Front - The Prophet Muhammed

Monday, February 10, 2014

سوشل سائٹس ۔ چند اہم آداب

سوشل سائٹس ۔ چند اہم آداب
                                                                  
                                                                                مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
====================================
موجودہ دور میں سوشل سائٹس (Social sites) جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کا استعمال بہت عام ہوچکا ہے ،اور انٹرٹیٹ پر سینکڑوں سوشیل سائٹس موجود ہیں، جن میں’’ فیس بک‘‘ ، ’’ٹوئٹر‘‘، ’’مائی اسپیس‘‘ و غیرہ زیادہ معروف ہیں،ان کے ذریعہ ہر انسان اپنی فکراور اپنے جذبات واحساسات کو لمحوں میں دنیا کے مختلف گوشوں میں آبادبہت سے افراد تک پہونچانے پر قادر ہوتا ہے،اسی لئے ان کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی ہےکہ آج ہر انسان ان کا دلدادہ اور اس کا استعمال کنندہ ہے، اور عوام سے خواص تک اس کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ اور ان کی افادیت واہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے انقلابات میں ان کا مؤثر رول رہا ہےکہ ان کے ذریعہ ہی بہت سےافراد کے جذبات متحد ہوکر حقیقت میں بڑے انقلاب کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ جس کی واضح مثال مصراور عالم عرب میں جاری تحریکیں ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کے استعمال کرنے والوں کے مزاج ومذاق اوراغراض ومقاصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال ہر پہلو سے کیا جارہا ہے اور ہرشخص اس کے ذریعہ اپنے اچھے یا برے افکار وخیالات اور اغراض ومقاصد کوالکٹرانک صفحہ پر تحریر کرکے دوسروں تک پہونچا رہا ہے ، چونکہ ایک مسلمان کو زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات اور اس کے اعلی اخلاق وآداب کواختیار کرنا ہے ، اس لئے بحیثیت مسلمان سوشیل سائٹس کے استعمال میں بھی اسلامی تعلیمات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سوشل سائٹس کا استعمال کن مقاصد سے کریں؟
سوشل سائٹس ایک انتہائی اہم ذریعۂ نشر ہیںکہ ان کے ذریعہ کوئی بات لمحوں میں ہزاروں افراد تک دنیا کے ہرگوشے میں پہونچائی جاسکتی ہے، اس کی اس افادیت واہمیت کے پیش نظربحیثیت مسلمان ہمیں اس کا استعمال حق اور سچائی کی اشاعت اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے کرنا چاہئے،اور ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس کے ذریعہ امن ومحبت کو عام کریں، نفرت ودہشت کو مٹائیں ، انسانوں تک انسانیت کے اعلی صفات پہونچائیں ،اللہ کے پسندیدہ مذہب اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور اس کے اعلی اخلاق واقدار کو پھیلائیں، نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو عام کریں اور اوراسلام کے حوالے سے پیدا کئے جانے والے شکوک وشبہات کو مثبت انداز میں دور کریں تاکہ حق کے متلاشی کو اس کے ذریعہ راہ حق مل سکے۔
لیکن عام طور پر سوشل سائٹس کے استعمال میں محض تفریح طبع کے سوا کوئی اور نیت نہیں ہوتی ،    نجی تصویروں کی اشاعت، کسی پر تبصرہ ، کسی پر طنز ،کسی کے’’ پوسٹ‘‘پر طنز ومزاح سے بھر پور تبصرہ وغیرہ پر ہی اکثر استعمال کرنے والوں کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ جس کی حقیقت سوائے بے مقصدیت کے اور کچھ نہیں ، جب کہ مومن کا ہر کام کسی اچھے مقصد کے تحت ہونا چاہئے، اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو بے مقصداور لایعنی چیزوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء تَرْکُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (رواہ الترمذی)
’’کسی شخص کے بہترین مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ لغو باتوں کو چھوڑ دے‘‘
 اور یہ بھی ہم انسانوں کو بتادیا گیا ہے کہ ہماری زبان وقلم کی ہر حرکت کو محفوظ کیا جارہا ہے اور ایک نگراں ہمارے خالق کی جانب سے ہم پر ہر لمحہ متعین ہے، اسی حقیقت کا اظہار اس آیت ربانی میں ہے:
 مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (سورہ ق: ۱۸)
’’کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
يَكْتُبُ كُلَّ مَا تَكَلَّمَ بِهِ مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَكْتُبُ قَوْلَهُ: "أَكَلْتُ، شَرِبْتُ، ذَهَبْتُ، جِئْتُ، رَأَيْتُ"، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْخَمِيسِ عَرَضَ قَوْلَهُ وَعَمَلَهُ، فَأَقَرَّ مِنْهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ، وَأَلْقَى سَائِرَهُ، وَذَلِكَ قَوْلِهِ: {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} (تفسیر ابن کثیر:۷:۳۹۹)
’’ فرشتہ ہر خیر وشر کی گفتگو کو لکھتا ہے، یہاں تک کہ ایک انسان کی یہ بات کہ میں نے کھانا کھالیا ، پانی پی لیا، میں گیا ، میں آیا، میں نے دیکھا کوبھی لکھتا ہے، پھر جمعرات کے دن اس کے قول وعمل کو (اللہ کے سامنے) پیش کرتا ہے، اللہ اس میں سے جس خیر وشر کی بات کو باقی رکھنا چاہتے ہیں رکھتے ہیں اور بقیہ کو مٹادیتے ہیں،اسی کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد ہے: اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اوراسی کے پاس ہے اصل کتاب ہے‘‘
اسی تحریر کا حضرت امام احمد بن حنبل پر اتنا اثر ہوا کہ ان کو حضرت طاؤسؒ سے یہ بات پہونچ چکی تھی کہ لکھنے پر مامور فرشتہ سب کچھ لکھتا ہے ،حتی کہ مریض کے کراہنے کو بھی لکھتا ہے، حضرت امام احمد بن حنبل اپنے مرض الوفات میں کراہنے سے بھی گریز کرتے ہوئے دارفانی سے کوچ کرگئے(تفسیر ابن کثیر:۷؍۳۹۹)
اور یہ حقیقت ہے کہ جس طرح انسان کے جذبات واحساسات اور فکر کی ترجمان اس کی زبان ہے وہیں اس کی تحریر بھی ہے، اس لئے جو نگرانی زبان سے بولے جانے والے الفاظ پر ہے وہی لکھی جانے والی تحریروں پر ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ زبان وتحریر کو لایعنی باتوں سے بچایا جائے، اور اچھی باتوں میں استعمال کیا جائے۔
بہت سے احباب سوشل سائٹس کے صفحات پر مختلف فیہ موضوعات کو لکھتے نہیں تھکتے، اور پھر فریقین ایک دوسروں پر طنز کرنے اور کفر والحاد کے فتوے چسپاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے، حالانکہ سوشل سائٹس پر اس طرح کے علمی موضوعات کو چھیڑنا مفید ہونے کے بجائے اسلام کے لئے بہت ہی نقصاندہ ہے، باہمی اختلافات ایک دوسرےپر کیچڑ اچھالنے یا ایک دوسرے کو برا کہنے سے حل نہیں ہوتے ،بلکہ اس سے اسلام دشمن طاقتوں کو ہمارے خلاف مواد فراہم ہوتا ہے اور وہ ہمارے باہمی نزاع کے ذریعہ ہم پر غالب ہونے اور اپنی تدبیروں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہت سی مرتبہ بہت سے نوجوان کسی دوسرے مسلک ومذہب کے مقتدا وپیشواکی تصویریں غلط انداز میں شائع کرتے ہیں ، یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ اس طرح حق کی تبلیغ تو نہیں ہوگی، البتہ دوریاں بڑھیں گی اور مسلکی نفرتوں میں اضافہ ہوگا اور ایک دوسرے کے جواب میں جانبیں ایک دوسرے کی تصویریں غلط انداز میں شائع کریں گے ،گویا اہل حق کے افراد اس طرح کی غلطی کرکے اہل حق علماء اور مقتداء کو برا کہلوانے کا ذریعہ بنیں گے، اور ایک حدیث کی روشنی میں خود برا کہنے والے بنیں گے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ ایک انسان کا اپنے والد کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس پر صحابہ کو تعجب ہوا کہ کیا کوئی اپنے والد کو بھی گالی دے سکتا ہے ؟! تو رسو ل اللہ ﷺ نے تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ کسی دوسرے کے والد کو برا کہتا ہے تو وہ اس کے والد کو برا کہتا ہے اور وہ کسی دوسرے کی ماں کو برا کہتا ہے تو اس کے بدلے میں وہ اس کی ماں کو برا کہتا ہے ۔(مسلم :۱۴۶)
