا زور دیا ہے ۔ ایک بات یہ کہ کھانے پینے میں اچھا سلوک کرو یہ نہ ہو کہ صرف ــ،قوتِ لا یموت ، دیدی یعنی اتنا کھانا دے دیا جس سے موت نہ آئے بلکہ احسان کرو اور اس احسان کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی آمدنی کے معیار کے مطابق فراخی اور کشادگی کے ساتھ گھر کا خرچ اس کو دے البتہ ہر آدمی کی ضرورت اس کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا کشادگی کا معیار بھی الگ الگ ہے اب جو شخص کم آمدنی والا ہے اس کی کشادگی کا معیار اور ہے اور جو متوسط آمدنی والا ہے اس کا معیار اور ہے اور جو زیادہ آمدنی والا ہے اس کی کشادگی کا معیا ر اور ہے اس لئے ہر شخص کی آمدنی کے معیار کے اعتبار سے کشادگی ہونی چاہئے یہ نہ ہو کہ شوہر بیچارے کی آمدنی تو کم ہے اور ادھر بیوی صاحبہ نے دولت مند قسم کے لوگوں کے گھر میں جو چیزیں دیکھیں ان کی نقل اتارنے کی فکر لگ گئی اور شوہر سے اس کی فر مائش ہونے لگیں ۔اس قسم کی فر مائشوں کا کوئی جواز نہیں ۔ لیکن شوہر کو چاہئے کہ اپنی آمدنی کو مد نظر رکھتے ہوئے کشادگی سے کام لے بخل اور کنجوسی نہ کرے ۔ دوسری بات حضرت تھانوی نے یہ ارشاد فر مائی کہ نفقہ صرف یہ نہیں کہ کھانے کا انتظام کر دیا اور کپڑے کا انتظام کر دیا بلکہ نفقہ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ کھانے اور کپڑے کے علاوہ بھی کچھ رقم بطور جیب خرچ کے بیوی کو دی جائے جس کو وہ آزادی کے ساتھ اپنی خواہش کے مطابق صرف کر سکے ۔ بعض لوگ کھانے اور کپڑے کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن جیب خرچ کا اہتمام نہیں کرتے لہٰذا جیب خرچ بھی دینا ضروری ہے اس لئے کہ انسان کی بہت سی ضروریات ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان کرتے ہوئے انسان شرماتا ہے یا اس کے بیان کرتے ہوئے الجھن محسوس ہوتی ہے اسلئے کچھ رقم بیوی کے پاس ایسی ضروریات کیلئے بھی ہونی چاہئے تاکہ وہ دوسرے کی محتاج نہ ہو یہ نفقہ کا ایک حصہ ہے ۔حضرت تھانویؒ نے فر مایا جو لوگ جیب خرچ نہیں دیتے وہ اچھا نہیں کرتے ۔یاد رکھیں کہ ایک مسلمان جب اپنی بیوی کے نفقہ کو بوجھ نہ سمجھتے ہوئے اسے خوش دلی کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے صدقہ یعنی اجر وثواب کا باعث بن جاتا ہے ۔ بلکہ وہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے گا اس کا بھی اجر وثواب اس کو ملے گا اِذَا اَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلیٰ اَھْلِہٖ یَحْتَسِبُھَا فَھُوَ لَہُ صَدَقَۃٌ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے ( بخاری کتاب الایمان ۱؍۲۰) دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ تم جو بھی نفقہ اللہ کی رضامندی کی خاطر خرچ کروگے اس پر تمہیں اجر وثواب ضرور دیا جائیگا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ۔حوالہ بالا ۔ 
اس لئے اگر کسی کو بیوی مل جائے تو اس کی قدر کرے اس لئے کہ دنیا کی بہترین چیز نیک عورت ہے ۔
ایک حدیث میںاللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں (۱) خوشبو(۲) نیک عورت اور نماز کہ وہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ 
ایک حدیث میں ارشاد فر مایا کہ پوری دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کا بہترین متاع نیک سیرت عورت ہے ( مسلم کتاب الرضاع)۔

٭ دوعورتوں کے درمیان برابری:
اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان برابری کا برتاؤ کرے یعنی دونوں کو یکساں یعنی برابر قسم کا نفقہ اور ہر ایک کی باری بھی ایک جیسی ہو ان ظاہری معاملات میں اس کے لئے کسی ایک بیوی کی حق تلفی جائز نہیں ہے اب رہا دلی رجحان یا محبت کا معاملہ تو اس میں برابری مطلوب نہیں ہے بلکہ دلی رجحان کے معاملے میںبرابری ہو ہی نہیں سکتی جیسا کی سورہ نسا ء کی آیت نمبر ۱۲۹ میں موجود ہے اور آپ ﷺ نے فر مایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان برابری نہ کرتے ہوئے ایک کی طرف مائل ہو جائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرا ہو ا ہوگا ۔(کتاب ابوداؤد کتاب النکاح ۲؍ ۴۰۱)

٭ بلا وجہ طلاق دینا سخت گناہ کا باعث ہے : 
نکاح کا مقصد نسل انسانی کا تحفظ گناہوں سے بچنا اور نظام تمدن ومعاشرت کی اصلاح ہے مگر طلاق کی وجہ سے یہ تمام مقاصد نہ صرف فوت ہو جاتے ہیں بلکہ بعض معاشرتی جھگڑے اور مسائل بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے اسلام میں طلاق کا جواز صرف ناگزیر حالات ہی میں روا رکھا گیا ہے جبکہ مرد عورت کے تعلقات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ مزید اصلاح کی کوئی امید ہی باقی نہ رہ جائے اسی وجہ سے اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ شئے قرار دی گئی ہے لہٰذا اسلام میں طلاق کے جواز کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اٹھے اٹھے بیٹھے بیٹھے ذرا ذرا سی بات پر طلاق دے ڈالیں اور آپس کے تمام رشتوں ناتوں کو کاٹ کر رکھ دیں ۔ جیسا کہ آج کل لوگ کر رہے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ کو ہر گز پسند نہیں بہر حال کسی شخص کیلئے ایک عورت کو بلا وجہ طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ایسا کرنا شرعی اعتبار سے برُا کام ہے اللہ کے نبی نے اس کو سختی سے منع فر مایا لہٰذا کوئی شخص بلا وجہ اپنی عورت کو طلاق نہ دے۔
اللہ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق ع

ازدواجی زندگی میں بیوی کے فرائض اور شوہر کے حقوق

ازدواجی زندگی میں بیوی کے فرائض اور شوہر کے حقوق
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔اما بعد
قال اللہ تعالیٰ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰت’‘ حٰفِظٰت’‘ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط(سورہ نساء :۳۴)

