Front - The Prophet Muhammed

Wednesday, July 31, 2013

اپنے گھر کو جنت بنانا آپ کی ذمے داری ہے

الشیخ مظہر الحموی، لبنان

*... بیوی کی حیثیت سے آپ اپنے گھر میں خوش بودار پھول کی مانند ہیں۔ چناں چہ آپ کا شوہر جب گھر میں داخل ہو تو اسے اپنی اس خوش بو کا احساس دلائیے۔

*... اپنے ہر قول وفعل سے شوہر کو راحت کا سامان مہیا کیجیے۔

*... اپنی گفتار کو سراپا سادہ اور قلب وجاں کا نمونہ بنائیے۔ طنز وطعن اور بحث وتکرار سے مکمل اجتناب کیجیے۔

*... مرد کے گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کے حقیقی مفہوم کے ساتھ تسلیم کیجیے اور اس امر کا ادراک کہ ایک عورت کو مرد کی سربراہی اور نگرانی کی کتنی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یہ منفی خیال ہر گز اپنے دل میں پلنے نہ دیجیے کہ یہ تو عورت کے ساتھ ظلم ونا انصافی او راس کے حقوق کی پامالی ہے۔

*... اپنی آواز شوہر کے سامنے تیز نہ کیجیے۔

*... کوشش کیجیے کہ آپ دونوں رات میں تہجد کی نماز ایک ساتھ ادا کریں۔ اس طرح آپ دونوں کے لیے نورانیت، سعادت، سکون، اطمینان اور الفت ومحبت میں زبردست اضافہ ہو گا۔

*... شوہر کی ناراضی کے وقت آپ بالکل خاموشی اختیار کر لیجیے۔ اس کو راضی کیے بغیر نہ سوئیں۔ یاد رکھیے ، آپ کا شوہر آپ کی جنت ہے یا جہنم۔

*... جب وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا ہو تو اُس کے سامنے موجود رہیے اور روانہ ہوتے ہوئے اسے رخصت کیجیے۔

*... اس کو اس کے کپڑوں کے انتخاب میں اپنی دلچسپی کا احساس دلائیے اور خود اس کے لیے لباس کا انتخاب کیجیے۔

*... اس کی ضروریات کی چیزوں کی فراہمی میں باریک بینی او رسمجھ داری کا ثبوت دیجیے، تاکہ آپ دونوں کے درمیان بہترین تعلقات پروان چڑھیں۔

*... اپنے شوہر کی جانب سے معذرت کا انتظار نہ کیجیے اور نہ اس کو کسی معاملے میں معذرت کرنے پر مجبو ر کریں، سوائے اس کے کہ وہ خود کسی غلطی پر عملی طور پر معذرت خواہانہ طرز اختیار کر لے۔

*... شوہر کے لباس او راُس کی وضع قطع کا خاص خیال رکھیے، اگر چہ وہ خود اس معاملے میں اہتمام نہ کرتا ہو ۔

*... ہمیشہ اپنے شوہر کی طرف سے اظہارِ محبت او راظہارِ رغبت میں پہلے کرنے کی منتظر نہ رہیے ، بلکہ خود اس میں پہل کا اہتمام کیجیے۔

*... ہر رات میں اس کے لیے دلہن بن کر رہیے اور شدید ضرورت کے بغیر شوہر سے پہلے نہ سوئیے۔

*... اپنے حُسن معاملہ کا بدلہ فوراً نہ چاہیں، کیوں کہ بہت سارے شوہر اپنے احساسات او رجذبات کو ظاہر نہیں کرتے یا ظاہر کر ہی نہیں پاتے۔

*... شوہر کے احوال میں دلچسپی کے ساتھ مشغول رہیے ، لیکن تکلف اور مصنوعی پن سے گریز کیجیے۔

*... جب وہ سفر سے واپس آئے تو محبت سے بھر پور بشاشت اور دلی گرم جوشی کا مظاہرہ کیجیے۔

*... ہمیشہ اس کا دھیان رکھیے کہ شوہر، خدا ( الله تعالیٰ) کے ساتھ قرب اور تعلق کا اہم وسیلہ ہے۔

*... ہمیشہ اس کی کوشش کیجیے کہ ظاہری وضع قطع میں ، گفتار میں اور شوہر کے استقبال میں جدّت اور تازگی برقرار رہے۔

*... جب وہ آپ سے کچھ طلب کرے تو اس موقع پرسُستی اور بوجھل انداز اختیار کرنے کی بہ جائے چستی اور دلچسپی کا مظاہرہ کیجیے۔

*... گھر کی صفائی ستھرائی او رسجاوٹ کا خاص خیال کرتے ہوئے شوہر کو اپنے انداز سے اپنے اس جذبے کا احساس کرائیے کہ یہ سب کچھ وہ اسے خوش کرنے کے لیے کر رہی ہے۔

*... گھر کے کام کاج او ررکھ رکھاؤ میں نظم ونسق او رپابندی وقت کا خاص خیال رکھیے۔

*... عورتوں سے متعلق بعض گھریلو مہارت کے کام ضرور سیکھیے۔

*... جب آپ کا شوہرگھر میں کوئی کھانے پینے کا سامان یادیگر کوئی چیز لائے تو شکریہ ادا کیجیے اور تعریف وستائش سے اس کا استقبال کیجیے ۔

