Front - The Prophet Muhammed

Thursday, April 24, 2014

نبی اکرم ﷺ کی جسمانی خصوصیتیں


مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
=================================
اللہ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی  کو عام انسانوں سے مختلف بہت سی خصوصیتوں اورکمالات سے نوازا تھا، ان ہی خصوصیتوں میں سے وہ خصوصیتیں بھی ہیں جو اللہ نے آپ کے جسم اطہر میں ودیعت فرمائی تھی۔
جن وملائک کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے کی قوت:
عام انسانوں کے برخلاف اللہ نے آپ کویہ قوت عطا کررکھی تھی کہ آپ جن وشیاطین کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے اسی طرح ملائک کو دیکھنے اور ان سے ہم کلام ہونے پر قادر تھے، اسی لئے آپ نے جنوں کوان کے پاس پہونچ کر دعوت دی اور ان کواللہ کی طرف بلایا، اسی طرح حضرت جبریل کو آپ نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا اور ان گنت مرتبہ ان سے ہم کلام ہوئے اور ان کو قرآن کریم سنایا، اور ان کی رفاقت میں سفر معراج پر روانہ ہوئے۔
اپنے پیچھے دیکھنے کی قدرت:
عام انسان صرف اپنی نگاہوں کے سامنے کی چیزوں کو دیکھنے پر قادر ہے ، اس کی پیٹھ کے پیچھے موجود چیزوں اور افراد کو سامنے نظر رکھتے ہوئے دیکھنے اس میں کی قوت نہیں ہے ، لیکن رسول اللہ  کو اللہ نے یہ خوبی دے رکھی تھی، چناں چہ صحابی رسول حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوماً ثمَّ انصرف، فقال: يا فلان ألا تحسن صلاتك ؟ ألا ينظر المصلي إذا صلى كيف يصلي ؟ فإنما يصلي لنفسه، إني والله لأبصر من ورائي كما أبصر من بين يدي(مسلم:  ۶۴۷)
’’ایک دن رسول اللہ  نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر آپ  نے فرمایا: اے فلاں تم اچھی ط نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ نماز پڑھنے والا نماز پڑھتے وقت یہ کیوں غور نہیں کرتا کہ وہ کس ط نماز ادا کررہا ہے؟ حالانکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے نماز پڑھتا ہے ، بخدامیں اپنے پیچھے ویسا ہی دیکھتا ہوں جیسا کہ اپنے آگے دیکھتا ہوں‘‘
علامہ ابن حجر عسقلانی اور دیگر محدثین کے بقول یہاں دیکھنے سے مراد قلبی رویت ، الہام یا وحی نہیں ہے، بلکہ ’’رویت بصری‘‘(نگاہ سے دیکھنا)مراد ہے۔
عام انسانوں سے زیادہ قوت سماع:
رسول اللہ  کو اللہ نے عام انسانوں سے زیادہ قوت سماعت عطا فرما رکھی تھی،اسی لئے بہت سے وہ باتیں جن کو عام انسان نہیں سن سکتے تھے آپ میں ان کے سننے کی صلاحیت موجود تھی، اسی لئے آپ نے خود ہی اپنے بارے میں ارشاد فرمایا:
إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ أَطَّتِ السَّمَاءُ، وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الفُرُشِ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ (ترمذی:۲۳۱۲)
’’میں وہ چیزوں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے، آسمان چرچراتا ہے اور اس کا چرچرانا حق ہے اس میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کر سجدہ ریز نہ ہو اللہ کی قسم اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتا ہوں تو کم ہنستے اور زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ‘‘
آنکھیں سوتی ہیں پر دل بیدار رہتا ہے :
آپ  کو اللہ نے یہ خصوصیت بھی دی تھی کہ جب آپ سوتے تھے تو آپ کی نگاہ ہی سوتی تھی، لیکن آپ کا دل بیدار رہتا تھا، گویا آپ کا سونا بھی عام انسانوں سے مختلف تھا ، اسی لئے عام انسانوں کا وضوء سونے سے ٹوٹ جاتا ہے ،لیکن آپ کا وضوء سونے سے نہیں توٹتا تھا۔آپ  اپنی اس خداداد کمال کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
تَنَامُ عَيْنِي، وَلَا يَنَامُ قَلْبِي(مسند احمد: ۷۴۱۷)
’’میری آنکھ سوتی ہے میرا دل نہیں سوتا‘‘
مشک سے زیادہ معطر پسینہ:
جسم سے پسینہ ہر انسان کو نکلتا ہے، اور آپ  کو بھی نکلا کرتا تھا، لیکن عام انسانوں کے برخلاف آپ کا پسینہ مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہوتا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَاءَتْ أُمِّي بِقَارُورَةٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِيهَا، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعِينَ؟ قَالَتْ: هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِيبِنَا، وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ(مسلم : ۲۳۳۱)
’’نبی ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپ نے آرام فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ،میری والدہ محترمہ ایک شیشی لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک پسینہ پونچھ کر اس شیشی میں ڈالنے لگیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے ام سلیم تم یہ کیا کر رہی ہو ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر خوشبو محسوس کریں گے‘‘
حضرت انس ہی کی ایک روایت میں ہے :
وَلَا شَمِمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(مسلم : ۲۳۳۰)
’’رسول اللہ  کے بدن میں جو خوشبو تھی وہ مشک وعنبر میں نہیں تھی‘‘
آپ کے لعاب ، بال اور وضوء میں استعمال کئے ہوئے پانی سے برکت کا حصول:
آپ کی ذات کو اللہ نے سراپا خیر وبرکت کا پیکر بنا رکھا تھا، اسی لئے آپ کے لعاب ، آپ کے شعر مبارک اور آپ کے وضوء میں استعمال کئے ہوئے پانی سے صحابہ برکت حاصل کیا کرتے تھے اور، اس کی برکتیں انہیں حاصل ہوتی تھی ۔حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ (بخاری:۲۷۳۱)
’’اللہ کی قسم، جب بھی رسول اللہ  تھوکتے تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے، اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے ،اور جب بھی وضو کرتے ، تو ان کے غسالہ وضو کیلئے صحابہ میںلڑنے کی کیفیت ہوجاتی‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں مروی ہے :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا، فَرُبّما جَاءُوهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا(مسلم: ۲۳۲۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے پھر جو برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے اور اکثر اوقات سخت سردی کے موسم میں بھی یہ اتفاقات پیش آجاتے تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَنَا مَرِيضٌ لاَ أَعْقِلُ، فَتَوَضَّأَ وَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَعَقَلْتُ (بخاری: ۱۹۴)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور میں ایسا سخت بیمار تھا کہ کوئی بات سمجھ نہ سکتا تھا، آپ نے وضوء  فرمایا اور اپنے وضوءکا پانی میرے اوپر ڈالا، تو میں ہوش میں آگیا‘‘
حضرت عثمان بن عبد اللہ بن موہب رسول اللہ  کے شعر مبارک سے حصول برکت کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَرْسَلَنِي أَهْلِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْءٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ، فَاطَّلَعْتُ فِي الجُلْجُلِ، فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا (بخاری: ۵۸۹۶)
’’ مجھے میرے گھر والوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالہ دے کر بھیجا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے، جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی تو وہ ام سلمہ کے پاس برتن بھیج دیتا، عثمان کا بیان ہے کہ میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو مجھے چند سرخ بال نظر آئے‘‘
شق صدر کے ذریعہ قلب مبارک کی صفائی
بچپن میںآپ  کے سینہ مبارک کو چاک کرکےآپ کے قلب مبارک میںسے مادہ معصیت اور حظ شیطان کو نکال دیا گیا ، اور پھر اس کو ٹھنڈے پانی سے دھویا گیا ، تاکہ آپ  کا قلب مبارک معصیتوںکے تمام نشانات سے پاک ہوجائے اور آپ معصیت سے معصوم رہیں۔
دس سال کی عمر میں آپ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے آپ کے قلب اطہر کو مادۂ لہو ولعب سے پاک کیا گیا ، تاکہ لہو ولعب کی طرف میلان ذکر خدا سے غفلت کا ذریعہ نہ بنے۔
بعثت کے قریب آپ کے سینہ کو چاک کرکے آپ کے قلب صافی کو اسرار وحی اور علوم الہیہ کے تحمل کے قابل بنانا گیا۔
اور پھر چوتھی بار سفر معراج کے وقت آ پ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے آپ کے قلب اطہر کو عالم ملکوت کی سیر، تجلیات الہیہ اور آیات ربانیہ کے مشاہدے اور رب ذوالجلال کی مناجات کے تحمل کے قابل بنایا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ  کی یہ خصوصی شان ہے کہ متعدد بار الگ الگ حکمتوں کے پیش نظرآپ  کے سینہ مبارک کو چاک کرکےآپ کے قلب مطہر ومنور کو طہارت ونورانیت کی کمال اور انتہاءتک پہونچایا گیا ۔(سیرۃ المصطفی:۱؍۸۴)