گویا گالی دینے اور برا کہنے پر دوسروں کو آمادہ کرنا اور اس کا موقع دینا بھی درحقیقت خود گالی دینے اور برا کہنے کے مرادف ہے، اس لئے دوسروں کے مقتدا کو غلط انداز میں پیش کرنا درحقیقت اپنے علماء ربانیین اور مقتدا کو براکہنے کے مرادف ہے ، اس لئےاس سے بچنا چاہئے اور حق بات کو سنجیدہ انداز میں حکمت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔قرآن کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (نحل: ۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلاؤ اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر و‘‘
کسی پوسٹ کو شیئر کرنے سے پہلے تحقیق کرلیں
سوشل سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی مذہبی باتیں یا دیگر خبریں بہت سی مرتبہ غلط بھی ہوتی ہیں، اس لئے ان کو شیئر کرنے سے پہلے ان کے صحیح ہونے کی تحقیق کرلینا ضروری ہے، ورنہ شیئر کرنے والے بھی اس غلط بات یا غلط خبرکو پھیلانے کے گناہ میں شریک ہوجائیں گے،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
کفی بالمرء اثما ان یحدث بکل ما سمع (ابوداؤد)
’’آدمی کے گنہ گارہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہرسنی ہوئی بات کو بیان کردے‘‘
بلکہ انٹر نیٹ اور سوشل سائٹس پر بہت سی باتیں حدیث کے نام پر گشت کررہی ہیں، جو اسی لئے عام ہورہی ہیں کہ ہر ایک اس کی تحقیق کے بغیر دوسروں تک اسے بھیج رہا ہے اور اس کو شیئر کررہا ہے ، حالانکہ یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
من تقول عليّ ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار (احمد:۸۲۴۹)
’’جس نے میری جانب اس بات کو منسوب کیا جو میں نے نہیں کہی ہے ، تو اسے چاہئےکہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘
سوشل سائٹس پر خلاف حیاتصویروں کی اشاعت؟
بہت سے افراد اپنے صفحات پر اپنی ایسی تصویریں شائع کرتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتیں، مثلا ادھورے لباس میں لی گئی تصویریں ، یاغسل کرنے کی حالت میں لی گئی تصویریں ،یا اندرون خانہ کی تصویریں جس میں انسان عام طور پر اس حال میں ہوتا ہے جس حال میں ایک شریف انسان کسی دوسرے انسان سے ملاقات کرنا عموما پسند نہیں کرتا یا جس حال میں ایک شریف انسان یہ گوارہ نہیں کرتا کہ کوئی اسے دیکھے،لیکن اس طرح کی تصویریں بہت سے افراد اپنے صفحات پر شائع کردیتے ہیں، یہ سرا سر شرافت اور حیاء کے خلاف ہے ، جب کہ حیاء ایمان کا ایک شعبہ اور اس کی علامت ہے، اور خلاف حیاء کام کرنا اسلام میں بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔
اسی طرح بہت سے افراد کی جرأت ِبے حیائی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی محرم عورتوں کے ساتھ یا اپنی بیوی کے ساتھ لی گئی اپنی تصویریں سوشل سائٹس کے صفحات کے حوالے کردیتے ہیں، جہاں بہت سے غیر محرم افرادکی نظریں ان پر پڑتی ہیں، بلکہ بہت سی مرتبہ یہ تصویریں ان لوگوں تک پہونچ جاتی ہیں جو تصویروں میں رد و بدل کرکے غلط قسم کی عورتوں کی تصویروں پر شریف اور مہذب عورتوں کی تصویر یں لگا دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اپنی بیوی یا محرم عورتوں کی تصویریںسوشیل سائٹس کے صفحات پر ’’اپلوڈ‘‘ کرنا بہت بڑی بے غیرتی ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی نظر میں ایسا شخص ’’دَیّوث‘‘ ہے،حضرت عمار بن یاسرؓ سے مروی ایک روایت میںہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أَبَدًا: الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ، وَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ ". فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَمَّا مُدْمِنُ الْخَمْرِ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ؟، قَالَ: " الَّذِي لَا يُبَالِي مَنْ دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ "(شعب الایمان:۱۰۳۱۰)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین طرح کے لوگ جنت میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے،مردوں میں سے دیوث، (لباس وضع قطع میں) مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں اور شراب کے نشہ میں مدہوش۔ صحابہ نے کہا کہ ہم شراب کے نشہ میں مدہوش کو تو جانتے ہیں لیکن مردوں میں سے دیوث کون ہے؟فرمایا وہ شخص جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہو کہ اس کے اہل خانہ کے پاس کس کا آنا جانا ہے(یعنی وہ شخص اپنے اہل خانہ اور اپنی عورتوں کے پردے اور ان کی عصمت وعفت کے حوالے سے بے پرواہ ہو)
