Front - The Prophet Muhammed

Monday, February 10, 2014

سوشل سائٹس ۔ چند اہم آداب

سوشل سائٹس ۔ چند اہم آداب
                                                                  
                                                                                مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
====================================
موجودہ دور میں سوشل سائٹس (Social sites) جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کا استعمال بہت عام ہوچکا ہے ،اور انٹرٹیٹ پر سینکڑوں سوشیل سائٹس موجود ہیں، جن میں’’ فیس بک‘‘ ، ’’ٹوئٹر‘‘، ’’مائی اسپیس‘‘ و غیرہ زیادہ معروف ہیں،ان کے ذریعہ ہر انسان اپنی فکراور اپنے جذبات واحساسات کو لمحوں میں دنیا کے مختلف گوشوں میں آبادبہت سے افراد تک پہونچانے پر قادر ہوتا ہے،اسی لئے ان کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی ہےکہ آج ہر انسان ان کا دلدادہ اور اس کا استعمال کنندہ ہے، اور عوام سے خواص تک اس کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ اور ان کی افادیت واہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے انقلابات میں ان کا مؤثر رول رہا ہےکہ ان کے ذریعہ ہی بہت سےافراد کے جذبات متحد ہوکر حقیقت میں بڑے انقلاب کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ جس کی واضح مثال مصراور عالم عرب میں جاری تحریکیں ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کے استعمال کرنے والوں کے مزاج ومذاق اوراغراض ومقاصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال ہر پہلو سے کیا جارہا ہے اور ہرشخص اس کے ذریعہ اپنے اچھے یا برے افکار وخیالات اور اغراض ومقاصد کوالکٹرانک صفحہ پر تحریر کرکے دوسروں تک پہونچا رہا ہے ، چونکہ ایک مسلمان کو زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات اور اس کے اعلی اخلاق وآداب کواختیار کرنا ہے ، اس لئے بحیثیت مسلمان سوشیل سائٹس کے استعمال میں بھی اسلامی تعلیمات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سوشل سائٹس کا استعمال کن مقاصد سے کریں؟
سوشل سائٹس ایک انتہائی اہم ذریعۂ نشر ہیںکہ ان کے ذریعہ کوئی بات لمحوں میں ہزاروں افراد تک دنیا کے ہرگوشے میں پہونچائی جاسکتی ہے، اس کی اس افادیت واہمیت کے پیش نظربحیثیت مسلمان ہمیں اس کا استعمال حق اور سچائی کی اشاعت اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے کرنا چاہئے،اور ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس کے ذریعہ امن ومحبت کو عام کریں، نفرت ودہشت کو مٹائیں ، انسانوں تک انسانیت کے اعلی صفات پہونچائیں ،اللہ کے پسندیدہ مذہب اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اور اس کے اعلی اخلاق واقدار کو پھیلائیں، نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو عام کریں اور اوراسلام کے حوالے سے پیدا کئے جانے والے شکوک وشبہات کو مثبت انداز میں دور کریں تاکہ حق کے متلاشی کو اس کے ذریعہ راہ حق مل سکے۔
لیکن عام طور پر سوشل سائٹس کے استعمال میں محض تفریح طبع کے سوا کوئی اور نیت نہیں ہوتی ،    نجی تصویروں کی اشاعت، کسی پر تبصرہ ، کسی پر طنز ،کسی کے’’ پوسٹ‘‘پر طنز ومزاح سے بھر پور تبصرہ وغیرہ پر ہی اکثر استعمال کرنے والوں کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ جس کی حقیقت سوائے بے مقصدیت کے اور کچھ نہیں ، جب کہ مومن کا ہر کام کسی اچھے مقصد کے تحت ہونا چاہئے، اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو بے مقصداور لایعنی چیزوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء تَرْکُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (رواہ الترمذی)
’’کسی شخص کے بہترین مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ لغو باتوں کو چھوڑ دے‘‘
 اور یہ بھی ہم انسانوں کو بتادیا گیا ہے کہ ہماری زبان وقلم کی ہر حرکت کو محفوظ کیا جارہا ہے اور ایک نگراں ہمارے خالق کی جانب سے ہم پر ہر لمحہ متعین ہے، اسی حقیقت کا اظہار اس آیت ربانی میں ہے:
 مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (سورہ ق: ۱۸)
