Front - The Prophet Muhammed

Monday, July 4, 2016

رشوت کا گناہ

جنگ 26 مئی 1978 ء
رشوت کا گناہ
شراب نوشی اور بدکار ی سے بھی زیادہ سنگین ہے
بعض برائیاں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں ایک شخص کے نزدیک وہ برائی ہے ۔ اور دوسرا اسے کوئی عیب نہیں سمجھتا لیکن رشوت ایک ایسی برائی ہوتی ہے جس کے بُرا ہونے پر ساری دنیا متفق ہے کوئی مذہب وملت، کوئی مکتب فکر یا انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ملے گا جو رشوت کو بدترین گناہ یا جرم نہ سمجھتا ہو ،حدیہ ہے کہ جو لوگ دن کے وقت دفتروں میں بیٹھ کر دھڑلے سے رشوت کا لین دین کرتے ہیں وہ بھی جب شام کو کسی محفل میں معاشرے کی خرابیوں پر تبصرہ کریں گے تو ان کی زبان پر سب سے پہلے رشوت کی گرم بازاری ہی کا شکوہ آئے گا اور اس کی تائید میں وہ (اپنے نہیں) اپنے رفقائے کار کے دوچار واقعات سنا دیں گے ، سننے والے یاتو ان واقعات پر ہنسی مذاق میں کچھ فقرے چست کردیں گے یا پھر کوئی بہت سنجیدہ محفل ہوئی تو اس میں غم و غصہ کا اظہار کیا جائے گا لیکن اگلی ہی صبح سے یہی شرکائے مجلس پورے اطمینان کے ساتھ اسی کاروبار میں مشغول ہوجائیں گے ۔
غرض رشوت کی خرابیوں سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود کوئی شخص جو اس انسانیت سوز حرکت کا عادی ہوچکا ہو اسے چھوڑنے کے لئےتیار نظر نہیں آتا اور اگر اس کے بارے میں کسی سے کچھ کہا جائے تو مختصر ساجواب یہ ہے کہ ساری دنیا رشوت لے رہی ہے تو ہم کیاکریں ؟ گویا ان کے نزدیک رشوت چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ پہلے دوسرے تمام لوگ اس برائی سے تائب ہوجائیں تب ہی چھوڑنے پر غور کرسکتا ہوں اس کے بغیر نہیں اور چونکہ رشوت لینے والے کے پاس بھی بہانہ ہے لہٰذا یہ تباہ کن بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے فرق یہ ہے کہ جب کوئی وباء پھیلتی ہے تو وہاں کوئی مریض یہ سوال نہیں کرتا کہ جب تک تمام دوسرے لوگ تندرست نہ ہوجائیں میں بھی صحت کی تدبیر نہیں کروں گالیکن رشوت کے بارے میں یہ استدلال ناقابل تردید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک استدلال نہیں ایک بہانہ ہے اور بات صرف یہ ہے کہ رشوت لینے والے کو اپنے اس عمل میں فوری طور سے کافی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے اس لئے نفس اس فائدے کو حاصل کرنے کے لئے ہزار حیلے بہانے تراش لیتا ہے لیکن آئیے ذرایہ دیکھیں کہ رشوت لینے میں واقعتاً کوئی فائدہ ہے بھی یانہیں؟ بظاہر تو رشوت لینے میں یہ کھلا فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کی آمدنی کسی زائد محنت کے بغیر بڑھتی جاتی ہے لیکن اگر ذراباریک بینی سے کام لیا جائے تو اس وقتی فائدے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک ٹائیفائڈ میں مبتلا بچے کو چٹ پٹی غذاؤں میں بڑا لطف آتا ہے لیکن بچے کے ماں باپ یا اس کے معالج جانتے ہیں کہ یہ چند لمحوں کا فائدہ نہ صرف اس کی تندرستی کو دور سے دور تر کردے گا بلکہ انجام کار اسے زیادہ طویل عرصہ تک لذیذ غذاؤں سے محروم ہوجانا پڑے گا۔
یہ مثال صرف رشوت کے اخروی نقصانات پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ ذراانصاف سے کام لیاجائے تو رشوت کے دنیوی نقصانات کے بارے میں بھی اتنی ہی سچی ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب معاشرے میں یہ لعنت پھیل جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی ایک جگہ سے کوئی رشوت وصول کرتا ہے تو اسے دسیوں جگہ خود رشوت دینی پڑتی ہے بظاہر تو وہ ممکن ہے کہ اسے آج سوروپے زیادہ ہاتھ آگئے لیکن کل جب اسے خود دوسرے لوگوں سے کام پڑیگا تو یہ سوروپے نہ جانے کتنے سو ہوکر خود اس کی جیب سے نکل جائیں گے۔