*... گھر کے خوب صورتی اور ترتیب وانتظام کی خوب کوشش کیجیے ، اگرچہ آپ کا شوہر آ پ سے خوب صورتی اور سادگی کو جمع کرنے کا مطالبہ نہ کرتا ہو ، مگر آپ خود اس امر کا لحاظ رکھیے۔

*... اسراف اور بے جاخرچ سے بچتے ہوئے قناعت کا دامن تھامے رہیے، تاکہ آمدنی اور اخراجات کا توازن برقرار رہے۔

*... اپنے اور اولاد سے متعلق ضروری معاملات میں ہمیشہ اپنے آپ کو شوہر کی رائے اور اس کے مشوروں کا حاجت مند سمجھیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے غیر ضروری مسائل کو اس کے سامنے پیش کرنے سے بھی گریز کیجیے۔

*... ہمیشہ دھیان رکھیے کہ آپ عورت ہیں، لہٰذا اپنی نسوانیت کی پاس داری بھی کرتی رہیے او رمناسب وقت میں بہتر طور پر خود کو بھی اپنی نسوانیت کا احساس دلاتی رہیے۔

*... جب شوہر کسی سفر سے طویل مدت کے بعد لوٹے تو اس کی غیر موجودگی میں پیش آنے والی مشکلات او رمشقتوں کو شکوے اور ناراضگی کے انداز میں پیش نہ کیجیے۔

*... اپنے بچوں کو بھی ان کی عمر کے لحاظ سے اپنے والد کے گھر لوٹنے کے وقت استقبال کرنے کے آداب سکھائیے۔

*... شوہر کے گھر لوٹتے ہی یا سو کر اٹھنے کے وقت یا کھانا کھاتے ہوئے بچوں کی شکایتیں اس کے سامنے پیش نہ کیجیے ۔ اس طرح کرنے سے شوہر او ربچوں دونوں پر مضراثرات مرتب ہوں گے، بلکہ یہ شکایات دوسرے مناسب موقع پر کیجیے۔

*... بچوں کی سرزنش کرتے ہوئے یا انہیں تنبیہ کے طور پر سزا دیتے ہوئے شوہر کے ساتھ دخل اندازی نہ کیجیے۔

*... اپنے شوہر او ربچوں کے درمیان بہترین خوش گوار تعلقات استوار کرنے کی کوشش کیجیے، خواہ آپ کے شوہر کتنے ہی مصروف ہوں ، مگر یہ کوشش ایسی حکمت عملی کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان کے کاموں میں خلل واقع نہ ہو۔

*... جب گھر سے شوہر اپنے کام سے دور گیا ہو تو انہیں اس کا احساس دلائیے کہ آپ ان کی غیر موجودگی میں بچوں کی ذمے داری کا بوجھ اٹھائیں گی اور شوہر کی مشاورت کے ساتھ سارے کام انجام دیں گی۔

*... اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اپنائے گئے اصولوں اور طریقوں کے نتائج کا فوری انتظار نہ کیجیے، ورنہ شوہر کے مایوس ہو جانے یا تربیت سے غافل ہو جانے کا امکان ہے۔

*... اپنی اولاد کی غلطیوں پر صرف تنبیہ کر دینا کافی نہیں ، بلکہ انہیں مناسب سزا بھی دیجیے۔

*... بچوں کی فراغت کے اوقات میں اور خاص کر چھٹیوں میں ان کے لیے کسی صحت مند او رمفید مشغلے کا انتخاب کیجیے، تاکہ ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔

*... اپنی بیٹیوں کی دوست بن کر رہیے اور ان کے معاملے میں فطری وطبعی تبدیلیوں کا احساس وادراک کیجیے کہ جن سے نوجوان لڑکیوں کو مرحلہ وار گزرنا پڑتا ہے۔

*... تربیت کے عملی نمونے اختیار کرکے اپنی بچیوں کی شخصی تربیت کرتے ہوئے اس میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔

*... شوہر کی دل بستگی او راس کے ساتھ بہترین توجہ کا معاملہ کرتے ہوئے اولاد کی خبرگیری او رگھر کے کام کا ایسا نظم بنائیے کہ ان تینوں ذمے داریوں کی ادائیگی میں توازن برقرار رہے۔

*... شوہر کے والدین کے ساتھ اپنے والدین جیسی محبت واحترام اور خدمت کا خیال رکھیے، انہوں نے آپ کو ایک بہترین او ربیش قیمت ہدیہ آپ کے شوہر کی صورت میں عطا کیا ہے ۔

*... شوہر کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور دو طرفہ تعلقات کا خاص اہتمام کیجیے، خواہ آپ کے شوہر خود سے اس کا زیادہ اہتمام نہ کرتے ہوں۔

*... شوہر کے مہمانوں کی خاطر مدارات کا بھی خیال رکھیے اور اچانک مہمان آجانے یا مہمانوں کی کثرتِ آمدورفت سے ناراضگی اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ نہ کیجیے۔

*... شوہر کے ضروری کاغذات، فائلیں اور اہم سامان کی خاص حفاظت کیجیے او راسے سنبھال کر رکھیے۔

*... گھر کو ہر وقت اس انداز سے رکھیے کہ کسی بھی وقت کوئی مہمان آجائے تو خفت اور شرمندگی محسوس نہ ہو او رشوہر کی کتابیں، فائلیں اور روز مرہ استعمال کی چیزوں کو قرینے اور ترتیب سے رکھیے۔