اور پھر قلب اطہر کے بالکل بالمقابل دونوں شانوں کے درمیان مہر لگادی گئی تاکہ قلب شیطان کے وسوسوں اور بیرونی حملوں سے محفوظ ہوجائے، اس لئے کہ شیطان اسی جگہ سے وسوسے ڈالتا ہے ، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ کسی نے اللہ جل شانہ سے درخواست کی کہ اے رب العالمین مجھ کو شیطان کے وسوسہ کا راستہ دکھلاکہ وہ کس راستہ سے آکر آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے ، تو من جانب اللہ دونوں شانوں کی درمیانی جگہ جو بالکل دل کے بالمقابل بائیں جانب ہے،وہ دکھلائی گئی کہ شیطان اس راستہ سے آتا ہے ، اور جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو فورا پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔(روض الانف: ۲؍۱۱۵، ط: دار احیاء التراث)
جنتی چالیس مردوں کی قوت
آپ  کے امتیازی خصوصیتیوں میں سے ایک یہ بھی خصوصیت تھی کہ آپ کو چالیس جنتی مردوں کی قوت اللہ نے عطا کی تھی۔چناں ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد مذکور ہے:
أُعْطِيتُ قُوَّةَ أَرْبَعِينَ فِي الْبَطْشِ وَالنِّكَاحِ (المعجم الاوسط: ۵۶۷)
’’مجھے نکاح اور گرفت کے سلسلہ میں چالیس (جنتی) مردوں کی قوت دی گئی ہے‘‘
اورجنتی مردوں کی قوت کے بارے میں ایک میں رسول اللہ  کا ارشاد ہے:
إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُعْطَى قُوَّةَ مِائَةِ رَجُلٍ فِي الْأَكْلِ وَالشرب وَالْجِمَاعِ، وَالشَّهْوَةِ (سنن دارمی:۲۸۲۵)
’’بےشک جنتی مرد کو کھانے پینے صحبت اور شہوت کے سلسلہ میں (دنیاکے)سو مردوں کے جیسی طاقت ہوگی‘‘
ان دونوں حدیثوں سے رسول اللہ  کی طاقت وقوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ  دنیا کے چار ہزار مردوں کے برابر طاقت وقوت رکھتے تھے،یہ بھی آپ کا امتیاز تھا، اس کے باوجود آپ عفت وعصمت کے اس کمال پر فائز تھے کہ آپ نے امت کی تعلیم اور وحی الہی کی تبلیغ کی خاطر بقدر ضرور ت صرف گیارہ عورتوںسے شادی کرنے پر اکتفاء کیا ، گویا آپ کے تعدد ازدواج کے پیچھے کہیں سے کہیں تک نفسانی جذبات کار فرما نہیں تھے، ورنہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ، بلکہ اللہ نے تعلیم وتبلیغ کے مقصد سے گیارہ تک کی خصوصی اجازت آپ کو دی اور اسی مقصد سے آپ نے اتنی عورتوں سے نکاح فرمایا۔
مرض کی شدت
آزمائش بقدر قربت ہوا کرتی ہے ، انبیاء کرام اللہ کے سب سے زیادہ مقرب ہوتے ہیں ، اسی لئے انبیاء کو اتنی ہی سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، رسول اللہ  کا ارشاد ہے:
إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ (السنن الکبری للنسائی: ۷۴۴۰)
’’لوگوںمیں سب سے زیادہ آزمائش سے دوچار انبیاء ہوتے ہیں پھر وہ جو ان سے قریب ہو اور پھر وہ جو ان سے قریب ہو‘‘
اس لئے کہ آزمائش نعمت کے مقابلہ میں ہوتی ہے، تو مقربین پر رب کی نعمتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں ان کو ان کے مقابل آزمائشوں سے اتنا ہی دوچار ہوکر صبر وشکر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ، اوران کے یقین وتوکل کے سامنے تکلیف کی شدت بھی کمزور پڑجاتی ہے اوراس سے ان کے لذت ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔
رسول اللہ  تو تمام انبیاء سے بھی زیادہ اللہ کے مقرب تھے ، اس لئے آپ کو بڑی سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ان ہی میں سے ایک آزمائش کی شکل یہ تھی کہ آپ  کو عام انسانوں سے زیادہ امراض کی شدت برداشت کرنی پڑتی تھی، جیسا کہ متعدد روایات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا؟ قَالَ: أَجَلْ، إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلاَنِ مِنْكُمْ قُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ؟ قَالَ: أَجَلْ، ذَلِكَ كَذَلِكَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى، شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا سَيِّئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا(بخاری: ۵۶۴۸)
’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تیز بخار میں مبتلا تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بہت تیز بخار ہے ، آپ نے فرما:یا ہاں، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہے ، میں نے عرض کیا کہ یہ اس سبب سے کہ آپ کو اجر دوہراملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہی بات ہے، جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح درختوں سے پتےجھڑتے ہیں‘‘
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد منقول ہے:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَيْهِ الوَجَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(بخاری: ۵۶۴۶)
’’میں نے کسی آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا‘‘
بے مثل حسن وجمال
رسول اللہ  کو اللہ نے بے مثل حسن وجمال کا ایسا پیکر بنایا تھاکہ آپ کا جسم اطہر ہر قسم کے نقائص سے مبرأ اور حسن وجمال سے مرصع تھا، اور ایسا حسن وجمال اللہ نے آپ کو عطا تھا کہ نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا حسین پیداہوا اور نہ آپ کے بعد پیدا ہوگا، اس لئے کہ روئے زمین پر اللہ نے آپ ہی کو یہ ممتاز مقام عطا کیا کہ آپ کے جسم اطہر کا ہر ہر عضو حسن وجمال کے کمال کی مثال تھا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے :
مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا حَسَنَ الْوَجْهِ حَسَنَ الصَّوْتِ وَكَانَ نَبِيُّكُمْ أَحْسَنَهُمْ وَجْهًا وَأَحْسَنَهُمْ صَوْتًا (فتح الباری: ۷؍۲۱۰)
’’اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا وہ حسین چہرہ اور اچھی آواز والے تھے، اور تمہارے نبی ان تمام میں سب سے زیادہ حسین شکل اور اچھی آواز والے تھے‘‘
اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:
وَأحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَأجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّءاً   مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَأ نَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
’’آپ  سے زیادہ حسیں میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، اور آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے نہیں جنا، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ آپ کی تخلیق آپ کی مرضی کے مطابق ہوئی‘‘
ہرم بن سنان کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے زہیر شاعر نے ایک شعر کہا:
لو كنت من شيء سوى  البشر
كنت المضيء لليلة البدر
’’اگر آپ انسان کے علاوہ کچھ اور ہوتے، تو (میرے خیال میں) آپ ہی چودہویں رات کو روشن کرنے والے ہوتے‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ یہ شعر درحقیقت حضور کے حسن کی ترجمانی کرتا ہے، اور آپ اس کے بلا مبالغہ مصداق ہیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ  کو چاندی رات میں دیکھا، تو میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ کے چہرۂ انور کو، اس حال میں مجھے آپ کا چہرہ چاند سے زیادہ حسین نظر آیا۔(ترمذی: ۲۷۵۴)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ  سے زیادہ حسین کبھی کوئی انسان نہیں دیکھا، آپ کاچہرہ سورج کی طرح روشن نظر آتا۔(ترمذی: ۳۶۱۰)
حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ مسکراتے تو آپ کا چہرہ ایسا روشن ہوجاتا کہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا۔(بخاری: ۳۳۱۴)
حضرت ربیع بنت معوذؓ ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر سے فرماتی ہیں کہ جب تم آپ  کو دیکھتے تو ایسا لگتا کہ سورج طلوع ہورہا ہو۔(سنن دارمی: ۶۰)
غرضیکہ مختلف صحابہ کرام نے اپنے اپنے انداز میں آپ کے حسن کی ترجمانی کی ہے ، لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ کے حسن وجمال کو الفاظ وتعبیر کےذریعہ مکمل بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔
 آپ  کی یہ چند جسمانی خصوصیتیں ہیں،جن سے اللہ نے آپ کو مزین کیا تھا اور جنہیں اللہ نے آپ کے جسم اطہر میں ودیعت فرما رکھا تھا، اور کیوں نہ ہو کہ آپ ہی تو خالق و قادر اللہ کے محبو ب ہیں۔