پھر رشوت کا یہ نقد نقصان کیا کم ہے کہ اس کی بدولت پورامعاشرہ بدامنی اور بے چینی کا جہنم بن جاتا ہے کیوں کہ کسی بھی ملک میں باشندوں کے امن وسکون کی سب سے بڑی ضمانت اس ملک کا قانون اور اس قانون کے محافظ ادارے ہی ہوسکتے ہیں لیکن جس جگہ رشوت کا بازار گرم ہو وہاں بہتر سے بہتر قانون بھی بالکل مفلوج اور ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے آج ہم معاشرے کی بدامنی کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون بنانے بیٹھتے ہیں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اس قانون کو رشوت کے زہر سے کیسے بچایا جائے؟ چوری ، ڈاکے ، قتل ، اغواء ، بدکاری اور دھوکے فریب کے انسانیت کش حادثات سے آج ہرشخص سہما ہوا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ ان حادثات کے روز افزوں ہونے کا سبب درحقیقت وہ رشوت ہے جو ہر اچھے سے اچھے قانون کو چند نوٹوں کے عوض بیچ کر اس کی ساری افادیت کو خاک میں ملادیتی ہے اور جسے ہم نے اپنے روزمرہ کے طرزعمل سے شیر مادر بناکررکھ دیا ہے ۔
ہم نے اگر کسی مجرم سے رشوت لے کر اسے قانون کی گرفت سے بچالیا ہے تو درحقیقت ہم نے جرم کی اہمیت ، قانون کے احترام اور سزا کی ہیبت کو دلوں سے نکالنے میں مدددی ہے اور ان مجرموں کا حوصلہ بڑھایا ہے جو کل خود ہمارے گھر پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں ۔
ایک سرکاری افسر کسی سرکای ٹھیکہ دار سے رشوت لے کر اس کے ناقص تعمیری کام کو منظور کرادیتا ہے اور مگن ہے کہ آج آمدنی زیادہ ہوگئی ، لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس ناقص پل کی تعمیر پر اس نے صاد کرادیا ہے کل جب گرے گا تو اس کی کی زد میں خود وہ اور اس کے بچے بھی آسکتے ہیں ، جس ناقص مال کی بنی ہوئی سڑک اس نے منظور کرادی ہے وہ ہزارہا دوسرے افراد کی طرح خود اس کے لئے بھی عذاب جان بنے گی ، اور سب سےبڑھ کر یہ سرکاری کاموں کے سلسلے میں رشوت کے عام لین دین سے ہم نے سرکاری خزانےکو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا بارکوئی حکمراں ہی نہیں اٹھائے گا ، بلکہ اس کےنتائج زائد ٹیکسوں کی شکل میں ملک کے تمام باشندوں کو بھگتنے پڑیں گے جن میں ہم خود بھی داخل ہیں اس سے ملک میں گرانی بھی پیدا ہوگی ، خزانہ بھی کمزور پڑے گا ، ملک کے ترقیاتی کام بھی رکیں گے ، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی منزل بھی دور ہوگی ، اور دوسری اقوام ہمیں بدستور لقمئہ تر سمجھتی رہیں گی۔
یہ تو چند سرسری سی مثالیں تھیں ، لیکن اگر ہم ذرا اس رخ سے مزید سوچیں تو اندازہ ہوکہ رشوت کے لین دین کی بدولت ہم خود دنیا میں مستقل طور سے کن پیچیدہ مصائب اور سنگین مشکلات میں مبتلاہوگئے ہیں ؟
رشوت کے یہ دنیوی نقصانات تو اجتماعی نوعیت کے ہیں اور بالکل سامنے کے ہیں ، لیکن اگر ذرا اور گہری نظر سے دیکھئے تو خاص رشوت لینے والے کی انفرادی زندگی بھی رشوت کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہتی ۔ حدیث میں ہے کہ :
لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم الراشی والمرتشی والرائش
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے رشوت دینے والے پر بھی ، رشوت لینے والے پر بھی اور رشوت کے دال پر بھی ۔