*... دیر سے گھر آنے پر باز پُرس او رناراضگی کا طریقہ اپنانے کے بہ جائے شوہر کو اپنے شوق ورغبت کے ساتھ انتظار کااحساس دلاتے ہوئے اسے گھر کا بوجھ اٹھانے پر ستائشی کلمات سے بھی نوازیے۔

*... شوہر کو کسی بات سے تنگ ہو کر غصے کے اظہار کا موقع نہ دیجیے، بلکہ اشارے او رانداز سے بھی فوراً ان کی مرضی کو بھانپ لینا چاہیے۔

*... اپنے شوہر سے زیادہ شکوے شکایت کرنے سے باز رہیے۔

*... شوہر کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتی رہیے کہ ان کے کام سب سے اولین ترجیح کے لائق ہیں ، چاہے آپ کو دوسری مصروفیات کتنی ہی درپیش ہوں۔

*... یادرکھیے، شوہر کا یہ حق ہے کہ وہ آپ کے او رآپ کے گھر والوں کے درمیان ہونے والے امور او رمعاملات سے واقف او رباخبر رہے۔

*... آپ شوہر کو اس بات کا احساس دلائیے کہ آپ کو اپنے شوہر پر توجہ او رپیار ہے۔ کام یاب بیوی وہی ہوتی ہے جس کی محبت اور تعلق کا شوہر کو ادراک ہو ۔

*... کام کاج کی کثرت او رگھریلو امور میں مشغولیت آپ کی طبیعت پر منفی اثرات مرتب نہ کرنے پائیں۔

*... اپنے گھر کی باتوں کو ادھر اُدھر نہ پھیلائیے۔ اپنے گھر کے رازوں کو محفوظ رکھنے کااہتمام کیا کیجیے۔

*... دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے شوہر کا کبھی موازنہ نہ کیجیے، بلکہ اپنے شوہر کی خوبیوں کو دیکھا کیجیے۔

*... عورتوں میں اصلاح کا کام کرنے کے لیے مشورے کے طریقے کو مؤثر بنانے کی کوشش کیجیے، تاکہ آپ سہولت او رحکمت عملی کے ساتھ وقت ضائع کیے بغیر مطلوبہ ہدف حاصل کرسکیں۔

*... وہ مادی معیار زندگی جو عام طور پر عورتوں کو اپنے میں منہمک رکھتا ہے ، آپ اس مادی معیار سے بہ خوبی واقف رہیے، تاکہ دوسری خواتین کو مناسب او رنرم گفت گو کے ذریعے اس مادیت سے نکال سکیں۔

*... اپنی بہنوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے دل جیتنے کی کوشش کیجیے، پھر وہ عقل وشعور کے ساتھ آپ کی تابع دار ہو جائیں گی۔ یہی طریقہٴ کار خواتین کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔

*... اپنے کاموں میں اپنے ساتھ دوسروں کو شریک کیجیے، جو آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے کاموں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس طرز عمل سے آپ کی ذمے داریوں کا بوجھ بڑھنے نہیں پائے گا، بلکہ اس میں توازن قائم رہے گا

رزق میں برکت کیسے ہو؟

مفتی محمدالله خلیلی قاسمی
رزق میں برکت کیسے ہو؟

اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اقتصادی انقلاب کے بعد جب سے دنیا کا معاشی نظام کفرو الحاد کے ہاتھوں میں آیا، تب لوگوں کی سوچ کا دھارا بدل گیا۔ پہلے جب تجارت ومعاملات میں مذہب کا عمل دخل تھا، لوگوں کی ذہنیت امانت ودیانت اور فکر آخرت سے معمور تھی، لوگ اگر ایک طرف رزق کے حصول کی تدبیریں کرتے تھے ، تو دوسری طرف رازق کائنات پر توکل کرتے تھے او راس کی رضا جوئی کے لیے کوشاں رہتے تھے، مگر آج دنیا کا نقشہ بد ل چکا ہے ، چاروں طرف کفر ومادیت کا دور دورہ ہے ، پورا کا پورا اقتصادی ومعاشی نظام غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے ، اسی لیے مذہبی قدریں اور دینی روایات پامال ہو رہی ہیں، ہر شخص جائز وناجائز کسی بھی طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کی دھن میں ہے اور تو اور ، خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حصولِ زرق کے لیے اسلامی تعلیمات کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا، ان کے دلوں میں (معاذ الله) یہ خیال گھر کر چکا ہے کہ اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اقوامِ عالم کی طرح دولت نہیں کمائی جاسکتی، حالاں کہ یہ ایک نہایت بے ہودہ اور مہمل خیال ہے، اسلام نے دنیا کو ایک مکمل اور دائمی نظام حیات پیش کیا ہے، جو ہر طرح کے حالات میں اس کی ہمہ جہت رہ نمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے ، عوام تو عوام، اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی حصول رزق کے لیے حیران وپریشان نظر آتے ہیں ، لیکن ان کی نظر کبھی ان اعمال کی طرف نہیں جاتی ، جنہیں الله تعالیٰ نے کشادگیٴ رزق اور کثرتِ مال کا سبب قراردیا ہے ، قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا باعث ہیں، ہم درج ذیل سطور میں مختصراً دس اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر الله تعالیٰ کی طرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے:

