Front - The Prophet Muhammed

Saturday, December 28, 2013

ازدواجی زندگی میں بیوی کے فرائض اور شوہر کے حقوق

ازدواجی زندگی میں بیوی کے فرائض اور شوہر کے حقوق
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔اما بعد
قال اللہ تعالیٰ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰت’‘ حٰفِظٰت’‘ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط(سورہ نساء :۳۴)

پہلا حصہ ان حقوق کے بیان میں تھا جو ایک بیوی کے حقوق اس کے شوہر کے ذمے ہوتے ہیں جس میں مرد کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا اور یہ ہدایت دی گئی کہ ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ کس قسم کا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے ۔ لیکن شریعت جو در حقیقت اللہ تعالی کا مقرر کیا ہوا قانون ہے ، وہ صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھنے والا قانون نہیں ہوتا ، بلکہ اس میں دونوں جانبوں کی برابر رعایت ہوتی ہے اور دونوں کیلئے دنیا وآخرت کی صلاح فلاح کی ضمانت ہوتی ہے ۔ چنانچہ جس طرح شوہر کے ذمے بیوی کے حقوق عائد کئے گئے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کے ذمے شوہر کے حقوق بھی بیان فر مائے اور قرآن وحدیث میں ان دونوں قسموں کے حقوق کی ادائے گی پر بڑا زور اور بڑی تاکید کی گئی ہے ۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت میں ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے حقوق کے مطالبے پر زور نہیں دیا گیا ہے ۔آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے اور اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے ہڑتال کر رہا ہے ،تحریکیں چلا رہا ہے ، مظاہرے کر رہا ہے گویا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کیلئے دنیا بھر کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ا نجمنیںقائم کی جارہی ہیںلیکن آج ادائیگی ِ فرض کے لئے کوئی انجمن موجود نہیں ہے کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمہ عائد ہیں وہ ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔ مزدور کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے اور سرمایہ دار کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے لیکن دونوں میں سے کسی کو یہ فکر نہیں کہ میں اپنا فریضہ کیسے ادا کروں ؟ مرد کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہئے اور اس کے لئے کو شش اور جدوجہد جاری ہے اور بیوی کہتی ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہئیں ۔ لیکن کو ئی خدا کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ جو فرائض میرے ذمے عائد ہو رہے ہیں وہ میں ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہوجائیں شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہو گئے اور بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کا حق ادا ہو گیا ۔شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ تم اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرو۔

٭زندگی استوار کر نے کا طریقہ:
تو میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں بھی اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ دونوں کو ان کے فرائض بتادیئے ۔ شوہر کو بتا دیا کہ تیرے فرائض یہ ہیں اور بیوی کو بتا دیا کہ تیرے فرائض یہ ہیں ۔ ہر ایک اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے اور درحقیقت زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے ۔کہ دونوں اپنے فرائض کا احساس کریں اپنے حقوق حاصل کرنے کی اتنی فکر نہ ہو جتنی دوسرے کےحقوق کی ادا ئیگی کی فکر ہو اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو پھر یہ زندگی استوار ہو جاتی ہے ،اگر انسان ان پر عمل کر لے تو دنیا بھی درست ہوجائے اور آخرت بھی درست ہو جائے ۔

٭مرد عورت پر حاکم ہے :
اس لئے بیوی کے حقوق کے بعد اب شوہر کے حقوق کو بیان کیا جاتا ہے ۔اگر چہ اسلا م کی نظر میں مرد اور عورت دونوں انسان ہو نے کی حیثیت سے برابر ہیں عورت کسی بھی طرح کمتر یا حقیر مخلوق نہیں ہے جیسا کہ دیگر قوموں میں یہ نظریہ پا یا جاتا ہے لیکن جہاں تک ان کے فرائض وواجبات کا تعلق ہے ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے چنانچہ گھریلو انتظام کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگراں ومحافظ ہے کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کر کے اسے بیاہ کر لاتا ہے اس کے لئے گھر اور دیگر آشائشیں فراہم کرتا ہے ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی شریک حیات کیلئے بے انتہا تکلیفیں اور مشقتیں بر داشت کرتا ہے تو پھر اسے گھر اور خاندان پر حاکمانہ اختیارات بھی حاصل ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ الخ۔یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیںبعض حضرا ت نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔قوام۔ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام کرنے یا اس کا انتظام کر نے کا ذمہ دار ہو گویا کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں ان کے کاموں کے منتظم ہیں اور ان کے حاکم ہیں یہ اصول بیان فر مادیا ۔اس لئے کہ اصولی باتیں ذہن میں نہ ہونے کی صورت میں جتنے کام انسان کرے گا وہ غلط تصورات کے ماتحت کرے گا لہٰذا مرد کے حقوق بیان کرتے ہوئے عورت کو پہلے اصولی بات سمجھادی کہ وہ مرد تمہاری زندگی کے امور کا نگہبان اور منتظم ہے اور تم پر حاکم ہے ۔

