علما و صلحا کی مجالس
ابوعبدالله حارث بن اسد محاسبی
حضرت حسن بصری رحمہ الله تعالی فرمایا کرتے تھے : علما وصلحا کی مجالس کے علاوہ ساری دنیا میں تاریکی ہی تاریکی ہے ۔ ( جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبدالبر:51/1)
سہل بن عبدالله تستری فرماتے ہیں : جو انبیا کی مجالس کا منظر دیکھنا چاہتا ہو وہ علما کی مجالس کو دیکھ لے۔ ( مفتاح دارالسعادة ابن القیم :129)
اکابر ائمہ صلحا کی مجالس کا اثر
مقتدیٰ وصاحب سیرت ذات کو دیکھنے میں اس سے نصیحت کے سننے میں زیادہ اثر پذیری ہے اور دیکھنے والے میں اس کے اثرات دیر تک باقی رہتے ہیں ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے اس زیارت کا بہت حصہ حاصل کیا او راس سے بھر پور مستفید ہوئے ،کیوں کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین آپ کی صحبت میں بیٹھتے، آپ کی زیارت سے محظوظ ہوتے اور آپ کا قرب تلاش کرتے تھے اس لیے وہ حضرات امت کا بہترین وافضل ترین عنصر کہلائے، جس کو نبی کریم علیہ الصلوات والسلام کے بعد لوگوں کو راہ نمائی وہدایت کے لیے منتخب کیا گیا۔
نیک وقابل اقتداء شخصیت کی زیارت الله تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے کہ ان پر انوار وتحلیات کی ضیا پاشیاں، انس واطمینان، محبت وسکینت کی جھلکیاں، ان کی چال ڈھال، عاجزی، بول چال، خاموشی وفکر مندی، حرکت وسکون اورتمام احوال میں برستی نظر آتی ہیں تو ہر دیکھنے والے کی نظر اس منظر سے خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہے اور یہ اس کے لیے ” مذکر“ ( یاد دلانے والی ) ہوتی ہے اوران لوگوں کی شکل وصورت توجہ الی الله کی وجہ سے نظروں کو الله تعالیٰ کی طرف پھیر دیتی ہے” یہی وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے۔“
اہل الله کی مجالس میں بیٹھنے والوں میں خیر کیسے سرایت کرتی ہے؟
حکیم ترمذی رحمہ الله تعالیٰ”نوادر الاصول صفحہ140“ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان ”من ذکَّرکم بالله رؤیتُہ“ (جس کا دیدار تمہارے اندر الله تعالیٰ کی یاد تازہ کر دے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ۔ ان سے قرب خداوندی کی رونق، عظمت ایزدی کانور، کبریائی کا رعب ودبدبہ، وقار وسکینت کی انسیت ٹپکتی ہے، ان پر ملکوتیت کے آثار کے ظہور کی وجہ سے ان کو دیکھ کر الله تعالیٰ کی یاد ستاتی ہے۔
انسانی دل ان تمام صفات کا مخزن اور نور کا مستقر ہے، چہرہ بھی دل ہی کے رنگ سے رنگ جاتا ہے تو جب دل پر وعدہ وعید والے بادشاہ کا نور غالب ہو گا تو یہی نور چہرے سے ظاہر ہو گا، جب انسان کی نظر اس چہرہ پر پڑے گی ، نیکی وتقوی کو ابھارے گی، پھر اس سے الله تعالیٰ کے اوامر کے علم اور صلاح کی ہیبت دل میں جاگزیں ہو گی۔
دل میں جب حق تعالیٰ کی ہیبت کا نور ہو گا تو یہ چہرہ کو متاثر کرے گا، پھر جب تمہاری نظر اس چہرے پر پڑے گی تو تمہیں صدق وحق کی یاد دلائے گی، تم پر حق واستقامت کی ہیبت چھا جائے گی، (اسی طرح) جب الله جل شانہ کی عظمت وہیبت وبادشاہت کا نور دل میں ضو فشاں ہو گا تو یہ چہرے تک سرایت کرے گا، پھر جب اس چہرے سے نظریں دو چار ہوں گی تو الله جل جلالہ کی شان وشوکت ورُعب کی یاد دلائے گی ، ( اسی طرح) دل میں الله تعالیٰ کا نور ( جاگزیں) ہو گا، جو کہ منبع انوار ہے، تو ایسے انسان کا دیدار تمہیں عیوب ونقائص اور الله تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی سے مانع ہو گا، اس لیے کہ دل کی شان یہ ہے کہ اس سے چہرے کے سوتوں کو سیراب او راس کو تروتازہ زندگی کے پانی سے معطر کر دے گا اور چہرہ تک صرف وہی چیز سرایت کرے گی جو دل میں ہو گی ، پھر ان انوارات میں سے جو نور دل میں ہو گا وہی چہرے سے عیاں ہو گا، الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ ولقّٰھم نضرة وسروراً﴾․ (سورة الانسان)
”اور عنایت کر دی ان کو ( چہرے کی ) تازگی اور ( دل کی ) خوشی۔“
پھرجب بندے کا دل الله تعالیٰ کی رضا او راس سے چمکنے والے نور کی وجہ سے خوش ہو گا تو چہرہ دلی رضا مندی کی وجہ سے ( چمک دار ) تروتازہ ہو گا۔ اسی کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی رؤیت سے یاد خدا وندی پیدا ہوتی ہے اور آپ نے اس کو ولایت کی نشانی او رعلامت بتلایا ہے “۔ ( فیض القدیر مناوی:467/2)
شیخ ابو غدہ فرماتے ہیں : سلف صالحین واکابر میں یہ وصف بہت زیادہ تھا، لوگ محض ان کی زیارت سے استفادہ کے لیے حاضر ہوتے، کیوں کہ محض ان کی زیارت ہی دلوں کو جگ مگا دیتی اور دل میں اصلاح کا داعیہ پیدا کر دیتی، دین کو محبوب بنا دیتی اور الله تعالیٰ کی یاد دلاتی تھی۔
علما کی مجالس میں جاتے وقت نیت کیا ہو؟
امام ابن الجوزی اپنی کتاب”صید الخاطر303/2“ پر فرماتے ہیں :” سلف صالحین کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی نیک بندے کے پاس اس کی راہ نمائی وتوجہ کے حصول کے لیے جاتی تھی ، علم حاصل کرنا ان کا مقصد نہ ہوتا ،کیوں کہ ان کی رشد وہدایت اور کسی جہت پر گامزن ہونا ان کے علم کا ہی ثمر ونتیجہ ہوتا۔
ابو طالب مکی” قوت القلوب“ میں فرماتے ہیں : ”وہ حضرات شہروں کا رخ صرف علما وصلحا کی ملاقات وزیارت ان سے برکت کے حصول کے لیے کرتے اوران سے ادب سیکھنے جاتے تھے۔