’’کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
يَكْتُبُ كُلَّ مَا تَكَلَّمَ بِهِ مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَكْتُبُ قَوْلَهُ: "أَكَلْتُ، شَرِبْتُ، ذَهَبْتُ، جِئْتُ، رَأَيْتُ"، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْخَمِيسِ عَرَضَ قَوْلَهُ وَعَمَلَهُ، فَأَقَرَّ مِنْهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ، وَأَلْقَى سَائِرَهُ، وَذَلِكَ قَوْلِهِ: {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} (تفسیر ابن کثیر:۷:۳۹۹)
’’ فرشتہ ہر خیر وشر کی گفتگو کو لکھتا ہے، یہاں تک کہ ایک انسان کی یہ بات کہ میں نے کھانا کھالیا ، پانی پی لیا، میں گیا ، میں آیا، میں نے دیکھا کوبھی لکھتا ہے، پھر جمعرات کے دن اس کے قول وعمل کو (اللہ کے سامنے) پیش کرتا ہے، اللہ اس میں سے جس خیر وشر کی بات کو باقی رکھنا چاہتے ہیں رکھتے ہیں اور بقیہ کو مٹادیتے ہیں،اسی کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد ہے: اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اوراسی کے پاس ہے اصل کتاب ہے‘‘
اسی تحریر کا حضرت امام احمد بن حنبل پر اتنا اثر ہوا کہ ان کو حضرت طاؤسؒ سے یہ بات پہونچ چکی تھی کہ لکھنے پر مامور فرشتہ سب کچھ لکھتا ہے ،حتی کہ مریض کے کراہنے کو بھی لکھتا ہے، حضرت امام احمد بن حنبل اپنے مرض الوفات میں کراہنے سے بھی گریز کرتے ہوئے دارفانی سے کوچ کرگئے(تفسیر ابن کثیر:۷؍۳۹۹)
اور یہ حقیقت ہے کہ جس طرح انسان کے جذبات واحساسات اور فکر کی ترجمان اس کی زبان ہے وہیں اس کی تحریر بھی ہے، اس لئے جو نگرانی زبان سے بولے جانے والے الفاظ پر ہے وہی لکھی جانے والی تحریروں پر ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ زبان وتحریر کو لایعنی باتوں سے بچایا جائے، اور اچھی باتوں میں استعمال کیا جائے۔
بہت سے احباب سوشل سائٹس کے صفحات پر مختلف فیہ موضوعات کو لکھتے نہیں تھکتے، اور پھر فریقین ایک دوسروں پر طنز کرنے اور کفر والحاد کے فتوے چسپاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے، حالانکہ سوشل سائٹس پر اس طرح کے علمی موضوعات کو چھیڑنا مفید ہونے کے بجائے اسلام کے لئے بہت ہی نقصاندہ ہے، باہمی اختلافات ایک دوسرےپر کیچڑ اچھالنے یا ایک دوسرے کو برا کہنے سے حل نہیں ہوتے ،بلکہ اس سے اسلام دشمن طاقتوں کو ہمارے خلاف مواد فراہم ہوتا ہے اور وہ ہمارے باہمی نزاع کے ذریعہ ہم پر غالب ہونے اور اپنی تدبیروں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہت سی مرتبہ بہت سے نوجوان کسی دوسرے مسلک ومذہب کے مقتدا وپیشواکی تصویریں غلط انداز میں شائع کرتے ہیں ، یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ اس طرح حق کی تبلیغ تو نہیں ہوگی، البتہ دوریاں بڑھیں گی اور مسلکی نفرتوں میں اضافہ ہوگا اور ایک دوسرے کے جواب میں جانبیں ایک دوسرے کی تصویریں غلط انداز میں شائع کریں گے ،گویا اہل حق کے افراد اس طرح کی غلطی کرکے اہل حق علماء اور مقتداء کو برا کہلوانے کا ذریعہ بنیں گے، اور ایک حدیث کی روشنی میں خود برا کہنے والے بنیں گے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ ایک انسان کا اپنے والد کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس پر صحابہ کو تعجب ہوا کہ کیا کوئی اپنے والد کو بھی گالی دے سکتا ہے ؟! تو رسو ل اللہ ﷺ نے تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ کسی دوسرے کے والد کو برا کہتا ہے تو وہ اس کے والد کو برا کہتا ہے اور وہ کسی دوسرے کی ماں کو برا کہتا ہے تو اس کے بدلے میں وہ اس کی ماں کو برا کہتا ہے ۔(مسلم :۱۴۶)
گویا گالی دینے اور برا کہنے پر دوسروں کو آمادہ کرنا اور اس کا موقع دینا بھی درحقیقت خود گالی دینے اور برا کہنے کے مرادف ہے، اس لئے دوسروں کے مقتدا کو غلط انداز میں پیش کرنا درحقیقت اپنے علماء ربانیین اور مقتدا کو براکہنے کے مرادف ہے ، اس لئےاس سے بچنا چاہئے اور حق بات کو سنجیدہ انداز میں حکمت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔قرآن کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (نحل: ۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلاؤ اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر و‘‘
