اٹھارہویں صدی میں یورپ کے
اقتصادی انقلاب کے بعد جب سے دنیا کا معاشی نظام کفرو الحاد کے ہاتھوں میں آیا، تب
لوگوں کی سوچ کا دھارا بدل گیا۔ پہلے جب تجارت ومعاملات میں مذہب کا عمل دخل تھا،
لوگوں کی ذہنیت امانت ودیانت اور فکر آخرت سے معمور تھی، لوگ اگر ایک طرف رزق کے
حصول کی تدبیریں کرتے تھے ، تو دوسری طرف رازق کائنات پر توکل کرتے تھے او راس کی
رضا جوئی کے لیے کوشاں رہتے تھے، مگر آج دنیا کا نقشہ بد ل چکا ہے ، چاروں طرف کفر
ومادیت کا دور دورہ ہے ، پورا کا پورا اقتصادی ومعاشی نظام غیر اسلامی بنیادوں پر
کھڑا ہوا ہے ، اسی لیے مذہبی قدریں اور دینی روایات پامال ہو رہی ہیں، ہر شخص جائز
وناجائز کسی بھی طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کی دھن میں ہے اور تو اور ، خود
مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حصولِ زرق کے لیے اسلامی تعلیمات کو بالائے طاق رکھنے
میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا، ان کے دلوں میں (معاذ الله) یہ خیال گھر کر چکا ہے
کہ اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اقوامِ عالم کی طرح دولت نہیں کمائی جاسکتی،
حالاں کہ یہ ایک نہایت بے ہودہ اور مہمل خیال ہے، اسلام نے دنیا کو ایک مکمل اور
دائمی نظام حیات پیش کیا ہے، جو ہر طرح کے حالات میں اس کی ہمہ جہت رہ نمائی کا
فریضہ انجام دیتا ہے ، عوام تو عوام، اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی حصول رزق کے لیے
حیران وپریشان نظر آتے ہیں ، لیکن ان کی نظر کبھی ان اعمال کی طرف نہیں جاتی ،
جنہیں الله تعالیٰ نے کشادگیٴ رزق اور کثرتِ مال کا سبب قراردیا ہے ، قرآن وحدیث
میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں
فراوانی کا باعث ہیں، ہم درج ذیل سطور میں مختصراً دس اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی
بجا آوری پر الله تعالیٰ کی طرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے:
توبہ واستغفار
قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے :﴿فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفاراً، یرسل السماء علیکم مدراراً﴾․ (سورة النوح، آیت:11-10)
”میں نے ان ( قوم) سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔“
اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو استغفار کی دعوت دی :﴿یقوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدراراً ویزدکم قوة الی قوتکم ولا تتولوا مجرمین﴾․ (سورہ ہود، آیت:52)
” اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی مانگو، پھر اپنے رب سے رجوع کرو، وہ تم پر خوب برسنے والے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا اور ( دیکھو) مجرم بن کر منھ نہ پھیرو۔“
حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔“ (ابوداؤد:1518)
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ لوگوں کے ساتھ طلبِ بارش کے لیے نکلے، آپ صرف استغفار کرکے واپس آگئے، لوگوں نے عرض کیا حضرت! ہم نے آپ کو استسقاء کی دعا کرتے سنا ہی نہیں ، آپ نے فرمایا میں نے آسمان سے بارش برسانے والے سے بارش طلب کی ہے، پھر آ پ نے آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔ امام حسن بصری ہر اس شخص کو استغفار کا حکم دیتے جو آپ سے خشک سالی، فقر، اولاد کی کمی اور باغات سوکھنے کی شکایت کرتا۔
توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے، اپنے کیے پر شرمندہ ہو ، آئندہ ترکِ معصیت کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہواعمال خیر سے اس کا تدارک کرے، اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو ، تو اس کی توبہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ صاحب حق سے معاملہ صاف کرے۔ ان شرائط کے بغیرتوبہ بے حقیقت ہے۔
تقوی وپرہیز گاری
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے ، تقوی ان امور میں سے ایک ہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ومن یتق الله یجعل لہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب﴾․ (سورہ طلاق، آیت:3,2)
”جو الله سے ڈرے گا الله اس کے لیے راہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کشادگیٴ رزق کے متعلق یہ سب سے مہتم بالشان آیت ہے ، دوسری جگہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ ولو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء والارض ولکن کذبوا فاخذنٰھم بما کانوا یکسبون﴾․ (سورة الاعراف:96)
”اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے ، تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔“
سورہٴ مائدہ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ولو انھم اقاموا التوراة والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم، منھم امة مقتصدة، وکثیر منھم فاستقون﴾․ (سورہ مائدہ:66)
”اگر وہ تورات اور انجیل او راس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی ہے قائم کرتے، تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ، ا ن میں ایک گروہ ضرور راہ راست پر ہے، لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو فسق وفجور کے مرتکب ہیں“۔
اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ ”برکات“ استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سے بہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مراد نباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمان باپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں من جانب الله خیر پائی جائے۔
عبادت خدا وندی میں انہماک
اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضور میں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے، حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بلاشبہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھردوں گا اورتمہاری محتاجگی کا دروازہ بند کروں گا، اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا او رتمہاری محتاجگی کا دروازہ بندہ نہیں کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:4107)
توکل علی الله
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکل علی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾․ (سورہٴ طلاق:3)
”جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہو گا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت) مقرر کر رکھا ہے۔
حضرت عمر ابن الخطاب نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ الله پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں۔“ (مسنداحمد، ح:205)
امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ الله پر دل کے اعتماد کو توکل کہتے ہیں ، علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ الله پر بھروسہ اور اپنی طرف سے عاجزی کے اظہار کو توکل کہتے ہیں۔ ملا علی قاری کے بقول اس بات کا یقین کہ موجودات میں صرف الله کی ذات مؤثر ہے، کسی چیز کا نفع ، نقصان ،امیری، غریبی، صحت، مرض ، حیات او رموت وغیرہ تمام چیزیں الله تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے او رہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ، پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھر توکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)
الله کے راستے میں خرچ کرنا
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وما انفقتم من شیِء فھو یخلفہ وھو خیر الرزقین﴾․ (سورة سبا:39)
”اور جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا اجر اس کے پیچھے آئے گا اور وہ بہترین رازق ہے۔“
دوسری جگہ فرمان جاری ہے:﴿الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشآء، والله یعدکم مغفرة منہ وفضلا، والله واسع علیم﴾․ ( سورة البقرہ:268)
”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سے مغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، الله بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔“
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ” اے ابن آدم! خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:2123)
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا:” اے بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو۔“ ( مشکوٰة، ح:1885)
طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگا ہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی ( کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)
علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میں مشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراء الذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہ علیم﴾․ (سورة البقرة:273)
”اعانت کے اصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مال تم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔“
صلہ رحمی واقربا پروری
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعت رزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)
حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” جسے درازیٴ عمر، وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اور شتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔“ ( مسنداحمد، حدیث:1212)
رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پر ہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔
کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے دیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( مسند احمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)
یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا
حضرت عبدالله بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” پے درپے حج وعمرہ کرو، کیوں کہ یہ فقر او رگناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور ( مقبول) کا بدلہ صرف جنت ہے۔“ (مسند احمد، حدیث:73669،ترمذی، حدیث:807)
الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجر فی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾․ (سورة النساء:100)
”جو کوئی الله کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا“۔
ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کی طرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دین قائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔
یہ وہ دس اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ، لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ، انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بے کار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تو نگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ” ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے او رمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔“ ( فتح الباری، ج:11، ص:232)
توبہ واستغفار
قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذکر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے :﴿فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفاراً، یرسل السماء علیکم مدراراً﴾․ (سورة النوح، آیت:11-10)
”میں نے ان ( قوم) سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔“
اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو استغفار کی دعوت دی :﴿یقوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدراراً ویزدکم قوة الی قوتکم ولا تتولوا مجرمین﴾․ (سورہ ہود، آیت:52)
” اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی مانگو، پھر اپنے رب سے رجوع کرو، وہ تم پر خوب برسنے والے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا اور ( دیکھو) مجرم بن کر منھ نہ پھیرو۔“
حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔“ (ابوداؤد:1518)
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ لوگوں کے ساتھ طلبِ بارش کے لیے نکلے، آپ صرف استغفار کرکے واپس آگئے، لوگوں نے عرض کیا حضرت! ہم نے آپ کو استسقاء کی دعا کرتے سنا ہی نہیں ، آپ نے فرمایا میں نے آسمان سے بارش برسانے والے سے بارش طلب کی ہے، پھر آ پ نے آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔ امام حسن بصری ہر اس شخص کو استغفار کا حکم دیتے جو آپ سے خشک سالی، فقر، اولاد کی کمی اور باغات سوکھنے کی شکایت کرتا۔
توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے، اپنے کیے پر شرمندہ ہو ، آئندہ ترکِ معصیت کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہواعمال خیر سے اس کا تدارک کرے، اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو ، تو اس کی توبہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ صاحب حق سے معاملہ صاف کرے۔ ان شرائط کے بغیرتوبہ بے حقیقت ہے۔
تقوی وپرہیز گاری
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے ، تقوی ان امور میں سے ایک ہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ومن یتق الله یجعل لہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب﴾․ (سورہ طلاق، آیت:3,2)
”جو الله سے ڈرے گا الله اس کے لیے راہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کشادگیٴ رزق کے متعلق یہ سب سے مہتم بالشان آیت ہے ، دوسری جگہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ ولو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء والارض ولکن کذبوا فاخذنٰھم بما کانوا یکسبون﴾․ (سورة الاعراف:96)
”اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے ، تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔“
سورہٴ مائدہ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ولو انھم اقاموا التوراة والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم، منھم امة مقتصدة، وکثیر منھم فاستقون﴾․ (سورہ مائدہ:66)
”اگر وہ تورات اور انجیل او راس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی ہے قائم کرتے، تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ، ا ن میں ایک گروہ ضرور راہ راست پر ہے، لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو فسق وفجور کے مرتکب ہیں“۔
اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ ”برکات“ استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سے بہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مراد نباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمان باپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں من جانب الله خیر پائی جائے۔
عبادت خدا وندی میں انہماک
اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضور میں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے، حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بلاشبہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھردوں گا اورتمہاری محتاجگی کا دروازہ بند کروں گا، اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو تمہارے ہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا او رتمہاری محتاجگی کا دروازہ بندہ نہیں کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:4107)
توکل علی الله
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکل علی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾․ (سورہٴ طلاق:3)
”جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہو گا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت) مقرر کر رکھا ہے۔
حضرت عمر ابن الخطاب نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ الله پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں۔“ (مسنداحمد، ح:205)
امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ الله پر دل کے اعتماد کو توکل کہتے ہیں ، علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ الله پر بھروسہ اور اپنی طرف سے عاجزی کے اظہار کو توکل کہتے ہیں۔ ملا علی قاری کے بقول اس بات کا یقین کہ موجودات میں صرف الله کی ذات مؤثر ہے، کسی چیز کا نفع ، نقصان ،امیری، غریبی، صحت، مرض ، حیات او رموت وغیرہ تمام چیزیں الله تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے او رہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ، پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھر توکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)
الله کے راستے میں خرچ کرنا
الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وما انفقتم من شیِء فھو یخلفہ وھو خیر الرزقین﴾․ (سورة سبا:39)
”اور جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا اجر اس کے پیچھے آئے گا اور وہ بہترین رازق ہے۔“
دوسری جگہ فرمان جاری ہے:﴿الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشآء، والله یعدکم مغفرة منہ وفضلا، والله واسع علیم﴾․ ( سورة البقرہ:268)
”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سے مغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، الله بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔“
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ” اے ابن آدم! خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔“ ( ابن ماجہ، ج:2123)
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا:” اے بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو۔“ ( مشکوٰة، ح:1885)
طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگا ہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی ( کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)
علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میں مشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراء الذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہ علیم﴾․ (سورة البقرة:273)
”اعانت کے اصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مال تم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔“
صلہ رحمی واقربا پروری
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعت رزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)
حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” جسے درازیٴ عمر، وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اور شتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔“ ( مسنداحمد، حدیث:1212)
رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پر ہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔
کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے دیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔“ ( مسند احمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)
یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا
حضرت عبدالله بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” پے درپے حج وعمرہ کرو، کیوں کہ یہ فقر او رگناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور ( مقبول) کا بدلہ صرف جنت ہے۔“ (مسند احمد، حدیث:73669،ترمذی، حدیث:807)
الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجر فی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾․ (سورة النساء:100)
”جو کوئی الله کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا“۔
ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کی طرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دین قائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔
یہ وہ دس اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ، لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ، انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بے کار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہ پرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا، اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تو نگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ” ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا نام محتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے او رمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔“ ( فتح الباری، ج:11، ص:232)
No comments:
Post a Comment