پہلا حصہ ان حقوق کے بیان میں تھا جو ایک بیوی کے حقوق اس کے شوہر کے ذمے ہوتے ہیں جس میں مرد کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا اور یہ ہدایت دی گئی کہ ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ کس قسم کا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے ۔ لیکن شریعت جو در حقیقت اللہ تعالی کا مقرر کیا ہوا قانون ہے ، وہ صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھنے والا قانون نہیں ہوتا ، بلکہ اس میں دونوں جانبوں کی برابر رعایت ہوتی ہے اور دونوں کیلئے دنیا وآخرت کی صلاح فلاح کی ضمانت ہوتی ہے ۔ چنانچہ جس طرح شوہر کے ذمے بیوی کے حقوق عائد کئے گئے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کے ذمے شوہر کے حقوق بھی بیان فر مائے اور قرآن وحدیث میں ان دونوں قسموں کے حقوق کی ادائے گی پر بڑا زور اور بڑی تاکید کی گئی ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت میں ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے حقوق کے مطالبے پر زور نہیں دیا گیا ہے ۔آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے اور اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے ہڑتال کر رہا ہے ،تحریکیں چلا رہا ہے ، مظاہرے کر رہا ہے گویا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کیلئے دنیا بھر کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ا نجمنیںقائم کی جارہی ہیںلیکن آج ادائیگی ِ فرض کے لئے کوئی انجمن موجود نہیں ہے کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمہ عائد ہیں وہ ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔ مزدور کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے اور سرمایہ دار کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے لیکن دونوں میں سے کسی کو یہ فکر نہیں کہ میں اپنا فریضہ کیسے ادا کروں ؟ مرد کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے اور اس کے لئے کو شش اور جدوجہد جاری ہے اور بیوی کہتی ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہئیں ۔ لیکن کو ئی خدا کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ جو فرائض میرے ذمے عائد ہو رہے ہیں وہ میں ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہوجائیں شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہو گئے اور بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کا حق ادا ہو گیا ۔شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ تم اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرو۔

٭زندگی استوار کر نے کا طریقہ:
تو میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں بھی اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ دونوں کو ان کے فرائض بتادیئے ۔ شوہر کو بتا دیا کہ تیرے فرائض یہ ہیں اور بیوی کو بتا دیا کہ تیرے فرائض یہ ہیں ۔ ہر ایک اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے اور درحقیقت زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے ۔کہ دونوں اپنے فرائض کا احساس کریں اپنے حقوق حاصل کرنے کی اتنی فکر نہ ہو جتنی دوسرے کےحقوق کی ادا ئیگی کی فکر ہو اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو پھر یہ زندگی استوار ہو جاتی ہے ،اگر انسان ان پر عمل کر لے تو دنیا بھی درست ہوجائے اور آخرت بھی درست ہو جائے ۔

٭مرد عورت پر حاکم ہے :
اس لئے بیوی کے حقوق کے بعد اب شوہر کے حقوق کو بیان کیا جاتا ہے ۔اگر چہ اسلا م کی نظر میں مرد اور عورت دونوں انسان ہو نے کی حیثیت سے برابر ہیں عورت کسی بھی طرح کمتر یا حقیر مخلوق نہیں ہے جیسا کہ دیگر قوموں میں یہ نظریہ پا یا جاتا ہے لیکن جہاں تک ان کے فرائض وواجبات کا تعلق ہے ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے چنانچہ گھریلو انتظام کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگراں ومحافظ ہے کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کر کے اسے بیاہ کر لاتا ہے اس کے لئے گھر اور دیگر آشائشیں فراہم کرتا ہے ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی شریک حیات کیلئے بے انتہا تکلیفیں اور مشقتیں بر داشت کرتا ہے تو پھر اسے گھر اور خاندان پر حاکمانہ اختیارات بھی حاصل ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ الخ۔یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیںبعض حضرا ت نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔قوام۔ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام کرنے یا اس کا انتظام کر نے کا ذمہ دار ہو گویا کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں ان کے کاموں کے منتظم ہیں اور ان کے حاکم ہیں یہ اصول بیان فر مادیا ۔اس لئے کہ اصولی باتیں ذہن میں نہ ہونے کی صورت میں جتنے کام انسان کرے گا وہ غلط تصورات کے ماتحت کرے گا لہٰذا مرد کے حقوق بیان کرتے ہوئے عورت کو پہلے اصولی بات سمجھادی کہ وہ مرد تمہاری زندگی کے امور کا نگہبان اور منتظم ہے اور تم پر حاکم ہے ۔

٭آج کی دنیا کا پرو پیگنڈہ:
آج کی دنیا میں جہاں مرد وعورت کی مساوات ان کی برابری اور آزادی نسواں کا بڑا زور وشور ہے ایسی دنیا میں لوگ یہ بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ شریعت نے مرد کو حاکم بنایا ہے اور عورت کو محکوم بنایا ہے ۔اس لئے کہ آج کی دنیا میں یہ پر پیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مرد کی عورت پر بالا دستی قائم کر دی گئی ہے اور عورت کو محکوم بنا کر اس کے ہاتھ میں قید کر دیا گیا ہے اور اس کو چھوٹا قرار دے دیا گیا ہے ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ مرد وعورت زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے اب زندگی کے سفر کے طے
کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک شخص سفر کا ذمہ دار ہو اسلئے کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ جب بھی دو آدمی کوئی سفر کر رہے ہوں چاہے وہ سفر چھوٹا سا کیوں نہ ہو اس سفر میں اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لو امیر بنائے بغیر سفر نہیں کرنا چاہئے تاکہ سفر کے تمام انتظامات اور پالیسی اس امیر کے فیصلے کے تابع ہو اگر امیر نہیں بنائیں گے تو ایک بد نظمی ہو جائے گی ( ابو داؤد کتاب الجہاد حدیث ۲۶۰۸) لہٰذا جب ایک چھوٹے سے سفر میں امیر بنانے کی تاکید کی گئی ہے تو زندگی کا ایک طویل اور لمبا سفر جو ایک ساتھ گزارنا ہے اس میں تاکید کیوں نہیں ہو گی کہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لو تاکہ بد نظمی پیدا نہ ہو بلکہ انتظام قائم رہے اس انتظام کو قائم کر نے کیلئے کسی ایک کو امیر بنا نا ضروری ہے۔

زندگی کے سفرکا امیر کون ہو؟
اب دو راستے ہیں یا تو مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا دیا جا ئے ، یا عورت کو امیر بنا دیا جائے اور مرد کو اس کا محکوم بنا دیا جائے تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے ،اب انسانی خلقت ، فطرت ، قوت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی اور عقل کے ذریعے انسان غور کرے تویہی نظر آئیگا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت وطاقت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فر مائی ہے وہ عورت کو عطا نہیں کی ۔ لہٰذا اس امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے اور اس کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کی بجائے اس ذات سے
پو چھا جائے جس نے ان دونوں کو بنایا اور پیدا کیا کہ آپ نے دونوں کو سفر پر روانہ کیا آپ ہی بتائیں کہ کس کو امیر بنائیں اور کس کو مامور بنائیں ؟ اور سوائے اس فیصلے کے کسی اور کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا خواہ وہ فیصلہ عقلی دلائل سے آراستہ ہو ۔اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ
فر مادیا کہ اس زندگی کے سفر کو طے کر نے کیلئے مرد قوام حاکم اور منتظم ہیں اگر تم اس فیصلے کو صحیح جانتے ہو اور مانتے ہو تو اسی میں تمہاری کامیابی اور سعادت ہے اور اگر نہیں مانتے بلکہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہو اور اس کے ساتھ بغاوت کرتے ہو تو پھر تم جانو تمہارا کام اور تمہاری زندگی جانے تمہاری زندگی خراب ہوگی اور ہو رہی ہے جن لوگوں نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کی ان کا انجام دیکھ لیجئے کہ کیا ہوا؟ ۔