کسی پوسٹ کو شیئر کرنے سے پہلے تحقیق کرلیں
سوشل سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی مذہبی باتیں یا دیگر خبریں بہت سی مرتبہ غلط بھی ہوتی ہیں، اس لئے ان کو شیئر کرنے سے پہلے ان کے صحیح ہونے کی تحقیق کرلینا ضروری ہے، ورنہ شیئر کرنے والے بھی اس غلط بات یا غلط خبرکو پھیلانے کے گناہ میں شریک ہوجائیں گے،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
کفی بالمرء اثما ان یحدث بکل ما سمع (ابوداؤد)
’’آدمی کے گنہ گارہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہرسنی ہوئی بات کو بیان کردے‘‘
بلکہ انٹر نیٹ اور سوشل سائٹس پر بہت سی باتیں حدیث کے نام پر گشت کررہی ہیں، جو اسی لئے عام ہورہی ہیں کہ ہر ایک اس کی تحقیق کے بغیر دوسروں تک اسے بھیج رہا ہے اور اس کو شیئر کررہا ہے ، حالانکہ یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
من تقول عليّ ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار (احمد:۸۲۴۹)
’’جس نے میری جانب اس بات کو منسوب کیا جو میں نے نہیں کہی ہے ، تو اسے چاہئےکہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘
سوشل سائٹس پر خلاف حیاتصویروں کی اشاعت؟
بہت سے افراد اپنے صفحات پر اپنی ایسی تصویریں شائع کرتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتیں، مثلا ادھورے لباس میں لی گئی تصویریں ، یاغسل کرنے کی حالت میں لی گئی تصویریں ،یا اندرون خانہ کی تصویریں جس میں انسان عام طور پر اس حال میں ہوتا ہے جس حال میں ایک شریف انسان کسی دوسرے انسان سے ملاقات کرنا عموما پسند نہیں کرتا یا جس حال میں ایک شریف انسان یہ گوارہ نہیں کرتا کہ کوئی اسے دیکھے،لیکن اس طرح کی تصویریں بہت سے افراد اپنے صفحات پر شائع کردیتے ہیں، یہ سرا سر شرافت اور حیاء کے خلاف ہے ، جب کہ حیاء ایمان کا ایک شعبہ اور اس کی علامت ہے، اور خلاف حیاء کام کرنا اسلام میں بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔
اسی طرح بہت سے افراد کی جرأت ِبے حیائی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی محرم عورتوں کے ساتھ یا اپنی بیوی کے ساتھ لی گئی اپنی تصویریں سوشل سائٹس کے صفحات کے حوالے کردیتے ہیں، جہاں بہت سے غیر محرم افرادکی نظریں ان پر پڑتی ہیں، بلکہ بہت سی مرتبہ یہ تصویریں ان لوگوں تک پہونچ جاتی ہیں جو تصویروں میں رد و بدل کرکے غلط قسم کی عورتوں کی تصویروں پر شریف اور مہذب عورتوں کی تصویر یں لگا دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اپنی بیوی یا محرم عورتوں کی تصویریںسوشیل سائٹس کے صفحات پر ’’اپلوڈ‘‘ کرنا بہت بڑی بے غیرتی ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی نظر میں ایسا شخص ’’دَیّوث‘‘ ہے،حضرت عمار بن یاسرؓ سے مروی ایک روایت میںہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أَبَدًا: الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ، وَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ ". فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَمَّا مُدْمِنُ الْخَمْرِ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ؟، قَالَ: " الَّذِي لَا يُبَالِي مَنْ دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ "(شعب الایمان:۱۰۳۱۰)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین طرح کے لوگ جنت میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے،مردوں میں سے دیوث، (لباس وضع قطع میں) مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں اور شراب کے نشہ میں مدہوش۔ صحابہ نے کہا کہ ہم شراب کے نشہ میں مدہوش کو تو جانتے ہیں لیکن مردوں میں سے دیوث کون ہے؟فرمایا وہ شخص جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہو کہ اس کے اہل خانہ کے پاس کس کا آنا جانا ہے(یعنی وہ شخص اپنے اہل خانہ اور اپنی عورتوں کے پردے اور ان کی عصمت وعفت کے حوالے سے بے پرواہ ہو)
