Front - The Prophet Muhammed

Friday, October 11, 2013

امام اعظم کی بیس احادیث


العشرین لابی حنیفة
امام اعظم کی بیس احادیث
تالیف و ترجمہ:
مفتی رشید احمد العلوی
استاذ جامعہ علوم اسلامیہ



الحمد للہ رب العالمین والصلوة
 والسلام علیہ رسولہ محمد والہ واصحابہ اجمعین اما بعد:تمام مسلمانوں پر یہ بات واضح ہو کہ امت میں اولین لوگ اللہ تعالی کے ہاں زیادہ مقبول اور بلند درجہ کے حامل ہیں اس کے بعد جو انکے بعد تھے اور اس کے بعد جو انکے بعد تھے اللہ تعالی کروڑہا رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے امام اعظم پر جو خیر القرون میں ہونے کے باوجود آنے والے لوگوں اور پیدا ہونے والے فتنوں سے باطنی بصیرت کے ساتھ آگاہ تھے اسی لئے تمام دینی علوم میں تدوین کا اولین سہرہ آپکی والاشان ذات کا حصہ ہے آپ نے براہ راست صحابہ کرام سے احادیث سنی جو کسی اور امام کا خاصہ نہیں ہے ان احادیث مبارکہ کا مجموعہ ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اس کے وسیلہ جلیلہ سے سعادت دارین اور اس نیک عمل کی اشاعت کرنے والوں اس کو پھلانے والوں اور اس کی ترویج واشاعت میں معاونت کرنے والوں کو انبیاء اولیا فقہائے امت اور امام اعظم کی شفاعت میں ہماراحصہ فرمائے آمیں اور اس حدیث کا مصداق بنائے جس میں ارشاد نبوی ہے (نضر اللہ امرأسمع مقالتی )یعنی اللہ تعالی خوش وخورم رکھے اس شخص کو جو میری باتیں سنے ان کی حفاظت کرے اور آگے پہنچادے.

(عن انس بن مالک)
انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام رسول اللہ کی خدمت میئں دس برس کی عمر میں مدینہ میں حاضر ہوئے اور دس برس تک خدمت نبوی کا فریضہ سرانجام دیا تھااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں کوفہ میں ہجرت کر گئے تھے تا کہ وہاں لوگوں کو دین کی تعلیم سے آشناء کریںاور صحابہ کرام میں سے سوائے ابو طفیل کے سب سے آخر میں فوت ہوئے اور بصرة میں سب سے آخری صحابی ہیں جو فقت ہوئے اور آپکی وفات کا سال میں تین روایات ہیں اکانوے؛ترانوے ھجری ہے اور وفات کے وقت آپ کی عمر ننانوے یا ایک سو تین سال تھی وقفات کے وقت آپ کی اولاد اسی بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور آپ کی وفات کے وقت امام ابوحنیفہ کی عمر گیارہ یا تیرہ برس کی تھی ؛اور امام صاحب طلب علم کے لئے بصرة میں بیس مرتبہ سے زیادہ تشریف لے گئے تھے[١] قَالَ اَخْبَرَنَا اَبُوحَنِیْفَةَ النعمان بن الثابت قَالَ سمعت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ یَقُوْلُ قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : طَلْبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَة عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ
(الموفق المکی:ص٢٨و٣٢ وجامع المسانیداخرجہ ابن ماجة عن انس ابن مالک واللفظ لہ:طلب العلم فریضة علی کل مسلم وواضع العلم عند غیر اھلہ کمقلد الخنازیر الجوھروالؤلؤ والذھب ؛ مقدمةرقم:٢٢٠)