توبہ واستغفار
قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے :﴿فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفاراً، یرسل السماء علیکم مدراراً﴾
(سورة النوح، آیت:11-10)

”میں نے ان ( قوم)
سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔“

اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو استغفار کی دعوت دی :﴿یقوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدراراً ویزدکم قوة الی قوتکم ولا تتولوا مجرمین﴾
(سورہ ہود، آیت:52)

” اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی مانگو، پھر اپنے رب سے رجوع کرو، وہ تم پر خوب برسنے والے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ
کرے گا اور ( دیکھو) مجرم بن کر منھ نہ پھیرو۔“

حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔“ (ابوداؤد:1518)

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ لوگوں کے ساتھ طلبِ بارش کے لیے نکلے، آپ صرف استغفار کرکے واپس آگئے، لوگوں نے عرض کیا حضرت! ہم نے آپ کو استسقاء کی دعا کرتے سنا ہی نہیں ، آپ نے فرمایا میں نے آسمان سے بارش برسانے والے سے بارش طلب کی ہے، پھر آ پ نے آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔ امام حسن بصری ہر اس شخص کو استغفار کا حکم دیتے جو آپ سے خشک سالی، فقر، اولاد کی کمی اور باغات سوکھنے کی شکایت کرتا۔

توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے، اپنے کیے پر شرمندہ ہو ، آئندہ ترکِ معصیت کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہواعمال خیر سے اس کا تدارک کرے، اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو ، تو اس کی توبہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ صاحب حق سے معاملہ صاف کرے۔ ان شرائط کے بغیرتوبہ بے حقیقت ہے۔

تقوی وپرہیز گاری
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے ، تقوی ان امور میں سے ایک ہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ومن یتق الله یجعل لہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب﴾
(سورہ طلاق، آیت:3,2)

”جو الله سے ڈرے گا الله اس کے لیے راہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔“

حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کشادگیٴ رزق کے متعلق یہ سب سے مہتم بالشان آیت ہے ، دوسری جگہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ ولو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء والارض ولکن کذبوا فاخذنٰھم بما کانوا یکسبون﴾
(سورة الاعراف:96)

”اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے ، تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا
اس لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔“

سورہٴ مائدہ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ولو انھم اقاموا التوراة والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم، منھم امة مقتصدة، وکثیر منھم فاستقون﴾
(سورہ مائدہ:66)

”اگر وہ تورات اور
انجیل او راس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی ہے قائم کرتے، تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ، ا ن میں ایک گروہ ضرور راہ راست پر ہے، لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو فسق وفجور کے مرتکب ہیں“۔

اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ ”برکات“ استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سے بہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مراد نباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمان باپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں من جانب الله خیر پائی جائے۔

عبادت خدا وندی میں انہماک
اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضور میں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے، حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بلاشبہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھردوں گا اورتمہاری محتاجگی کا دروازہ بند کروں گا، اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا او رتمہاری محتاجگی کا دروازہ بندہ نہیں کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:4107)

توکل علی الله
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکل علی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾
(سورہٴ طلاق:3)

”جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہو گا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت) مقرر کر رکھا ہے۔

حضرت عمر ابن
الخطاب نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ الله پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں۔“ (مسنداحمد، ح:205)

امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ الله پر دل کے اعتماد کو توکل کہتے ہیں ، علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ الله پر بھروسہ اور اپنی طرف سے عاجزی کے اظہار کو توکل کہتے ہیں۔ ملا علی قاری  کے بقول اس بات کا یقین کہ موجودات میں صرف الله کی ذات مؤثر ہے، کسی چیز کا نفع ، نقصان ،امیری، غریبی، صحت، مرض ، حیات او رموت وغیرہ تمام چیزیں الله تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔

توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے او رہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ، پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھر توکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)

الله کے راستے میں خرچ کرنا
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وما انفقتم من شیِء فھو یخلفہ وھو خیر الرزقین﴾
(سورة سبا:39)

”اور جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا اجر اس کے پیچھے آئے گا اور وہ بہترین رازق ہے۔“

دوسری جگہ فرمان
جاری ہے:﴿الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشآء، والله یعدکم مغفرة منہ وفضلا، والله واسع علیم﴾ ( سورة البقرہ:268)

”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سے مغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کر
تا ہے ، الله بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔“

حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ” اے ابن آدم! خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:2123)

حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا:” اے بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو۔“ ( مشکوٰة، ح:1885)

طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک  سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگا ہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی ( کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)

علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میں مشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراء الذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہ علیم﴾
(سورة البقرة:273)

”اعانت کے اصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کرس
کتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مال تم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔“

صلہ رحمی واقربا پروری
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعت رزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)

حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” جسے درازیٴ عمر، وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اور شتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔“ ( مسنداحمد، حدیث:1212)

رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پر ہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔

کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد  روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے دیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)

حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( مسند احمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)

یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا
حضرت عبدالله بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” پے درپے حج وعمرہ کرو، کیوں کہ یہ فقر او رگناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور ( مقبول) کا بدلہ صرف جنت ہے۔“ (مسند احمد، حدیث:73669،ترمذی، حدیث:807)

الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجر فی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾
(سورة النساء:100)

”جو کوئی الل
ه کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا“۔

ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کی طرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دین قائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔

یہ وہ دس اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ، لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ، انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بے کار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تو نگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ” ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے او رمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔“ ( فتح الباری، ج:11، ص:232)

اسلامی تقویم کا تحقیقی جائزہ

تاریخ کی ابتدا کب اور کس طرح ہوئی؟
علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوط آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی ، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج مصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا، علامہ عینی مزید لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوس ( یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ داحس ( جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی اور ان دونوں جنگوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوالعقد الفرید ج3 ص 74 وابن اثیر 384 پھرجنگ غبراء سے، پھر جنگ ذی قار سے پھر جنگ فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔

اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ، پھر اصحاب الفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔ ( ملاحظہ ہو عمدة القاری للعلامہ بدرالدین عینی ج17 ص66) لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔

اسلامی تاریخ (ہجری) کی ابتدا
حضور صلی الله علیہ وسلم27 صفر المظفر کو مکہ سے ہجرت کرکے غار ثور میں مقیم ہوئے، یکم ربیع الاول کو غار ثور سے آپ صلی الله علیہ وسلم اور صدیق اکبر روانہ ہوئے ۔8 ربیع الاول کو قبا پہنچے اور 12 ربیع الاول کو بروز جمعة المبارک (مطابق 27 ستمبر622ء مدینہ منورہ پہنچے چوں کہ ہجری سال کا آغاز ربیع لاول سے ہوتا تھا، اس لیے صحابہ کرام ربیع الاول سے حساب رکھتے تھے ،لیکن صحابہ کرام ایک ایک ماہ اور دو مہینے کے فصل سے تاریخ متعین کرتے تھے، حضور صلی الله علیہ وسلم اور صدیق اکبر کا پورا زمانہ اسی طرح گزر گیا، پھر فاروق اعظم نے اس مسئلہ کو مستقل طور پر طے کر دیا۔ اس تاریخی حقیقت کا اشارہ مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب رسول رحمت میں کیا ہے ، بہرحال تاریخ اسلامی کا مسئلہ مستقل طور پر سن 17ھ جمادی الاولیٰ بروز بدھ طے پا گیا۔

حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ابو موسیٰ اشعری عراق وکوفہ کے گورنر تھے، ایک دفعہ انہوں نے حضرت عمر فاروق کے پاس خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات او رہدایتیں ملتی ہیں ان میں تاریخ نہیں ہوتی ، اس لیے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس تاریخ کا حکم نامہ ہے؟ جس کی بنا پر بعض دفعہ ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ اس پر غور کرنے کے لیے حضرت عمر نے مجلس شوری منعقد کی اور اکابر صحابہ کو جمع کیا، جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی بھی تھے۔ یہ بحث شروع ہوئی کہ سن کی ابتدا کب سے قرار دی جائے ۔ حضرت علی  نے ہجرت کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہو گیا۔

اسلامی تاریخ کے لیے ہجرت کی ترجیح کی وجوہات
ہجرت کے بعد مدینہ میں ایمان والوں کو ایک مضبوط قلعہ او رمستحکم مرکز مل گیا۔ مسلمانوں کو آزادی سے عبادت کرنے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آنے جانے کے مواقع مل گئے۔ اہل اسلام نسبتاً چین سے زندگی گزارنے لگے۔ اسلامی طرز معاشرت کے خدوخال نمایاں ہوئے ، اسلام کے اقتصادی ومعاشی پروگراموں کے لیے عملی راہ ہموار ہو گئی ، تعلیمات اسلام کی نشرواشاعت کے لیے پاکیزہ ماحول مہیا ہوا، ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ حضور صلی الله علیہ وسلم تھے۔ اسلام کی اسی ظاہری او رباطنی شان وشوکت کے پیش نظر ہجرت کی تاریخ سے اسلامی تقویم کا آغاز کیا گیا۔

اسلامی سن کا آغاز محرم الحرام سے کیوں ہوا؟
اس کے بعد مہینے کے بارے میں مشورہ ہوا، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے رجب المرجب کی رائے دی، کیوں کہ یہ اول شہر الحرام ہے، حضرت طلحہ نے رمضان المبارک کی رائے دی، بعض حضرات نے ربیع الاول کی رائے دی۔ حضرت عثمان اور حضرت علی  نے محرم الحرام کی رائے دی، اس کو فاروق اعظم نے پسند فرمایا۔

تاریخی زمانے
بعض حضرت نے تاریخ کو تین زمانوں میں تقسیم کیا: قرون اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔ قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔ قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔

تاریخ کی اقسام
تاریخ کی چار قسمیں ہیں:
تاریخ عام۔ وہ ہے جس میں ساری دنیا کے آدمیوں کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ خاص۔ وہ ہے جس میں کسی ایک قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کی سلطنت کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ روایتی۔ وہ ہے جس میں راوی کا بیان اس کے مشاہدے کی بنا پر درج کیا گیا ہو۔
تاریخ درایتی۔ وہ ہے جس کو آثار قدیمہ ومنقولہ او رعقلی تخمینوں کے ذریعہ ترتیب دیا گیا ہو۔