٭آج کی دنیا کا پرو پیگنڈہ:
آج کی دنیا میں جہاں مرد وعورت کی مساوات ان کی برابری اور آزادی نسواں کا بڑا زور وشور ہے ایسی دنیا میں لوگ یہ بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ شریعت نے مرد کو حاکم بنایا ہے اور عورت کو محکوم بنایا ہے ۔اس لئے کہ آج کی دنیا میں یہ پر پیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مرد کی عورت پر بالا دستی قائم کر دی گئی ہے اور عورت کو محکوم بنا کر اس کے ہاتھ میں قید کر دیا گیا ہے اور اس کو چھوٹا قرار دے دیا گیا ہے ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ مرد وعورت زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے اب زندگی کے سفر کے طے
کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک شخص سفر کا ذمہ دار ہو اسلئے کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ جب بھی دو آدمی کوئی سفر کر رہے ہوں چاہے وہ سفر چھوٹا سا کیوں نہ ہو اس سفر میں اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لو امیر بنائے بغیر سفر نہیں کرنا چاہئے تاکہ سفر کے تمام انتظامات اور پالیسی اس امیر کے فیصلے کے تابع ہو اگر امیر نہیں بنائیں گے تو ایک بد نظمی ہو جائے گی ( ابو داؤد کتاب الجہاد حدیث ۲۶۰۸) لہٰذا جب ایک چھوٹے سے سفر میں امیر بنانے کی تاکید کی گئی ہے تو زندگی کا ایک طویل اور لمبا سفر جو ایک ساتھ گزارنا ہے اس میں تاکید کیوں نہیں ہو گی کہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لو تاکہ بد نظمی پیدا نہ ہو بلکہ انتظام قائم رہے اس انتظام کو قائم کر نے کیلئے کسی ایک کو امیر بنا نا ضروری ہے۔

زندگی کے سفرکا امیر کون ہو؟
اب دو راستے ہیں یا تو مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا دیا جا ئے ، یا عورت کو امیر بنا دیا جائے اور مرد کو اس کا محکوم بنا دیا جائے تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے ،اب انسانی خلقت ، فطرت ، قوت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی اور عقل کے ذریعے انسان غور کرے تویہی نظر آئیگا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت وطاقت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فر مائی ہے وہ عورت کو عطا نہیں کی ۔ لہٰذا اس امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے اور اس کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کی بجائے اس ذات سے
پو چھا جائے جس نے ان دونوں کو بنایا اور پیدا کیا کہ آپ نے دونوں کو سفر پر روانہ کیا آپ ہی بتائیں کہ کس کو امیر بنائیں اور کس کو مامور بنائیں ؟ اور سوائے اس فیصلے کے کسی اور کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا خواہ وہ فیصلہ عقلی دلائل سے آراستہ ہو ۔اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ
فر مادیا کہ اس زندگی کے سفر کو طے کر نے کیلئے مرد قوام حاکم اور منتظم ہیں اگر تم اس فیصلے کو صحیح جانتے ہو اور مانتے ہو تو اسی میں تمہاری کامیابی اور سعادت ہے اور اگر نہیں مانتے بلکہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہو اور اس کے ساتھ بغاوت کرتے ہو تو پھر تم جانو تمہارا کام اور تمہاری زندگی جانے تمہاری زندگی خراب ہوگی اور ہو رہی ہے جن لوگوں نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کی ان کا انجام دیکھ لیجئے کہ کیا ہوا؟ ۔