بہت سے لوگ اپنی عورتوں کی تصویروں کے سلسلہ میں تو محتاط ہوتے ،لیکن تسکین شوق کی خاطردیگر اجنبی عورتوں کی تصویریں ،اسی طرح فلمی دنیا سے وابستہ عورتوں کی نیم برہنہ تصویریں نشر کرتے رہتے ہیں، درحقیقت یہ عمل برائی اوربے حیائی کو پھیلانے والا عمل ہے،اور قرآن کریم میں ایسے لوگوں کوجو بے حیائی کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یا اس میں شریک ہوتے ہیں دردناک عذاب کی اللہ نے دھمکی دی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ  (سورہ نور:۱۹)
’’ بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلے، ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘
سوشل سائٹس کی دوستی
یہ تو حقیقت ہے کہ سوشیل سائٹس میںاستعمال کی جانے والی دوستی(Friendship) کی اصطلاح میں دوستی کی سچائی اور حقیقت نہیں ہے،بلکہ یہ محض ایک ربط ہے ، لیکن یہ ربط بسا اوقات اصلی شکل اختیارکرجاتا ہے، اور ایسے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں کہ سوشیل سائٹس کی دوستی او ر ربط نے حقیقت کی شکل لےکر بہت برے انجام کو پیش کیا ہے۔
شریعت اسلامیہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے جہاں برائیوں کو روکا ہے وہیں برائیوں تک پہونچنے والے راستوں کو بھی بند کیا ہے اور اس کو ممنوع قرار دیا ہے،فتنہ کے اندیشہ کی صورت میں لڑکی کا کسی لڑکے سے بات کرنا ممنوع ہے ،حتی کہ اگر سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ تو سلام جیسا مستحب اور مسنون عمل بھی ممنوع ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے اور نفس کو برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے ، اس لئے ایک لڑکی کا ایک لڑکے کو سوشل سائٹس پر دوستی کی طلب بھیجنا یا کسی لڑکے کی طلب کو قبول کرنایا اس کے برعکسی کسی لڑکے کا کسی لڑکی کو دوستی کی طلب بھیجنایا اسے قبول کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے اس سے بچنا ضروری ہے ، ہاں اگر نسبی تعلق وقرابت داری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ فتنہ وفساد کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔
بوقت تعارف خلاف حقیقت نام وجنس کا اظہار
سوشیل سائٹس پر فرضی ناموں کی بڑی کثرت ہےاور بہت سے لڑکے لڑکیوں کے نام سے خود کو موسوم کرکے دوسروں کو بے وقوف بنانے کا کام کرتے ہیں، اور تعارف کراتے وقت بھی خلافت حقیقت نام وجنس کا اظہار کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ جھوٹ اور دھوکہ پر مشتمل ہے اور اسلام میں جھوٹ بھی حرام ہے اور دھوکہ دینا بھی ۔ اس لئے اس طرح کے فرضی ناموں سے خود کو موسوم کرکے دوسروں کو دھوکا دینا ایک غلط اور مذموم عمل ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
بہت سی مرتبہ بعض اہم شخصیتوں کے نام سے بعض لوگ کوئی ’’ صفحہ‘‘تیارکرتے ہیں، جیسے کہ فیس بک پر کسی نام سے موسوم کوئی’’ پیج‘‘ بنادیتے ہیں، عام لوگوں کو اس سے تأثر یہ ہوتا ہے کہ اس صفحہ پرآنے والی تحریریں اور آراء اسی شخصیت کی ہیں،اس سے بہت سی مرتبہ کئی مفاسد وخرابیاں پیدا ہوتی ہیں،بلکہ بعض مرتبہ ان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے، مثال کہ طور پر فیس بک پر ایک صفحہ ائمہ مسجد حرام میں سے ایک ذی علم امام صاحب کے نام موسوم ہے ، لیکن اس پر بہت سی مرتبہ بے اصل اور لایعنی باتیں بھی لکھی ہوتی ہیں ، ایسی صورت میں ایک عام انسان کو تو یہی تصور ہوتا ہے کہ یہ بات انہوں لکھی ہے، اس سے ان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی ان جیسے مصروف افراد کو اتنی فرصت ہے کہ فیس بک پر روزانہ درجنوں پوسٹ کریں۔
اس لئے کسی شخصیت سے عقیدت وتعلق کی بنیاد پر کوئی صفحہ ان کے نام موسوم کرنے کی صورت میں یہ اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے ’’ایڈمن‘‘(Admin)کون ہیں؟تاکہ کوئی غلط بات ان کی جانب منسوب نہ ہو بلکہ اس کے اصل لکھنے والے کی طرف منسوب ہو۔ورنہ یہ سراسر دھوکہ والا عمل ہوگا،جو اسلام میں ممنوع اور حرام ہے۔

اللہ ہمیں ان کے ذریعہ حق اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق دے اور ان کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وازقنا اجتنابہ۔

No comments:

Post a Comment