تاریخ کی ابتدا کب اور کس طرح ہوئی؟
علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان
کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوط آدم علیہ
السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی
، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ
السلام کے خروج مصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے
پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم
واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد
سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا، علامہ عینی مزید
لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا،
اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے
پہلے اہل عرب نے حرب بسوس ( یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے
درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے
بعد جنگ داحس ( جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی
ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی اور ان دونوں جنگوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ
ہوالعقد الفرید ج3 ص 74 وابن اثیر 384 پھرجنگ غبراء سے، پھر جنگ ذی قار سے پھر جنگ
فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔
اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کے اسلاف میں سے
ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ، پھر اصحاب الفیل
کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔ ( ملاحظہ ہو
عمدة القاری للعلامہ بدرالدین عینی ج17 ص66) لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور
یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس
نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے
منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی
جاتی ہے۔
اسلامی تاریخ (ہجری) کی ابتدا
حضور صلی الله علیہ وسلم27 صفر المظفر کو مکہ سے ہجرت
کرکے غار ثور میں مقیم ہوئے، یکم ربیع الاول کو غار ثور سے آپ صلی الله علیہ وسلم
اور صدیق اکبر روانہ ہوئے ۔8 ربیع الاول کو قبا پہنچے اور 12 ربیع الاول کو بروز
جمعة المبارک (مطابق 27 ستمبر622ء مدینہ منورہ پہنچے چوں کہ ہجری سال کا آغاز ربیع
لاول سے ہوتا تھا، اس لیے صحابہ کرام ربیع الاول سے حساب رکھتے تھے ،لیکن صحابہ
کرام ایک ایک ماہ اور دو مہینے کے فصل سے تاریخ متعین کرتے تھے، حضور صلی الله
علیہ وسلم اور صدیق اکبر کا پورا زمانہ اسی طرح گزر گیا، پھر فاروق اعظم نے اس
مسئلہ کو مستقل طور پر طے کر دیا۔ اس تاریخی حقیقت کا اشارہ مولانا ابو الکلام
آزاد نے اپنی کتاب رسول رحمت میں کیا ہے ، بہرحال تاریخ اسلامی کا مسئلہ مستقل طور
پر سن 17ھ جمادی الاولیٰ بروز بدھ طے پا گیا۔
حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ابو موسیٰ اشعری عراق
وکوفہ کے گورنر تھے، ایک دفعہ انہوں نے حضرت عمر فاروق کے پاس خط لکھا کہ آپ کی
طرف سے ہمیں جو احکامات او رہدایتیں ملتی ہیں ان میں تاریخ نہیں ہوتی ، اس لیے
معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس تاریخ کا حکم نامہ ہے؟ جس کی بنا پر بعض دفعہ ان پر عمل
کرنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ اس پر غور کرنے کے لیے حضرت عمر نے مجلس شوری منعقد
کی اور اکابر صحابہ کو جمع کیا، جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی بھی تھے۔ یہ
بحث شروع ہوئی کہ سن کی ابتدا کب سے قرار دی جائے ۔ حضرت علی نے ہجرت کی رائے دی
او راس پر سب کا اتفاق ہو گیا۔
اسلامی تاریخ کے لیے ہجرت کی ترجیح کی
وجوہات
ہجرت کے بعد مدینہ میں ایمان والوں کو ایک مضبوط قلعہ
او رمستحکم مرکز مل گیا۔ مسلمانوں کو آزادی سے عبادت کرنے اور حضور صلی الله علیہ
وسلم کے پاس آنے جانے کے مواقع مل گئے۔ اہل اسلام نسبتاً چین سے زندگی گزارنے لگے۔
اسلامی طرز معاشرت کے خدوخال نمایاں ہوئے ، اسلام کے اقتصادی ومعاشی پروگراموں کے
لیے عملی راہ ہموار ہو گئی ، تعلیمات اسلام کی نشرواشاعت کے لیے پاکیزہ ماحول مہیا
ہوا، ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ حضور صلی الله علیہ وسلم تھے۔ اسلام
کی اسی ظاہری او رباطنی شان وشوکت کے پیش نظر ہجرت کی تاریخ سے اسلامی تقویم کا