٭اسلام میں امیر کا تصور :
البتہ اللہ تعالیٰ نے جو لفظ یہاں استعمال فر مایا اس کو سمجھ لیجئے اللہ تعالیٰ نے یہاں امیر ، حاکم ، باشاہ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ قوام کا لفظ استعمال کیا قوام کے معنیٰ وہ شخص جو کسی کام کا ذمہ دار ہو اور زمہ دار ہو نے کے معنیٰ یہ ہیں کہ بحیثیت مجموعی زندگی گزانے کی پالیسی وہ طے کرے گا اور پھر اس پالیسی کے مطابق زندگی گزاری جائیگی لیکن قوام ہونے کے یہ معنیٰ ہر گز نہیں کہ وہ آقا ہے اور بیوی اس کی کنیز ہے یا بیوی اس کی نوکر ہے بلکہ دونوں کے درمیان امیر مامور حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے اور اسلام میں امیر کا تصوریہ نہیں ہے کہ وہ تخت پر بیٹھ کر حکومت چلائے بلکہ اسلام میں امیر کا تصوروہ ہے جو حضور اقدس ﷺ نے فر مایا کہ سَیِّد الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے ( کنز العمال حدیث نمبر ۱۷۰۱۷)لہٰذا امیر کے معنیٰ یہ ہیں کہ بیشک فیصلہ اس کا معتبر ہو گا ساتھ ہی وہ فیصلہ ان کی خیر خواہی کیلئے ہو گا ان کی خدمت اور راحت کیلئے ہوگا۔

٭ عورت کی ذمہ داریاں:
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ مرد قوّام اور منتظم ہے اور گھر کا سربراہ ہے تو عورت کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی تعظیم وتکریم کرے اس کو اپنا بڑا خیال کرے اور اس کی عظمت وحر مت کا پا س رکھے چونکہ اس آیت میں جو اوپر مذکور ہے اس میں شوہر کی عظمت وحرمت بیان کی گئی ہے اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیٰ النِّسَائِ کہ مرد حاکم ہیں عورتوں پر پھر اس کی دو وجہیں بیان فر مائیں ایک یہ کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں عقل وقوت زیادہ ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ یہ آیت سعد بن ربیعؓ کی عورت حبیبہ بنت زیدؓ کے بارے میں نازل ہوئی جبکہ سعدؓ نے اپنی بیوی کو اس کی نافر مانی پر ایک طمانچہ رسید کر دیا تھا تو اس کے والد نے حضور پاک ﷺ سے شکایت کی تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اپنے شوہر کے ایک طمانچہ رسید کردے اور بدلہ لے لے جب یہ باپ اور بیٹی بدلہ لینے کیلئے چلے تو اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے آپﷺ نے ان سے فر مایا کہ واپس آجاؤ یہ دیکھو ! میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اور یہ آیت سنا کر اللہ کے نبی علیہ السلام نے فر مایا کہ ہم نے ایک ارادہ کیا اور اللہ نے دوسرا ارادہ کیا ۔اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے ایک بات کا ارادہ کیا اور اللہ نے جو ارادہ کیا وہی خیر ہے ( قرطبی ۵؍ ۱۶۸ روح المعانی ۵؍۲۳