چہل (٤٠) ربنا دعائیں 40 duaas

چہل (٤٠) ربنا دعائیں


وَإِذ يَرفَعُ إِبرٰهۦمُ القَواعِدَ مِنَ البَيتِ وَإِسمٰعيلُ رَبَّنا تَقَبَّل مِنّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّميعُ العَليمُ {2:127}
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
And recall what time Ibrahim was raising the foundation of the House and also Ismai'l, praying: our Lord! accept of us; verily Thou! Thou art the Hearer, the Knower!
قبول کر ہم سے اس کام کو (کہ تعمیر خانہ کعبہ ہے) تو سب کی دعا سنتا ہے اور نیت کو جانتا ہے۔

رَبَّنا وَاجعَلنا مُسلِمَينِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسلِمَةً لَكَ وَأَرِنا مَناسِكَنا وَتُب عَلَينا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوّابُ الرَّحيمُ {2:128}
اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے
Our Lord! Make us twain submissive unto Thee and of our progeny community submissive unto Thee, and show us our rites, and relent toward us! Verily Thou! Thou art the Relentant, the Merciful!

وَمِنهُم مَن يَقولُ رَبَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ {2:201}
اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو
And of mankind are some who say: our Lord! vouchsafe unto us good in the world and good in the Hereafter, and save us from the torment of the Fire.

وَلَمّا بَرَزوا لِجالوتَ وَجُنودِهِ قالوا رَبَّنا أَفرِغ عَلَينا صَبرًا وَثَبِّت أَقدامَنا وَانصُرنا عَلَى القَومِ الكٰفِرينَ {2:250}
اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل آئے تو (خدا سے) دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر) کفار پر فتحیاب کر
And when they arrayed themselves against Jalut and his hosts, they said: our Lord pour forth on us patience, and set firm our feet, and make us triumph over the infidel people

لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها ۚ لَها ما كَسَبَت وَعَلَيها مَا اكتَسَبَت ۗ رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا ۚ رَبَّنا وَلا تَحمِل عَلَينا إِصرًا كَما حَمَلتَهُ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِنا ۚ رَبَّنا وَلا تُحَمِّلنا ما لا طاقَةَ لَنا بِهِ ۖ وَاعفُ عَنّا وَاغفِر لَنا وَارحَمنا ۚ أَنتَ مَولىٰنا فَانصُرنا عَلَى القَومِ الكٰفِرينَ {2:286}
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما
Allah tasketh not a soul except according to its capacity. For it shall be the good it earnoth, and against it the evil it earnoth. Our Lord! reckon with not if we forget or er. Our Lord! ray not on us a burthen like unto that which Thou laidest on those before us, Our Lord! impose not on US that for which we have not strength. And Pardon us; forgive US; and have mercy on us; Thou art our Patron: so make US triumph over the disbelieving people!
اول آیت پر حضرات صحابہ کو بڑی تشویش ہوئی تھی ان کی تسلی کے لئے یہ دو آیتیں { اٰمَنَ الرَّسُوْلُ } الخ اور { لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا } الخ نازل ہوئیں اب اس کے بعد { رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ } آخر سورت تک نازل فرما کر ایسا اطمینان دیا گیا کہ کسی صعوبت اور دشواری کا اندیشہ بھی باقی نہ چھوڑا کیونکہ جن دعاؤں کا ہم کو حکم ہوا ہے ان کا مقصود یہ ہے کہ بیشک ہر طرح کا حق حکومت اور استحقاق عبادت تجھ کو ہم پر ثابت ہے مگر اے ہمارے رب اپنی رحمت و کرم سے ہمارے لئے ایسے حکم بھیجے جائیں جن کے بجا لانے میں ہم پر صعوبت اور بھاری مشقت نہ ہو نہ بھول چوک میں ہم پکڑے جائیں نہ مثل پہلی امتوں کے ہم پر شدید حکم اتارے جائیں نہ ہماری طاقت سے باہر کوئی حکم ہم پر مقرر ہو اس سہولت پر بھی ہم سے جو قصور ہو جائے اس سے درگذر اور معافی اور ہم پر رحم فرمایا جائے حدیث میں ہے کہ یہ سب دعائیں مقبول ہوئیں ۔ اور جب اس دشواری کے بعد جو حضرات صحابہ کو پیش آ چکی تھی اللہ کی رحمت سے اب ہر ایک دشواری سے ہم کو امن مل گیا تو اب اتنا بھی ہونا چاہیئے کہ کفار پر ہم کو غلبہ عنایت ہو ورنہ انکی طرف سے مختلف دقتیں دینی اور دنیوی ہر طرح کی مزاحمتیں پیش آ کر جس صعوبت سے اللہ اللہ کر کے اللہ کے فضل سے جان بچی تھی کفار کے غلبہ کی حالت میں پھر وہی کھٹکا موجب بے اطمینانی ہو گا۔

رَبَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا وَهَب لَنا مِن لَدُنكَ رَحمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الوَهّابُ {3:8}
اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کر دیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے
Our Lord Suffer not our hearts to deviate after that Thou hast guided US, and bestow from Thine presence mercy. Verily Thou! Thou art the Bestower!
یعنی راسخین فی العلم اپنے کمال علمی اور قوت ایمانی پر مغرور و مطمئن نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ حق تعالیٰ سے استقامت اور مزید فضل و عنایت کے طلبگار رہتے ہیں تاکہ کمائی ہوئی پونجی ضائع نہ ہو جائے اور خدانکردہ دل سیدھے ہونے کے بعد کج نہ کر دیئے جائیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم  (امت کو سنانے کے لئے) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے { یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ }۔