بہت سے لوگ اپنی عورتوں کی تصویروں کے سلسلہ میں تو محتاط ہوتے ،لیکن تسکین شوق کی خاطردیگر اجنبی عورتوں کی تصویریں ،اسی طرح فلمی دنیا سے وابستہ عورتوں کی نیم برہنہ تصویریں نشر کرتے رہتے ہیں، درحقیقت یہ عمل برائی اوربے حیائی کو پھیلانے والا عمل ہے،اور قرآن کریم میں ایسے لوگوں کوجو بے حیائی کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یا اس میں شریک ہوتے ہیں دردناک عذاب کی اللہ نے دھمکی دی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ  (سورہ نور:۱۹)
’’ بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلے، ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘
سوشل سائٹس کی دوستی
یہ تو حقیقت ہے کہ سوشیل سائٹس میںاستعمال کی جانے والی دوستی(Friendship) کی اصطلاح میں دوستی کی سچائی اور حقیقت نہیں ہے،بلکہ یہ محض ایک ربط ہے ، لیکن یہ ربط بسا اوقات اصلی شکل اختیارکرجاتا ہے، اور ایسے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں کہ سوشیل سائٹس کی دوستی او ر ربط نے حقیقت کی شکل لےکر بہت برے انجام کو پیش کیا ہے۔
شریعت اسلامیہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے جہاں برائیوں کو روکا ہے وہیں برائیوں تک پہونچنے والے راستوں کو بھی بند کیا ہے اور اس کو ممنوع قرار دیا ہے،فتنہ کے اندیشہ کی صورت میں لڑکی کا کسی لڑکے سے بات کرنا ممنوع ہے ،حتی کہ اگر سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ تو سلام جیسا مستحب اور مسنون عمل بھی ممنوع ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے اور نفس کو برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے ، اس لئے ایک لڑکی کا ایک لڑکے کو سوشل سائٹس پر دوستی کی طلب بھیجنا یا کسی لڑکے کی طلب کو قبول کرنایا اس کے برعکسی کسی لڑکے کا کسی لڑکی کو دوستی کی طلب بھیجنایا اسے قبول کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے اس سے بچنا ضروری ہے ، ہاں اگر نسبی تعلق وقرابت داری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ فتنہ وفساد کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔
بوقت تعارف خلاف حقیقت نام وجنس کا اظہار
سوشیل سائٹس پر فرضی ناموں کی بڑی کثرت ہےاور بہت سے لڑکے لڑکیوں کے نام سے خود کو موسوم کرکے دوسروں کو بے وقوف بنانے کا کام کرتے ہیں، اور تعارف کراتے وقت بھی خلافت حقیقت نام وجنس کا اظہار کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ جھوٹ اور دھوکہ پر مشتمل ہے اور اسلام میں جھوٹ بھی حرام ہے اور دھوکہ دینا بھی ۔ اس لئے اس طرح کے فرضی ناموں سے خود کو موسوم کرکے دوسروں کو دھوکا دینا ایک غلط اور مذموم عمل ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
بہت سی مرتبہ بعض اہم شخصیتوں کے نام سے بعض لوگ کوئی ’’ صفحہ‘‘تیارکرتے ہیں، جیسے کہ فیس بک پر کسی نام سے موسوم کوئی’’ پیج‘‘ بنادیتے ہیں، عام لوگوں کو اس سے تأثر یہ ہوتا ہے کہ اس صفحہ پرآنے والی تحریریں اور آراء اسی شخصیت کی ہیں،اس سے بہت سی مرتبہ کئی مفاسد وخرابیاں پیدا ہوتی ہیں،بلکہ بعض مرتبہ ان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے، مثال کہ طور پر فیس بک پر ایک صفحہ ائمہ مسجد حرام میں سے ایک ذی علم امام صاحب کے نام موسوم ہے ، لیکن اس پر بہت سی مرتبہ بے اصل اور لایعنی باتیں بھی لکھی ہوتی ہیں ، ایسی صورت میں ایک عام انسان کو تو یہی تصور ہوتا ہے کہ یہ بات انہوں لکھی ہے، اس سے ان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی ان جیسے مصروف افراد کو اتنی فرصت ہے کہ فیس بک پر روزانہ درجنوں پوسٹ کریں۔