آغاز کیا گیا۔
اسلامی سن کا آغاز محرم الحرام سے کیوں
ہوا؟
اس کے بعد مہینے کے بارے میں مشورہ ہوا، حضرت
عبدالرحمن بن عوف نے رجب المرجب کی رائے دی، کیوں کہ یہ اول شہر الحرام ہے، حضرت
طلحہ نے رمضان المبارک کی رائے دی، بعض حضرات نے ربیع الاول کی رائے دی۔ حضرت
عثمان اور حضرت علی نے محرم الحرام کی رائے دی، اس کو فاروق اعظم نے پسند
فرمایا۔
تاریخی زمانے
بعض حضرت نے تاریخ کو تین زمانوں میں تقسیم کیا: قرون
اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔ قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر
زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔ قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔
تاریخ کی اقسام
تاریخ کی چار قسمیں ہیں:
تاریخ عام۔ وہ ہے جس میں ساری دنیا
کے آدمیوں کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ خاص۔ وہ ہے جس میں کسی ایک
قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کی سلطنت کا حال بیان کیا جائے۔
تاریخ روایتی۔ وہ ہے جس میں راوی کا
بیان اس کے مشاہدے کی بنا پر درج کیا گیا ہو۔
تاریخ درایتی۔ وہ ہے جس کو آثار
قدیمہ ومنقولہ او رعقلی تخمینوں کے ذریعہ ترتیب دیا گیا ہو۔
تاریخ کے ماخذ اوراس کے فوائد
تاریخ کے ماخذ کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا گیا
ہے :
آثار مضبوط۔ یعنی تمام لکھی ہوئی چیزیں، مثلاً
کتابیں، یادداشتیں، دفتروں کاغذات ، پرانے فیصلے، دستاویز وغیرہ ۔ آثار منقولہ،
یعنی زبان زد عام باتیں مثلاً کہانیاں ، نظمیں، ضرب الامثال وغیرہ۔ آثار قدیمہ
یعنی پرانے زمانے کی نشانیاں، مثلاً شہروں کے خرابے قلعے، مکانات ، کتبے، تصویریں
وغیرہ۔ تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ ایک
ایسی چیز ہے او رایک ایسا فن ہے جوکثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے
اورتاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کی پاک سیرتوں اور
سلاطین کی حکومتوں او ران کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی
معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے۔ ( مقدمہ ابن خلدون)
تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا محمد میاں مصنف تاریخ اسلام لکھتے
ہیں کہ جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں
سے ملا کر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے ۔
تقویم کی تحقیق اوراس کی ضرورت
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے
کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے
کیلنڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی
ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
تقویم کی اقسام
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن
کا دار ومدار تین چیزیں ہیں ۔ سورج، چاند ، ستارے۔ اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں ۔
شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عیسوی ،جس کو انگریزی
اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان
کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ رومی ، تاریخ الہٰی۔
تاریخ عیسوی
تاریخ عیسوی ( جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی
کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم
باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا
دسمبر پر ہوتی ہے۔
تاریخ ہندی
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام
بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں ، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک،
اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن
عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔
تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر
بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع
کیا گیا تھا۔
نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے ، مہینے یہ
ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان ،اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔
تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ
الہیٰ
تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں
2286ء سال شمسی گزر چکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح
سے شروع ہوتی ہے ۔
تاریخ رومی کے مہینے ( جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا
تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں: تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط ، اذار،
نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔
تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں،
سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے ۔
تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں : فروردین ، اردی، بہشت
،خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو،مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔یہ سن جلال الدین اکبر
بادشاہ کے جلوس کی تاریخ ( یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی
سال ہوتے ہیں۔
تاریخ قمری
تاریخ قمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ
اسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔
سنہ شمسی اور قمری میں فرق
جاننا چاہیے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع
یوم کا ہوتا ہے ، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال
ہو جائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔
قمری تقویم کے فوائد
مروجہ تقویم میں سے جو فوائد قمری تقویم میں ہیں وہ
کسی اور تقویم میں نہیں ہیں ،نہ ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ رب کائنات نے روز مرہ کے
کام کاج اور لین دین کی آسانی وسہولت کی خاطر چاند کا نظام اس طرح بنایا جس سے ہر
انسان ہر علاقے میں آسانی سے تاریخ کا تعین کر سکتا ہے۔ مثلاً مغرب کی طرف سے جب
چاند پتلا نظر آتا ہے تو ہر انسان ( عالم، جاہل، شہری ، دہقانی) معلوم کرسکتا ہے
کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے، اسی طرح چاند جب بالکل مکمل ہو تو اس سے چودھویں تاریخ
کا تعین کرسکتا ہے ، اسی طرح جب مشرق کی جانب سے چاند باریک طلوع ہوتا ہے ، تو
معلوم ہوتا ہے کہ ستائیس یا اٹھائیس تاریخ ہے ، اسی طرح روز روز واضح طور پر چاند
کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے، جس سے ہر انسان معمولی تدبر سے تاریخ کا تعین کرسکتا
ہے۔ بخلاف شمسی تقویم (کیلنڈر) کے کہ اس سے تاریخوں کا پتہ نہیں چل سکتا، مثلاً
دسمبر کی پندرہ تاریخ ہو تو کوئی آدمی آفتاب دیکھ کر یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ آج
پندرہ تاریخ ہے ،نہ اس کی ہیئت وصورت میں نمایاں تبدیلی آتی ہے ،جس کو دیکھ کر
تاریخ کا تعین ہو سکے ، نیز شمسی تاریخ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے
،جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا۔ اس لیے الله تعالیٰ نے احکام وعبادات
کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے ، قرآن کہتا ہے ﴿یسئلونک عن الاھلة قل ھی مواقیت
للناس والحج﴾․ ( البقرہ:189)
قرآن پاک میں قمری مہینوں کا ذکر
قمری مہینوں کا ذکر قرآن پاک میں صراحةً موجود ہے،
جیسے۔ ﴿شھر رمضان الذی …﴾ اس آیت میں قمری سال کے ایک ماہ رمضان کا نام صراحتاً
ذکر ہے یا ضمناً ذکر ہے۔ جیسے ﴿الحج اشھر معلومات ﴾البقرة اس میں اشہر سے مراد
شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اسلامی سال کے سارے مہینوں کا
ذکر ضمناً آیا ہے وہ آیت یہ ہے :﴿ان عدة الشھور اثنا عندالله عشر شھرا﴾، یقینا
شمار مہینوں کا کتب الہٰی میں الله کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اس آیت میں جن بارہ
مہینوں کا ذکر آتا ہے ان سے مراد قمری مہینے ہیں ،اس کی دلیل بھی یہی آیت ہے، وہ
اس طرح کہ ان بارہ میں سے جو چار ماہ ادب کے لیے خاص کر دیے گئے ہیں، وہ ذوالقعدہ،
ذوالحجہ، محرم او ررجب ہیں۔ جنہیں ” اشھر حرم“ کہا جاتا ہے ۔ جب یہ چار ماہ قمری
کے ہیں تو باقی آٹھ ماہ بھی یقینا قمری کے ہوں گے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
قمری مہینوں کی ترتیب اور ان کے اسماء جو اسلام میں معروف ہیں یہ انسانوں کی بنائی
ہوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ رب العالمین نے جس روز زمین وآسمان کو پیدا کیا اسی دن