رَبَّنا إِنَّكَ جامِعُ النّاسِ لِيَومٍ لا رَيبَ فيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُخلِفُ الميعادَ {3:9}
اے پروردگار! تو اس روز جس (کے آنے) میں کچھ بھی شک نہیں سب لوگوں کو (اپنے حضور میں) جمع کرلے گا بے شک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا
Our Lord! verily Thou art the Assembler of mankind for a Day whereof there is no doubt. Verily Allah faileth not the tryst.
وہ دن ضرور آ کر رہے گا اور "زائغین" (کجرو) جن مسائل میں جھگڑتے تھے سب کا دوٹوک فیصلہ ہو جائے گا پھر ہر ایک مجرم کو اپنی کجروی اور ہٹ دھرمی کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ اسی خوف سے ہم ان کے راستہ سے بیزار اور آپ کی رحمت و استقامت کے طالب ہوتے ہیں۔ ہمارا زائغین کے خلاف راستہ اختیار کرنا کسی بدنیتی اور نفسانیت کی بنیاد پر نہیں محض اخروی فلاح مقصود ہے۔

الَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا إِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَقِنا عَذابَ النّارِ {3:16}
جو خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو ہمارے گناہ معاف فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ
Those who say our Lord! verify we! we have believed, wherefore forgive us our sins, and protect us from the torment of the Fire.
معلوم ہوا کہ گناہ معاف ہونے کے لئے ایمان لانا شرط ہے۔

رَبَّنا ءامَنّا بِما أَنزَلتَ وَاتَّبَعنَا الرَّسولَ فَاكتُبنا مَعَ الشّٰهِدينَ {3:53}
اے پروردگار جو (کتاب) تو نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور (تیرے) پیغمبر کے متبع ہو چکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ
Our Lord! we believe in that which Thou hast sent down, and, follow the apostle; write us up wherefore with the witnesses.
پیغمبر کے سامنے اقرار کرنے کے بعد پروردگار کے سامنے یہ اقرار کیا کہ انجیل پر ایمان لا کر تیرے رسول کا اتباع کرتے ہیں۔ آپ اپنے فضل و توفیق سے ہمارا نام ماننے والوں کی فہرست میں ثبت فرما دیں۔ گویا ایمان کی رجسٹری ہو جائے کہ پھر لوٹنے کا احتمال نہ رہے۔

وَما كانَ قَولَهُم إِلّا أَن قالوا رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَإِسرافَنا فى أَمرِنا وَثَبِّت أَقدامَنا وَانصُرنا عَلَى القَومِ الكٰفِرينَ {3:147}
اور (اس حالت میں) ان کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے تو یہی کہ اے پروردگار ہمارے گناہ اور زیادتیاں جو ہم اپنے کاموں میں کرتے رہے ہیں معاف فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت فرما
And their speech was naught but that they said: our Lord! forgive us our sins and our extravagance in our affairs, and make our foothold firm, and make us triumph over the disbelieving people.
یعنی مصائب و شدائد کے ہجوم میں نہ گھبراہٹ کی کو ئی بات کہی نہ مقابلہ سے ہٹ جانے اور دشمن کی اطاعت قبول کرنے کا ایک لفظ زبان سے نکالا۔ بولے تو یہ بولے کہ خداوندا! تو ہم سب کی تقصیرات اور زیادتیوں کو معاف فرما دے۔ ہمارے دلوں کو مضبوط و مستقل رکھ۔ تا ہمارا قدم جادۂ حق سے نہ لڑکھڑائے اور ہم کو کافروں کے مقابلہ میں مدد پہنچا وہ سمجھے کہ بسا اوقات مصیبت کے آنے میں لوگوں کے گناہوں اور کوتاہیوں کو دخل ہوتا ہے۔ اور ہم میں کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس سے کبھی کوئی تقصیر نہ ہوئی ہو گی۔ بہرحال بجائے اس کے کہ مصیبت سے گھبرا کر مخلوق کی طرف جھکتے اپنے خالق و مالک کی طرف جھکے۔

الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ قِيٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ رَبَّناما خَلَقتَ هٰذا بٰطِلًا سُبحٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ {3:191}
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو
Who remember- Allah Standing and sitting and lying on their sides, and reflect on the creation of the heavens and the earth: our Lord Thou createdest not all this in vain. Hallowed be Thou! Save us, Thou, from the torment of the Fire!
یعنی ذکر و فکر کے بعد کہتے ہیں کہ خداوندا! یہ عظیم الشان کارخانہ آپ نے بیکار پیدا نہیں کیا جس کا کوئی مقصدنہ ہو، یقینًا ان عجیب و غریب حکیمانہ انتظامات کا سلسلہ کسی عظیم و جلیل نتیجہ پر منتہی ہونا چاہئے۔ گویا یہاں سے ان کا ذہن تصور آخرت کی طرف منتقل ہو گیا جو فی الحقیقت دنیا کی موجودہ زندگی کا آخری نتیجہ ہے اسی لئے آگے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعا کی اور درمیان میں خدا تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہہ بیان کر کے اشارہ کر دیا کہ جو احمق قدرت کے ایسے صاف و صریح نشان دیکھتے ہوئے تجھ کو نہ پہچانیں یا تیری شان کو گھٹائیں یا کارخانہ عالم کو محض عبث و لعب سمجھیں تیری بارگاہ ان سب کی ہزلیات و خرافات سے پاک ہے۔ ا س آیت سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعات الہٰیہ میں غور و فکر کرنا وہ ہی محمود ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ خدا کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو، باقی جو مادہ پرست ان مصنوعات کے تاروں میں الجھ کر رہ جائیں اور صانع کی صحیح معرفت تک نہ پہنچ سکیں، خواہ دنیا انہیں بڑا محقق اور سائنس داں کہا کرے، مگر قرآن کی زبان و میں وہ اولوالالبا ب نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ پرلے درجہ کے جاہل و احمق ہیں۔
یعنی کسی حال خدا سے غافل نہیں ہوتے اس کی یاد ہمہ وقت ان کے دل میں اور زبان پر جاری رہتی ہے جیسے حدیث میں رسول اللہ  کی نسبت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا { کان یذکر اللہ علیٰ کل احیانہٖ } نماز بھی خدا کی بہت بڑی یاد ہے۔ اسی لئے آپ  نے فرمایا کہ جو کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر پڑھ لے بعض روایات میں ہے کہ جس رات میں یہ آیات نازل ہوئیں نبی کریم  کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حالت میں اللہ کو یاد کر کے روتے رہے۔

رَبَّنا إِنَّكَ مَن تُدخِلِ النّارَ فَقَد أَخزَيتَهُ ۖ وَما لِلظّٰلِمينَ مِن أَنصارٍ {3:192}
اے پروردگار جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
Our Lord verily whomsoever Thou makest to enter into the Fire, him Thou hast surely humiliated and for the wrong-doers there shall be no helpers.
جو شخص جتنی دیر دوزخ میں رہے گا اسی قدر رسوائی سمجھو۔ اس قاعدہ سے دائمی رسوائی صرف کفار کے لئے ہے ۔ جن آیات میں عامۂ مومنین سے خزی (رسوائی) کی نفی کی گئ ہے وہاں یہ ہی معنی سمجھنے چاہئیں۔
یعنی جس کو خدا دوزخ میں ڈالنا چاہے کوئی حمایت کر کے بچا نہیں سکتا۔ ہاں جن کو ابتداء میں یا آخر میں چھوڑنا اور معاف کر دینا ہی منظور ہو گا (جیسے عصاۃ مومنین) ان کے لئے شفعاء کو اجازت دی جائے گی کہ سفارش کر کے بخشوائیں۔ وہ اس کے مخالف نہیں بلکہ آیات و احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمٰنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا ۚ رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ {3:193}
اے پروردگارہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا (یعنی) اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا
Our Lord verily we heard a caller calling to belief: believe in your Lord, wherefore we have come to believe. Our Lord forgive us our sins, and expiate from us our misdeeds, and let us die along with the pious.
یعنی ہمارے بڑے بڑے گناہ بخش دے اور چھوٹی موٹی برائیوں پر پردہ ڈال دے اور جب اٹھانا ہو نیک بندوں کے زمرہ میں شامل کر کے دنیا سے اٹھا لے۔
پہلے ایمان عقلی کا ذکر تھا، یہ ایمان سمعی ہوا جس میں ایمان بالرسول اور ایمان بالقرآن بھی درج ہو گیا۔
یعنی نبی کریم  جنہوں نے بڑی اونچی آواز سے دنیا کو پکارا۔ یا قرآن کریم جس کی آواز گھر گھر پہنچ گئ۔