جس ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں بھی دعارئے خیر ہی کی ہو اس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی شخص پر لعنت بھیجنا معمولی بات نہیں ۔ اس کا اثر آخرت میں تو ظاہر ہوگا ہی ، لیکن دنیا میں بھی یہ لوگ اس لعنت کے اثر سے بچ نہیں سکتے ۔ چنانچہ جو لوگ معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈال کر حق داروں کا دل دکھا کر غریبوں کا حق چھین کر اور ملت کی کشتی میں سوراخ کرکے رشوت لیتے ہیں ۔ بظاہر ان کی آمدنی میں خواہ کتنا اضافہ ہوجاتا ہو، لیکن خوشحالی اور راحت وآسائش روپے پیسے کے ڈھیر، عالیشان کوٹھیوں ، شاندار کاروں اور اپ ٹو ڈیٹ فرنیچر کانام نہیں ہے ، بلکہ دل کے اس سکون اور روح کے اس قرار اور ضمیر کے اس اطمینا ن کا نام ہے جسے کسی بازار سے کوئی بڑی سے بڑی قیمت دے کر بھی نہیں خریدا جاسکتا ، یہ صرف اور صرف اللہ کی دین ہوتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ کسی کو یہ دولت دیتا ہے تو ٹوٹے چھونپڑے ، کھجور کی چٹائی اور ساگ روٹی میں بھی دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا تو شاندار بنگلوں ، کاروں اور کارخانوں میں بھی نصیب نہیں ہوتی ۔
آج اگر آپ کو رشوت کے ذریعے کچھ زائد آمدنی ہوگئی ہے ، لیکن ساتھ ہی کوئی بچہ بیمار پڑگیا ہے تو کیا یہ زائد آمدنی آپ کو کوئی سکون دے سکے گی؟ آپ کی ماہانہ آمدنی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ،لیکن اگر اسی تناسب سے گھر میں ڈاکٹر اور دوائیں آنے لگی ہیں تو آپ کو کیا ملا؟اور اگر فرض کیجئے کہ کسی نے مرمارکر رشوت کے روپے سے تجوریاں بھر لیں ، لیکن اولادنے باغی ہوگر زندگی اجیرن بنادی ، داماد نے جینا دوبھر کردیا، یا اسی قسم کی کوئی اور پریشانی کھڑی ہوگئی تو کیا یہ ساری آمدنی اسے کوئی راحت پہنچاسکے گی ؟
واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باغی ہوکر روپیہ تو جمع کرسکتا ہے لیکن اس روپے کے ذریعے راحت وسکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں ، عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت پریشانیوں اور آفتوں کا ایسا چکر لے کر آتی ہے جو عمر بھر انسان کو گردش میں رکھتا ہے قرآن کریم نے”جولوگ یتیموں کامال ظلماً کھاتے ہیں وہ ایسے مصائب کا شکار کردئے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں لذیذ سے لذیذ غذا بھی آگ معلوم ہوتی ہے “۔
لہذا رشوت خوروں کے اونچے مکان اور شاندار اسباب دیکھ کر اس دھوکے میں نہ آنا چاہئے کہ کہ انہوں نے رشوت کے ذریعے خوش حالی حاصل کرلی ، بلکہ ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں ۔
اس کے برعکس جو لوگ حرام سے اجتناب کرکے اللہ کے دئیے ہوئے حلال رزق پر قناعت کرتے ہیں ، ابتداء میں انہیں کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں ، لیکن مآل کار دنیا میں بھی وہی فائدے میں رہتے ہیں، ان کی تھوڑی سی آمدنی میں بھی زیادہ کام نکلتے ہیں ، ان کے اوقات اور کاموں میں بھی برکت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دل کے سکون اور ضمیر کے اطمینان کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں ۔
اوپر رشوت کے جو نقصانات بیان کئے گئے وہ تمام تر دنیوی نقصانات تھے، اور اس لعنت کا سب سے بڑا نقصان آخرت کا نقصان ہے ، دنیا میں اور ہزار چیزوں میں اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس بارے میں کسی مذہب اور کسی مکتبِ فکر کا اختلاف نہیں کہ ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت ضرور آئے گی اگر بالفرض رشوتیں لے لے کر کسی شخص نے چندروز مزے اڑابھی لئے تو بالآخر اس کا انجام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ :
الراشی والمرتشی کلاهما فی النار
رشوت دینے والا اور رشوت لینے والادونوں جہنم میں ہوں گے۔