٭عورت کیلئے شوہر کا مقام:
اس آیت اور اس کے شان نزول سے معلوم ہوا کہ مرد ( شوہر) کا اللہ ورسول کی نظر میں کیا مقام ومرتبہ ہے بہر حال عورت پر مرد کے بہت سارے حقوق ہیںاسی بنا پر شوہر کو عورت کا مجازی خدا قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ارشاد فر ماگیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے میں سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بوجہ اس حق کے جو اللہ نے ان مردوں کا عورتوں پر لکھا ہے ( ابو داؤد ۱؍ ۲۹۱) اندازہ کیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کا کتنا اونچا مقام ومرتبہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ مرد کو سجدہ کرے لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ مرد کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی گزارے ۔آج کی عورتوں نے یورپ وامریکہ کی تقلید میں شوہر کی عظمت وحرمت کا پاس وخیال ہی چھوڑ دیا ہے اور مساوات مساوات کا کھو کھلا نعرہ لگا کر اسلام کی اس تعلیم کے خلاف چلنا شروع کر دیا ہے ۔ مگر یاد رکھو کہ اسلام سے زیادہ مساوات کا سبق دینے والا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ مگر مساوات کا یہ مطلب لینا با لکل عقل وفطرت کے خلاف ہے کہ کسی کی عظمت وحرمت کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے ۔ کیا کوئی شخص تمام انسانوں کے بحیثیت انسان مساوی اور برابر ہونے کا یہ مطلب نکال سکتا ہے کہ کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں باپ اور بیٹے کا ہر اعتبار سے ایک ہی مرتبہ ہے استاذوشاگرد میں کوئی تفاضل نہیںاور حاکم ورعایا سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ مساوات کا یہ معنی ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔اسی طرح مرد اور عورت کی مساوات کا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دونوں میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں اور شوہر کوکسی بھی اعتبار سے تفوق نہیں ۔ غرض یہ کہ اسلام میں شوہر کو ایک عظمت وبلندی ومرتبہ حاصل ہے اور عورت پر لازم ہے کہ اس کا لحاظ رکھے۔ حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ اے عورتو ! اگر تم کو معلوم ہو جائے کہ تماہرے مردوں کا تم پر کیا حق ہے تو تم اپنے شوہروں کے قدموں کی غبار ودھول کو اپنے گالوں سے صاف کر وگی ( الکبائر للذھبی ص ۱۷۴) ایک حدیث میں جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور احمد نسأئی نے روایت کیا ہے اس میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے پو چھا کہ عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے شوہر کا ( فتح الباری ۱۰؍ ۴۰۲) ۔ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہرکا ہے اور مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے ۔( جمع الفوائد)
بیوی پر شوہر کے اس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کے بغیر اس کی عبادت وبندگی بھی ناقص رہے گی ــــ"لَاتُؤَدِّی الْمَرْأَۃُ حَقَّ رَبِّھَا حَتَّی تُؤَدِّی حَقَّ زَوْجِھَا " رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے وہ اپنے رب کا حق بھی ادا نہیں کر نہیں کر سکتی ( ابن ماجہ کتاب النکاح ۱؍ ۵۹۵)حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول ہوتی ہے نہ ان کی کوئی نیکی ( آسمان کی طرف) چڑھتی ہے ۔ایک وہ غلام جو بھاگ گیا ہو جب تک وہ اپنے آقا کی طرف لوٹ کر نہ آجائے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دیدے ( اطاعت کرے ) دوسرے وہ عورت جس پر اس کا خاوند ناراض ہو ۔ تیسرے وہ شرابی جب تک کہ نشہ اس کا نہ اترے ( بیہقی ۔ مشکوۃ ص ۲۸۳)اس روایت سے معلوم ہوا کہ شوہر کی نا راضی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور اس عورت کی نماز اور نیکی کو رد فرمادیتے ہیں جو شوہر کو ناراض کر کے کرتی ہے ۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو شرع کے موافق ہو اگر شوہر اس لئے ناراض ہوتا ہے کہ عورت اللہ کے حکموں پر چلتی ہے تو اس کی یہ ناراضی حدود شرع سے متجاوز ہو نے کی وجہ سے اس کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ہاں نوافل ، مستحبات کے ادا کرنے میں عورت کو چاہئے کہ شوہر کی رضا کا لحاظ رکھے ۔ مثلاً نفل نماز پڑھنے یا نفل روزے رکھنے سے شوہر کے حقوق میں کوتا ہی لازم آتی ہو تو عورت کو نفل نماز ونفل روزے کی اجازت نہ ہوگی مگر یہ کہ شوہر اجازت دیدے تو پھر درست ہوگا چنا نچہ حدیث میں ہے ۔
(۱) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایاکہ عورت کے لئے حلال وجائز نہیں کہ وہ روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو مگر اس کی اجازت سے (رکھ سکتی ہے ) ( بخاری ۲؍ ۷۸۲)
(۲) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت رمضان کے سوا کوئی اور روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا خاوند مو جود ہو مگر یہ کہ اس کی اجازت ہو ( تو پھر جائز ہے ) ( ابوداؤد ۱؍۳۳۳)

