Front - The Prophet Muhammed

Monday, July 29, 2013

کسی کی خدمت میں سلام اوردعاء کی درخواست بھیجنا

کسی کی خدمت میں سلام اوردعاء کی درخواست بھیجنا


حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ جب آپ حنین سے فارغ ہوئے تو ابو عامر کو لشکر پر اوطاس کی جانب بھیجا ،تو ابو عامر کے ساتھ ہمیں بھی بھیجا،ابو عامر کوگھٹنے میں تیر لگ گیا،میں نے تیر کو ان کے گھٹنے سے کھینچا وہ سخت درد میں مبتلا تھے،انہوں نے مجھ سے کہا اے میرے بھائی میرا سلام نبی پاک کو پہنچا دینا اورکہہ دینا کہ میرے لئے دعاء مغفرت فرمائیں،ابو عامر نےمجھے اپنا خلیفہ بنادیا،تھوڑی دیر کے بعد ان کا انتقال ہوگیا، میں واپس آیا اورآپ کے پاس آیا تو آپ کھجور کی چھال کی بنی چارپائی پر تھے اوراس پر ایسا (ہلکا) بستر تھا کہ آپ کی پیٹھ اورپہلو میں چار پائی کے نشانات نظر آرہے تھے،میں نے آپ کو اپنا اور ابو عامر کا واقعہ بتایا اور میں نے کہا کہ انہوں نے کہا ہے کہ آپ سے سلام اور دعاء مغفرت کے لئے کہہ دو؛چنانچہ آپ نے پانی منگایا،وضو فرمایا ،پھر ہاتھ اٹھایا اوردعاء کی،اے اللہ ابو عامر بندے کی مغفرت فرما اور میں آپ کے بغل کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا، پھر آپ نے یہ دعاء کی،اے اللہ قیامت کے دن اس کو تمام لوگوں پر فائق فرما، میں نے کہا میرے لئے بھی دعاء مغفرت فرمادیجئے،آپ نے فرمایا، اے اللہ عبداللہ بن قیس کی مغفرت فرما اور انہیں قیامت میں معزز ومکرم مقام میں داخل فرما۔

(مسلم:۲/۳۰۳)

فائدہ:


اس سے معلوم ہوا کہ دعاء کا پیغام دوسروں کو بھیجنا مسنون ہ

شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت

شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت

اس حدیث مبارک کو تو جہ سے پڑھیے!
حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی عورتیں ، بہترین عورتیں ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو تی ہیں ، بچوں پر بڑی مہر با ن ہو تی ہیں اور تنگ دست شو ہر کے مال کی حفا ظت کر تی ہیں ۔“ ( البخاری ۳۳۳۳، مسلم ۱۶/۸۰)