رَبَّنا وَءاتِنا ما وَعَدتَنا عَلىٰ رُسُلِكَ وَلا تُخزِنا يَومَ القِيٰمَةِ ۗ إِنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ {3:194}
اے پروردگار تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کیجو کچھ شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا
Our Lord! vouchsafe unto us that which Thou hast promised us by Thine apostles, and humiliate us not on the Day of Resurrection. Verily Thou failest not the tryst.
یعنی پیغمبروں کی زبانی، ان کی تصدیق کرنے پر جو وعدے آپ نے کئے ہیں (مثلًا دنیا میں آخر کار اعداء اللہ پر غالب و منصور کرنا اور آخرت میں جنت و رضوان سے سرفراز فرمانا) ان سے ہم کو اس طرح بہرہ اندوز کیجئے کہ قیامت کے دن ہماری کسی قسم کی ادنیٰ سے ادنیٰ رسوائی بھی نہ ہو۔
یعنی آپ کے ہاں تو وعدہ خلافی کا احتمال نہیں، ہم میں احتمال ہے کہ مبادا ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں جو آپ کے وعدوں سے مستفید نہ ہو سکیں ۔ اس لئے درخواست ہے کہ ہم کو ان اعمال پر مستقیم رہنے کی توفیق دیجئے جن کی آپ کے وعدوں سے متمتع ہونے کے لئے ضرورت ہے۔

وَإِذا سَمِعوا ما أُنزِلَ إِلَى الرَّسولِ تَرىٰ أَعيُنَهُم تَفيضُ مِنَ الدَّمعِ مِمّا عَرَفوا مِنَ الحَقِّ ۖ يَقولونَ رَبَّنا ءامَنّا فَاكتُبنا مَعَ الشّٰهِدينَ {5:83}
اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمد) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے
And when they hear that which hath been sent down unto the apostle, then thou beholdest their eyes overflow, with tears because of the truth they have recognised. They say: Our Lord! we believe, so write us down with the witnesses.

قالَ عيسَى ابنُ مَريَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنا أَنزِل عَلَينا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكونُ لَنا عيدًا لِأَوَّلِنا وَءاخِرِنا وَءايَةً مِنكَ ۖ وَارزُقنا وَأَنتَ خَيرُ الرّٰزِقينَ {5:114}
(تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے
'Isa, son of Maryam, said: O Allah, our Lord send down unto us some food from the heaven, that it may become unto us an occasion of joy, unto the first of us and the last of us, and a sign from Thee. And provide us Thou; and Thou art the Best of providers.
یعنی بدون تعب و کسب کے روزی عطا فرمائے۔ آپ کے یہاں کیا کمی ہے اور کیا مشکل ہے۔
یعنی تیری قدرت کی اور میری نبوت و صداقت کی نشانی ہو۔
یعنی وہ دن جس میں مائدہ آسمانی نازل ہو، ہمارے اگلے پچھلے لوگوں کے حق میں عید ہو جائے کہ ہمیشہ ہماری قوم اس دن کو بطور یادگار تہوار منایا کرے۔ اس تقریر کے موافق { تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا } کا اطلاق ایسا ہوا جیسا کہ آیۂ { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ } کے متعلق بخاری میں یہود کا یہ مقولہ نقل کیا ہے۔ { انکم تقرؤن اٰیۃ لو نزلت فینا لا تخذ ناھا عیدًا } جس طرح آیۃ کو عید بنانے کا مطلب اس کے یوم نزول کو عید بنانا ہے۔ کما ہو مصرح فی الروایات الاخر۔ اسی پر مائدہ کے عید ہونے کو بھی قیاس کر لو کہتے ہیں کہ وہ خوان اترا اتوار کو جو نصاریٰ کے یہاں ہفتہ کی عید ہے جیسے مسلمانوں کے یہاں جمعہ۔

قالا رَبَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر لَنا وَتَرحَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخٰسِرينَ {7:23}
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے
The twain said. our Lord! we have wronged our souls, and if Thou forgivest us not and hath not mercy on us, we shall of a surety be of the losers.

وَإِذا صُرِفَت أَبصٰرُهُم تِلقاءَ أَصحٰبِ النّارِ قالوا رَبَّنا لا تَجعَلنا مَعَ القَومِ الظّٰلِمينَ {7:47}
اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو
And when their eyes Will be turned toward the fellows of the Fire, they will say: our Lord! place us not with these wrong-doing people.
جنت و دوزخ کے درمیان ہونے کی وجہ سےان لوگوں کی حالت خوف و رجاء کے بیچ میں ہو گی ادھر دیکھیں گے تو امید کریں گے اور ادھر نظر پڑے گی تو خدا سے ڈر کر پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان دوزخیوں کے زمرہ میں شامل نہ کیجئے۔

قَدِ افتَرَينا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِن عُدنا فى مِلَّتِكُم بَعدَ إِذ نَجّىٰنَا اللَّهُ مِنها ۚ وَما يَكونُ لَنا أَن نَعودَ فيها إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا ۚ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيءٍ عِلمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلنا ۚ رَبَّنَا افتَح بَينَنا وَبَينَ قَومِنا بِالحَقِّ وَأَنتَ خَيرُ الفٰتِحينَ {7:89}
اگر ہم اس کے بعد کہ خدا ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بےشک ہم نے خدا پر جھوٹ افتراء باندھا۔ اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو (ہم مجبور ہیں)۔ ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارا خدا ہی پر بھروسہ ہے۔ اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
We must have been fabricating a lie against Allah if we returned to your faith after Allah hath delivered us therefrom. And it is not for us to return thereunto except that Allah our Lord so willed; everything our Lord comprehendeth in His knowledge; in Allah we place our trust. O our Lord! decide Thou between us and our people with truth, Thou art the Best of the deciders.
یعنی اپنے اختیار یا تمہارے اکراہ و اجبار سے ممکن نہیں کہ ہم معاذ اللہ کفر کی طرف جائیں۔ ہاں اگر فرض کرو خدا ہی کی مشیت ہم میں سے کسی کی نسبت ایسی ہو جائے تو اس کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے۔ اگر اس کی حکمت اسی کو مقتضی ہو تو وہاں کوئی نہیں بول سکتا۔ کیونکہ اس کا علم تمام مصالح اور حکمتوں پر محیط ہے۔ بہرحال تمہاری دھمکیوں سے ہم کو کوئی خوف نہیں کیونکہ ہمارا بالکلیہ اعتماد اور بھروسہ اپنے خدائے واحد پر ہے۔ کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جو ہوگا اسی کی مشیت اور علم محیط کے تحت میں ہوگا۔ اسی لئے ہم اپنے اور تمہارے فیصلہ کے لئے بھی اسی سے دعا کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے قادر اور علیم و حکیم سے بہتر کسی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت شعیبؑ کے ان الفاظ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انبیاء کے قلوب حق تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اپنی عبودیت و افتقار کے کس قدر عظیم و عمیق احساس سے معمور ہوتے ہیں اور کس طرح ہر آن اور ہر حال میں ان کا توکل و اعتماد تمام و سائط سے منقطع ہو کر اسی وحدہٗ لا شرک لہٗ پر پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل ہوتا ہے۔
کسی کو تو ابتداءً نجات دے چکا کہ اس میں داخل ہی نہ ہونے دیا جیسے حضرت شعیبؑ اور بعضوں کو داخل ہونے کے بعد اس سے نکالا جیسے عامۂ مومنین۔
باطل اور جھوٹے مذہب کو سچا کہنا ہی خدا پر افتراء کرنا اور بہتان باندھنا ہے۔ پھر بھلا ایک جلیل القدر پیغمبر اور اس کے مخلص متبعین سے یہ کب ممکن ہے کہ وہ معاذ اللہ سچائی سے نکل کر جھوٹ کی طرف واپس جائیں اور جو سچے دعوے اپنی حقانیت یا مامور من اللہ ہونے کے کر رہے تھے، ان سب کا جھوٹ اور افتراء ہونا تسلیم کریں۔