امام اعظم نے فرمایا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے رسول اللّٰہﷺ نے فرمایاعلم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے ؛اور اس میں امام ابن ماجہ نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ نااہل کوعلم دینے والے شخص کی مثال ایسے ہے جیسے سؤر کے گلے میں سونے، لؤلؤاور ہیرے کے موتیوں کی مالا ڈالی جائے ؛نوٹ: نااھل کو علم دینے کا وبال بہت سخت ہے اس لئے اس بات سے پورے طرح بچنا چاہئے کہ جو علم کا طالب نہ ہو اس کو علم نہ دیا جائے اور حصول علم کی نشانیاں ملا علی القاری نی عین علم میں یوں ارشاد فرمائی ہیں(١) عمل کی نیت سے علم حاصل کیا جائے (٢) بلا وجہ کی فتوی بازی سے بچنے کے لئے علم حاصل کیا جائے (٣) باطنی بصیرت کے حاصل کرنے کے لئے علم حاصل کیا جائے(٤) اپنے اندر طلباء کوعلم سکھانے کی شفقت کی وجہ سے علم حاصل کیا جائے(٥) اپنی سمجھ کے مطابق علم حاصل کیا جائے(٦) مالی لالچ کے بغیر علم حاصل کیا جائے(٧)عمل کی نیت سے علم حاصل کیا جائے(٨) دنیاوی ضروریات سے نظر پھیر کر علم حاصل کرے(٩) حصول علم میں استاذ کی منت سماجت بھی کرنی پڑے تو اس سے اعراض نہ کرے(١٠) اپنے دل ودماغ کو استاد کی بات سمجھنے میں اچھی طرح لگادے(١١) حصول علم میں اس کی پورا قلبی استحضار ہو(١٢) حصول علم میں شرم کو بالائے طاق رکھ کر علم حاصل کرے(١٣) حصول علم میں اپنے آپکو کبھی بھی منتھی خیال نہ کرے(١٤) جو علم زیادہ ضروری ہے اس کو پہلے سیکھے (١٥) پیش امدہ مسائل کے بارے میں پہلے علم حاصل کرے(١٦) حصول علم میں خلوت گزینی اختیار کرے(١٧) حصول علم میں ریا کاری اورعجب سے بچے(١٨) اصول اسلام یعنی کتاب اللہ سنة رسول اوراجماع امت کے اصول وضوابط کے مطابق علم حاصل کرے(١٩) بلاوجہ کے سوالات اور اعتراضات سے اجتناب کرے(٢٠) حصول علم میں اپنے عمل اور اعتقاد کے درمیان دورنگی نہ پیدا کرے؛


[٢]: عن ابی حنیفة قَالَ سَمِعْتُ انس بن مالک یقول:سمعتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقُوْلُ ألدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہْ؛
(المناقب لمکی٢٦اخرجہ الترمذی عن انس بن مالک رقم:٢٥٩٤ ؛عن انس قَالَ اتی النبی ﷺ رجل یستحملہ فلم یجد عندہ ما یتحملہ فدل علی آخرہ فحملہ فاتی النبیﷺ فاخبرہ فقال :ان الدال علی الخیر کفاعلہ؛ وقال الترمذی وفی الباب عن عبد اللّٰہ بن مسعود البدری وبریدہ ؛وقال المرتب عبد اللّٰہ بن ابی اوفی ؛ ومنقول عن الامام عن انس اخرجہ الجامع المسانید والجامع ؛ وحدیث بریدة اخرجہ احمد وقال حدثناابوحنیفة عن علقمة بن المرثد عن سلیمان بن بریدة عن ابیہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قَالَ لرجل اذھب فان الدال علی الخیر کفاعلہ مسند باقی الانصار حدیث بریدة الاسلمی)
امام اعظم نے فرمایاکہ میں نے انس بن مالک سے سنااور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللّٰہفرماتے تھے نیکی کی طرف نشان دہی کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے خود نیکی کرنے والا،یہ حدیث نبی اکرمﷺے چار صحابہ کرام نے روایت کی ہے جن میں عبد اللّٰہ بن مسعود کے علاوہ باقی تین انس بن مالک ؛بریدة اسلمی اور عبد اللّٰہ بن ابی اوفی سے حضرت امام اعظم نے روایت کی ہے؛[٣] عن ابی حنیفة قال رأیت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فی المسجد قائماً یصلی (المناقب لمکی:ص٢٥)
امام ابوحنیفة فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا آپ مسجد میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے[٤]عن ابی حنیفة قال سمعت انسا رضی اللہ عنہ یقول قال سمعت رسول اللہ ﷺ من قال لاالہ الااللہ مخلصا من قلبہ دخل الجنة؛ ولوتوکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر تغدو خماصا وتروح بطاناً(الماقب الکردری:ص٦)