٭اسلام میں امیر کا تصور :
البتہ اللہ تعالیٰ نے جو لفظ یہاں استعمال فر مایا اس کو سمجھ لیجئے اللہ تعالیٰ نے یہاں امیر ، حاکم ، باشاہ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ قوام کا لفظ استعمال کیا قوام کے معنیٰ وہ شخص جو کسی کام کا ذمہ دار ہو اور زمہ دار ہو نے کے معنیٰ یہ ہیں کہ بحیثیت مجموعی زندگی گزانے کی پالیسی وہ طے کرے گا اور پھر اس پالیسی کے مطابق زندگی گزاری جائیگی لیکن قوام ہونے کے یہ معنیٰ ہر گز نہیں کہ وہ آقا ہے اور بیوی اس کی کنیز ہے یا بیوی اس کی نوکر ہے بلکہ دونوں کے درمیان امیر مامور حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے اور اسلام میں امیر کا تصوریہ نہیں ہے کہ وہ تخت پر بیٹھ کر حکومت چلائے بلکہ اسلام میں امیر کا تصوروہ ہے جو حضور اقدس ﷺ نے فر مایا کہ سَیِّد الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے ( کنز العمال حدیث نمبر ۱۷۰۱۷)لہٰذا امیر کے معنیٰ یہ ہیں کہ بیشک فیصلہ اس کا معتبر ہو گا ساتھ ہی وہ فیصلہ ان کی خیر خواہی کیلئے ہو گا ان کی خدمت اور راحت کیلئے ہوگا۔

٭ عورت کی ذمہ داریاں:
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ مرد قوّام اور منتظم ہے اور گھر کا سربراہ ہے تو عورت کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی تعظیم وتکریم کرے اس کو اپنا بڑا خیال کرے اور اس کی عظمت وحر مت کا پا س رکھے چونکہ اس آیت میں جو اوپر مذکور ہے اس میں شوہر کی عظمت وحرمت بیان کی گئی ہے اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیٰ النِّسَائِ کہ مرد حاکم ہیں عورتوں پر پھر اس کی دو وجہیں بیان فر مائیں ایک یہ کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں عقل وقوت زیادہ ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ یہ آیت سعد بن ربیعؓ کی عورت حبیبہ بنت زیدؓ کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ سعدؓ نے اپنی بیوی کو اس کی نافر مانی پر ایک طمانچہ رسید کر دیا تھا تو اس کے والد نے حضور پاک ﷺ سے شکایت کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اپنے شوہر کے ایک طمانچہ رسید کردے اور بدلہ لے لے جب یہ باپ اور بیٹی بدلہ لینے کیلئے چلے تو اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے آپﷺ نے ان سے فر مایا کہ واپس آجاؤ یہ دیکھو ! میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اور یہ آیت سنا کر اللہ کے نبی علیہ السلام نے فر مایا کہ ہم نے ایک ارادہ کیا اور اللہ نے دوسرا ارادہ کیا ۔اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے جو ارادہ کیا وہی خیر ہے ( قرطبی ۵؍ ۱۶۸ روح المعانی ۵؍۲۳

٭عورت کیلئے شوہر کا مقام:
اس آیت اور اس کے شان نزول سے معلوم ہوا کہ مرد ( شوہر) کا اللہ ورسول کی نظر میں کیا مقام ومرتبہ ہے بہر حال عورت پر مرد کے بہت سارے حقوق ہیںاسی بنا پر شوہر کو عورت کا مجازی خدا قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ارشاد فر ماگیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے میں سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بوجہ اس حق کے جو اللہ نے ان مردوں کا عورتوں پر لکھا ہے ( ابو داؤد ۱؍ ۲۹۱) اندازہ کیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کا کتنا اونچا مقام ومرتبہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ مرد کو سجدہ کرے لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ مرد کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی گزارے ۔آج کی عورتوں نے یورپ وامریکہ کی تقلید میں شوہر کی عظمت وحرمت کا پاس وخیال ہی چھوڑ دیا ہے اور مساوات مساوات کا کھو کھلا نعرہ لگا کر اسلام کی اس تعلیم کے خلاف چلنا شروع کر دیا ہے ۔ مگر یاد رکھو کہ اسلام سے زیادہ مساوات کا سبق دینے والا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ مگر مساوات کا یہ مطلب لینا با لکل عقل وفطرت کے خلاف ہے کہ کسی کی عظمت وحرمت کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے ۔ کیا کوئی شخص تمام انسانوں کے بحیثیت انسان مساوی اور برابر ہونے کا یہ مطلب نکال سکتا ہے کہ کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں باپ اور بیٹے کا ہر اعتبار سے ایک ہی مرتبہ ہے استاذوشاگرد میں کوئی تفاضل نہیںاور حاکم ورعایا سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ مساوات کا یہ معنی ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔اسی طرح مرد اور عورت کی مساوات کا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دونوں میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں اور شوہر کوکسی بھی اعتبار سے تفوق نہیں ۔ غرض یہ کہ اسلام میں شوہر کو ایک عظمت وبلندی ومرتبہ حاصل ہے اور عورت پر لازم ہے کہ اس کا لحاظ رکھے۔ حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ اے عورتو ! اگر تم کو معلوم ہو جائے کہ تماہرے مردوں کا تم پر کیا حق ہے تو تم اپنے شوہروں کے قدموں کی غبار ودھول کو اپنے گالوں سے صاف کر وگی ( الکبائر للذھبی ص ۱۷۴) ایک حدیث میں جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور احمد نسأئی نے روایت کیا ہے اس میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے پو چھا کہ عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے شوہر کا ( فتح الباری ۱۰؍ ۴۰۲) ۔ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہرکا ہے اور مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے ۔( جمع الفوائد)
بیوی پر شوہر کے اس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کے بغیر اس کی عبادت وبندگی بھی ناقص رہے گی ــــ"لَاتُؤَدِّی الْمَرْأَۃُ حَقَّ رَبِّھَا حَتَّی تُؤَدِّی حَقَّ زَوْجِھَا " رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے وہ اپنے رب کا حق بھی ادا نہیں کر نہیں کر سکتی ( ابن ماجہ کتاب النکاح ۱؍ ۵۹۵)حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول ہوتی ہے نہ ان کی کوئی نیکی ( آسمان کی طرف) چڑھتی ہے ۔ایک وہ غلام جو بھاگ گیا ہو جب تک وہ اپنے آقا کی طرف لوٹ کر نہ آجائے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دیدے ( اطاعت کرے ) دوسرے وہ عورت جس پر اس کا خاوند ناراض ہو ۔ تیسرے وہ شرابی جب تک کہ نشہ اس کا نہ اترے ( بیہقی ۔ مشکوۃ ص ۲۸۳)اس روایت سے معلوم ہوا کہ شوہر کی نا راضی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور اس عورت کی نماز اور نیکی کو رد فرمادیتے ہیں جو شوہر کو ناراض کر کے کرتی ہے ۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو شرع کے موافق ہو اگر شوہر اس لئے ناراض ہوتا ہے کہ عورت اللہ کے حکموں پر چلتی ہے تو اس کی یہ ناراضی حدود شرع سے متجاوز ہو نے کی وجہ سے اس کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ہاں نوافل ، مستحبات کے ادا کرنے میں عورت کو چاہئے کہ شوہر کی رضا کا لحاظ رکھے ۔ مثلاً نفل نماز پڑھنے یا نفل روزے رکھنے سے شوہر کے حقوق میں کوتا ہی لازم آتی ہو تو عورت کو نفل نماز ونفل روزے کی اجازت نہ ہوگی مگر یہ کہ شوہر اجازت دیدے تو پھر درست ہوگا چنا نچہ حدیث میں ہے ۔
(۱) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایاکہ عورت کے لئے حلال وجائز نہیں کہ وہ روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو مگر اس کی اجازت سے (رکھ سکتی ہے ) ( بخاری ۲؍ ۷۸۲)
(۲) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت رمضان کے سوا کوئی اور روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا خاوند مو جود ہو مگر یہ کہ اس کی اجازت ہو ( تو پھر جائز ہے ) ( ابوداؤد ۱؍۳۳۳)