وَما تَنقِمُ مِنّا إِلّا أَن ءامَنّا بِـٔايٰتِ رَبِّنا لَمّا جاءَتنا ۚ رَبَّنا أَفرِغ عَلَينا صَبرًا وَتَوَفَّنا مُسلِمينَ {7:126}
اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ اے پروردگار ہم پر صبرواستقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو
And what is it for which thou takest vengeance on us save that we have believed in the signs of our Lord when they came unto us? Our Lord! pour out upon us perseverance and cause us to die as Muslims.
یعنی جس رب کی نشانیوں کو مان لینے سے ہم تیری نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں، اسی رب سے ہماری دعا ہے کہ وہ تیری زیادتیوں اور سختیوں پر ہم کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور مرتے دم تک اسلام پر مستقیم رکھے ایسا نہ ہو کہ گھبرا کر کوئی بات تسلیم و رضاء کے خلاف کر گذریں۔

فَقالوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلنا رَبَّنا لا تَجعَلنا فِتنَةً لِلقَومِ الظّٰلِمينَ {10:85}
تو وہ بولے کہ ہم خدا ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھ سے آزمائش میں نہ ڈال
So they said: on Allah We rely, our Lord! make us not a trial for the wrong-doing people.
موسٰیؑ کی نصیحت پر انہوں نے اخلاص کا اظہار کیا کہ بیشک ہمارا بھروسہ خالص خدا پر ہے اسی سے دعا کرتے ہیں کہ ہم کو ان ظالموں کا تختہ مشق نہ بنائے اس طرح کہ یہ ہم پر اپنے زور و طاقت سے ظلم ڈھاتے رہیں۔ اور ہم ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ ایسی صورت میں ہمارا دین بھی خطرہ میں ہے اور ان ظالموں یا دوسرے دیکھنے والوں کو یہ ڈینگ مارنے کا موقع ملے گا اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم پر ایسا تسلط و تفوق کیوں حاصل ہوتا اور تم اس قدر پست و ذلیل کیوں ہوتے۔ یہ خیال ان گمراہوں کو اور زیادہ گمراہ کر دے گا۔ گویا ایک حیثیت سے ہمارا وجود ان کے لئے فتنہ بن جائے گا۔

رَبَّنا إِنَّكَ تَعلَمُ ما نُخفى وَما نُعلِنُ ۗ وَما يَخفىٰ عَلَى اللَّهِ مِن شَيءٍ فِى الأَرضِ وَلا فِى السَّماءِ {14:38}
اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں تو سب جانتا ہے۔ اور خدا سے کوئی چیز مخفی نہیں (نہ) زمین میں نہ آسمان میں
Our Lord! verily Thou knowest that which We conceal and that which We make known; and not of aught is concealed from Allah in the earth or in the heaven.
یعنی زمین و آسمان کی کوئی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں ۔ پھر ہمارا ظاہر و باطن کیسے مخفی رہ سکتا ہے یہ جو فرمایا "جو ہم کرتے ہیں چھپا کر اور جو کرتے ہیں دکھا کر" اس میں مفسرین کے کئ اقوال ہیں ، لیکن تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ الفاظ عام ہیں جو سب کھلی چھپی چیزوں کو شامل ہیں ۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ظاہر میں دعاء کی سب اولاد کے واسطے اور دل میں دعاء منظور تھی پیغمبر آخرالزماں کی۔

رَبِّ اجعَلنى مُقيمَ الصَّلوٰةِ وَمِن ذُرِّيَّتى ۚ رَبَّنا وَتَقَبَّل دُعاءِ {14:40}
اے پروردگار مجھ کو (ایسی توفیق عنایت) کر کہ نماز پڑھتا رہوں اور میری اولاد کو بھی (یہ توفیق بخش) اے پروردگار میری دعا قبول فرما
My Lord! make me establisher of prayer and also from my progeny, our Lord! and accept Thou my supplication.
یعنی میری ذریت میں ایسے لوگ ہوتے رہیں جو نمازوں کو ٹھیک طور پر قائم رکھیں۔
یعنی میری سب دعائیں قبول فرمائے۔

رَبَّنَا اغفِر لى وَلِوٰلِدَىَّ وَلِلمُؤمِنينَ يَومَ يَقومُ الحِسابُ {14:41}
اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور مومنوں کو مغفرت کیجیو
Our Lord! forgive me and my parents and the believers on the Day whereon will be set up the reckoning.
یہ دعاء غالبًا اپنے والد کے حالت کفر پر مرنے کی خبر موصول ہونے سے پہلے کی۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ اسےاسلام کی ہدایت کر کے قیامت کے دن مغفرت کا مستحق بنا دے۔ اور اگر مرنے کی خبر ملنے کے بعد دعا کی ہے تو شاید اس وقت تک خدا تعالیٰ نے آپ کو مطلع نہیں کیا ہو گا کہ کافر کی مغفرت نہیں ہو گی۔ عقلاً کافر کی مغفرت محال نہیں ، سمعًا ممتنع ہے۔ سو اس کا علم سمع پر موقوف ہو گا اور قبل از سمع امکان عقلی معتبر رہے گا۔ بعض شیعہ نے یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ابراہیمؑ کے باپ کو جو کافر کہا گیا ہے وہ ان کے حقیقی باپ نہ تھے بلکہ چچا وغیرہ کوئی دوسرے خاندان کے بڑے تھے ۔ واللہ اعلم۔

إِذ أَوَى الفِتيَةُ إِلَى الكَهفِ فَقالوا رَبَّنا ءاتِنا مِن لَدُنكَ رَحمَةً وَهَيِّئ لَنا مِن أَمرِنا رَشَدًا {18:10}
جب وہ جوان غار میں جا رہے تو کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما۔ اور ہمارے کام درستی (کے سامان) مہیا کر
Recall what time the youths betook themselves to the cave, then said: our Lord! vouchsafe unto us mercy from before Thee, and prepare for us in our affair a right course.