امام صاحب نے فرمایا کہ میں انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ فرمارہے تھے جو شخص اپنے دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الااللہ کہے وہ جنت میں داخل ہوگااور فرمایاکہ اگر تم اللہ تعالی پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کا حق ہے تو اللہ تعالی تمہیں اس طر رزق دے گا جیسے پرندوں ک دیتا ہے اور وہ پرندے صبح خالی پیٹ گھونسلے سے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں۔توکل کی دو قسمیں
پہلی قسم:جو اللہ تعالی اور اس کے نبی علیہ اسلام نے سابقین اولیاء کی صفت بتائی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو لایرقون ولایسترقون ولایکوون ولایکتوون وعلی ربھم یتوکلون یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو علاج معالجہ کے لئے تعویذات لیتےہیں اور نہ ہی تعویذات وغیرہ کی عادت بناتے ہیں اور نہ دوائی وغیرہ لیتے اور نہ ہی دوائی کا عادت بناتے ہیں اور اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں؛ یہ توکل ایسی چیز ہے جس سے انسان کو سکون نفس حاصل ہوجاتا ہے اور یہ خاص لوگوں کا معمول ہے اس مقام میں انسان نفع اور نقصان کے مرتبہ سے عاری ہوجاتاہے بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ تعلق مضبوط ہوجاتاہے توکل کی دوسری قسم:ماذون لوگوں کا توکل ہے اس میں اسباب کو اختیار کرنا اور نقصان دہ اشیاء سے حفاظت کرناانسان کے ذمے لازم ہے اس کی کئی مثالیں ہیں (١): جیسے رسول اللہﷺ نے ایک صحابی عمرو بن امیة الضمری کو کہا کہ جاؤ پہلے اونٹ کی ٹانگ باندھو اور پھر توکل کرو (٢): اسی طرح بعض امور میں مشورہ کا حکم دیا گیا تاکہ مشاورت سے دل میں سکون اجائے(٣): اسی قسم کا واقعہ ہے جب غزوۂ تبوک سے کعب بن مالک رہ گئے اور ساتھ نہ جاسکے تو سارا مال صدقہ کرنا چاہا کیونکہ اسی مال کی وجہ سے ہیچھے رہ گئے تھے تو رسول اللہﷺ نے اس سے کچھ مال لیااور باقی اسکو واپس دے دیاتھا اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں اس توکل کو صوفیاء کی زبان میں توکل ناقص بھی کہتے ہیں۔

[٥] عن الامام ابوحنیفة سمعت انس بن مالک یَقُوْلُ سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یَقُوْلُ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ اِغَاثَةَ اللُّھْفَانِ؛(المناقب لمکی :٢٦)
امام اعظم نے فرمایا میںنے حضرت انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللّٰہﷺ فرمایا کرتے تھے :اللّٰہ تعالی مظلوم کی دادرسی کرنے والے سے محبت کرتے ہیں؛[٦] عن ابی حنیفة قال کان علمائناکلھم یقولون فی سجدة السھوانھما بعد السلام ویتشھد فیھما ویسلم ؛ قال حماد بن ابی سلیمان ھکذا یفتی انس رضٰ اللہ عنہ قال ابو حنیفة سألت انس بن مالک فقال ھکذا(المناقب لمکی:ص٢٦) 
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے سارے علماء سجدة سھو کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ سجدہ سلام کے بعد اداکیا جاتاہے اور اس کے بعد یشھد پڑھنے کے بعد سلام پھیرا جاتاہے ؛اور حضرت حماد فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اسی طرح فتوی دیا کرتے تھے ؛امام ابوحنیفة فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے اسی طرح جواب دیا :کہ پہلے سلام پھریں پھر دوبارہ تشھد پڑھیں اور اس کے پورا کرنے کے بعد دوبارہ سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کرلیں۔[٧] عن ابی حنیفة عن انس رضی اللہ عنھما قال کانی انظر الی لحیة ابی ْحافة کانھا ضرام عرفجة (المناقب لمکی:ص٢٧)
امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ابو قحافہ کی ڈاڑھی دیکھ رہا تھا گویا کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [٨]قال ابوحنیفة لقیت انس بن مالک الانصاری:وسمعتہ یقول قال رسول اللہﷺ من قال لاالہالااللہ خالصا مخلصا بھا قلبہ دخل الجنة ؛ولو توکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کماترزق الطیر تغدوخماصا وتروح بطاناً(المنا قب المکی:ص٣٦)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے ملا اور انکو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہﷺ سے یہ سنا آپنے فرمایا : جو شخص اپنے دل کی گہرائی اور اخلاص کے ساتھ لاالہ الااللّٰہ پڑھتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا؛اور یہ کہ اگر تم اللّٰہ تعالی پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کا حق سے تو اللّٰہ تعالی تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے جب تم صبح کے وقت گھر سے نکلتے تو تم بھوکے ہوتے اور جب شام کو واپس آتے تمہارے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے۔[٩] قَالَ ابوحنیفة سمعت انساً یَقُوْلُ قَالَ : سمعت رسول اللّٰہﷺ من قَالَ لاالٰہ الااللّٰہ مخلصاً من قلبہ دخل الجنة ولوتوکلتم علی اللّٰہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر تغدوخماصاً وتروح بطاناً (المناقب الکردری)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہﷺ سے یہ سنا آپﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے دل کی گہرائی اور اخلاص کے ساتھ لاالہ الااللّٰہ پڑھتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا؛اور یہ کہ اگر تم اللّٰہ تعالی پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کا حق سے تو اللّٰہ تعالی تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ؛جب تم صبح کے وقت گھر سے نکلتے تو تم بھوکے ہوتے اور جب شام کو واپس آتے تمہارے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے؛

(عن عبد اللہ بن انیس)
[١٠]عن ابی حنیفة رضی اللّٰہ عنہ قَالَ ولدتُ سنةَ ثمانینَ وقدمَ عبد اللّٰہ بن انیس صاحب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الکوفةَ سنة اربع وتسعین ورأیتُہ، وسمعت منہ، وانا ابن اربع عشرةَ سنة سمعتُہ یقُول سمعتُ رسول اللّٰہیقول:حُبُّکَ شَیْیٍٔ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ 
(المناقب لمکی ص٣٢وجامع المسانید والمناقب لکردری:١٨جامع المسانید واخرجہ ابوداود رقم:٤٤٦٥؛ احمد فی مسند الانصار رقم:٢٠٧٠٥؛ مسند قبائل ٢٦٢٦٨؛ کلھم عن ابی الدردائ)
امام اعظم فرماتے ہیں کہ میری ولادت سن اسی ہجری میں ہوئی اورصحابی رسول حضرت عبد اللّٰہ بن انیس سن چرانوے ہجری میں کوفہ تشریف لائے ؛جہاں مجھے آپکی زیارت کا شرف حاصل ہوا؛اورآپ سے احادیث سننے کا شرف حاصل ہوا اس وقت میری عمر چودہ برس تھی اوروہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :کہ تیرا کسی سے محبت میں مبتلاء ہونا تجھے اس کے بارے میں اندھا اور بہرہ کردے گا؛نوٹ مراد اس سے یہ ہے کہ آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کے بارے میں اندھا اور بہرہ ہوجاتا ہے اس کے خلاف کوئی بات سننا نہیں چاہتا اور اس کی غلط