٭ شوہر کی اطاعت وخدمت :
اوپر ذکر کی گئی احادیث سے معلوم ہوا کہ شوہر کا مقام ومرتبہ اتنا ہے کہ نفل عبادات بھی شوہر کی اجازت کے بغیر انجام نہیں دے سکتی جب نفل عبادات کے لئے اس کی اجازت ضروری ہے تو دیگر امور میں تو بدرجہ اولیٰ شوہر کی اطاعت لازم ہے چنانچہ اسلام نے شوہر کی اطاعت وخدمت کو عورت کے کمال وخوبی میں شمار کیا ہے اور اس کو عورت پر لازم بھی قرار دیا ہے اور جنتی عورت اس کو قرار دیا ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت وخدمت کر کے اس کو راضی کر لے ۔ اَیَّمَا اِمْرَاَ ۃٌ مَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ ( ترمذی ۳؍۴۶۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ جو عورت اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہا تو وہ جنت میں داخل ہو جائیگی ۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز پڑھے ، اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے (مشکوۃ ص ۲۸۱) اس حدیث میں شوہر کی اطاعت کرنے والی عورت کو خوشخبری سنائی گئی کہ وہ ضرور جنت میں جائیگی اور اس کو اختیار ہو گا کہ جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے اس میںاشارہ ہے کہ اس کو کوئی چیز دخول جنت سے مانع نہ ہوگی اور جلد سے جلد جنت میں پہنچ جا ئیگی۔( مرقات ۶ی؍ ۲۷۲)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پو چھا گیا کہ اَیُّ النِّسَائِ خَیْرٌ کہ سب سے اچھی عورت کو ن ہے ؟ آپﷺ نے فر مایا کہ وہ عورت جو اپنے شوہر کو خوش کردے جب وہ اس کو دیکھے اور اس کی فر مانبرداری کرے جب وہ کوئی حکم دے اور اس کے خلاف نہ کرے نہ اپنے نفس میں او رنہ اپنے مال میں جس کو وہ نا پسند کرے ( نسأئی ۲؍۱ ۷۱، مشکوۃ ص ۲۸۳)
بزرگوں نے فر مایا کہ عورت کو جنت میں جانے کیلئے مرد کی رضا کا ٹکٹ چاہئے اور مرد کو جنت میں جانے کیلئے ماں کی رضا کا ٹکٹ چاہئے لہٰذا اگر خاوند ماں کی خدمت میں لگا رہے تو بیوی کو روکنا نہیں چاہئے نہ برا سمجھنا چاہئے اس لئے کہ وہ ماں کی خدمت کر کے جنت کمارہا ہے ۔
٭ شوہر کے حقوق کی اہمیت :
مرد کو راضی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے حقوق کا خیال رکھا جائے مرد کے حقوق میں ایک اہم حق یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے جنسی تقاضوں کو پورا کرے ۔حدیث ۔ِاذَا لرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ فَلْتَأتِہٖ وَاِنْ کَانَتْ عَلی التَّنُّوْرِ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کیلئے بلائے تو وہ چلی آئے خواہ وہ چولھے کے پاس ہی ہو ۔اِذَا دَاعَا لرَّجْلْ اِمْرَأَتَہُ اِلٰی فِرَاشِہٖ فَاَبَتْ اَنْ تَجِیْئَی لَعَنَتْھَا الْمَلَاِئکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر پر بلائے مگر وہ انکار کر دے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں ( بخاری کتاب النکاح ۶؍ ۱۵۰) اور بعض حدیثوں میں مذکور ہے کہ شوہروں کے بلاوے پر ٹال مٹول کر نے والی عورتیں بہت بری ہوتی ہیںچنا نچہ ارشاد ہے کی اللہ لعنت کرے ٹال مٹول کرنے والی عورتوں پر، جسے شوہر اپنے بستر پر بلاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ بعد میں بعد میں ، یہاں واضح رہے کہ فطری اعتبارسے عورت کی بنسبت مرد میں جنسی خواہشیں نہ صرف زیادہ ہوتی ہیں بلکہ بعض مردوں کو اپنی اس خواہش پر قابو رکھنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اور عورت اکثر وبیشتر مرد کے ان تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی اسی بناء پر مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ غلط یا ناجائز طریقے اختیار کرنے کے بجائے جائز اور حلال طریقے سے اپنی خواہش پو ری کر سکیں اسی فطری حقیقت کی بناء پر حدیث نبوی میں مرد کے بلاوے پر عورت کو ٹال مٹول سے کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ لہٰذا اگر ایک ہو شیار عورت شوہر کی عادت اور اس کے مزاج کے مطابق اسے ہر حال میں خوش اور مطمئن رکھنے کی کو شش کرے تو شائد دوسری شادی کی نوبت نہ آئے اس لئے ایک عورت کو اپنے گھر گرستی کے لئے کبھی کبھی اپنے نفس پر جبر کر نا پڑے گا اور نہ چاہتے ہو ئے بھی شوہر کی خواہش کے سامنے سر نیاز جھکانا پڑے گا اسی میں ان دونوں کا فائدہ ہے ورنہ دوسری شادی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے مسائل اور بھی بڑھ سکتے ہیں ( اسلام کا قانون نکاح ص۲۳۶)

٭شریعت کے خلاف امور میں شوہر کی اطاعت نہیں:
حاصل یہ کہ عورت اپنے شوہر کے حقوق کا پورا خیال رکھے اور اسے راضی اور خوش کرنے کی تدبیر کرے مگر ایک بات ذہن میں رہے کہ شوہر کی اطاعت وفر مانبرداری اور اس کی رضا وخوشی کا اہتمام وخیال صرف اس موقع پر ضروری ولازم ہے جبکہ اس سے خدا کی نا فر مانی وناراضی لازم نہ آتی ہو اگر شوہر ایسی بات کا حکم دے جس سے خدا کی نافر مانی لازم آتی ہو یا اس کی ناراضی پر مشتمل ہو تو وہاں ہر گز شوہر کی بات نہیں مانی جایگی ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فر مایا کہ انصار کی ایک عورت نے اپنی لڑکی کی شادی کی پس اس کے سر کے بال گر نے لگے وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے بالوں میں دوسرے بال ملاؤں آپ ﷺ نے فر مایا کہ نہیں بال میں بال ملانے والی عورت پر لعنت کی گئی ہے ( بخاری ۲؍ ۷۸۴)
دیکھئے اس حدیث نے صاف بتا دیا کہ جو بات خلاف شرع ہو اس میں شوہر کی بات نہیں مانی جائیگی ۔

٭ گھر کے کام کاج پر اجر وثواب:
بعض مرتبہ ہم لوگوں کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات ایک دنیاوی قسم کا معاملہ ہے اور یہ صرف نفسانی خواہش کی تکمیل کا معاملہ ہے ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ دینی معاملہ بھی ہے اس لئے اگر عورت یہ نیت کر لے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا ہے اور اس تعلق کا مقصد شوہر کو خوش کرنے اور شوہر کو خوش کر نے کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کو راضی وخوش کر ناہے تو پھر یہ سارا عمل ثواب بن جاتا ہے ۔ گھر کا جو کام خواتین کرتی ہیں اور اس میں نیت شوہر کو خوش کرنے کی ہے تو صبح سے لے کر شام تک وہ جتنا کام کر رہی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے یہاں عبادت میں لکھا جاتا ہے چاہے وہ کھانا پکانا ہو گھر کی دیکھ بھال ہو بچوں کی تربیت ہو یا شوہر کا خیال ہو یا شوہر کے ساتھ خوش دلی کی باتیں ہوں ،ان سب پر ثواب واجر لکھا جارہا ہے بشرطیکہ نیت درست ہو اس موضوع پر بالکل صریح حدیث مو جود ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہو تے ہیں ا للہ تعالیٰ ان پر بھی اجر وثواب عطا فر ماتے ہیں صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے اس پر کیا اجر؟ آپ ﷺ نے فر مایا کہ اگر وہ ان نفسانی خواہشات کو نا جائز طریقے پر پورا کرتا تو اس پر گناہ ہو تا یا نہیں ؟ صحابہ ؓ کرام نے عرض کیا ! یا رسول اللہ گناہ ضرور ہوتا آپ ﷺ نے فرمایا چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اور میرے حکم کے ماتحت کر رہے ہیں اس لئے اس پر بھی ثواب ہو گا ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۱۹۱۹۷)

