*... بیوی کی حیثیت سے آپ اپنے گھر میں خوش بودار
پھول کی مانند ہیں۔ چناں چہ آپ کا شوہر جب گھر میں داخل ہو تو اسے اپنی اس خوش بو
کا احساس دلائیے۔
*... اپنے ہر
قول وفعل سے شوہر کو راحت کا سامان مہیا کیجیے۔
*... اپنی
گفتار کو سراپا سادہ اور قلب وجاں کا نمونہ بنائیے۔ طنز وطعن اور بحث وتکرار سے
مکمل اجتناب کیجیے۔
*... مرد کے
گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کے حقیقی مفہوم کے ساتھ تسلیم کیجیے اور اس امر
کا ادراک کہ ایک عورت کو مرد کی سربراہی اور نگرانی کی کتنی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
یہ منفی خیال ہر گز اپنے دل میں پلنے نہ دیجیے کہ یہ تو عورت کے ساتھ ظلم ونا
انصافی او راس کے حقوق کی پامالی ہے۔
*... اپنی
آواز شوہر کے سامنے تیز نہ کیجیے۔
*... کوشش
کیجیے کہ آپ دونوں رات میں تہجد کی نماز ایک ساتھ ادا کریں۔ اس طرح آپ دونوں کے
لیے نورانیت، سعادت، سکون، اطمینان اور الفت ومحبت میں زبردست اضافہ ہو گا۔
*... شوہر کی
ناراضی کے وقت آپ بالکل خاموشی اختیار کر لیجیے۔ اس کو راضی کیے بغیر نہ سوئیں۔
یاد رکھیے ، آپ کا شوہر آپ کی جنت ہے یا جہنم۔
*... جب وہ
باہر جانے کی تیاری کر رہا ہو تو اُس کے سامنے موجود رہیے اور روانہ ہوتے ہوئے اسے
رخصت کیجیے۔
*... اس کو اس
کے کپڑوں کے انتخاب میں اپنی دلچسپی کا احساس دلائیے اور خود اس کے لیے لباس کا
انتخاب کیجیے۔
*... اس کی
ضروریات کی چیزوں کی فراہمی میں باریک بینی او رسمجھ داری کا ثبوت دیجیے، تاکہ آپ
دونوں کے درمیان بہترین تعلقات پروان چڑھیں۔
*... اپنے
شوہر کی جانب سے معذرت کا انتظار نہ کیجیے اور نہ اس کو کسی معاملے میں معذرت کرنے
پر مجبو ر کریں، سوائے اس کے کہ وہ خود کسی غلطی پر عملی طور پر معذرت خواہانہ طرز
اختیار کر لے۔
*... شوہر کے
لباس او راُس کی وضع قطع کا خاص خیال رکھیے، اگر چہ وہ خود اس معاملے میں اہتمام
نہ کرتا ہو ۔
*... ہمیشہ
اپنے شوہر کی طرف سے اظہارِ محبت او راظہارِ رغبت میں پہلے کرنے کی منتظر نہ رہیے
، بلکہ خود اس میں پہل کا اہتمام کیجیے۔
*... ہر رات
میں اس کے لیے دلہن بن کر رہیے اور شدید ضرورت کے بغیر شوہر سے پہلے نہ سوئیے۔
*... اپنے
حُسن معاملہ کا بدلہ فوراً نہ چاہیں، کیوں کہ بہت سارے شوہر اپنے احساسات او
رجذبات کو ظاہر نہیں کرتے یا ظاہر کر ہی نہیں پاتے۔
*... شوہر کے
احوال میں دلچسپی کے ساتھ مشغول رہیے ، لیکن تکلف اور مصنوعی پن سے گریز کیجیے۔
*... جب وہ
سفر سے واپس آئے تو محبت سے بھر پور بشاشت اور دلی گرم جوشی کا مظاہرہ کیجیے۔
*... ہمیشہ اس
کا دھیان رکھیے کہ شوہر، خدا ( الله تعالیٰ) کے ساتھ قرب اور تعلق کا اہم وسیلہ
ہے۔
*... ہمیشہ اس
کی کوشش کیجیے کہ ظاہری وضع قطع میں ، گفتار میں اور شوہر کے استقبال میں جدّت اور
تازگی برقرار رہے۔
*... جب وہ آپ
سے کچھ طلب کرے تو اس موقع پرسُستی اور بوجھل انداز اختیار کرنے کی بہ جائے چستی
اور دلچسپی کا مظاہرہ کیجیے۔
*... گھر کی
صفائی ستھرائی او رسجاوٹ کا خاص خیال کرتے ہوئے شوہر کو اپنے انداز سے اپنے اس جذبے
کا احساس کرائیے کہ یہ سب کچھ وہ اسے خوش کرنے کے لیے کر رہی ہے۔
*... گھر کے
کام کاج او ررکھ رکھاؤ میں نظم ونسق او رپابندی وقت کا خاص خیال رکھیے۔