قالا رَبَّنا إِنَّنا نَخافُ أَن يَفرُطَ عَلَينا أَو أَن يَطغىٰ {20:45}
دونوں کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار ہمیں خوف ہے کہ ہم پر تعدی کرنے لگے یا زیادہ سرکش ہوجائے
The twain said: O our Lord! verily we fear that he may hasten against us or wax exorbitant.
یعنی اس کے ڈرنے کی امید تو بعد کو ہو گی ، فی الحال اپنی بے سرو سامانی اور اس کے جاہ و جلال پر نظر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننے کے لئے آمادہ بھی ہو گا یا نہیں ۔ ممکن ہے ہماری پوری بات سننے سے پہلے ہی وہ بھبک پڑے یا سننے کے بعد غصہ میں بپھر جائے اور تیری شان میں زیادہ گستاخی کرنے لگے۔ یا ہم پر دست درازی کرے جس سے اصل مقصد فوت ہو جائے (تنبیہ) موسٰیؑ کے اس خوف اور شرح صدر میں کچھ منافات نہیں۔ کاملین بلاء کے نزول سے پہلے ڈرتے ہیں اور استعادہ کرتے ہیں ۔ لیکن جب آ پڑتی ہے اس وقت پورے حوصلہ اور کشادہ دلی سےاس کا مقابلہ کرتے ہیں۔

إِنَّهُ كانَ فَريقٌ مِن عِبادى يَقولونَ رَبَّنا ءامَنّا فَاغفِر لَنا وَارحَمنا وَأَنتَ خَيرُ الرّٰحِمينَ {23:109}
میرے بندوں میں ایک گروہ تھا جو دعا کیا کرتا تھا کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو تُو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے
Verily there was a party of My bondmen who said: our Lord! we have believed, wherefore forgive us and have mercy upon us, and Thou art the Best of the merciful ones!
یعنی بک بک مت کرو، جو کیا تھا اب اس کی سزا بھگتو۔ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جواب کے بعد پھر فریاد منقطع ہو جائے گی۔ بجز فیروشہیق کے کچھ کلام نہ کر سکیں گے۔ العیاذ باللہ۔

وَالَّذينَ يَقولونَ رَبَّنَا اصرِف عَنّا عَذابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذابَها كانَ غَرامًا {25:65}
اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
And these who say: our Lord! avert from us the torment of Hell verily the torment thereof is perishment.

إِنَّها ساءَت مُستَقَرًّا وَمُقامًا {25:66}
اور دوزخ ٹھیرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے
Verily ill it is as an abode and as a station.
یعنی اتنی عبادت پر اتنا خوف بھی ہے۔ یہ نہیں کہ تہجد کی آٹھ رکعت پڑھ کر خدا کے عذاب و قہر سے بے فکر ہو گئے۔

وَالَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا هَب لَنا مِن أَزوٰجِنا وَذُرِّيّٰتِنا قُرَّةَ أَعيُنٍ وَاجعَلنا لِلمُتَّقينَ إِمامًا {25:74}
اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
And those who say: our Lord bestow on us coolness of eyes from our wives and our offspring, and make us unto the God-fearing a pattern.
یعنی ایسا بنا دے کہ لوگ ہماری اقتداء کر کے متقی بن جایا کریں۔ حاصل یہ کہ ہم نہ صرف بذات خود مہتدی، بلکہ دوسروں کے لئے ہادی ہوں۔ اور ہمارا خاندان تقویٰ و طہارت میں ہماری پیروی کرے۔
یعنی بیوی بچے ایسے عنایت فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مسرور ہو۔ اور ظاہر ہے مومن کامل کا دل اسی وقت ٹھنڈا ہو گا جب اپنے اہل و عیال کو اطاعت الہٰی کے راستہ پر گامزن اور علم نافع کی تحصیل میں مشغول پائے ۔ دنیا کی سب نعمتیں اور مسرتیں اس کے بعد ہیں۔

الَّذينَ يَحمِلونَ العَرشَ وَمَن حَولَهُ يُسَبِّحونَ بِحَمدِ رَبِّهِم وَيُؤمِنونَ بِهِ وَيَستَغفِرونَ لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا وَسِعتَ كُلَّ شَيءٍ رَحمَةً وَعِلمًا فَاغفِر لِلَّذينَ تابوا وَاتَّبَعوا سَبيلَكَ وَقِهِم عَذابَ الجَحيمِ {40:7}
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور مومنوں کے لئے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔ کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے رستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچالے
Those who bear the Throne and those who are round about it, hallow the praise of their Lord and believe in Him and ask forgiveness for those who believe, saying: our Lord! Thou comprehendest everything in mercy and knowledge, wherefore forgive these who repent and follow Thine path, and protect them from the torment of the Flaming Fire.
یہ فرشتوں کے استغفار کی صورت بتلائی۔ یعنی بارگاہ احدیت میں یوں عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کا علم اور رحمت ہر چیز کو محیط ہے۔ پس جو کوئی تیرے علم محیط میں برائیوں کو چھوڑ کر سچے دل سے تیری طرف رجوع ہو اور تیرے راستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہو، اگر اس سے بمقتضائے بشریت کچھ کمزوریاں اور خطائیں سرزد ہو جائیں، آپ اپنے فضل و رحمت سے اسکو معاف فرما دیں۔ نہ دنیا میں ان پر داروگیر ہو اور نہ دوزخ کا منہ دیکھنا پڑے۔ باقی جو مسلمان توبہ و انابت کی راہ اختیار نہ کرے اس کا یہاں ذکر نہیں۔ آیت ہذا اس کی طرف سے ساکت ہے بظاہر حاملین عرش انکے حق میں دعا نہیں کرتے۔ اللہ کا ان کےساتھ کیا معاملہ ہو گا؟ یہ دوسری نصوص سے طے کرنا چاہئے۔
پہلی آیات میں مجرمین و منکرین کا حال زبوں بیان ہوا تھا۔ یہاں انکے مقابل مومنین تابئین کا فضل و شرف بیان کرتے ہیں۔ یعنی عرش عظیم کو اٹھانے والے اور اس کے گرد طواف کرنے والے بیشمار فرشتے جنکی غذا صرف حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید ہے اور جو مقربین بارگاہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کا ایمان و یقین رکھتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے آگے مومنین کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! اس عزت افزائی اور شرف و احترام کا کیا ٹھکانا ہے کہ فرش خاک پر رہنے والے مومنین سے جو خطائیں اور لغزشیں ہو گئیں ملائکہ کَرُّوبیین بارگاہ احدیت میں ان کے لئے غائبانہ معافی چاہیں ۔ اور جب ان کی شان میں { وَیَفْعلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ } آیا تو وہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر مامور ہوں گے۔

رَبَّنا وَأَدخِلهُم جَنّٰتِ عَدنٍ الَّتى وَعَدتَهُم وَمَن صَلَحَ مِن ءابائِهِم وَأَزوٰجِهِم وَذُرِّيّٰتِهِم ۚ إِنَّكَ أَنتَ العَزيزُ الحَكيمُ {40:8}
اے ہمارے پروردگار ان کو ہمیشہ رہنے کے بہشتوں میں داخل کر جن کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے
Our Lord! make them enter the Everlasting Gardens Which Thou hast promised them, and also such of their fathers and their spouses and their offspring as verify Thou: Thou art the Mighty, the Wise.
یعنی اگر چہ بہشت ہر کسی کو اپنے عمل سے ملتی ہے (جیسا کہ یہاں بھی { صَلَحَ } کی قید سے ظاہر ہے) بدون اپنے ایمان و صلاح کے بیوی، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتے لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کےسبب سے کتنوں کو ان کے عمل سے زیادہ اعلٰی درجہ پر پہنچا دے۔ کما قال تعالیٰ { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ } (طور رکوع۱) اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت میں وہ بھی ان ہی کے کسی عمل قلبی کا بدلہ ہو۔ مثلًا وہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اسی مرد صالح کی چال چلیں۔ یہ نیت اور نیکی کی حرص اللہ کے ہاں مقبول ہو جائے یا اس مرد صالح کے اکرام و مدارات ہی کی ایک صورت یہ ہو کہ اس کے ماں باپ اور بیوی بچے بھی اس کے درجہ میں رکھے جائیں۔