٭بیوی گھر میں آنے کی اجازت نہ دے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ حدیث جس میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کو نفل روزہ کی ممانعت ہے اس کا اگلا جملہ یہ ارشاد فر مایا "وَلَاتَأذَنَ فِیْ بَیْتِہٖ اِلاَّبِاِذْنِہٖ"یعنی عورت کے ذمہ یہ بھی فرض ہیکہ شوہر کے گھر میں کسی کو شوہر کی اجازت کے بغیر داخل ہو نے کی اجازت نہ دے۔ یا کسی ایسے شخص کو گھر کے اندر آنے کی اجازت دینا جس کو شوہر ناپسند کرتا ہو یہ عورت کے لئے بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں اس بات کو اور تفصیل سے بیان فر مایا کہ یاد رکھو تمہارا تمہاری بیویوں پر بھی کچھ حق ہے اور تمہاری بیویوں کا تم پر بھی کچھ حق ہے یعنی دونوں کے ذمہ ایک دوسرے کے کچھ حقوق ہیں اور دونوں کے حقوق کی نگہداشت اور پاسداری فریقین پر لازم ہے تو وہ حقوق کیا ہیں ؟ وہ یہ ہیں کہ اے مردو! تمہارا حق ان بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر وں کو ایسے لوگوں کو استعمال نہ کرنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جن کا آنا تم نا پسند کرتے ہو ۔ جہاں وہ حق بیان فرمائے ایک یہ کہ بیوی کی ذمہ یہ فرض ہے کہ وہ گھر کے اندر کسی ایسے شخص کو آنے نہ دے جس کے آنے کو شوہر نا پسند کرتا ہوحتی کہ اگر بیوی کے کسی عزیز یا رشتہ دار کا گھر میں آنا شوہر کو نا پسند ہو تو اس صورت میں اپنے عزیزوں کو بھی گھر میں آنے کی اجازت دینا جائز نہیں اور والدین کو صرف اتنی اجازت ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک مرتبہ آکر بیٹی کی صورت دیکھ لیں اس سے تو شوہر ان کو روک نہیں سکتا ۔ لیکن ان کو بھی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں ٹہرنا جائزنہیں ۔اس لئے کہ حضور ﷺ نے صاف لفظوں میں فر مادیا کہ جن کو تم نا پسند کرتے ہو ان کو آنے کی اجازت نہ دو ، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔اوردوسرا جملہ یہ ارشاد فر مایا کہ وہ بیویاں تمہارے بستروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو بستر کے استعمال میں سب چیزیں داخل ہیں ، یعنی بستر پر بیٹھنا ، بستر پر لیٹنا ، بستر پر سونا یہ سب اس میں داخل ہیں، حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ ؓ نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت ابو سفیان ؓ کو جب وہ ایمان نہیں لائے تھے اور بیٹی کے یہاں آئے تو ام حبیبہ ؓ نے حضور ﷺ کے بستر پر باپ کو بیٹھنے نہیں دیا اور بستر لپیٹ دیا جس پر ابو سفیان ؓ نے یہ کہا کہ رملہ! کیا یہ بستر میرے لائق نہیںہے یا میں اس بستر کے لائق نہیں ہوں ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے جواب دیا کہ ! ابا جان با ت یہ ہے کہ آپ اس بستر کے لائق نہیں ہیں اس واسطے کی یہ محمد ﷺ کا بستر ہے اور جو آدمی مشرک ہو میں اس کو اپنی زندگی میں اس بستر پر بیٹھنے کی جازت نہیں دے سکتی۔ اس پر ابو سفیان نے کہا رملہ !مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم اتنی بدل جاؤ گی کہ اپنے باپ کو بھی اس بستر پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دوگی ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے اس حدیث کی بنا پر یہ عمل کیا ۔

٭ عورت کواجازت کے بغیر اپنے شوہر کا مال خرچ کرنا جائز نہیں:
عورت کو چاہئے کہ اپنے نفس ومال میں اس کی مرضی کے خلاف کوئی تصرف نہ کرے مال میں تصرف سے مراد وہ مال ہے جو مرد نے ضروریات زندگی کیلئے عورت کو دیا ہے اس میں اس کی مرضٰ واجازت کے بغیر خرچ کرنا درست نہیں اور بعض علماء نے کہا کہ مال سے مراد عورت کا مال مراد ہے اس صورت میں عورت کواپنے مال میں بھی بغیر شوہر کی مرضی کے تصرف نہیں کرنا چاہئے بہترین عورت کا یہی کردار ہوتا ہے ۔ عورت کو اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کسی کو تحفہ دینا بھی جائز نہیں ہے البتہ وہ اپنے مال میں سے دے سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو تحفہ دینا جائز نہیں ( نسائی کتاب الزکوۃ ۵؍ ۶۶)غرض کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر کی کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتی علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے مال کو اندھا دھند یا بیدردی سے خرچ نہ کرے بلکہ اس میں اعتدال اور میانہ روی کا پہلو اختیار کرے اگر وہ ایسا کرے گی تو اس پر اس کو ثواب بھی ملے گا ہاں اگر کوئی ہنگامی ضرورت پیش آجائے یا اتنا لینے کی حاجت لاحق ہو جائے جو عمومی اخراجات اور خیر وخیرات کے ماسوا ہو تو پھر اس سلسلہ میں شوہر کی اجازت ضروری ہو جائیگی لیکن اگر شوہر نے اس طرح کی اجازت پہلے سے دے رکھی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب عورت اپنے گھر کا کھانا ( یا اناج ) بغیر کسی خرابی کے خرچ کرتی ہے تو اسے اجر ملے گا اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اور جمع کرنے والے کو بھی اسی طرح کا ثواب ہو گا ۔( بخاری کتاب الزکوۃ ۲؍ ۱۲۰)
اس حدیث سے امام بخاری نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اپنا اور اپنے بچوں کا نفقہ شوہر کے مال میں سے لے سکتی ہے ۔