تاریخ کے ماخذ اوراس کے فوائد
تاریخ کے ماخذ کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :
آثار مضبوط۔ یعنی تمام لکھی ہوئی چیزیں، مثلاً کتابیں، یادداشتیں، دفتروں کاغذات ، پرانے فیصلے، دستاویز وغیرہ ۔ آثار منقولہ، یعنی زبان زد عام باتیں مثلاً کہانیاں ، نظمیں، ضرب الامثال وغیرہ۔ آثار قدیمہ یعنی پرانے زمانے کی نشانیاں، مثلاً شہروں کے خرابے قلعے، مکانات ، کتبے، تصویریں وغیرہ۔ تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ ایک ایسی چیز ہے او رایک ایسا فن ہے جوکثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اورتاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کی پاک سیرتوں اور سلاطین کی حکومتوں او ران کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے۔ ( مقدمہ ابن خلدون) تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا محمد میاں مصنف تاریخ اسلام لکھتے ہیں کہ جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملا کر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے ۔

تقویم کی تحقیق اوراس کی ضرورت
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے کیلنڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

تقویم کی اقسام
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار تین چیزیں ہیں ۔ سورج، چاند ، ستارے۔ اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں ۔ شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عیسوی ،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ رومی ، تاریخ الہٰی۔

تاریخ عیسوی
تاریخ عیسوی ( جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔

تاریخ ہندی
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں ، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔

تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔

نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے ، مہینے یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان ،اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔

تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ الہیٰ
تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں 2286ء سال شمسی گزر چکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے ۔

تاریخ رومی کے مہینے ( جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں: تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط ، اذار، نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔ تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے ۔

تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں : فروردین ، اردی، بہشت ،خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو،مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ ( یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں۔

تاریخ قمری
تاریخ قمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ اسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔

سنہ شمسی اور قمری میں فرق
جاننا چاہیے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع یوم کا ہوتا ہے ، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال ہو جائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔

قمری تقویم کے فوائد
مروجہ تقویم میں سے جو فوائد قمری تقویم میں ہیں وہ کسی اور تقویم میں نہیں ہیں ،نہ ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ رب کائنات نے روز مرہ کے کام کاج اور لین دین کی آسانی وسہولت کی خاطر چاند کا نظام اس طرح بنایا جس سے ہر انسان ہر علاقے میں آسانی سے تاریخ کا تعین کر سکتا ہے۔ مثلاً مغرب کی طرف سے جب چاند پتلا نظر آتا ہے تو ہر انسان ( عالم، جاہل، شہری ، دہقانی) معلوم کرسکتا ہے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے، اسی طرح چاند جب بالکل مکمل ہو تو اس سے چودھویں تاریخ کا تعین کرسکتا ہے ، اسی طرح جب مشرق کی جانب سے چاند باریک طلوع ہوتا ہے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ ستائیس یا اٹھائیس تاریخ ہے ، اسی طرح روز روز واضح طور پر چاند کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے، جس سے ہر انسان معمولی تدبر سے تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔ بخلاف شمسی تقویم (کیلنڈر) کے کہ اس سے تاریخوں کا پتہ نہیں چل سکتا، مثلاً دسمبر کی پندرہ تاریخ ہو تو کوئی آدمی آفتاب دیکھ کر یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ آج پندرہ تاریخ ہے ،نہ اس کی ہیئت وصورت میں نمایاں تبدیلی آتی ہے ،جس کو دیکھ کر تاریخ کا تعین ہو سکے ، نیز شمسی تاریخ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے ،جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا۔ اس لیے الله تعالیٰ نے احکام وعبادات کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے ، قرآن کہتا ہے ﴿یسئلونک عن الاھلة قل ھی مواقیت للناس والحج﴾ ( البقرہ:189)

قرآن پاک میں قمری مہینوں کا ذکر
قمری مہینوں کا ذکر قرآن پاک میں صراحةً موجود ہے، جیسے۔ ﴿شھر رمضان الذی …﴾ اس آیت میں قمری سال کے ایک ماہ رمضان کا نام صراحتاً ذکر ہے یا ضمناً ذکر ہے۔ جیسے ﴿الحج اشھر معلومات ﴾البقرة اس میں اشہر سے مراد شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اسلامی سال کے سارے مہینوں کا ذکر ضمناً آیا ہے وہ آیت یہ ہے :﴿ان عدة الشھور اثنا عندالله عشر شھرا﴾، یقینا شمار مہینوں کا کتب الہٰی میں الله کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اس آیت میں جن بارہ مہینوں کا ذکر آتا ہے ان سے مراد قمری مہینے ہیں ،اس کی دلیل بھی یہی آیت ہے، وہ اس طرح کہ ان بارہ میں سے جو چار ماہ ادب کے لیے خاص کر دیے گئے ہیں، وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم او ررجب ہیں۔ جنہیں ” اشھر حرم“ کہا جاتا ہے ۔ جب یہ چار ماہ قمری کے ہیں تو باقی آٹھ ماہ بھی یقینا قمری کے ہوں گے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قمری مہینوں کی ترتیب اور ان کے اسماء جو اسلام میں معروف ہیں یہ انسانوں کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ رب العالمین نے جس روز زمین وآسمان کو پیدا کیا اسی دن سے یہ ترتیب اور یہ نام، ہر ماہ کے ساتھ خاص خاص احکام متعین فرما دیے ہیں، جس کی ”تعبیر دین قیم“ کے ساتھ فرمائی ہے تو قمری تقویم الله تعالیٰ کی پسندیدہ اسلامی تقویم ہے۔