اور اس لحاظ سے رشوت کا گناہ شراب نوشی اور بدکاری سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ شراب نوشی اور بدکاری سے اگر کوئی شخص صدق دل کے ساتھ توبہ کرلے تو وہ اسی لمحے معاف ہوسکتا ہے ، لیکن رشوت کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے ہے ، اس لئے جب تک ایک ایک حقدار کو اس کی رقم نہ چکائے یا اس سے معافی نہ مانگے ، اس گناہ کی معافی کا کوئی راستہ نہیں ، عام طورسے جب انسان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اپنی آخرت کی فکر لاحق ہوہی جاتی ہے ، اگر اس وقت عارضی دنیوی مفاد کے لالچ میں ہم یہ گناہ کرتے رہے تو یقین کیجئے کہ موت سے پہلے ہی جب آخرت کی منزل سامنے ہوگی تو یہ اعمال دنیا کے ہر آرام وراحت کو مستقل عذاب جان بناکر رکھ دیں گے اور اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔
بعض لوگ یہ سوچتےہیں کہ اگر تنہا میں نے رشوت ترک کردی تو اس سے پورے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ لیکن یہی وہ شیطان کا دھوکہ ہے جومعاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،جب ہر شخص دوسرےکا انتظار کرے گاتومعاشرہ کبھی اس لعنت سے پاک نہیں ہوگا۔ آپ رشوت کو ترک کرکے کم ازکم خود اس کے دنیوی اور آخرت کے نقصانات سے محفوظ ہوسکیں گے اس کے بعد آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بنے گی کیا بعید ہے کہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس لعنت سے تائب ہوجائیں ، تاریکی میں ایک چراغ جل اٹھے تو پھر چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ تناور ہوسکتا ہے کہ اس سے پورا ماحول بقعئہ نور بن جائے پھر جب کوئی شخص اللہ کے لئے اپنے نفس کے کسی تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے ، دور دور سے ایک کام کو مشکل سمجھنے کے بجائے اسے کرکے دیکھئے ، اللہ تعالیٰ سے اس کی آسانی کی دعا مانگئے ۔ ان شاء اللہ اس کی مدد ہوگی ضرور ہوگی ، بالضرور ہوگی اور کیا عجب ہے معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو منتخب کیا ہو۔

کیا اولاد کی نافرمانی پر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی دلیل دینا صحیح ہے؟

کیا اولاد کی نافرمانی پر حضرت نوح علیہ السلام 
کے بیٹے کی دلیل دینا صحیح ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو، درحقیقت اس میں ایک شبہ کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا جو شبہ عام طور پر ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ شبہ یہ ہے کہ آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کی تعلیم دو، کچھ دین کی باتیں ان کو سکھاو، ان کو دین کی طرف لاو، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر بکثرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولاد کو دین کی طرف لانے کی بڑی کوشش کی، مگر کیا کریں کہ ماحول اور معاشرہ اتنا خراب ہے کہ بیوی بچوں کو بہت سمجھایا، مگر وہ مانتے نہیں ہیں اور زمانے کی خرابی سے متاثر ہو کر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے اور اس راستے پر جا رہے ہیں، اور راستہ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے، ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے،اب ہم کیا کریں؟ اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ     حضرت  نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو آخر کافر رہا اور حضرت نوح علیہ السلام اس کو طوفان سے نہ بچاسکے، اسی طرح ہم نے بہت کوشش کرلی ہے وہ نہیں مانتے تو ہم کیا کریں؟