اس لئے کسی شخصیت سے عقیدت وتعلق کی بنیاد پر کوئی صفحہ ان کے نام موسوم کرنے کی صورت میں یہ اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے ’’ایڈمن‘‘(Admin)کون ہیں؟تاکہ کوئی غلط بات ان کی جانب منسوب نہ ہو بلکہ اس کے اصل لکھنے والے کی طرف منسوب ہو۔ورنہ یہ سراسر دھوکہ والا عمل ہوگا،جو اسلام میں ممنوع اور حرام ہے۔

اللہ ہمیں ان کے ذریعہ حق اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق دے اور ان کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وازقنا اجتنابہ۔

کبیرہ گناہوں کی تعریف:

کبیرہ گناہوں کی تعریف:
ہر وہ گناہ جس کو قرآن و حدیث یا اجماعِ امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو، جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا کا حکم سنایا گیا ہویا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔ کبیرہ گناہ بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے: فرمانِ الٰہی ہے: ’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو (ویسے ہی) معاف کردیں گے اور تم کو باعزت مقام(جنت) میں داخل کریں گے۔(النساء:31)مزید فرمایا: ’’اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی۔ وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے دور رہتے اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے (فطری) لغزشوں کے، بے شک آپ کا رب بڑی مغفرت والا ہے۔ ‘‘ (النجم:31) رسول اللہ eنے فرمایا:۔ ’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ ، دوسرے جمعہ اور رمضان دوسرے رمضان تک (یہ تمام اعمال) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔‘‘ (مسلم: ح 344)
محمد رسول اللہ eنے فرمایا:۔ ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، مگر جب وہ اس گناہ کو چھوڑدے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف کردیاجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کا دل مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘(ترمذی: ح2357)
ذیل میں کبیرہ گناہوں کی تفصیل درج ہے:
1۔ اللہ ربّ العالمین کے ساتھ شرک کرنا:
ایک صحابی نے رسول اکرم eسے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول e!
’’اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ eنے فرمایا:۔ ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیاہے۔‘‘ (بخاری: ح4117)
2۔ نماز چھوڑ دینا:
فرمانِ الٰہی ہے:۔ ’’نماز قائم کرو (اور نماز چھوڑ کر) مشرکوں میں مت شامل ہو۔‘‘ (الروم:31)
نبی کریم eنے فرمایا:۔ ’’ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان نماز کا فرق ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا، اس نے کفر کیا۔ ‘‘ (ترمذی: ح 2545)
3 جادو کرنا، کروانا، سیکھنا، سکھانا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔’’اور سلیمان (علیہ السلام) نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا (اس لیے کہ ) وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ ‘‘ (البقرہ)
نبی آخر الزمان eنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے گرہ باندھ کر اس میں پھونک ماری، یقینا اس نے جادو کیا، اور جس نے جادو کیا، یقینا وہ شرک کا مرتکب ہوا، جو شخص کوئی چیز لٹکائے، اسے اسی کے سپرد کردیاجائے گا۔ ‘‘ (النسائی: ح4011)
4۔ والدین کی نافرمانی کرنا:
نبی اکرم eنے فرمایا: کیا میں تمہیں بڑے کبیرہ گناہوں کی خبر نہ دوں؟ (ان میں سے ایک)والدین کی نافرمانی کرنا (بھی ہے)‘‘ (بخاری: ح 2459)
5۔ ناحق قتل کرنا:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم، اللہ کا غضب، اس کی لعنت اور اس (قاتل) کے لیے بہت بڑا عذاب تیار ہے۔‘‘ (الاسراء: 31)
رسول اکرم eنے مسلمان کے ناحق قتل کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔(حوالہ مذکور)
6۔ جھوٹی گواہی:
جھوٹی گواہی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔(حوالہ مذکور)
7۔ والدین پر لعنت کرنا یا گالی دینا:
’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے ماں با پ پر لعنت کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کیا کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرسکتاہے؟ آپ eنے فرمایا: ’’آدمی کسی دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے ، اور دوسرا پلٹ کر اس کے ماں باپ کو گالی دے۔ تو اس طرح وہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: 5973)
8۔ سود کھانا:
فرمانِ الٰہی ہے: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو لپٹ کر مخبوط الحواس (پاگل)کردیا ہو۔‘‘(البقرہ275:)
’’رسول اللہ eنے سود کھانے والے، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم: ح2995)
پیارے پیغمبر eنے فرمایا: ’’سود کے ستر (70سے زائد درجے ہیں اور ان میں سب سے ہلکے درجے کا گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے۔‘‘(ابن ماجہ : ح2265۔صحیح)
9۔ پڑوسی کو تکلیف دینا:
جس شخص کا پڑوسی اس کی برائیوں سے محفوظ نہ ہو، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم:ح66)
10۔ تکبر:
’’جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (مسلم: ح 131)
11۔ چغل خوری:
’’جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔‘‘ (مسلم: ح151) ’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہوگا جو دو چہرے والا ہوگا۔ یعنی ایک جگہ ایک بات کرتا ہے تو دوسرے لوگوں کے نزدیک بالکل دوسری بات کرتا ہوگا۔‘‘(بخاری: ح 6643)
12۔ خود کشی:
’’جس شخص نے لوہے کے ذریعہ خود کشی کی تو اسی لوہے کو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں اپنے پیٹ میں گھسائے گا، جس شخص نے زہر پی کر خود کشی کی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں زہر ہی پیتا رہے گا، جس نے پہاڑ سے کود کر خود کشی کی تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پہاڑ سے کودتا رہے گا۔‘‘ (مسلم: ح158)
’’جس شخص نے جس چیز کے ساتھ خودکشی کی، قیامت کے دن جہنم میں اسے اسی چیز کے ساتھ عذاب دیاجائے گا۔ ‘‘ (مسند احمد: 15797)
13۔ قطع تعلقی:
’’جنت میں قطع رحمی کرنے (رشتوں کو توڑنے ) والا داخل نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم: ح4637)
14۔ حرام مال کھانا:
’’جنت میں ہرگز وہ گوشت داخل نہ ہوگا جو حرام رزق سے پرورش پاتا ہے، بلکہ وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔(مسند احمد: 13919)
15۔ احسان جتلانا:
رسول اکرم eنے فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو نظر کرم فرمائے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا ، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (ان میں سے ایک ) احسان جتلانے والا (بھی ہے)۔‘‘ (ترمذی: ح 1132)
مزید فرمایا:۔ ’’احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (النسائی: ح 5577)
16۔ موت سے پہلے قرض ادا نہ کرنا:
ایک صحابیt نے آپ eسے سوال کیا کہ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجائوں تو کیا میرے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے؟ آپ eنے فرمایا: ہاں، اگر تم صبر کرو، ثابت قدم رہو اور پشت پھیر کر مت بھاگو (تو تمہارے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے) سوائے قرض کے۔(مسلم: ح 3497)
17۔ عورتوں اور مردوں کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا:
’’رسول اللہ eنے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ح5435)
18۔ زنا کرنا، فحاشی کا ارتکاب کرنا:
فرمان الٰہی ہے: ’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو، بے شک یہ بُرا راستہ اور فحش کام ہے۔‘‘(الاسراء: 32)’’اور فحاشی کے قریب بھی مت جائو، چاہے ظاہری ہو چاہے خفیہ۔‘ (الانعام: 151)
’’اور وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں فحاشی پھیلے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘(النور: 19)
19۔ ہم جنس پرستی:
فرمانِ الٰہی ہے: ’’تم یہ بڑا فحش (اغلام بازی کا) کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہ کیا۔‘‘(اعراف۔80) نبی کریم eنے فرمایا: ’’جس کسی کو قوم لوط والا عمل (ہم جنس پرستی) کرتے ہوئے دیکھو تو کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔‘‘(ابو دائود: ح3869)
20۔ حکمران ہوتے ہوئے رعایا کو دھوکہ دینا:
’’کسی شخص کو اللہ تعالیٰ عوام کا حکمران بنا دے اور وہ موت کے وقت تک رعایا کو دھوکہ دیتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔‘‘ (بخاری: ح6618)
21۔ بداخلاقی:
آ پ eنے فرمایا: ۔ ’’بداخلاق جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (ابودائود)
22۔ لوگوں پر ناحق ظلم کرنا:
رسول اکرم eنے فرمایا:۔ ’’جہنمیوں کی دو ایسی اقسام ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا (یعنی آپe کے بعد آئیں گی)۔ ایک وہ لوگ جن کے پاس کوڑے ہوں گے اور وہ لوگوں کو بلا وجہ مارا کریں گے۔‘‘(مسلم: ح 3917)
23۔ عورتوں کی عریانی:
جو عورتیںلباس پہن کر بھی عریاں رہتی ہیں، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی اور خود ان کی طرف مائل ہوتی ہیں، ان کے سر بختی اونٹنی کے کوہان کی مانند ہوتے ہیں (یعنی اوپر اٹھی ہوئی چٹیا باندھتی ہیں) وہ جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی، جبکہ جنت کی خوشبو تو میلوں دور تک جاتی ہے ۔‘‘ (حوالہ مذکور)
24۔ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا:
رسول اکرم eدو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور (بظاہر) کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے بچتا نہ تھا اور دوسرا بے حد چغل خور تھا۔ (بخاری: ح209)
25۔ جھوٹی قسم کھانا:
’’جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔‘‘(بخاری: ح6326)
26۔ جھوٹ بولنا:
’’منافق کی 3نشانیوں میں سے ایک جھوٹ بولنا بھی ہے۔‘‘ (بخاری: ح 32)
27۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنا:
رسول اللہ eنے فرمایا: ’’جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کے مال کو ایک بہت ہی زہریلے اژدہا کی صورت میں لایاجائے گا ۔ اس کی پیشانی پر دو نشان ہوں گے۔ پھر اسے زکوٰۃ نہ دینے والے کے گلے کا طوق بنا دیاجائے گا اور وہ اسے (ڈستے ہوئے)کہے گا: میں تیرا ہی مال ہوں ، میں تیرا ہی خزانہ ہوں۔‘‘ (بخاری: ح1315)
28۔ جھوٹا خواب بیان کرنا:
’’جس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا تو اس کو قیامت کے د ن جو کا دانہ دو ٹکڑے کرکے جوڑنے کا حکم دیاجائے گا اور وہ اس کو کبھی نہ جوڑ پائے گا۔‘‘ (مسلم: ح     )
29۔ غیبت کرنا:
فرمان الٰہی ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم یقینا اس سے گھن محسوس کرو گے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘ (الحجرات:11)
30۔ حلالہ کرنا اور کروانا:
’’اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (ابودائود: ح3109)
31۔ رشوت دینا اور لینا:
رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔(ابو دائود: ح3109)
32۔ میت پر نوحہ کرنا:
’’دو چیزیں لوگوں میں ایسی ہیں جو کہ کفر ہیں، کسی کو اس کے حسب و نسب پر طعنہ دینا اور میت پر نوحہ (ماتم و بین) کرنا ۔‘‘ (مسلم: ح100)
33۔ مسلمانوں سے خروج:
’’جو شخص (مسلمانوں کی) جماعت سے ایک بالشت بھرنکل گیا تو اس نے گویا اسلام کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا ۔‘‘ (ابودائود: ح4131)
34۔ جوابازی کرنا:
فرمان الٰہی ہے: ’’اے نبی eیہ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتائیے کہ اس میں بڑا گناہ ہے۔‘‘ (البقرہ: 219)
35۔ مسلمان کو گالی دینا اس کے قتل کے برابر ہے:
رسول اکرم eنے فرمایا: مومن کو لعنت (یا گالی) دینا اس کے قتل کے برابر ہے۔‘‘ (بخاری: ح5587)
36۔نبی eپر جھوٹ گھڑنا:
’’جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ (بخاری: ح105)
37۔ چوری کرنا:
فرمان الٰہی ہے : ’’اور چور خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کے جرم کی سزا اور اللہ کی طرف سے دوسروں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ (المائدہ: 38)