چند اعتراضات کے جوابات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قمری حساب یقینی نہیں، کیوں کہ مہینہ کبھی 29 دن کا ہوتا ہے ، کبھی 30 کا ،سو اس کا جواب یہ ہے کہ رویت ہلال کی یقینی تاریخ متعین نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ اعتراض جاری ماہ کے متعلق نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس کی تعیین رویت ہلال سے ہو چکی ہے، البتہ آئندہ ماہ کے بارے میں اندیشہ ہے، مگر اس کا تعین بھی یوم لگانے سے ہو سکتا ہے، مثلاً 8 شوال1430ھ بروز جمعہ تو لفظ جمعہ سے تاریخ کا تعین ہو گیا، دوسری بات یہ ہے کہ عملی رویت ہلال مذہبی تقریبات کے لیے ضروری ہے عام حساب کے لیے ضروری نہیں۔ یہ حسابی طریقہ پر متعین کیا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا میں چاندکا طلوع ایک دن میں نہیں ہوتا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں برصغیر سے ایک یا دو دن پہلے نظر آجاتا ہے تو عرب ممالک اورپاکستان وبنگلہ دیش کی تاریخوں میں فرق ہوتا رہتا ہے تو مذہبی تقریبات کن لوگوں کی تاریخ پر منا ئی جائے؟! اگر ہر جگہ رویت کو معتبر کیا جائے تو عبادت بیک وقت ادا نہیں ہو سکتی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے لیے ہر جگہ کی رویت کو مستند قرار دیا جائے گا، کیوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، سارے انسانوں کے لیے تمام مقامات اور تمام زمانوں کے لیے ہے تو ساری دنیا میں بیک وقت عبادات ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔

مثلاً مکہ مکرمہ کی اذان صبح کے مطابق انڈونیشیا میں نماز فجر ادا کرنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ کے افاق ومطلع کے موافق آسٹریلیا میں عید منانا ممکن نہیں ہے۔ تو مسجد حرام کی نمازاپنے وقت پر ادا ہو گی انڈونیشیا کی نمازیں اپنے وقت پر، نیز حج، جو مقامی عبادت ہے، وہ مکہ ہی کے افق کے مطابق ادا ہو گا اور مشرق بعید کے ممالک میں عید وغیرہ اپنے اپنے مطلع کے مطابق ادا ہوں گی اور یہ کوئی نقص نہیں ہے، یہ فرق تو عیسائیوں اور ہندوؤں کے شمسی حساب میں بھی ہے، مثلاً جس وقت ویٹی کن میں کرسمس کا گھنٹہ بجتا ہے اس سے تقریباً گیارہ گھنٹے قبل جزیرہ سخالین میں کرسمس کی عبادت ہو چکی ہوتی ہے اورجس وقت بنارس میں بسنگ پنجمی کا اعلان ہوتا ہے ٹھیک اسی وقت ماریشس میں نہیں ہوتا۔ تو یہ بات کہ تقریبات بیک وقت ادا نہیں ہو سکتی ، قمری ہجری تقویم کے سلسلے میں بطور اعتراض پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تقویم قمری ہجری اختیار کرنے کی صورت میں جن دقتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سب واہمہ ہیں اور دوسری بڑی وجہ اسلامی ممالک میں اسلامی تقویم کا عدم نفاذ ہے، اس لیے سب اس نظام سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں ،اگر یہ تاریخ نافذ ہو تو تجربے اور مرورایام سے تمام شبہات ختم ہو سکتے ہیں، عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، جہاں اسلامی ہجری تقویم نافذ ہے وہاں کے کیلنڈر اور حساب کتاب میں کبھی ابہام نہیں پایا گیا اور کسی کو کوئی دقت اور اعتراض بھی نہیں۔

شمسی اور قمری تاریخ کے متعلق آخری او راہم بات حضرت مفتی اعظم کے اس اقتباس میں ہے کہ مفتی اعظم پاکستان مولانا محمدشفیع لکھتے ہیں کہ ” اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے، بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ ، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے، مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے۔ شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے، تاکہ رمضان او رحج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں ، فقہاء نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ ہاں! اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء او رسنت رسول صلی الله علیہ وسلم او رخلفائے راشدین میں قمری حساب استعمال کیا گیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت وثواب ہے اورشمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔“