چنانچہ قرآن کریم نے آیت میں”آگ” کا لفظ استعمال کرکے اس اشکال اور شبہ کا جواب دیا ہے، وہ یہ کہ بات ویسے اصولی طور پر ٹھیک ہے کہ اگر ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی ہے تو ان شاء اللہ ماں باپ پھر بری الذمہ ہو جائیں گے اور اولاد کے کیے کا وبال اولاد پر پڑے گا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی کوشش کس حد تک کی ہے؟ اور کس درجے تک کی ہے؟ قرآن کریم نے “آگ ” کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے
اس طرح بچانا چاہیے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں ۔
فرض کریں کہ ایک بہت بڑی خطر ناک آگ سلگ رہی ہے، جس آگ کے بارے میں یقین ہے کہ اگر کوئی شخص اس آگ کے اندر داخل ہو گیا تو زندہ نہیں بچے گا، اب آپ کا نادان بچہ اس آگ کو خوش منظر اور خوب صورت سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، اب بتاو تم اس وقت کیا کرو گے؟ کیا تم اس پر اکتفا کرو گے کہ دور سے بیٹھ کر بچے کو نصیحت کرنا شروع کردو کہ بیٹا! اس آگ میں مت جانا، یہ بڑی خطر ناک چیز ہوتی ہے ،اگر جاو گے تو جل جاو گے اور مر جاو گے؟ کیا ماں باپ صرف زبانی نصیحت پراکتفا کریں گے؟ اور اس نصیحت کے باوجود اگر بچہ اس آگ میں چلا جائے تو کیا وہ ماں باپ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اس کو سمجھا دیا تھا، اپنا فرض ادا کر دیا تھا، اس نے نہیں مانا اور خود ہی اپنی مرضی سے آگ میں کود گیا تو میں کیا کروں؟ دنیا میں کوئی ماں باپ ایسا نہیں کریں گے، اگر وہ اس بچے کے حقیقی ماں باپ ہیں تو اس بچے کو آگ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر ان کی نیند حرام ہو جائے گی، ان کی زندگی حرام ہو جائے گی اور جب تک اس بچے کو گود میں
اٹھا کر اس آگ سے دور نہیں لے جائیں گے اس وقت تک ان کو چین نہیں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں کہ جب تم اپنے بچے کو دنیا کی معمولی سی آگ سے بچانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہیں کرتے تو جہنم کی وہ آگ جس کی حدونہایت نہیں، اور جس کا دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا، اس آگ سے بچے کو بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ کو کافی کیوں سمجھتے ہو؟ لہذا یہ سمجھنا کہ ہم نے انہیں سمجھا کر اپنا فریضہ ادا کر لیا یہ بات آسانی سے کہنے کی نہیں ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی جو مثال دی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا کافر رہا، وہ اس کو آگ سے نہیں بچاسکے، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ بھی تو دیکھو کہ انہوں نے اس کو را ہ راست پر لانے کی نوسو سال تک لگاتار کوشش کی، اس کے باوجود جب راہ راست پر نہیں آیا تو اب ان کے اوپر کوئی مطالبہ اور کوئی مواخذہ نہیں، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ایک دو مرتبہ کہا اور پھر فارغ ہو کر بیٹھ گئے کہ ہم نے تو کہہ دیا، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کو گناہوں سے اسی طرح بچاو جس طرح ان کو حقیقی آگ سے بچاتے ہو، اگر اس طرح نہیں بچا رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ ادا نہیں ہو رہا ہے، آج تو یہ نظر آرہا ہے کہ اولاد کے بارے میں ہر چیز کی فکر ہے،مثلاً یہ تو فکر ہے کہ بچے کی تعلیم اچھی ہو ، اس کا کیرئیر اچھا بنے، یہ فکر ہے کہ معاشرے میں اس کا مقام اچھا ہو، یہ فکر تو ہے کہ اس کے کھانے پینے اور پہنے کا انتظام اچھا ہو جائے، لیکن دین 
کی فکر نہیں۔
(اصلاحی خطبات، ج ۴، ص۲۷)