٭ شوہر کی اطاعت وخدمت :
اوپر ذکر کی گئی احادیث سے معلوم ہوا کہ شوہر کا مقام ومرتبہ اتنا ہے کہ نفل عبادات بھی شوہر کی اجازت کے بغیر انجام نہیں دے سکتی جب نفل عبادات کے لئے اس کی اجازت ضروری ہے تو دیگر امور میں تو بدرجہ اولیٰ شوہر کی اطاعت لازم ہے چنانچہ اسلام نے شوہر کی اطاعت وخدمت کو عورت کے کمال وخوبی میں شمار کیا ہے اور اس کو عورت پر لازم بھی قرار دیا ہے اور جنتی عورت اس کو قرار دیا ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت وخدمت کر کے اس کو راضی کر لے ۔ اَیَّمَا اِمْرَاَ ۃٌ مَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ ( ترمذی ۳؍۴۶۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ جو عورت اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہا تو وہ جنت میں داخل ہو جائیگی ۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز پڑھے ، اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے (مشکوۃ ص ۲۸۱) اس حدیث میں شوہر کی اطاعت کرنے والی عورت کو خوشخبری سنائی گئی کہ وہ ضرور جنت میں جائیگی اور اس کو اختیار ہو گا کہ جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے اس میںاشارہ ہے کہ اس کو کوئی چیز دخول جنت سے مانع نہ ہوگی اور جلد سے جلد جنت میں پہنچ جا ئیگی۔( مرقات ۶ی؍ ۲۷۲)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پو چھا گیا کہ اَیُّ النِّسَائِ خَیْرٌ کہ سب سے اچھی عورت کو ن ہے ؟ آپﷺ نے فر مایا کہ وہ عورت جو اپنے شوہر کو خوش کردے جب وہ اس کو دیکھے اور اس کی فر مانبرداری کرے جب وہ کوئی حکم دے اور اس کے خلاف نہ کرے نہ اپنے نفس میں او رنہ اپنے مال میں جس کو وہ نا پسند کرے ( نسأئی ۲؍۱ ۷۱، مشکوۃ ص ۲۸۳)
بزرگوں نے فر مایا کہ عورت کو جنت میں جانے کیلئے مرد کی رضا کا ٹکٹ چاہئے اور مرد کو جنت میں جانے کیلئے ماں کی رضا کا ٹکٹ چاہئے لہٰذا اگر خاوند ماں کی خدمت میں لگا رہے تو بیوی کو روکنا نہیں چاہئے نہ برا سمجھنا چاہئے اس لئے کہ وہ ماں کی خدمت کر کے جنت کمارہا ہے ۔
٭ شوہر کے حقوق کی اہمیت :
مرد کو راضی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے حقوق کا خیال رکھا جائے مرد کے حقوق میں ایک اہم حق یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے جنسی تقاضوں کو پورا کرے ۔حدیث ۔ِاذَا لرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ فَلْتَأتِہٖ وَاِنْ کَانَتْ عَلی التَّنُّوْرِ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کیلئے بلائے تو وہ چلی آئے خواہ وہ چولھے کے پاس ہی ہو ۔اِذَا دَاعَا لرَّجْلْ اِمْرَأَتَہُ اِلٰی فِرَاشِہٖ فَاَبَتْ اَنْ تَجِیْئَی لَعَنَتْھَا الْمَلَاِئکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر پر بلائے مگر وہ انکار کر دے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں ( بخاری کتاب النکاح ۶؍ ۱۵۰) اور بعض حدیثوں میں مذکور ہے کہ شوہروں کے بلاوے پر ٹال مٹول کر نے والی عورتیں بہت بری ہوتی ہیںچنا نچہ ارشاد ہے کی اللہ لعنت کرے ٹال مٹول کرنے والی عورتوں پر، جسے شوہر اپنے بستر پر بلاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ بعد میں بعد میں ، یہاں واضح رہے کہ فطری اعتبارسے عورت کی بنسبت مرد میں جنسی خواہشیں نہ صرف زیادہ ہوتی ہیں بلکہ بعض مردوں کو اپنی اس خواہش پر قابو رکھنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اور عورت اکثر وبیشتر مرد کے ان تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی اسی بناء پر مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ غلط یا ناجائز طریقے اختیار کرنے کے بجائے جائز اور حلال طریقے سے اپنی خواہش پو ری کر سکیں اسی فطری حقیقت کی بناء پر حدیث نبوی میں مرد کے بلاوے پر عورت کو ٹال مٹول سے کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ لہٰذا اگر ایک ہو شیار عورت شوہر کی عادت اور اس کے مزاج کے مطابق اسے ہر حال میں خوش اور مطمئن رکھنے کی کو شش کرے تو شائد دوسری شادی کی نوبت نہ آئے اس لئے ایک عورت کو اپنے گھر گرستی کے لئے کبھی کبھی اپنے نفس پر جبر کر نا پڑے گا اور نہ چاہتے ہو ئے بھی شوہر کی خواہش کے سامنے سر نیاز جھکانا پڑے گا اسی میں ان دونوں کا فائدہ ہے ورنہ دوسری شادی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے مسائل اور بھی بڑھ سکتے ہیں ( اسلام کا قانون نکاح ص۲۳۶)