تعریف بھی کی جائے اس کو اچھا جانتا ہے اللہ تعالی اپنے اور اپنے نبی کے علاوہ ہر ایک کی ایسی محبت سے ہماری حفاظت فرمائے امین[١١]:وقالابوحنیفة لَقِیْتُ عبد اللّٰہ بن انیس:وسمعتہ یَقُوْلُ :قال رسول اللّٰہﷺ أیتُ فی عارض الجنة مکتوباً ثلاثة اسطربالذّھب الاحمرلابماء الذّھب (فی سطرالاول) لاالٰہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ (وفی سطر الثانی)الامام ضامن والمآذن مؤتمن فارشد اللّٰہ الائمة وغفرللمؤذنین (وفی سطر الثالث) وجدنا ماعملنا ، ربحنا ما قدمنا ؛ خسرناماخلفنا ، قدمناعلی ربٍ غفور؛ (الموفق المکی:ص٣٦ بسندہ)
(عبد اللہ بن الحارث الجزء الزبیدی المتوفی:٩٧ھ )
[١٢] عن ابی حنیفة قَالَ ولدتُ سنة ثمانین و حججتُ مع ابی سنة ست وتسعین، وانا ابن ستة عشرسنة ؛ فلما دخلتُ المسجد الحرام رأیت حلقة عظیمة بشیخ اجتمع الناس، فقلتُ لِاَبِیْ حَلْقَةُ مَنْ ھٰذِہ اومن ھذا الشیخ؟ قال حلقة عبد اللّٰہ بن الحارث بن جزء الزبید صاحب النبیﷺ فقلت لابی ای شیء عندہ قال احادیث سمعھا من النبی ۖ قلت قدمنی الیہ حتی اسمع منہ فتقدم بین یدی فجعل یفرج عن الناس حتی دنوت منہ فتقدمت فَسَمِعْتُہ منہ قال سَمِعْتُ رسول اللّٰہﷺ یقول: مَنْ تَفَقْہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ کَفَاہُ اللّٰہُ ھَمَّہ وَرَزَقَہ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (الموفق المکی ص٣٣؛وجامع المسانید) 
امام اعظم فرماتے ہیں کہ میری ولادت سن اسی ہجری میں ہوئی اور مجھے سن چھیانوے میںحج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی جبکہ اسوقت میری عمر سولہ برس تھی ؛جب میں مسجدحرام میں داخل ہوا تو مسجد میں ایک بہت بڑامجمع دیکھا اورمیں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کس قسم کا مجمع ہے ؟ میرے والد نے جواب دیا کہ کہ یہ صحابیٔ رسول حضرت عبد اللّٰہ بن حارث بن جزء زبیدی کا مجمع ہے جب میں آپ کی زیارت کی غرض سے آپکے قریب ہوا تومیں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ رسول اللّٰہ ۖ نے فرمایا:جو شخص اللّٰہ تعالی کے دین کی فقاہت اور اس کی سمجھ حاصل کرتا ہے اللّٰہ تعالی اسکے ہر قسم کے غموں میں اسکوکافی ہوجاتے ہیں اور اس کو ایسے طریقے سے رزق دیتے ہیں جس سے اس کو رزق ملنے کا گمان بھی نہیں ہوتانوٹ:دنیا میں اص سعادت اور خوش بختی یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے دین میں فقاہت اور سمجھ بوجھ حاصل کرے تاکہ اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنا اور آخرت کی دائمی سعادت کا حصول اس کے لئے ممکن ہو سکے[١٣]:قال ابوحنیفة لَقِیْتُ عبد اللّٰہ بن الحارث بن الجزء الزبیدی صاحب رسول اللّٰہﷺ فقلت ارید ان اسمع منہ ؛ فحملنی ابی علی عاتقہ وذھب بی الیہ ؛ فقال ماترید ؟ فقلت ارید ان تحدثنی حدیثاً سمعتہ من رسول اللّٰہﷺ فقال سمعت رسول اللّٰہﷺ یَقُوْلُ اغاثة الملھوف فرض علی کل مسلمٍ ؛ من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمہ ورزقہ من حیث لایحتسب
(الموفق المکی بسندہ ص٣٥قیل عن النبیﷺ غیر مرة: علی کل مسلم صدقة وفیہ 'قال یعین ذالحاجة الملھوف' اخرجہ البخاری : ١٣٣٥ ؛ ٥٥٦٣ ؛ المسلم :١٦٧٦ ؛ النسائی : ٢٤٩١ ؛ احمد : ١٨٧١٠؛ ١٨٨٥٥؛ الدارمی : ٢٦٢٩ ؛ والفظ لابی داود :'و تغیثوا الملھوف' رقم٤١٨١)
