الله تعالیٰ کا تعارف
اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ ۚ لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ
وَلا نَومٌ ۚ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ مَن ذَا الَّذى
يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم ۖ
وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ۚ وَسِعَ كُرسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضَ ۖ وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما ۚ وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ {2:255
خدا (وہ معبود برحق ہے کہ)
اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ
نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی
اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور
جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی
چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا
ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت
کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
|
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷] |
اس آیت میں توحید ذات اور
عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس
کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور
فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری
قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال
کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے
کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر
ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک
تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ
کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب
التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو
گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب
کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات
کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال
معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن
معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں
کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک
چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور
ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا
فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔
|
پہلی آیت سے حق سبحانہ کی
عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا
تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ
الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب
منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین
قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و
حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی
تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ
ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء
اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر
ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور
علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ
حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن
اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی
ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی
سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء
ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی
اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور
قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و
تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات
مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ
الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات
کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔
|
اللَّهُ وَلِىُّ
الَّذينَ ءامَنوا يُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَى النّورِ ۖ وَالَّذينَ
كَفَروا أَولِياؤُهُمُ الطّٰغوتُ يُخرِجونَهُم مِنَ النّورِ إِلَى الظُّلُمٰتِ ۗ
أُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:257}
|
جو لوگ ایمان لائے ہیں ان
کا دوست خدا ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر
ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں
یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
|
اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق ہیں شیطان نکالتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف یہی لوگ ہیں دوزخ میں رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے |
اللَّهُ لا
إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ {3:2}
|
||||||||||||||||||||||||||||
خدا (جو معبود برحق ہے) اس
کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا
|
||||||||||||||||||||||||||||
اللہ اس کے سوا کوئی معبود
نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا
|
||||||||||||||||||||||||||||
نجران کے ساٹھ عیسائیوں کا
ایک مؤقر و معزز وفد نبی کریم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس میں تین شخص عبدالمسیح عاقب بحیثیت امارت و سیادت کے،
ایہم السید بلحاظ رائے و تدبیر کے اور ابو حارثہ بن علقمہ با عتبار سب سے بڑے
مذہبی عالم اور لاٹ پادری ہونے کے عام شہرت اور امتیار رکھتے تھے۔ یہ تیسرا شخص
اصل میں عرب کے مشہور قبیلہ "بنی بکر بن وائل" سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر
پکا نصرانی بن گیا۔ سلاطین روم نے اس کی مذہبی صلابت اور مجدد شرف کو دیکھتے
ہوئے بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علاوہ بیش قرار مالی امداد کے اس کے لئے گرجے تعمیر
کئے اور امور مذہبی کے اعلیٰ منصب پر مامور کیا۔ یہ وفد بارگاہ رسالت میں بڑی آن
بان سے حاضر ہوا اور متنازع فیہ مسائل میں حضور ﷺ سے
گفتگو کی جس کی پوری تفصیل محمد بن اسحاق کی سیرۃ میں منقول ہے ۔ سورۂ " آل
عمران" کا ابتدائی حصہ تقریباً اسی نوے آیات تک اسی واقعہ میں نازل ہوا۔
عیسائیوں کا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیحؑ بعینہ خدا یا خدا کے
بیٹے یا تین خداؤں میں کے ایک ہیں۔ سورۂ ہذا کی پہلی آیت میں توحید خالص کا
دعویٰ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی جو صفات "حیّ قیوم" بیان کی گئیں وہ
عیسائیوں کے اس دعوے کو صاف طور پر باطل ٹھہراتی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ نے دوران مناظرہ میں ان سےفرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حَیّ
(زندہ) ہے جس پر کبھی موت طاری نہیں ہو سکتی ۔ اسی نے تمام مخلوقات کو وجود عطا
کیا اور سامان بقاء پیدا کر کے ان کو اپنی قدرت کاملہ سے تھام رکھا ہے۔ برخلاف اس
کے عیسٰیؑ پر یقینًا موت و فنا آ کر رہے گی۔ اور ظاہر ہے جو شخص خود اپنی ہستی
کو برقرار نہ رکھ سکے دوسری مخلوقات کی ہستی کیا برقرار رکھ سکتا ہے۔
"نصاریٰ نے سن کر اقرار کیا (کہ بیشک صحیح ہے ) شاید انہوں نے غنیمت سمجھا
ہو گا کہ آپ اپنے اعتقاد کے موافق { عیسٰی یاتی علیہ الفناء } کا سوال کر رہے
ہیں یعنی عیسٰی پر فنا ضرور آئے گی، اگر جواب نفی میں دیا تو آپ ہمارے عقیدہ کے
موافق کہ حضرت عیسٰیؑ کو عرصہ ہوا موت آ چکی ہے۔ ہم کو اور زیادہ صریح طور پر
ملزم اور مفحم کر سکیں گے۔ اس لئے لفظی مناقشہ میں پڑنا مصلحت نہ سمجھا۔ اور
ممکن ہے یہ لوگ ان فرقوں میں سے ہوں جو عقیدہ اسلام کے موافق مسیحؑ کے قتل و صلب
کا قطعًا انکار کرتے تھے اور رفع جسمانی کے قائل تھے جیسا کہ حافظ ابن تمیمہ نے
"الجواب الصحیح" اور "الفارق بین المخلوق و الخالق" کے مصنف
نے تصریح کی ہے کہ شام و مصر کے نصاریٰ عمومًا اسی عقیدہ پر تھے۔ مدت کے بعد
پولس نے عقیدہ صلب کی اشاعت کی۔ پھر یہ خیال یورپ سے مصر و شام وغیرہ پہنچا
بہرحال نبی کریم ﷺ کا { انّ عیسیٰ اتی علیہ الفناء } کے بجائے { یاتی علیہ الفناء }
فرمانا، درآں حالیکہ پہلے الفاظ تردید الوہیۃ مسیح کے موقع پر زیادہ صاف اور