٭ عورت کو اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں :
اللہ تعالی کا ارشاد ہے "وَقَرْنَ فِیْ بِیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرِّجْںَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ لْاُوُلیٰ " کہ عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں قرار سے رہیں اور زمانہ جاھلیت کی طرح اپنے آپ کو دکھاتی نہ پھریں ۔اس سے معلوم ہوا کہ عورت بلاضرورت باہر نہ جائے اگر ضرورت سے باہر جانا ہو تو پردہ کے ساتھ اپنے شوہر سے جازت لے کر جائے بے پردہ ہو کر اور بلا اجازت کے عورت کو باہر جانا جائز نہیں ۔ فقہا نے یہ قانون لکھا ہے کہ اگر شوہر عورت سے یہ کہدے کہ تم گھر سے باہر نہیں جا سکتیں اور اپنے عزیز واقارب سے ملنے نہیں جا سکتیں حتی کہ اس کے والدین سے ملنے کیلئے جانے سے منع کر دے تو عورت کیلئے ان سے ملاقات کیلئے گھر سے باہر جانا جائز نہیں البتہ اگر والدین اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے اس کے گھر آجائیں تو اب شوہر ان والدین کو ملاقات کر نے سے روک نہیں سکتا لیکن فقہاء نے اس کی حد مقرر کر دی ہے کہ اس کے والدین ہفتہ میں ایک مرتبہ آئیں اور ملاقات کر کے چلے جائیں یہ اس عورت کا حق ہے شوہر اس سے روک نہیں سکتا ۔ لیکن اجازت کے بغیر عورت کے لئے جانا جائز نہیں ہے ( اصلاحی خطبات جلد۲ صفحہ ۵۳)

٭ کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر نہ کرے :
یہ بات تو معلوم ہو گئی کہ عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں شوہر اجازت دے تو باہر جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ کہیں کا سفر کر رہی تو اپنے کسی ذی محرم شخص کے بغیر تین دن بعض روایات کے مطابق ایک دن اور ایک رات کا اور بعض روایات کے مطابق صرف ایک رات کا سفر تنہا نہیں کر سکتی اور اس میں سفر حج بھی شامل ہے ذی محرم سے مراد عورت کا وہ قریبی رشتہ دار ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہو جیسے باپ بیٹا بھائی وغیرہ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت تین دن کا سفر صرف کسی حرمت والے ( محرم) شخص کے ساتھ ہی کر سکتی ہے ( بخاری کتاب التفسیر ۲؍ ۳۵)
رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی عورت کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ بات جائز نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر بغیر کسی محرم شخص کے کرے ۔ ( بخاری جلد ۲ ؍ ۳۶) رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی مسلمان عورت کیلئے ایک رات کا سفر بھی بغیر کسی محرم شخص کے ساتھ کرنا جائز نہیں ہے ( کتاب النکاح ،ابو داؤد ۲؍ ۳۴۶)
رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر اسی صورت میں کر سکتی ہے جب کہ اس کا باپ ، یا اس کا بھائی ، یا اس کا بیٹا ، یا اس کا شوہر ، یا اور کوئی حرمت والا شخص اس کے ساتھ ہو ( ابو داؤد کتاب اللباس جلد ۴ س ۳۵۵)
ان احادیث سے واضح ہو گیا کہ عورت اپنے محرم کے بغیر تنہا سفر نہیں کر سکتی چاہے حج کا سفر یا کوئی دوسرا سفر ہو ۔

٭ شوہر کی نا شکری سے پر ہیز :
عام طور پر عورتوں میں ایک بیماری یہ ہے کہ شوہر کی نا شکری کرتی ہیں ۔ مال روپیہ ملے عمدہ کھانے د وبہترین کپڑے میں ، راحت وآشائش کا پورا سامان میسر ہو مگر ذرا سی بات بھی خلاف مزاج پیش آجائے تو بلا جھجھک یہ کہ دیتی ہیں کہ ا س گھر میںمیں نے کبھی راحت نہیں پائی یہاں مجھے کوئی سکون نہیں ۔ چنانچہ عورتوں کی اس زود رنجی اور نا شکری کا حدیث میں ذکر آیا ہے اور اس پر نبی کریم ﷺ نے وعید سنائی ہے ان احادیث کو بغور ملاحظہ کریں ۔
نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ میں نے دوزخ کو دیکھا اس میں اکثر عورتیں تھیں صحابہ کرام ؓ نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ کس وجہ سے ؟ آپ ﷺ نے فر مایا کہ ان کی نا شکری کر نے کی وجہ سے ، پو چھا گیا کہ کیا وہ اللہ کی نا شکری کرتی ہیں ؟ فر مایا کہ اپنے شوہر کی نا شکری کرتی ہیں اور احسان کوجھُٹلا تی ہیں اگر تو ان میں سے کسی سے پوری زندگی بھی احسان کرے سلوک کرے پھر تجھ سے کوئی بات خلاف طبع دیکھے گی تو یوں کہے گی کہ میں تیرے سے کوئی بھلائی کبھی نہیں دیکھی ۔ ( بخاری ۱؍ ۱۴۴ ۔ مسلم ۱؍ ۲۹۸)
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ وحضرت عبد اللہ بن عمر وغیرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ اے عورتو ! تم صدقہ دو اور کثرت سے استغفار کرو کیونکہ میں نے دیکھا کہ تم دوذخ والوں میں زیادہ تعداد میںہو ایک جری عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہماری کیا بات ہے کہ ہم دوزخ میں زیادہ جائیں گی؟
آپ ﷺ نے فر مایا کہ تم ( عورتیں) لعنت بہت کرتی اور شوہر کی نا شکری کرتی ہو ۔ ایک روایت میں ہے کہ تم شکوہ بہت کرتی ہو ( ابن ماجہ ص ۲۸۸۔ مسلم جلد ۱ ص ۲۸۹)
ان روایا ت سے معلوم ہوا کہ عورتوں میں کچھ بری باتیں اور اخلاقی رذائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے اکثر عورتیں جہنم جائینگی ۔ ایک یہ کہ زبان پر بہت لعن وطعن کے الفاظ کا ہونا ۔چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر عورتیں اپنے بچوں کو، بڑوں کو ، اپنوں اور غیروں سب کو اکثر وبیشتر لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسرے یہ کہ شکوہ وشکایت ان کا محبوب مشغلہ ہے کہ معمولی معمولی باتوںپر شکوہ وشکایت کر نے لگتیں ہیں تیسرے یہ کہ شوہر کی نا شکری کرتی ہیں اور کتنا بھی انہیں چین وراحت شوہر کی طرف سے پہنچے مگر جوں ہی ذرا سی بات خلاف مزاج پیش آئی سارے پر پانی پھیر دیتی ہیں ۔ بنی کریم ﷺ نے اس پر وعید سنائی ہے کہ ایسی عورتیں جہنم میں جائینگی ۔ اس لئے ایک تو عورتوں کو اس قسم کی برائیوں سے خصوصیت سے پر ہیز کر نا چاہئے دو سرے صدقہ وخیرات اور ستغفار کے ذریعہ ان گناہوں کو دھونا چاہئے ۔