*... عورتوں
سے متعلق بعض گھریلو مہارت کے کام ضرور سیکھیے۔
*... جب آپ کا
شوہرگھر میں کوئی کھانے پینے کا سامان یادیگر کوئی چیز لائے تو شکریہ ادا کیجیے
اور تعریف وستائش سے اس کا استقبال کیجیے ۔
*... گھر کے
خوب صورتی اور ترتیب وانتظام کی خوب کوشش کیجیے ، اگرچہ آپ کا شوہر آ پ سے خوب
صورتی اور سادگی کو جمع کرنے کا مطالبہ نہ کرتا ہو ، مگر آپ خود اس امر کا لحاظ رکھیے۔
*... اسراف
اور بے جاخرچ سے بچتے ہوئے قناعت کا دامن تھامے رہیے، تاکہ آمدنی اور اخراجات کا
توازن برقرار رہے۔
*... اپنے اور
اولاد سے متعلق ضروری معاملات میں ہمیشہ اپنے آپ کو شوہر کی رائے اور اس کے مشوروں
کا حاجت مند سمجھیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے غیر ضروری مسائل کو اس کے سامنے پیش کرنے سے
بھی گریز کیجیے۔
*... ہمیشہ
دھیان رکھیے کہ آپ عورت ہیں، لہٰذا اپنی نسوانیت کی پاس داری بھی کرتی رہیے او
رمناسب وقت میں بہتر طور پر خود کو بھی اپنی نسوانیت کا احساس دلاتی رہیے۔
*... جب شوہر
کسی سفر سے طویل مدت کے بعد لوٹے تو اس کی غیر موجودگی میں پیش آنے والی مشکلات او
رمشقتوں کو شکوے اور ناراضگی کے انداز میں پیش نہ کیجیے۔
*... اپنے
بچوں کو بھی ان کی عمر کے لحاظ سے اپنے والد کے گھر لوٹنے کے وقت استقبال کرنے کے
آداب سکھائیے۔
*... شوہر کے
گھر لوٹتے ہی یا سو کر اٹھنے کے وقت یا کھانا کھاتے ہوئے بچوں کی شکایتیں اس کے
سامنے پیش نہ کیجیے ۔ اس طرح کرنے سے شوہر او ربچوں دونوں پر مضراثرات مرتب ہوں
گے، بلکہ یہ شکایات دوسرے مناسب موقع پر کیجیے۔
*... بچوں کی
سرزنش کرتے ہوئے یا انہیں تنبیہ کے طور پر سزا دیتے ہوئے شوہر کے ساتھ دخل اندازی
نہ کیجیے۔
*... اپنے
شوہر او ربچوں کے درمیان بہترین خوش گوار تعلقات استوار کرنے کی کوشش کیجیے، خواہ
آپ کے شوہر کتنے ہی مصروف ہوں ، مگر یہ کوشش ایسی حکمت عملی کے ساتھ ہونی چاہیے کہ
ان کے کاموں میں خلل واقع نہ ہو۔
*... جب گھر
سے شوہر اپنے کام سے دور گیا ہو تو انہیں اس کا احساس دلائیے کہ آپ ان کی غیر
موجودگی میں بچوں کی ذمے داری کا بوجھ اٹھائیں گی اور شوہر کی مشاورت کے ساتھ سارے
کام انجام دیں گی۔
*... اپنی
اولاد کی تربیت کے لیے اپنائے گئے اصولوں اور طریقوں کے نتائج کا فوری انتظار نہ
کیجیے، ورنہ شوہر کے مایوس ہو جانے یا تربیت سے غافل ہو جانے کا امکان ہے۔
*... اپنی
اولاد کی غلطیوں پر صرف تنبیہ کر دینا کافی نہیں ، بلکہ انہیں مناسب سزا بھی
دیجیے۔
*... بچوں کی
فراغت کے اوقات میں اور خاص کر چھٹیوں میں ان کے لیے کسی صحت مند او رمفید مشغلے
کا انتخاب کیجیے، تاکہ ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔
*... اپنی
بیٹیوں کی دوست بن کر رہیے اور ان کے معاملے میں فطری وطبعی تبدیلیوں کا احساس
وادراک کیجیے کہ جن سے نوجوان لڑکیوں کو مرحلہ وار گزرنا پڑتا ہے۔
*... تربیت کے
عملی نمونے اختیار کرکے اپنی بچیوں کی شخصی تربیت کرتے ہوئے اس میں نکھار پیدا
کرنے کی کوشش کیجیے۔
*... شوہر کی
دل بستگی او راس کے ساتھ بہترین توجہ کا معاملہ کرتے ہوئے اولاد کی خبرگیری او
رگھر کے کام کا ایسا نظم بنائیے کہ ان تینوں ذمے داریوں کی ادائیگی میں توازن برقرار
رہے۔
*... شوہر کے