مسکت ہوتے۔ ظاہر کرتا ہے کہ موقع الزام میں بھی مسیحؑ پر موت سے پہلے لفظ موت کا
اطلاق آپ نے پسند نہیں کیا۔
|
|
اللَّهِ الَّذى
لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ وَوَيلٌ لِلكٰفِرينَ مِن عَذابٍ
شَديدٍ {14:2}
|
||||||
وہ اللہ کہ جو
کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور کافروں کے لیے عذاب سخت (کی وجہ)
سے خرابی ہے
|
||||||
اللہ کہ جس کا ہے جو کچھ
کہ موجود ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں [۲] اور مصیبت ہے کافروں کو ایک
سخت عذاب سے [۳]
|
||||||
یعنی صحیح معرفت کی روشنی
میں اس راستہ پر چل پڑیں جو زبردست و غالب ، ستودہ صفات ، شہنشاہ مطلق اور مالک
الکل خدا کا بتایا ہوا اور اس کے مقام رضاء تک پہنچانے والا ہے۔
|
||||||
یعنی جو لوگ ایسی کتاب
نزال ہونے کے بعد کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی اندھیری سے نہ نکلے ان کو سخت
عذاب اور ہلاکت خیز مصیبت کا سامنا ، آخرت میں یا دنیا میں بھی۔
|
اللَّهُ لا
إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ لَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ {20:8}
|
||||||||||||||||||||||||
اللہ (وہ معبود برحق
ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کے (سب) نام اچھے ہیں
|
||||||||||||||||||||||||
اللہ ہے جسکے سوا بندگی
نہیں کسی کی اُسی کے ہیں سب نام خاصے
|
||||||||||||||||||||||||
آیات بالا میں جو صفات حق
تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں (یعنی اس کا خالق الکل ، مالک علی الاطلاق ، رحمٰن ،
قادر مطلق اور صاحب علم محیط ہونا) ان کا اقتضاء یہ ہے کہ الوہیت بھی تنہا اسی
کا خاصہ ہو بجز اس کےکسی دوسرے کے آگے سر عبودیت نہ جھکایا جائے ۔ کیونکہ نہ صرف
صفات مذکورہ بالا بلکہ کل عمدہ صفات اور اچھے نام اسی کی ذات منبع الکمالات کے
لئے مخصوص ہیں۔ کوئی دوسری ہستی اس شان و صفت کی موجود نہیں جو معبود بن سکے۔ نہ
ان صفتوں اور ناموں کےتعدد سے اس کی ذات میں تعدد آتا ہے۔ جیسا کہ بعض جہال عرب
کا خیال تھا کہ مختلف ناموں سے خدا کو پکارنا دعوےٰ توحید کے مخالف ہے۔
|
||||||||||||||||||||||||
|
اللَّهُ لا
إِلٰهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ ۩ {27:26}
|
اللہ کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے
|
اللہ ہے کسی کی بندگی نہیں
اس کے سوائے پروردگار تخت بڑے کا [۳۴]
|
یعنی اس کے عرش عظیم سے
بلقیس کے تخت کو کیا نسبت۔
|
اللَّهُ يَبسُطُ
الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ وَيَقدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {29:62}
|
اللہ ہی اپنے بندوں
میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر
دیتا ہے بیشک خدا ہر چیز سے واقف ہے
|
اللہ پھیلاتا ہے روزی جس
کے واسطے چاہے اپنے بندوں میں اور ماپ کر دیتا ہے جسکو چاہے [۹۷] بیشک اللہ ہر
چیز سے خبردار ہے [۹۸]
|
ناپ کر دیتا ہے یہ نہیں کہ
بالکل نہ دے۔
|
یعنی یہ خبر اسی کو ہے کہ
کس کو کتنا دینا چاہئے۔
|
اللَّهُ يَبدَؤُا۟
الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ ثُمَّ إِلَيهِ تُرجَعونَ {30:11}
|
اللہ ہی خلقت کو پہلی
بار پیدا کرتا ہے وہی اس کو پھر پیدا کرے گا پھر تم اُسی کی طرف لوٹ جاؤ گے
|
اللہ بناتا ہے پہلی بار
پھر اس کو دہرائے گا پھر اسی کی طرف جاؤ گے
|
اللَّهُ الَّذى
خَلَقَكُم ثُمَّ رَزَقَكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۖ هَل مِن
شُرَكائِكُم مَن يَفعَلُ مِن ذٰلِكُم مِن شَيءٍ ۚ سُبحٰنَهُ وَتَعٰلىٰ عَمّا
يُشرِكونَ {30:40}
|
|||||||||
اللہ ہی تو ہے جس نے
تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں مارے گا۔ پھر زندہ کرے گا۔ بھلا
تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر
سکے۔ وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے
|
|||||||||
اللہ وہ ہی ہے جس نے تم کو
بنایا پھر تم کو روزی دی پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو جلائے گا کوئی ہے تمہارے