٭ شوہر کیلئے زیب وزینت :
ازداوجی زندگی میں جن امور کی بہت زیادہ اہمیت ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کیلئے زیب وزینت اختیار کے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی کریم ﷺ ایک غزوہ سے واپس ہوئے تو صحابہ ؓ سے فر مایا کہ ابھی فورا گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں کو ٹھیک کرلیں اور غیر ضروری بال صاف کرلیں ( بخاری ۲؍ ۷۶ ۔ مسلم ۱؍ ۴۷ )
اس حدیث میں سفر سے آنے والوں کو نبی کریم ﷺ فر ماتے ہیں کہ ابھی فورا ًواچانک گھروں میں داخل نہ ہو اور عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں میں کنگھی کر لیں اور غیر ضروری بالوں کو استرے سے صاف کر کے زینت اختیار کر لیں ۔ملا علی قاری اس کی شرح میں فر ماتے ہیں معنیٰ یہ ہیں کہ اس وقت تک ٹہر جاؤ کہ عورتیں اپنے شوہروں کیلئے زیب وزینت کر لیں اور اپنے آپ کو شوہر کیلئے تیار کرلیں ( مرقات ۶؍ ۱۹۲) اس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ عورت کا مر د کیلئے زیب وزینت اختیار کر نا ضروری ہے اس لئے مردوں کو حکم دیا گیا کہ ایک دم واچانک گھروں میں داخل نہ ہوں تا کہ عورتیں زیب وزینت کر لیں ۔ اور علماء نے اس کو مرد کے حقوق میں شمار کیا ہے کہ عورت پا کی وصفائی اور زیب وزینت کے ساتھ رہے اور اس میں کوتاہی کر نے پر سزا دی جا سکتی ہے ۔ درمختار ورد المحتارمیں ہے کہ زینت کو ترک کرنے پر شوہر بیوی کو سزا دے سکتا ہے اسی طرح غسل جنابت نہ کر نے پر بھی سزا دے سکتا ہے ( شامی ۴؍ ۷۷)
اسی طرح خانیہ اور بحر الرائق میں ہے کہ چار باتوں پر شوہر بیوی کو مار سکتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورت زینت ترک کرے اور ایک حیرت ناک بات یہ بھی سن لیجئے کہ ان چاروں میں سے ایک چیز نماز کا ترک کرنا اور چھوڑنا بھی ہے ۔ مگر اس میں علما ء کا اختلاف ہے کہ نماز کے چھوڑنے پر عورت کو شوہر ما رسکتا ہے یا نہیں لیکن تر ک زینت پر مارنے کے جواز پر سب کا اتفاق ہے ( خانیہ علی ہامش الھندیہ جلد ۱ ص۴۴۲)
اس سے اندازہ لگایئے کہ عورت پر شوہر کیلئے زینت کا اختیار کرنا کس قدر ضروری واہم ہے اور زینت ونظافت وصفائی میں یہ چیز یں بھی داخل ہیں کہ منہ کو مسواک یا کسی اور چیز سے صاف کرے اور جسم اور کپڑوں کو عطر وخوشبو سے معطر کرے اور صافٖ ستھرے کپڑے پہنے بالوں میں کنگھی کرے زیر ناف اور بغلوں کے بالوں کو صاف کرے وغیرہ ۔ ( اسلام میں عورت کا کردارص ۶۶)

٭ گھر اور بچوں کی حفاظت :
اسلام نے پاکیزہ اور پر سکون اور پر لطف زندگی کیلئے جو اصول وضوابط تعلیم فر مائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کے گھر کی اس کے مال واسباب کی اور اس کے بچوں کی نگرانی وحفاظت کرتی رہے یہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں داخل ہے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچے کی راعی ونگراں اور حفاظت کرنے والی ہے راعی وہ امانت دار نگراں ہے جو اس چیز کی اصلاح وتدبیر میں لگا رہتا ہے جو اس کی ذمہ داری میں دی گئی ہو ( بخاری ۲؍ ۱۰۵۷ ،۱۳؍ ۱۱۲۔ فتح الباری ۱۱۳)اور عورت کی نگرانی یہ ہے کہ گھریلو امور اور اولاد اور خدام کی تدبیر کرے اور اس معاملے میں شوہر کا تعاون کرے یعنی شوہر کے مال اور اولاد کی حفاظت کرے کسی چیز کو ضائع نہ ہونے دے کوئی چیز خراب نہ کرے ورنہ اس سلسلے میں اسکی پوچھ ہوگی ۔ چنانچہ اوپر درج کردہ حدیث کے اول آخر میں یہ جملہ ہے کہ اَلاَ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُْکُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَّعِیْتِہِ ۔ ترجمہ: تم سے ہر ایک نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اپنی ماتحت رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی سنت اختیار کریں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں ۔