وَقِهِمُ السَّيِّـٔاتِ ۚ وَمَن تَقِ السَّيِّـٔاتِ يَومَئِذٍ فَقَد رَحِمتَهُ ۚ وَذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {40:9}
اور ان کو عذابوں سے بچائے رکھ۔ اور جس کو تو اس روز عذابوں سے بچا لے گا تو بےشک اس پر مہربانی فرمائی اور یہی بڑی کامیابی ہے
And protect them from evils. And whosoever Thou shalt protect from evils on that Day, him Thou hast of a surety taken into mercy and that: it is an achievement mighty.
یعنی محشر میں ان کو کوئی برائی (مثلًا گھبراہٹ اور پریشانی وغیرہ) لاحق نہ ہو۔ اور یہ عظیم الشان کامیابی صرف تیری خاص مہربانی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ بعض مفسرین نے سئیات سے اعمال سئیہ مراد لئے ہیں یعنی آگے کو انہیں برے کاموں سے محفوظ فرما دے۔ اور ان کی خو ایسی کر دے کہ برائی کی طرف نہ جائیں۔ ظاہر ہے جو آج یہاں برائی سے بچ گیا اس پرتیرا فضل ہو گیا۔ وہ ہی آخرت میں اعلٰی کامیابی حاصل کرے گا۔ اس تفسیر پر { یَوْمَئِذٍ } کا ترجمہ بجائے "اُس دن" "اِس دن" ہونا چاہئے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی تیری مہر ہی ہو کہ برائیوں سے بچے۔ اپنے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ تھوڑی بہت برائی سے کون خالی ہے"۔ یہ الفاظ دونوں تفسیروں پر چسپاں ہو سکتے ہیں۔

وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ {59:10}
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
And it is also due Unto those who came after them, saying: 'Our Lord! forgive us and our brethren who have preceded us in the faith, and place not in our hearts any rancour toward those who had believed. Our Lord! verily Thou art Tender, Merciful.'
یعنی سابقین کے لئے دعاء مغفرت کرتے ہیں اور کسی مسلمان بھائی کی طرف سے دل میں بیر اور بغض نہیں رکھتے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "یہ آیت سب مسلمانوں کے واسطے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں"۔ امام مالکؒ نے یہیں سے فرمایا کہ جو شخص صحابہؓ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے اس کے لئے مال فئ میں کچھ حصہ نہیں۔
یعنی ان مہاجرین و انصار کے بعد عالمِ وجود میں آئے، یا ان کے بعد حلقہ اسلام میں آئے یا مہاجرین سابقین کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے۔ والظاہر ہوالاوّل۔

قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرٰهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ إِلّا قَولَ إِبرٰهيمَ لِأَبيهِ لَأَستَغفِرَنَّ لَكَ وَما أَملِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ ۖ رَبَّنا عَلَيكَ تَوَكَّلنا وَإِلَيكَ أَنَبنا وَإِلَيكَ المَصيرُ {60:4}
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے
Surely there hath been an excellent pattern for you in Ibrahim and those with him, when they said Unto their people; verily we are quit of you and of that which ye worship beside Allah; we renounce you; and surely there hath appeared between us and you hostility and hatred for evermore until ye believe in Allah alone, - except the saying of Ibrahim Unto his father: surely I shall beg forgiveness for thee, and I have no power with Allah for thee at all. Our Lord! in Thee we put our trust, and Unto Thee we turn, and Unto Thee is the journeying.
یعنی صرف دعا ہی کرسکتا ہوں کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ خدا جو کچھ پہنچانا چاہے۔ اسے میں نہیں روک سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی ابراہیمؑ نے ہجرت کی پھر اپنی قوم کی طرف منہ نہیں کیا۔ تم بھی وہی کرو۔ ایک ابراہیمؑ نے دعا چاہی تھی، باپ کے واسطے۔ جب تک معلوم نہ تھا۔ تم کو معلوم ہو چکا۔ لہٰذا تم کافر کی بخشش نہ مانگو"۔ (تنبیہ) باپ کے حق میں ابراہیمؑ کے استغفار کا قصہ سورۃ "براءۃ" میں گزر چکا۔ آیت { وماکان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایّاہ } الخ کے فوائد میں دیکھ لیا جائے۔
یعنی سب کو چھوڑ کر تجھ پر بھروسہ کیا اور قوم سے ٹوٹ کر تیری طرف رجوع ہوئے اور خوب جانتے ہیں کہ سب کو پھر کر تیری ہی طرف آنا ہے۔
یعنی یہ دشمنی اور بیر اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب تم شرک چھوڑ کر اسی ایک آقا کے غلام بن جاؤ جس کے ہم ہیں۔
یعنی جو لوگ مسلمان ہو کر ابراہیمؑ کے ساتھ ہوتے گئے اپنے اپنے وقت پر سب نے قولًا یا فعلًا اسی علیحدگی اور بیزاری کا اعلان کیا۔
یعنی تم اللہ سے منکر ہو۔ اور اس کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ ہم تمہارے طریقہ سے منکر ہیں۔ اور ذرّہ برابر تمہاری پروا نہیں کرتے۔

Our Lord, do not make us a cause of beguilement for those who disbelieve, that is to say, do not make them prevail over us, lest they think that they are following the truth and are beguiled as a result, in other words, [lest] they lose their reason because of us; and forgive us. Our Lord, You are indeed the Mighty, the Wise’, in Your kingdom and Your actions.
رَبَّنا لا تَجعَلنا فِتنَةً لِلَّذينَ كَفَروا وَاغفِر لَنا رَبَّنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ العَزيزُ الحَكيمُ {60:5}
اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے
Our Lord! make us not a trial for those who disbelieve, and forgive us, our Lord! verily Thou! Thou art the Mighty, the Wise.
یعنی ہم کو کافروں کے واسطے محل آزمائش اور تختہ مشق نہ بنا۔ اور ایسے حال میں مت رکھ جس کو دیکھ کر کافر خوش ہوں، اسلام اور مسلمانوں پر آوازے کسیں اور ہمارے مقابلہ میں اپنی حقانیت پر استدلال کرنے لگیں۔
تیری زبردست قوت اور حکمت سے یہی توقع ہے کہ اپنی وفاداروں کو دشمنوں کے مقابلہ میں مغلوب و مقہور نہ ہونے دیگا۔
یعنی ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما اور تقصیرات سے درگذر کر۔

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ يَومَ لا يُخزِى اللَّهُ النَّبِىَّ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ ۖ نورُهُم يَسعىٰ بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمٰنِهِم يَقولونَ رَبَّنا أَتمِم لَنا نورَنا وَاغفِر لَنا ۖ إِنَّكَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {66:8}
مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا۔ اس دن پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا (بلکہ) ان کا نور ایمان ان کے آگے اور داہنی طرف (روشنی کرتا ہوا) چل رہا ہوگا۔ اور وہ خدا سے التجا کریں گے کہ اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر اور ہمیں معاف کرنا۔ بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
O ye who believe! Turn Unto Allah with a sincere repentance. Belike your Lord will expiate from you your misdeeds and cause you to enter Gardens where under rivers flow, on the Day whereon Allah will not humiliate the prophet and those who believe with him. Their light will be running before them and on their right hands, and they will say: our Lord! Perfect for us our light, and forgive us; verily Thou art over everything Potent.
صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئ ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی { رزقنا اللہ منھا حظا وافرابفضلہ وعونہ وھو علٰی کل شئی قدیر }۔
یعنی ہماری روشنی آخر تک قائم رکھیے، بجھنے نہ دیجئے۔ جیسے منافقین کی نسبت سورۃ "حدید" میں بیان ہوچکا کہ روشنی بجھ جائیگی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے۔ مفسرین نے عمومًا یہ ہی لکھا ہے لیکن حضرت شاہ صاحبؒ { اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں، پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)۔
یعنی نبی  کا کہنا کیا۔ اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کریگا۔ بلکہ نہایت اعزارواکرام سے فضل و شرف کے بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔
اس کا بیان سورۃ "حدید" میں ہو چکا۔