٭شریعت کے خلاف امور میں شوہر کی اطاعت نہیں:
حاصل یہ کہ عورت اپنے شوہر کے حقوق کا پورا خیال رکھے اور اسے راضی اور خوش کرنے کی تدبیر کرے مگر ایک بات ذہن میں رہے کہ شوہر کی اطاعت وفر مانبرداری اور اس کی رضا وخوشی کا اہتمام وخیال صرف اس موقع پر ضروری ولازم ہے جبکہ اس سے خدا کی نا فر مانی وناراضی لازم نہ آتی ہو اگر شوہر ایسی بات کا حکم دے جس سے خدا کی نافر مانی لازم آتی ہو یا اس کی ناراضی پر مشتمل ہو تو وہاں ہر گز شوہر کی بات نہیں مانی جایگی ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فر مایا کہ انصار کی ایک عورت نے اپنی لڑکی کی شادی کی پس اس کے سر کے بال گر نے لگے وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے بالوں میں دوسرے بال ملاؤں آپ ﷺ نے فر مایا کہ نہیں بال میں بال ملانے والی عورت پر لعنت کی گئی ہے ( بخاری ۲؍ ۷۸۴)
دیکھئے اس حدیث نے صاف بتا دیا کہ جو بات خلاف شرع ہو اس میں شوہر کی بات نہیں مانی جائیگی ۔

٭ گھر کے کام کاج پر اجر وثواب:
بعض مرتبہ ہم لوگوں کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات ایک دنیاوی قسم کا معاملہ ہے اور یہ صرف نفسانی خواہش کی تکمیل کا معاملہ ہے ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ دینی معاملہ بھی ہے اس لئے اگر عورت یہ نیت کر لے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا ہے اور اس تعلق کا مقصد شوہر کو خوش کرنے اور شوہر کو خوش کر نے کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کو راضی وخوش کر ناہے تو پھر یہ سارا عمل ثواب بن جاتا ہے ۔ گھر کا جو کام خواتین کرتی ہیں اور اس میں نیت شوہر کو خوش کرنے کی ہے تو صبح سے لے کر شام تک وہ جتنا کام کر رہی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے یہاں عبادت میں لکھا جاتا ہے چاہے وہ کھانا پکانا ہو گھر کی دیکھ بھال ہو بچوں کی تربیت ہو یا شوہر کا خیال ہو یا شوہر کے ساتھ خوش دلی کی باتیں ہوں ،ان سب پر ثواب واجر لکھا جارہا ہے بشرطیکہ نیت درست ہو اس موضوع پر بالکل صریح حدیث مو جود ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہو تے ہیں ا للہ تعالیٰ ان پر بھی اجر وثواب عطا فر ماتے ہیں صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے اس پر کیا اجر؟ آپ ﷺ نے فر مایا کہ اگر وہ ان نفسانی خواہشات کو نا جائز طریقے پر پورا کرتا تو اس پر گناہ ہو تا یا نہیں ؟ صحابہ ؓ کرام نے عرض کیا ! یا رسول اللہ گناہ ضرور ہوتا آپ ﷺ نے فرمایا چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اور میرے حکم کے ماتحت کر رہے ہیں اس لئے اس پر بھی ثواب ہو گا ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۱۹۱۹۷)