امام اعظم نے فرمایا : میں صحابیٔ رسول حضرت عبد اللّٰہ بن حارث بن جزء زبیدی سے ملا؛ میں نے اپنے والد سے عرض کی کہ میں آپ سے سننا(سماع کرنا) چاہتا ہوں؛ میرے والد نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایااور مجھے آپ کے قریب پہنچ گئے ؛ آپ نے مجھے اپنے قریب دیکھ کر پوچھا کیا ارادہ ہے ؟ میں نے عرض کہ اپ مجھے ایسی حدیث بیان فرمائے جو آپ نے بذات خود سنی ہو !جس پر آپ نے فرمایا کہ رسول اللّٰہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کرتے تھے کہ : مظلوم کی دادرسی کرناہر مسلمان پر فرض ہے ؛ یہ حدیث کئی انداز میں رسول اللّٰہﷺ سے روایت کی گئی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایاکہ :ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے اور اس حدیث فرمایا: یعین ذالحاجة الملھوفاور ہرمسلمان پر یہ بھی لازم ہے کہ ضرورت مند مظلوم مسلمان کی مدد کرنے؛ والفظ لابی داود :'و تغیثوا الملھوف' رقم٤١٨١) اور امام ابوداود نے جو حدیث نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :اور تم سب مسلمان مدد کیاکرو مظلوم بے بس کی؛

(عن واثلة بن الاسقع)
[١٤] عن ابی حنیفة قَالَ سمعت واثلة بن الاسقع رضی اللّٰہ عنہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:لا تظھرنّ شماتة لأخیک ، فیعافہ اللّٰہ ویبتلیک (الموفق المکی:ص٣٠و ٣١؛٣٤ وجامع المسانید)
[١٥]:عن ابی حنیفة قال حدثنی واثلة الاسقع رضی اللہ عنہ ان رسول اللّٰہﷺ قَالَ:دع مایریبک الی مالا یریبک (الموفق المکی:ص٣١ وجامع المسانید)
[١٦]قالابوحنیفة لَقِیْتُ واثلة بن الاسقع وسمعتہ یَقُوْلُ قَالَ رسول اللّٰہﷺ لایظنّ احدکم انّہ یتقرّب الی اللّٰہ باقرب من ھذہ الرکعات یعنی الصلواة الخمسة (الموفق المکی:ص٣٦ بسندہ)
اور امام اعظم نے فرمایا : کہ میں واثلة بن اسقع رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے ملااور ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللّٰہۖ نے ارشاد فرمایا:کوئی آدمی اللّٰہ تعالی کاجتناقرب صلواة خمسہ کی ادائیگی کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے اتنا کسی اور طریقہ سے ویسے حاصل کرنے کا گمان بھی نہیں کرسکتا


(عبد اللہ بن ابی اوفی):
(آپ کی کنیت ابوابراہیم حضرت عبد اللہ بی ابی اوفی علقمہ بن قیس بن خالد آپ ہمیشہ مدینہ میں مقیم رہے اور آپ کی وفات کے بعد کوفہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور آپ کوفہ میں مقیم صحابہ کی جماعت میں سب سے آخر میں ٨٧ ہجری میں فوت ہوئی اور کوفہ میں مقیم صحابہ کرام میں سے سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں اور آپ کی وفات کے وقت امام ابوحنیفہ کی عمر چہ یا سات سال کی تھی اور ایسے وقت میں بچہ اچھاخاصاسمجھ دار ہوجاتاہے اور اس لحاظ سے آپ کی سماعت اور صحابیٔ رسول کی رؤیت دونوں درست ہیں)[١٧]: عن ابی حنیفة قَالَ سمعت عبد اللّٰہ بن ابی اوفی یقول: سمعتُ رسول اللّٰہﷺ یَقُوْلُ :من بنی للہ مسجدا ، ولو کمفحص قطاةٍ بنی اللّٰہ تعالی لہ بیتا فی الجنة 