حضرت امام ابو حنیفہرحمتہ اللہ کے مختصر حالات زندگی

امام ابو حنیفہرحمتہ اللہ "نعمان بن ثابترحمتہ اللہ" ۸۰ھ – ۱۵۰ھ
حضرت امام ابو حنیفہرحمتہ اللہ کے مختصر حالات زندگی
آپ کا اسم گرامی نعمان اور کنیت ابو حنیفہ ہے۔ آپ کی ولادت ۸۰ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔ آپ کے والد کا نام ثابترحمتہ اللہ تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان و اشراف میں بڑی فہم و فراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابترحمتہ اللہ بچپن میں حضرت علیرضی اللہ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علیرضی اللہ نے آپ اور آپ کی اولاد کے لئے برکت کی دعا فرمائی جو ایسی قبول ہوئی کہ امام ابو حنیفہرحمتہ اللہ جیسا عظیم محدث و فقیہ اور خدا ترس انسان پیدا ہوا۔
آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علم حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی رحمتہ اللہ کوفی ۱۷ھ – ۱۰۴ھ" جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحاب رسولرضی اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہے، نے آپ کو تجارت چھوڑ کر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ آپ نے اما شعبی رحمتہ اللہ کوفی کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی و عملی دنیا میں امام اعظم رحمتہ اللہ کہلائے۔ آپ نے کوفہ ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کرنے کے ساتھ حصول علم کے لئے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور ملک شام کے متعداد اسفار کئے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہکو ملک کے قاضی ہونے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا چنانچہ آپ نے صراحتہ انکار کر دیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے ۱۴۶ ہجری میں آپ کو قید کر دیا گیا۔ امام صاحب رحمتہ اللہ کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمد رحمتہ اللہ جیسے محدث و فقیہ نے جیل میں ہی امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ سے تعلیم حاصل کی۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفہ وقت نے امام صاحب رحمتہ اللہ کو زہر دلوا دیا۔ جب امام صاحب رحمتہ اللہ کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پا گئے۔ تقریبا پچاس ہزار افراد نے نماز جنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کئے گئے۔ ۳۷۵ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد "جامع الامام الاعظم رحمتہ اللہ " تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ عرض ۱۵۰ھ میں صحابہ و بڑے بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث و فقیہ دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالی کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تاکہ خلیفہ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کراسکے جس کی وجہ سے مولاء حقیقی ناراض ہو۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے بارے میں حضور اکرمصلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری رحمتہ اللہ ۸۴۹ھ – ۹۱۱ھ" نے اپنی کتاب "تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمتہ اللہ " میں بخاری و مسلم و دیگر کتب حدیث میں وارد نبی اکرم کے اقوال : " اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہو گا تو اہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کر لیں گے۔ "بخاری" اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہو گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرلے گا۔ "مسلم" اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو گا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کر لے گا "طبرانی" اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہو گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کر لیں گے "طبرانی" ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضور اکرمصلی اللہ علیہ و سلم نے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ "شیخ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ " کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت و فضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن حجر الھیتمی المکی الشافعی رحمتہ اللہ"۹۰۹ھ – ۹۷۳ھ" نے اپنی مشہور و معروف کتاب " الخیرات الحسان فی مناقب امام ابی حنیفہ" میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ ہیں اس لئے کہ اہل فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب رحمتہ اللہ فائز تھے۔
وضاحت : ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر عصر قدیم سے عصر تک ہر زمانہ کے محدثین و فقہاء علماء کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ ہیں۔ علماء شوافع رحمتہ اللہ نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے جیسا کہ شافعی مکتبہ فکر کے دو مشہور جید علماء مفسر قرآن کے اقوال ذکر کئے گئے۔ 
حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی تابعیت
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ "جو فن حدیث کے امام شمار کئے جاتے ہیں" سے جب امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو پایا ، اس لئے کہ وہ ۸۰ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور وہاں صحابہ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن اوفیرضی اللہ موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالکرضی اللہ تھے اور ان کا انتقال ۹۰ یا ۹۳ ہجری میں ہواہے۔ ابن سعد رحمتہ اللہ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ نے حضرت انس بن مالکرضی اللہ کو دیکھا ہے اور وہ طبقہ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالکرضی اللہ کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابہ کرام اس وقت حیات تھے۔
شیخ محمد بن یوسف صالحی و مشقی شافعی رحمتہ اللہ نے " عقود الجمان فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمتہ اللہ " کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابہ کرام کی کثرت تھی۔
اکثر محدثین " جن میں امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ ، علامہ نووی رحمتہ اللہ ، علامہ ابن حجر رحمتہ اللہ ، علامہ ذہبی رحمتہ اللہ ، علامہ زین العابدین سخاوی رحمتہ اللہ ، حافظ ابو نعیم اصبہانی رحمتہ اللہ ، امام دار قطنی رحمتہ اللہ ، حافظ ابن البر رحمتہ اللہ اور علامہ ابن الجوزی رحمتہ اللہ کے نام قابل ذکر ہیں" کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہنے حضرت انس بن مالکرضی اللہ کو دیکھا ہے۔
محدثین و محققین کی تشریح کے مطابق صحابی رسولرضی اللہ سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ صحابی کا دیکھنا بھی کافی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہنے تو صحابہ کرام کی ایک جماعت کو دیکھنے کے علاوہ بعض صحابہ کرام خاص کر انس بن مالکرضی اللہ سے احادیث روایت بھی کی ہیں۔
غرضیکہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ ، تابعین تبع تابعین کا زمانہ ہے جس دور کی امانت و دیانت اور تقوی کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم " سورہ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰" میں فرمایا ہے۔ نیز نبی اکرم کے فرمان کے مطابق یہ بہترین زمانوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات میں ہی حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے متعلق بشارت دی تھی ، جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے جس سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی تابعیت اور فضیلت روز روشن کی واضح ہو جاتی ہے۔