حدیث مذکو رہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ” قریش کی عورتیں ، بہتر ین عورتیں ہیں ۔“ یہ قریش کی عورتوں کو عرب کی عورتوں پر خا ص طو ر پر فضیلت دینا ہے اس لیے کہ اہل عرب عمو ماً اونٹوں والے ہو تے تھے ۔ ( فتح الباری : ۶/۳۷۳)
پھر فرمایا کہ ” احناہ “ یعنی بچوں پر بہت شفقت کر نے والی ہو تی ہیں ، ” حا نیتہ “ اس عورت کو کہتے ہیں جو با پ کے مر نے کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کر تی ہو ، جیسا کہ کہا جا تا ہے :” حنت المرأة علی ولدھا “ یعنی عورت نے بچوں کے باپ کے مر نے کے بعد دوسری شادی نہیں کی ، کیونکہ جو شادی کر لیتی ہے اس کو ” حا نیتہ “ نہیں کہتے ۔ اس حدیث سے اولاد پر شفقت و مہر با نی اور ان کی اچھی تر بیت کر نے کی فضیلت معلوم ہو ئی کہ جب بچوں کا باپ فوت ہو جائے تو بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھا ل بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے ۔ ( شرح النووی : ۱۶ / ۸۰)
پھر فرمایا: ” وار عاہ علی زوج فی ذات ید “ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے مال کی خوب حفاظت رکھتی ہے اور فضو ل خر چی نہیں کر تی ۔ ” وذات ید “ کا معنی قلیل الما ل ہے ، یعنی تنگ دست ہو ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بناتی ہے، شو ہر کے ساتھ تنگ زندگی گزار تی ہے ، شو ہر کی تنگ دستی اور مادی حالت سے نہیں اکتاتی بلکہ صبر و احتساب سے کا م لیتی ہے اور جا نتی ہے کہ اصل لذت ایمان کی لذت ہے نہ کہ مال کی لذت ۔
لیجئے !سنیئے ! حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھا نجے حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے کیا فرماتی ہیں : حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھا نجے سے فرمایا: ” اے میر ے بھا نجے ! ہم مسلسل چاند پر چاند دیکھتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ نے پو چھا : خالہ جان پھر آپ کا گزر بسر کیسے ہو تا تھا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : دو سیاہ چیزیں ، یعنی کھجو ر اور پا نی پر گزر ہو تا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار سے کچھ پڑوسی ہو تے تھے ، وہ کبھی کبھا ر اپنی بکریوں کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا تے تھے۔“ ( البخاری : ۶۳۵۹
شوہر کے فقر پر صبر کر نے کی نصیحت اس حدیث مبارک کو تو جہ سے پڑھیے! حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی عورتیں ، بہترین عورتیں ہیں کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو تی ہیں ، بچوں پر بڑی مہر با ن ہو تی ہیں اور تنگ دست شو ہر کے مال کی حفا ظت کر تی ہیں ۔“ ( البخاری ۳۳۳۳، مسلم ۱۶/۸۰) حدیث مذکو رہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ” قریش کی عورتیں ، بہتر ین عورتیں ہیں ۔“ یہ قریش کی عورتوں کو عرب کی عورتوں پر خا ص طو ر پر فضیلت دینا ہے اس لیے کہ اہل عرب عمو ماً اونٹوں والے ہو تے تھے ۔ ( فتح الباری : ۶/۳۷۳) پھر فرمایا کہ ” احناہ “ یعنی بچوں پر بہت شفقت کر نے والی ہو تی ہیں ، ” حا نیتہ “ اس عورت کو کہتے ہیں جو با پ کے مر نے کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کر تی ہو ، جیسا کہ کہا جا تا ہے :” حنت المرأة علی ولدھا “ یعنی عورت نے بچوں کے باپ کے مر نے کے بعد دوسری شادی نہیں کی ، کیونکہ جو شادی کر لیتی ہے اس کو ” حا نیتہ “ نہیں کہتے ۔ اس حدیث سے اولاد پر شفقت و مہر با نی اور ان کی اچھی تر بیت کر نے کی فضیلت معلوم ہو ئی کہ جب بچوں کا باپ فوت ہو جائے تو بے سہارا یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھا ل بڑے اجر و ثواب والا عمل ہے ۔ ( شرح النووی : ۱۶ / ۸۰) پھر فرمایا: ” وار عاہ علی زوج فی ذات ید “ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے مال کی خوب حفاظت رکھتی ہے اور فضو ل خر چی نہیں کر تی ۔ ” وذات ید “ کا معنی قلیل الما ل ہے ، یعنی تنگ دست ہو ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بناتی ہے، شو ہر کے ساتھ تنگ زندگی گزار تی ہے ، شو ہر کی تنگ دستی اور مادی حالت سے نہیں اکتاتی بلکہ صبر و احتساب سے کا م لیتی ہے اور جا نتی ہے کہ اصل لذت ایمان کی لذت ہے نہ کہ مال کی لذت ۔ لیجئے !سنیئے ! حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھا نجے حضرت عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے کیا فرماتی ہیں : حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھا نجے سے فرمایا: ” اے میر ے بھا نجے ! ہم مسلسل چاند پر چاند دیکھتے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ نے پو چھا : خالہ جان پھر آپ کا گزر بسر کیسے ہو تا تھا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : دو سیاہ چیزیں ، یعنی کھجو ر اور پا نی پر گزر ہو تا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار سے کچھ پڑوسی ہو تے تھے ، وہ کبھی کبھا ر اپنی بکریوں کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دودھ ہمیں بھی پلا تے تھے۔“ ( البخاری : ۶۳۵۹

ے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟(تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)


ے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟(تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘



‘خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور …کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔

یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟

بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا چارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے

جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اشھد ان لا الہ الا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب اشھد ان محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358سبکي، شفاء السقام : 340حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308’’
4