(الموفق لمکی:ص٣٠ و٣٤جامع المسانیداخرجہ ابن ماجة عن جابر بن عبداللّٰہ واللفظ لہ: من بنی مسجدا للہ کمفحص قطاة اواصغربنی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنة ؛ کتاب المساجد والجماعات ؛ رقم:٧٣٠ ، احمد:٤٧٥ ؛ والترمذی وقال: من بنی للہ مسجداصغیرا کان او کبیرا بنی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنة ؛رقم:٢٩٣؛ و عندالنسائی: قَالَ من بنی للہ مسجدا یذکراللّٰہ فیہ بنی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنة ؛ رقم :٦٨١ ؛ ولابن ماجة قال: یذکر فیہ اسم اللّٰہ ؛ رقم: ٧٢٧ ؛ وفی روایة : بنی اللّٰہ لہ مثلہ رقم:٧٢٨؛ وفی روایة عندہ: من بنی مسجدا من مالہ رقم:٧٢٩ ؛ وفی روایة: من بنی للہ مسجدا فان اللّٰہ یبنی لہ بیتا اوسع منہ فی الجنة احمد:٢٦٣٣٠)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں عبد اللّٰہ بن ابی اوفی سے سنا؛وہ فرمارہے تھے کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے سناکہ آپ نے فرمایا جو شخص اللّٰہ تعالی کے لئے مسجد بناتا ہے اگرچہ وہ کبوتر کے گھونسلے جتنی کیون نہ ہو اس کے بدلے میں جنت میں گھر بناتے ہیں؛[١٨]قال ابوحنیفة قال سمعت عبد اللہ بن ابی اوفی قال سمعت رسول اللہﷺ یقول حبک شیء یعمی ویصم ؛ والدال علی الخیرکفاعلہ والدال علی الشّرکمثلہ ؛واللہ یحب اغاثة اللھفان(المناقب الکردری:ص١١)
امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ سے سناآپ نے فرمایا کسی چیز کی محبت اس کے بارے میں آدمی کو اندھا اور بہرہ کتردیتی ہے ؛آپ نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا خیر اور نیکی کی نشان دہی کرنے والابذات خود نیکی کرنے والے کی طرح ہے اور شر اور برائی کی طرف لگانے والا خود برائی کرنے والاے کی طرح ہے ؛آپ نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ ۖ سے سنا کہ اللہ تعالی مجبور ولاچار کی مدد کرنے کا پسند فرماتے ہیں
[١٩]قال ابوحنیفة لَقِیْتُ عبد اللّٰہ بن ابی اوفی: وسمعتہ یَقُوْلُ قَالَ رسول اللّٰہ ۖ حبک الشیئٍ یعمی ویصم ؛ الدال علی الخیر کفاعلہ والدال علی الشرّ کمثلہ ؛ ان اللّٰہ یحب اغاثة اللھفان (الموفق المکی ص٣٦بسندہ)
امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ میں عبد اللہ بن ابی اوفی سے ملا اور ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہﷺ سے سناآپ نے فرمایا کسی چیز کی محبت اس کے بارے میں آدمی کو اندھا اور بہرہ کتردیتی ہے ؛اور فرمایا خیر اور نیکی کی نشان دہی کرنے والابذات خود نیکی کرنے والے کی طرح ہے اور شر اور برائی کی طرف لگانے والا خود برائی کرنے والاے کی طرح ہے ؛اور آپ نے فرمایاکہ اللہ تعالی مجبور ولاچار کی مدد کرنے کا پسند فرماتے ہیں
(عن عائشة بنت عجرد)
[٢٠] قَالَ یحی بن معین ان اباحنیفة صاحب الرأ سمع عائشة بنت عجرد رضی اللہ عنہ تقول : قَالَ رسول اللّہٰﷺ أکثر جنداللّٰہ فی الارض الجراد ؛ لا آکلہ ولاأحرمہ (الموفق المکی ص٣١و٣٤وجامع المسانید)
اما ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ بنت عجرد سے ملا اور انکو یہ فرماتے ہوئے سنارسول اللہ ۖ نے فرمایااللہ تعالی کاسب سے بڑا لشکر جو اس نے زمین پر پیدا کیا ہے وہ ٹڈی ہے میں اس کو کھنا اچھا نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس کو حرام قرار دیتا ہوں؛
[٢١]قال ابوحنیفة لقیت عائشة بنت عجرد رضی اللہ عنھا وسمعتھا تقول سمعت رسول اللہ ۖ یقول اکثر جند اللہ فی الارض الجراد لاآکلہ
(الماقب لمکی)
اما ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ بنت عجرد سے ملا اور انکو یہ فرماتے ہوئے سنارسول اللہ ۖ نے فرمایااللہ تعالی کاسب سے بڑا لشکر جو اس نے زمین پر پیدا کیا ہے وہ ٹڈی ہے میں اس کو کھنا اچھا نہیں سمجھتا؛
(عن جابر بن عبد اللہ الانصاری)