٭ بچوں کی تر بیت ونگرانی :
عورت پر شادی کے بعد جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان میں سے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت بھی اہم اور نازک ذمہ داری ہے اس کی طرف اوپر کی حدیث میں اشارہ گزر چکا ہے مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسکو الگ سے ذکر کرنا مناسب سمجھا گیا۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اگر چہ باپ پر عائد ہوتی ہے لیکن اس سلسلہ میں ماں جو کردار ( رول ) ادا کر سکتی ہے اس کے مقابلے میں باپ کی حیثیت ثانوی درجہ کی رہ جاتی ہے اسلئے ماں کی گود بچہ کا سب سے پہلا مدرسہ اور تعلیم گاہ ہوتی ہے ۔ پھر بچہ کو ماں سے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے اکثر اوقات سابقہ پڑتا ہے جبکہ باپ سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے ۔اس لئے عورت پر بچوں کی تعلیم وتر بیت کی یہ نازک ذمہ داری باپ سے زیادہ عائد ہوتی ہے ۔
اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو شروع ہی سے ایمان ویقین میں مضبوط کر نے کی فکر کریں ۔دوسرے اسلامی آداب واسلامی تہذیب سے ان کو آراستہ کر نے کی کوشش کر نا چاہئے ۔ پھر جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائیں تو تعلیم کا بند وبست کرنا چاہئے ۔ تعلیم میں اول و مقدم دینی تعلیم کو رکھنا چاہئے پھر عصری و دنیوی علوم سے بھی بچوں کو بھی آراستہ کرنے کی تدبیر کرنا چاہئے ۔
یہ مختصر جملے بڑی تفصیل کے متقاضی ہیں لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے ۔آج عام طور پر مائیں اپنے بچوں کی تر بیت میں انتہائی کوتاہی کرتی ہیں ان کو نہ اسلامی آداب سکھاتی ہیں نہ اسلامی تہذیب واخلاق سے ان کو آراستہ کرتی ہیں ۔ بلکہ صرف انگریزی اسکولوں کے حوالہ کر کے یہ سمجھ جاتی ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا ۔ مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ ان اسکولوں میں ایمان ویقین تو ایک طرف رہا وہاں ان بچوں کو اخلاق وآداب کی بھی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اور زیادہ بے ادبی ، گستاخی ، بد تہذیبی سکھائی جاتی ہے جیسا کی مشاہدہ وتجربہ ہے اس لئے بچوں کی تر بیت کا گھر میں نظام بنا نا چاہئے مگر اس کے لئے پہلے ماؤں کو علم واخلاق ایمان واسلام سے اپنے آپ کو مزین وآرستہ کر نا چاہئے ورنہ جہالت وبد اخلاقی وبد تہذیبی سے ماں خود آزاد نہ ہو توبچوں کی وہ کیا تر بیت کر سکے گی؟ بچوں کی تر بیت کیلئے انبیاء کرام کے قصے حضرات صحابہ وصحابیات کے واقعات اور بزرگان دین کے حالت وکوائف کا پیش کرنا اور ان کو سنانا نہایت مفید ہو تا ہے اور چونکہ بچے کہانی سننے کے شوقین ہو تے ہیں اس لئے ان قصوں کو وہ بہت ذوق ورغبت سے سنتے ہیں اور یاد بھی رکھتے ہیں ۔ لہٰذااس کا بھی اہتمام کیا جانا چاہئے ۔ بعض عورتیں بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بچے کی زبان سے گالی سن کر خوش ہوتی ہیں اور اکثر عورتیں اپنے بچوں کو ٹی وی کا عادی بنا تی ہیں اور بچے اس کی وجہ سے فحش اور بیحیائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض عورتیں اپنے بچوں کو گالیاں سکھا کرخوش ہو جاتی ہیں غور کیجئے کہ یہ تر بیت ہو رہی ہے یا بگاڑ ؟ غرض یہ کہ ماں پر یہ بڑی اہم ونازک ذمہ داری ہے اس کو احساس ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا چاہئے ۔تربیت اولاد کے سلسلے میں علماء نے لکھا ہے کہ جن چیزوں کا بچہ زیادہ محتاج ہو تا ہے ان میں سے ایک اس کے اخلاق کی طرف تو جہ بھی ہے کیونکہ اخلاق پیدا ہی ہوتے ان چیزوں سے جن کی عادت مربی ذہن میں ڈالتے ہیں جیسے سخت مزاجی ، غصہ ، چاپلوسی ، جلد بازی ، طیش شدت اور لا لچ وغیرہ ۔ پس بڑے ہو نے کے بعد ان چیزوں کی تلافی اس پر مشکل ہو جاتی ہے اور یہ صفات وحالات اس میں راسخ ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ان کے اخلاق منحرف ہو تے ہیں کیونکہ ان کی تر بیت ہی اسی طرح ہو ئی ہے ۔
اسی طرح ضروری ہے کہ بچہ جب عقل وشعور کی عمر کو پہنچ جائے تو لہو ولعب باطل قسم کی مجالس سے بچے ، گانے بجانے ، فحش اور بدعت اور بری گفتگوسننے سے بچے کیونکہ جب یہ اس کی سماعت سے معلق ہو جاتے ہیں تو بڑے ہو کر ان باتوں سے الگ ہو نا اس پر مشکل ہو تا ہے اور اس کے ذمہ دارکو بھی ان باتوں سے اس کو ہٹانا شاق( مشکل ) ہوتا ہے کیونکہ عادت کو بدلنا مشکل کاموں میں سے ہے ۔
ذمہ دار کو چاہئے کہ وہ بچہ کو کسی سے کوئی چیز لینے سے بہت ہی زیادہ اجتناب کرائے کیونکہ جب وہ لینے کا عادی ہو جائیگا تو یہ اس کی طبیعت ثانیہ بن جائیگی اور وہ لینے کا عادی ہو گا نہ کہ کسی کو دینے کا لہٰذا بچہ کو دینے اور خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور ذمہ دار جب کسی کو کچھ دینا چاہے تو بچے کے ہاتھ دلوائے تاکہ وہ دینے کی حلاوت کا مزہ چکھے ۔ نیز بچے کو جھوٹ اور خیانت سے اس سے زیادہ بچائے جتناکہ اس کو زہر سے بچاتے ہیں کیونکہ جھوٹ اور خیانت اگر اس کے اندر آگیا تو دنیا وآخرت کی سعادت اور خیر سے محروم ہو گیا ۔ بچہ کو سستی اور بیکاری سے راحت وآرام سے بچائے بلکہ اس کے خلاف( محنت ومجاہدہ) کی عادت ڈالے۔ کیونکہ کو سستی اور بیکاری برے نتائج اور شرمندگی کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں ،غرض علامہ ابن القیم ؒ کے اس کلام سے بہت سی باتوں پر روشنی پڑتی ہے اگر ہماری مائیں ان پر توجہ مر کوز کریں تو ان کی اولاد سلف کے نمونہ پر چلے گی اور مخلوق کو بھی ان سے نفع ہو گا۔ آخر میں اولا دسے متعلق یہ حدیث بھی سن لیں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا "ادبوا اولادکم علیٰ ثلث خصال حب نبیکم وحب آل بیتہ وتلاوۃ القرآن " ( طبرانی بحوالہ کنوز السنۃ ص ۱۳۸) ترجمہ۔ اپنی اولاد کو تین عادتوں پر تربیت کرو ایک تمہارے نبی اکرم ﷺ کی محبت ، دوسرے نبی کے گھر والوں کی محبت ، تیسرے تلاوت قرآن ۔ اس حدیث میں اول ایمان دوسرے اعمال کی تعلیم وتلقین اور اس پر تر بیت کی ہدایت فر مائی گئی ہے ۔ رسول اور آل رسول کی محبت ایمان کا تقاضا ہے اور جس کے دل میں یہ چیز پیدا ہو جائے وہ اتباع رسول اور اتباع آل رسول کے ذریعہ اپنے عمل کو بھی درست کر لیتا ہے لہٰذا سب سے پہلے رسول کی محبت بچوں میں پیدا کی جائے پھر تلات قرآن کی تعلیم ہو نا چاہئے اس لئے کہ قرآن ہمارا اصل ماخذ اور سرچشمہ ہدایت ہے ۔ آج بچوںکو خود ماں باپ فلم اسٹاروں ، کھلاڑیوں اور دنیا داروں کی محبت سکھاتے ہیں اور دنیا بھر کی چیزں پڑھاتے ہیں مگر قرآن اور اسلام کی تعلیم نہیں دیتے یا اگر دیتے بھی ہیں تو ثانوی در جہ دیتے ہیں جس سے بچوں کے اندر بگاڑ اور فساد کا آنا لازمی ہے ۔ غرض یہ کہ ماں باپ کے ذمہ ہے کہ بچوں کی تر بیت پر خاص زور صرف کریں اور ہر اچھی عادت اور تمام اچھوں اخلاق ان میں پید اکرنے کو کو شش کریں ۔

٭ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں سے سلوک :
عورت پر لاز م ہے کہ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے شوہر کی ماں کو اپنی ماں اور باپ کو اپنا باپ اور بھائی کو اپنا بھائی اور بہن کو اپنی بہن اور اس طرح دیگر رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ مقام دے کران کو اس درجہ ومقام کے لحاظ سے دیکھے اور اسی کے مناسب ان سے سلوک کرے ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں عورت پر واجب ہے کہ شوہر کے خاندان والوں اور ان کے رشتہ داروں کا اکرام کرے ( الکبائر ص ۱۷۵) آج کل امت میں جو خرابیاں اور جو امراض وبیماریاں پھیلی ہو ئی ہیں جن سے معاشرہ فاسد اور خراب ومتعفن ہو گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شادی ہوتے ہی شوہر کو اس کے رشتہ داروں اور والدین سے جدا کر نے کی فکر کرتی ہے ۔ اور اس کی تحریک شروع ہوتی ہے شوہر کے والدین سے بد سلوکی شوہر کے بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑا اور اس کے رشتہ داروں سے نفرت وکراہت اور ان کی تو ہین وتذلیل سے آخر کار نو بت یہاں تک پہنچتی ہے کہ شوہر اور اس کے خاندان میںنفاق وشقاق پیدا ہو جاتا ہے اور جدائی وفراق کے حا لات بن جاتے ہیں اور اس سب کی ہیروئن یہی نئی نویلی دلھن ہو تی ہے اسلام تو اتحاد واتفاق کا پیار ومحبت کا سبق دیتا ہے اور یہاں اس کے خلاف نفاق وشقاق وفراق کی باتیں ہو تی ہیں ۔ اور عورت کو چاہئے کہ اس روش سے دور رہے اور شوہر کے تمام اہل خاندان سے محبت کے ساتھ اور حسن سلوک کے ساتھ رہے ۔
تنبیہ : میں یہ نہیں کہتا کہ ہر جگہ اور کلی طور پر اس صورۃ حال کی ذمہ دار یہ شادی ہو نے والی لڑکی ہو تی ہے نہیں بلکہ بہت ساری جگہوں پر شوہر کے والدین رشتہ دار اور خود شوہر کی طرف سے لڑکی پر ظلم وزبردستی اور بیجا مطالبات وغیرہ کی وجہ سے اس طرح کی صورت حال پید اہو جاتی ہے اگر ذیادتی شوہر کی طرف سے یا اس کے والدین اور رشتہ داروں کی طرف سے ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار شوہر ہوگا اس صورت میں عورت کو صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو سکے صبر کرنا چاہئے اور دعا بھی کرتے رہنا چاہئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سب حالات درست کردے گا ۔