38۔ بدعتی کو پناہ دینا:
رسول اکرم eنے فرمایا: ’’جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی، اس پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (مسلم: ح3657)
39۔ غیراللہ کے نام پر ذبح کرنا:
آ پ eنے فرمایا: ’’غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (حوالہ مذکور)
40۔ جھوٹی قسم کھانے والا تاجر:
رسول اکرم eنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف (نظر رحمت سے ) نہیں دیکھے گا ، نہ اسے (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔(وہ) جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا تاجر۔‘‘ (ترمذی: ح 1132)
41۔ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف (نظر رحمت سے)نہیں دیکھے گا ، نہ اسے (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔(وہ) ازار بند (تہبند) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔‘‘(حوالہ مذکور)
42۔ نسبت(حسب و نسب) تبدیل کرنا:
(1) جس کسی نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا، جبکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو جنت اس پر حرام ہے۔‘‘ (بخاری: ح3982 ) (2) یہ کفر ہے۔(حوالہ مذکور)(3) ایسا کرنے والے پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام کائنات والوں کی لعنت ہے۔(مسلم: ح2774)
43۔ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا:
’’جس کسی نے ایک بالشت بھر زمین کا ٹکڑا بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘ (بخاری: ح2959)
45۔ شراب:
’’رسول اللہ eنے شراب کی وجہ سے 10 افراد پر لعنت فرمائی ہے۔ (1شراب بنانے والا (2)بنوانے والا (3پینے والا (4اٹھانے والا (5منگوانے والا (6پلانے والا (7بیچنے والا (8)کمائی کھانے والا (9جس کے لیے خریدی جائے اور(10خریدنے والا‘‘ (ترمذی: ح3189)
46۔ قبروں کو سجدہ کرنا:
نبی کریم eنے فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔‘‘ (بخاری: ح 1244)
47۔ چہرہ پر نقش و نگار کرنا:
’’بے شک رسول اللہ eنے جسم گودنے والی اور گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (بخاری: ح2084)
48۔ بھنویں (Eye Brows) بنوانا، دانتوں کے درمیان فاصلہ کروانا:
’’اللہ تعالیٰ نے بھنویں بنوانے والیوں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کروانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی تخلیق کو تبدیل کرتی ہیں۔‘‘ (بخاری: ح5476)
49۔ مصنوعی بال لگانا:
’’اللہ تعالیٰ نے بال جوڑنے والی پر، جس کے بال جوڑے جائیں اور بال جڑوانے کی خواہش کرنے والی (دونوں پر) لعنت فرمائی ہے۔‘‘(بخاری: ح5481/5485)
50۔ ملاوٹ کرنا:
رسول اکرم eنے فرمایا: ’’ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں۔‘‘(مسلم: ح146)
51۔ خیانت کرنا:
’’ایک چادر کی خیانت کرنے والے کو میں نے جہنم میں دیکھا۔‘‘ (مسلم: ح 165)
52۔ کسی پر ناحق ظلم کرنا:
ظلم کرنے سے ڈرو، یقینا ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔(مسلم: ح 4675)یعنی دنیا میں جتنا ظلم کرے گا، روزِ قیامت اتنا اندھیرے میں رہے گا۔
53۔ ریاکاری(دکھلاوا، نمودو نمائش) کرنا:
’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا، اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا، اس نے شرک کیا۔‘‘(مسند احمد، ح16517)
54۔ مردوں کا ریشم اور سونا پہننا:
’’سونے اور چاندی اور ریشم کے برتن استعمال کرنا مسلمان مردوں کے لیے ناجائز ہیں۔ کافر دنیا میں اور مسلمان آخرت میں استعمال کریں گے۔‘‘ (مسلم: ح3849)
55۔ صحابہ کرامy کو گالی دینا:
رسول اللہ eنے فرمایا: ’’میرے صحابہy کو گالی مت دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم (بعد میں آنے والوں) میں سے کوئی ایک ’اُحد‘پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرے تو میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم)کے ایک یا آدھا مد (مٹھی بھر) خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘(مسلم: ح4610