[٢٢] : عن ابی حنیفة عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: جاء رجل من الانصار الی النبیﷺ فقال: یا رسول اللّٰہ مارزقتُ ولداً قطّ ولا ولد لی؛ فقال واین انت عن کثرة الاستغفاروالصَّدقة ؟ یرزق وفی روایة ترزق بھماالولد ؟ قَالَ : فکان الرجل یکثر الصدقة ویکثرالاستغفار ؛ قَالَ جابر فولد لہ تسعة من الذکور (ھذاالحدیث مرسلا لان جابر رضی اللّٰہ عنہ مات قبل ولادة الامام؛ الموفق المکی وجامع المسانید)
امام ابوحنیفہؒ سے روایت ہے آپ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہوئے فرمایاکہ قبیلہ انصار کاایک آدمی دسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کرنے لگا یارسول اللہ میرے ہاں کبھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوااور نہ ہی میرا کوئی بچہ ہے ؟ اس کا کوئی علاج تجویز فرمائیں؟ آپﷺ نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے استغفار اور صدقہ کیون نہیں کرتے؟ حضرت جابر فرماتے ہیں اس کے بعد اس آدمی نے اللہ تعاکے راستے میں صدقہ اور استغفار کی کثرت کا معمول بنالیاحضرت جابر فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اس کو نو لڑکے عطاء کئے ؛[٢٣]قال ابوحنیفة لَقِیْتُ جابر بن عبد اللّٰہ الانصاری وسمعتہ یَقُوْلُ بایعنا رسول اللّٰہ ﷺ علی السمع والطاعة والنصیحة لکل مسلمٍ ومسلمةٍ 
(الموفق المکی:ص٣٦ بسندہ)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں میں جابر بن عبداللّٰہ انصاری سے ملااور انکو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم نے تین باتوں کے پورا کرنے پر رسول اللّٰہ ﷺ کی بیعت کی پہلی یہ کہ آپ کی ہر بات دل وجان سے متوجہ ہوکر سنیں گے ؛ اور دوسری یہ کہ آپ کے ہر فرمان پر دل وجان کی خوشی سے عمل کریں گے ؛ اور تیسری بات یہ کہ ہر آپ سے حاصل شدہ ہر اچھی بات کا مسلمان مردوں اور عورتوں میں خوب پرچار کریں گے۔نوٹ:ہر مسلمان پر یہ تین باتیں لازم ہیں ؛ دین کی بات دھیان سے سنے اور اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دے ؛ اللّٰہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق دے ؛ 
(عن معقل بن الیسار المتوفی:٦٦)
[٢٤]وقال ابوحنیفة لَقِیْتُ معقل بن یسارالمزنی : وسمعتہ یَقُوْلُ قَالَ رسول اللّٰہ ۖ علامات المؤمن ثلاث اذا قَالَ صدق ، واذا وعد وفی ، واذا اؤتمن خان؛ وعلامات المنافق ثلاث: اذا قَالَ کذب ، واذا وعد اخلف ، واذا اؤتمن خان
(المناقب المکی:ص٣٦ تکلم فی ھذا الحدیث لان الامام ولدت فی ثمانین علی قول المتفق علیہ ومات معقل بن یسار فی سنة ست وستین)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت معقل بن یسار مازنی سے ملا اور وہ فرمارہے تھے :کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ سے سنا کہ مؤمن کی تین نشانیاں ہیں پہلی یہ کہ جب بولتا ہے تو سچ بولتا ہے ؛ دوسری یہ کہ جب وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے ؛ اور تیسری یہ کہ :جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہیں کرتا؛اور منافق کی بھی تین نشانیاں ہیں پہلی یہ کہ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے دوسری یہ کہ جب وعدہ کر تا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے ؛ اور تیسری یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے ؛اللّٰہ تعالی ہمارے اندر ایمان والوں کی صفات پیدا فرمائے اور منافقوں کی صفات سے ہماری حفاظت فرمائے۔