شریکوں میں جو کر سکے ان کاموں میں سے ایک کام وہ نرالا ہے اور بہت اوپر ہے اس
سے کہ شریک بتلاتے ہیں [۴۵]
|
|||||||||
یعنی مارنا جلانا، روزی
دینا سب کام تو تنہا اس کے قبضہ میں ہوئے۔ پھر دوسرے شریک کدھر سے آ کر الوہیت
کے مستحق بن گئے۔
|
|
اللَّهَ رَبَّكُم
وَرَبَّ ءابائِكُمُ الأَوَّلينَ {37:126}
|
(یعنی) خدا کو جو تمہارا
اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے
|
جو اللہ ہے رب تمہارا اور
رب تمہارے اگلے باپ دادوں کا
|
یعنی یوں تو دنیا میں آدمی
بھی تحلیل و ترکیب کر کے بظاہر بہت سی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ مگر بہتر بنانے والا
وہ ہے جو تمام اصول و فروع، جواہر و اعراض اور صفات و موصوفات کا حقیقی خالق ہے
جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا پھر یہ کیسے جائز ہو گا کہ اس
احسن الخالقین کو چھوڑ کر "بعل" بت کی پرستش کی جائے اور اس سے مدد
مانگی جائے جو ایک ذرہ کو ظاہری طور پر بھی پیدا نہیں کر سکتا بلکہ اس کا وجود
خود اپنے پرستاروں کا رہین منت ہے۔ انہوں نے جیسا چاہا بنا کر کھڑا کر دیا۔
|
اللَّهُ نَزَّلَ
أَحسَنَ الحَديثِ كِتٰبًا مُتَشٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ
الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ
ذِكرِ اللَّهِ ۚ ذٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهدى بِهِ مَن يَشاءُ ۚ وَمَن
يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن هادٍ
{39:23}
|
اللہ نے نہایت اچھی
باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور
دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے)
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) اللہ کی
یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو
چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت
دینے والا نہیں
|
اللہ نے اتاری بہتر بات
کتاب کی [۳۹] آپس میں ملتی دہرائی ہوئی [۴۰] بال کھڑے ہوئے ہیں اس سے کھال پر ان
لوگوں کے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں اور ان کے دل
اللہ کی یاد پر [۴۱] یہ ہے راہ دینا اللہ کا اس طرح راہ دیتا ہے جس کو چاہے اور
جس کو راہ بھلائے اللہ اسکو کوئی نہیں سجھانے والا [۴۲]
|
یعنی کتاب اللہ سن کر اللہ
کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ خوف و رعب کی کیفیت
طاری ہو کر ان کا قلب و قالب اور ظاہر و باطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے
اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے یہ حال
اقویائے کاملین کا ہوا۔ اگر کبھی ضعفاء و ناقصین پر دوسری قسم کی کیفیات و احوال
طاری ہو جائیں مثلًٓا غشی یا صعقہ وغیرہ تو اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔ اور نہ
ان کی تفصیل ان پر لازم آتی ہے۔ بلکہ اس طرح ازخود رفتہ اور بے قابو ہو جانا عمومًٓا
وارد کی قوت اور مورد کے ضعف کی دلیل ہے۔ جامع ترمذی میں ایک حدیث بیان کرتے وقت
ابوہریرہؓ پر اس قسم کے بعض احوال کا طاری ہونا مُصّرح ہے۔ واللہ اعلم۔
|
یعنی صحیح، صادق، مضبوط،
نافع، معقول اور فصیح و بلیغ ہونے میں کوئی آیت کم نہیں۔ ایک دوسرے سے ملتی جلتی
ہے، مضامین میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں۔ بلکہ بہت سی آیات کے مضامین ایسے
متشابہ واقع ہوئے ہیں کہ ایک آیت کو دوسری کی طرف لوٹانے سے صحیح تفسیر معلوم ہو
جاتی ہے۔ { القراٰن یفسر بعضہ بعضًا } اور "مثانی" یعنی دہرائ ہوئی کا
مطلب یہ ہے کہ بہت سے احکام اور مواعظ و قصص کو مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے
تا اچھی طرح دلنشین ہو جائیں، نیز تلاوت میں بار بار آیتیں دہرائی جاتی ہیں اور
بعض علماء نے "متشابہ" و "مثانی" کا مطلب یہ لیا ہے کہ بعض
آیات میں ایک ہی طرح کے مضمون کا سلسلہ دور تک چلا جاتا ہے وہ متشابہ ہوئیں اور بعض
جگہ ایک نوعیت کے مضمون کے ساتھ دوسرے جملہ میں اس کے مقابل کی نوعیت کا مضمون
بیان کیا جاتا ہے۔ مثلًا { اِنَّ الْاَبْرارَ لَفِیْ نَعِیْم وَّاِنَّ الفجارَ