سے یہ ترتیب اور یہ نام، ہر ماہ کے ساتھ خاص خاص احکام متعین فرما دیے ہیں، جس کی
”تعبیر دین قیم“ کے ساتھ فرمائی ہے تو قمری تقویم الله تعالیٰ کی پسندیدہ اسلامی
تقویم ہے۔
چند اعتراضات کے جوابات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قمری حساب یقینی نہیں،
کیوں کہ مہینہ کبھی 29 دن کا ہوتا ہے ، کبھی 30 کا ،سو اس کا جواب یہ ہے کہ رویت
ہلال کی یقینی تاریخ متعین نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ اعتراض جاری ماہ کے متعلق نہیں
ہو سکتا، کیوں کہ اس کی تعیین رویت ہلال سے ہو چکی ہے، البتہ آئندہ ماہ کے بارے
میں اندیشہ ہے، مگر اس کا تعین بھی یوم لگانے سے ہو سکتا ہے، مثلاً 8 شوال1430ھ
بروز جمعہ تو لفظ جمعہ سے تاریخ کا تعین ہو گیا، دوسری بات یہ ہے کہ عملی رویت
ہلال مذہبی تقریبات کے لیے ضروری ہے عام حساب کے لیے ضروری نہیں۔ یہ حسابی طریقہ
پر متعین کیا جاسکتا ہے۔
پوری دنیا میں چاندکا طلوع ایک دن میں نہیں ہوتا،
بلکہ مشرق وسطیٰ میں برصغیر سے ایک یا دو دن پہلے نظر آجاتا ہے تو عرب ممالک
اورپاکستان وبنگلہ دیش کی تاریخوں میں فرق ہوتا رہتا ہے تو مذہبی تقریبات کن لوگوں
کی تاریخ پر منا ئی جائے؟! اگر ہر جگہ رویت کو معتبر کیا جائے تو عبادت بیک وقت
ادا نہیں ہو سکتی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے لیے ہر جگہ کی رویت کو مستند
قرار دیا جائے گا، کیوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، سارے انسانوں کے لیے تمام
مقامات اور تمام زمانوں کے لیے ہے تو ساری دنیا میں بیک وقت عبادات ادا کرنا ممکن
ہی نہیں ہے ۔
مثلاً مکہ مکرمہ کی اذان صبح کے مطابق انڈونیشیا میں
نماز فجر ادا کرنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ کے افاق ومطلع کے موافق
آسٹریلیا میں عید منانا ممکن نہیں ہے۔ تو مسجد حرام کی نمازاپنے وقت پر ادا ہو گی
انڈونیشیا کی نمازیں اپنے وقت پر، نیز حج، جو مقامی عبادت ہے، وہ مکہ ہی کے افق کے
مطابق ادا ہو گا اور مشرق بعید کے ممالک میں عید وغیرہ اپنے اپنے مطلع کے مطابق
ادا ہوں گی اور یہ کوئی نقص نہیں ہے، یہ فرق تو عیسائیوں اور ہندوؤں کے شمسی حساب
میں بھی ہے، مثلاً جس وقت ویٹی کن میں کرسمس کا گھنٹہ بجتا ہے اس سے تقریباً گیارہ
گھنٹے قبل جزیرہ سخالین میں کرسمس کی عبادت ہو چکی ہوتی ہے اورجس وقت بنارس میں
بسنگ پنجمی کا اعلان ہوتا ہے ٹھیک اسی وقت ماریشس میں نہیں ہوتا۔ تو یہ بات کہ
تقریبات بیک وقت ادا نہیں ہو سکتی ، قمری ہجری تقویم کے سلسلے میں بطور اعتراض پیش
کرنا صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تقویم قمری ہجری اختیار کرنے کی صورت میں جن
دقتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سب واہمہ ہیں اور دوسری بڑی وجہ اسلامی
ممالک میں اسلامی تقویم کا عدم نفاذ ہے، اس لیے سب اس نظام سے اجنبیت محسوس کرتے
ہیں ،اگر یہ تاریخ نافذ ہو تو تجربے اور مرورایام سے تمام شبہات ختم ہو سکتے ہیں،
عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، جہاں اسلامی ہجری تقویم نافذ ہے وہاں کے کیلنڈر اور
حساب کتاب میں کبھی ابہام نہیں پایا گیا اور کسی کو کوئی دقت اور اعتراض بھی نہیں۔
شمسی اور قمری تاریخ کے متعلق آخری او راہم بات حضرت
مفتی اعظم کے اس اقتباس میں ہے کہ مفتی اعظم پاکستان مولانا محمدشفیع لکھتے ہیں
کہ ” اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے، بلکہ اس
کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ ، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں تو قمری حساب
شریعت کے مطابق استعمال کرے، مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے۔
شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے، تاکہ رمضان او رحج
وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے
ہی معلوم نہ ہوں ، فقہاء نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ
قرار دیا ہے۔ ہاں! اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء او رسنت رسول صلی الله علیہ
وسلم او رخلفائے راشدین میں قمری حساب استعمال کیا گیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت
وثواب ہے اورشمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔“
No comments:
Post a Comment