والدین کے ساتھ اپنے والدین جیسی محبت واحترام اور خدمت کا خیال رکھیے، انہوں نے
آپ کو ایک بہترین او ربیش قیمت ہدیہ آپ کے شوہر کی صورت میں عطا کیا ہے ۔
*... شوہر کے
رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور دو طرفہ تعلقات کا خاص اہتمام کیجیے، خواہ آپ کے
شوہر خود سے اس کا زیادہ اہتمام نہ کرتے ہوں۔
*... شوہر کے
مہمانوں کی خاطر مدارات کا بھی خیال رکھیے اور اچانک مہمان آجانے یا مہمانوں کی
کثرتِ آمدورفت سے ناراضگی اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ نہ کیجیے۔
*... شوہر کے
ضروری کاغذات، فائلیں اور اہم سامان کی خاص حفاظت کیجیے او راسے سنبھال کر رکھیے۔
*... گھر کو
ہر وقت اس انداز سے رکھیے کہ کسی بھی وقت کوئی مہمان آجائے تو خفت اور شرمندگی
محسوس نہ ہو او رشوہر کی کتابیں، فائلیں اور روز مرہ استعمال کی چیزوں کو قرینے
اور ترتیب سے رکھیے۔
*... دیر سے
گھر آنے پر باز پُرس او رناراضگی کا طریقہ اپنانے کے بہ جائے شوہر کو اپنے شوق
ورغبت کے ساتھ انتظار کااحساس دلاتے ہوئے اسے گھر کا بوجھ اٹھانے پر ستائشی کلمات
سے بھی نوازیے۔
*... شوہر کو
کسی بات سے تنگ ہو کر غصے کے اظہار کا موقع نہ دیجیے، بلکہ اشارے او رانداز سے بھی
فوراً ان کی مرضی کو بھانپ لینا چاہیے۔
*... اپنے
شوہر سے زیادہ شکوے شکایت کرنے سے باز رہیے۔
*... شوہر کو
ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتی رہیے کہ ان کے کام سب سے اولین ترجیح کے لائق ہیں ،
چاہے آپ کو دوسری مصروفیات کتنی ہی درپیش ہوں۔
*...
یادرکھیے، شوہر کا یہ حق ہے کہ وہ آپ کے او رآپ کے گھر والوں کے درمیان ہونے والے
امور او رمعاملات سے واقف او رباخبر رہے۔
*... آپ شوہر
کو اس بات کا احساس دلائیے کہ آپ کو اپنے شوہر پر توجہ او رپیار ہے۔ کام یاب بیوی
وہی ہوتی ہے جس کی محبت اور تعلق کا شوہر کو ادراک ہو ۔
*... کام کاج
کی کثرت او رگھریلو امور میں مشغولیت آپ کی طبیعت پر منفی اثرات مرتب نہ کرنے
پائیں۔
*... اپنے گھر
کی باتوں کو ادھر اُدھر نہ پھیلائیے۔ اپنے گھر کے رازوں کو محفوظ رکھنے کااہتمام
کیا کیجیے۔
*... دوسرے لوگوں
کے ساتھ اپنے شوہر کا کبھی موازنہ نہ کیجیے، بلکہ اپنے شوہر کی خوبیوں کو دیکھا
کیجیے۔
*... عورتوں
میں اصلاح کا کام کرنے کے لیے مشورے کے طریقے کو مؤثر بنانے کی کوشش کیجیے، تاکہ
آپ سہولت او رحکمت عملی کے ساتھ وقت ضائع کیے بغیر مطلوبہ ہدف حاصل کرسکیں۔
*... وہ مادی
معیار زندگی جو عام طور پر عورتوں کو اپنے میں منہمک رکھتا ہے ، آپ اس مادی معیار
سے بہ خوبی واقف رہیے، تاکہ دوسری خواتین کو مناسب او رنرم گفت گو کے ذریعے اس
مادیت سے نکال سکیں۔
*... اپنی
بہنوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے دل جیتنے کی کوشش کیجیے، پھر وہ عقل وشعور کے
ساتھ آپ کی تابع دار ہو جائیں گی۔ یہی طریقہٴ کار خواتین کے لحاظ سے زیادہ مناسب
ہے۔
*... اپنے
کاموں میں اپنے ساتھ دوسروں کو شریک کیجیے، جو آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے کاموں
کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس طرز عمل سے آپ کی ذمے داریوں کا بوجھ بڑھنے نہیں پائے گا،
بلکہ اس میں توازن قائم رہے گا
No comments:
Post a Comment