لفی جَحِیْم } یا { نَبِّیْ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَاالغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
وَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ } یا { وَیُحَذِّرُکُمُ
اللہُ نَفْسَہٗ وَاللہ رَؤفٌ بِالْعِبَادِ }۔ ایسی آیات کو مثانی کہیں گے
کہ ان میں دو مختلف قسم کے مضمون بیان ہوئے۔
|
یعنی دنیا میں کوئی بات اس
کتاب کی باتوں سے بہتر نہیں۔
|
یعنی جس کے لئے حکمت الہٰی
مقتضی ہو اس طرح کامیابی کے راستے کھول دیے جاتے ہیں اور اس شان سے منزل مقصود
کی طرف لے چلتے ہیں۔ اور جس کو سوء استعداد کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہدایت کی توفیق
نہ دے۔ آگے کون ہے جو اس کی دستگیری کر سکے۔
|
|
اللَّهُ الَّذى
جَعَلَ لَكُمُ الأَنعٰمَ لِتَركَبوا مِنها وَمِنها تَأكُلونَ {40:79}
|
||||||||||
اللہ ہی تو ہے جس نے
تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
|
||||||||||
اللہ ہے جس نے بنا دیے
تمہارے واسطے چوپائے تاکہ سواری کرو بعضوں پر اور بعضوں کو کھاتے ہو
|
اللَّهُ الَّذى
سَخَّرَ لَكُمُ البَحرَ لِتَجرِىَ الفُلكُ فيهِ بِأَمرِهِ وَلِتَبتَغوا مِن
فَضلِهِ وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ {45:12}
|
اللہ ہی تو ہے جس نے
دریا کو تمہارے قابو کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس
کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو
|
اللہ وہ ہے جس نے بس میں
کر دیا تمہارے دریا کو کہ چلیں اس میں جہاز اس کے حکم سے [۱۰] اور تاکہ تلاش کرو
اسکے فضل سے اور تاکہ تم حق مانو [۱۱]
|
یعنی سمندر جیسی مخلوق کو
ایسا مسخر کر دیا کہ تم بے تکلف اپنی کشتیاں اور جہاز اس میں لئے پھرتے ہو۔
میلوں کی گہرائیوں کو پایاب کر رکھا ہے۔
|
یعنی بحری تجارت کرو ، یا
شکار کھیلو، یا اسکی تہ میں سے موتی نکالو۔ اور یہ سب منافع و فوائد حاصل کرتے
وقت منعم حقیقی کو نہ بھولو اس کا حق پہچانو، زبان و دل اور قلب و قالب سے شکر
ادا کرو۔
|
اللَّهُ لا
إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ
المُؤمِنونَ {64:13}
|
اللہ (جو معبود برحق
ہے اس) کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا
رکھیں
|
اللہ اُسکے سوائے کسی کی
بندگی نہیں اور اللہ پر چاہئے بھروسہ کریں ایمان والے [۱۷]
|
یعنی معبود اور مستعان
تنہا اسی کی ذات ہے۔ نہ کسی اور کی بندگی نہ کوئی دوسرا بھروسہ کے لائق۔
|
اللَّهُ الَّذى
خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَمِنَ الأَرضِ مِثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمرُ
بَينَهُنَّ لِتَعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ
كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَد
أَحاطَ بِكُلِّ شَيءٍ عِلمًا {65:12}
|
اللہ ہی تو ہے جس نے
سات آسمان پیدا کئے اور ایسی ہی زمینیں۔ ان میں (خدا کے) حکم اُترتے رہتے ہیں
تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ خدا اپنے علم سے ہر چیز پر
احاطہ کئے ہوئے ہے
|
اللہ وہی ہے جس نے بنائے
سات آسمان اور زمین بھی اتنی ہی [۳۲] اترتا ہے اُس کا کا حکم اُنکے اندر [۳۳]
تاکہ تم جانو کہ اللہ ہر چیز کر سکتا ہے اور اللہ کے علم میں سمائی ہے ہر چیز کی
[۳۴]
|
یعنی آسمان و زمین کے پیدا
کرنے اور ان میں انتظامی احکام جاری کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات
علم و قدرت کا اظہار ہو (نبّہ علیہ ابن قیم فی بدائع الفوائد) بقیہ صفات ان ہی
دو صفتوں سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں۔ صوفیہ کے ہاں جو ایک حدیث نقل کرتے
ہیں { کُنْتُ کنزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ} گو محدثین کے نزدیک
صحیح نہیں۔ مگر اس کا مضمون شاید اس آیت کے مضمون سے ماخوذ و مستفاد ہو۔ واللہ
اعلم۔ تم سورۃ الطلاق وللہ الحمد والمنہ۔
|
یعنی زمینیں بھی سات پیدا
کیں، جیسا کہ ترمذی وغیرہ کی احادیث میں ہے۔ ان میں احتمال ہے کہ نظر نہ آتی
ہوں، اور احتمال ہے کہ نظر آتی ہوں۔ مگر لوگ ان کو کواکب سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ
مریخ وغیرہ کی نسبت آج کل حکماء یورپ کا گمان ہے کہ اس میں پہاڑ دریا اور
آبادیاں ہیں۔ باقی حدیث میں جو ان زمینوں کا اس زمین کے تحت میں ہونا وارد ہے وہ
شاید باعتبار بعض حالات کے ہو۔ اور بعض حالات میں وہ زمینیں اس سے فوق ہوجاتی
ہوں۔ رہا ابن عباسؓ کا وہ اثر جس میں { اٰدمھم کا دمکم } وغیرہ آیا ہے، اس کی
شرح کا یہ موقع نہیں۔ "روح المعانی" میں اس پر بقدر کفایت کلام کیا
ہے۔ اور حضرت مولانا محمد قاسمؒ کے بعض رسائل میں اس کے بعض اطراف وجوانب کو بہت
خوبی سے صاف کر دیا گیا ہے۔
|
یعنی عالم کے انتظام و
تدبیر کے لئے اللہ کے احکام تکوینیہ و تشریعیہ آسمانوں اور زمینوں کے اندر اترتے
رہتے ہیں۔
|
قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ {112:1}
|
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا
نام) الله (ہے) ایک ہے
|
تو کہہ وہ اللہ ایک ہے
|
یعنی جو لوگ اللہ کی نسبت
پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا ہے، ان سے کہہ دیجیئے کہ وہ ایک ہے۔ جس کی ذات میں کسی
قسم کے تعدد و تکثر اور دوئی کی گنجائش نہیں۔ نہ اسکا کوئی مقابل، نہ مشابہ، اس
میں مجوس کے عقیدہ کا رد ہوگیا۔ جو کہتے ہیں کہ خالق دو ہیں۔ خیر کا خالق "یزداں"
اور شر کا "ہرمن" نیز ہنود کی تردید ہوئی جو تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو
خدائی میں حصہ دار ٹھہراتے ہیں۔
|
اللَّهُ الصَّمَدُ
{112:2}
|
اللہ بےنیاز ہے
|
اللہ بے نیاز ہے
|
"صمد" کی تفسیر
کئ طرح کی گئ ہے۔ طبرانی ان سب کو نقل کرکے فرماتے ہیں { وکلّ ھٰذہٖ صحیحۃ وھی
صفات ربنا عزوجل ھوالّذی یصمد الیہ فی الحوائج وھو الذی قدانتھٰی سؤددہٗ وھو
الصمد الذی لاجوف لہ ولا یاکل ولایشرب وھوالباقی بعد خلقہ } (ابن کثیرؒ) (یہ سب
معانی صحیح ہیں اور یہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں۔ وہ ہی ہے جس کی طرف تمام حاجات
میں رجوع کیا جاتا ہے یعنی سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور وہ ہی
ہے جس کی بزرگی اور فوقیت تمام کمالات اور خوبیوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور
وہ ہی ہے جو کھانے پینے کی خواہشات سے پاک ہے۔ اور وہ ہی ہے جو خلقت کے فنا ہونے
کے بعد بھی باقی رہنے والا ہے) اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت سے ان جاہلوں پر رد ہوا
جو کسی غیر اللہ کو کسی درجہ میں مستقل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہوں نیز آریوں
کے عقیدہ مادہ و روح کی تردید بھی ہوئی۔ کیونکہ ان کے اصول کے موافق اللہ تو
عالم بنانے میں ان دونوں کا محتاج ہے اور یہ دونوں اپنے وجود میں اللہ کے محتاج
نہیں (العیاذ باللہ)۔
|
لَم يَلِد وَلَم يولَد
{112:3}
|
نہ کسی کا باپ ہے اور نہ
کسی کا بیٹا
|
یعنی نہ کوئی اس کی اولاد، نہ وہ کسی کی اولاد، اس میں ان لوگوں کا رد
ہوا جو حضرت مسیحؑ کو یا حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں
کہتے ہیں۔ نیز جو لوگ مسیحؑ کو یا کسی بشر کو خدا مانتے ہیں ان کی تردید { لَمْ
یُوْلَدْ } میں کر دی گئ۔ یعنی خدا کی شان یہ ہے کہ اس کو کسی نے جنا نہ ہو۔ اور
ظاہر ہے حضرت مسیحؑ ایک پاکباز عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ پھر وہ خدا کس طرح ہو
سکتے ہیں۔
|
وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا
أَحَدٌ {112:4}
|
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں
|
جب اس کے جوڑ کا کوئی نہیں
تو جو رویا بیٹا کہاں سے ہو۔ اس جملہ میں ان اقوام کا رد ہوگیا جو اللہ کی کسی
صفت میں کسی مخلوق کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں۔ حتّٰی کہ بعض گستاخ تو اس سے بڑھ
کر صفات دوسروں میں ثابت کر دیتے ہیں۔ یہود کی کتابیں اٹھا کر دیکھو ایک دنگل میں
خدا کی کشتی یعقوبؑ سے ہو رہی ہے اور یعقوبؑ خدا کو پچھاڑ دیتے ہیں۔(العیاذ
باللہ) { کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ
اِلَّا کَذِبًا }۔ { اِنّی اسالک یا اللہ لواحد الاحد الصمد الذی لم یلد ولم
یولد ولم یکن لہ کفوًا احد ان تغفرلی ذنوبی انک انت الغفورالرحیم }۔
|