٭بیوی گھر میں آنے کی اجازت نہ دے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ حدیث جس میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کو نفل روزہ کی ممانعت ہے اس کا اگلا جملہ یہ ارشاد فر مایا "وَلَاتَأذَنَ فِیْ بَیْتِہٖ اِلاَّبِاِذْنِہٖ"یعنی عورت کے ذمہ یہ بھی فرض ہیکہ شوہر کے گھر میں کسی کو شوہر کی اجازت کے بغیر داخل ہو نے کی اجازت نہ دے۔ یا کسی ایسے شخص کو گھر کے اندر آنے کی اجازت دینا جس کو شوہر ناپسند کرتا ہو یہ عورت کے لئے بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں اس بات کو اور تفصیل سے بیان فر مایا کہ یاد رکھو تمہارا تمہاری بیویوں پر بھی کچھ حق ہے اور تمہاری بیویوں کا تم پر بھی کچھ حق ہے یعنی دونوں کے ذمہ ایک دوسرے کے کچھ حقوق ہیں اور دونوں کے حقوق کی نگہداشت اور پاسداری فریقین پر لازم ہے تو وہ حقوق کیا ہیں ؟ وہ یہ ہیں کہ اے مردو! تمہارا حق ان بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر وں کو ایسے لوگوں کو استعمال نہ کرنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جن کا آنا تم نا پسند کرتے ہو ۔ جہاں وہ حق بیان فرمائے ایک یہ کہ بیوی کی ذمہ یہ فرض ہے کہ وہ گھر کے اندر کسی ایسے شخص کو آنے نہ دے جس کے آنے کو شوہر نا پسند کرتا ہوحتی کہ اگر بیوی کے کسی عزیز یا رشتہ دار کا گھر میں آنا شوہر کو نا پسند ہو تو اس صورت میں اپنے عزیزوں کو بھی گھر میں آنے کی اجازت دینا جائز نہیں اور والدین کو صرف اتنی اجازت ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک مرتبہ آکر بیٹی کی صورت دیکھ لیں اس سے تو شوہر ان کو روک نہیں سکتا ۔ لیکن ان کو بھی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں ٹہرنا جائزنہیں ۔اس لئے کہ حضور ﷺ نے صاف لفظوں میں فر مادیا کہ جن کو تم نا پسند کرتے ہو ان کو آنے کی اجازت نہ دو ، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔اوردوسرا جملہ یہ ارشاد فر مایا کہ وہ بیویاں تمہارے بستروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو بستر کے استعمال میں سب چیزیں داخل ہیں ، یعنی بستر پر بیٹھنا ، بستر پر لیٹنا ، بستر پر سونا یہ سب اس میں داخل ہیں، حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ ؓ نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت ابو سفیان ؓ کو جب وہ ایمان نہیں لائے تھے اور بیٹی کے یہاں آئے تو ام حبیبہ ؓ نے حضور ﷺ کے بستر پر باپ کو بیٹھنے نہیں دیا اور بستر لپیٹ دیا جس پر ابو سفیان ؓ نے یہ کہا کہ رملہ! کیا یہ بستر میرے لائق نہیںہے یا میں اس بستر کے لائق نہیں ہوں ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے جواب دیا کہ ! ابا جان با ت یہ ہے کہ آپ اس بستر کے لائق نہیں ہیں اس واسطے کی یہ محمد ﷺ کا بستر ہے اور جو آدمی مشرک ہو میں اس کو اپنی زندگی میں اس بستر پر بیٹھنے کی جازت نہیں دے سکتی۔ اس پر ابو سفیان نے کہا رملہ !مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم اتنی بدل جاؤ گی کہ اپنے باپ کو بھی اس بستر پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دوگی ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے اس حدیث کی بنا پر یہ عمل کیا ۔

٭ عورت کواجازت کے بغیر اپنے شوہر کا مال خرچ کرنا جائز نہیں:
عورت کو چاہئے کہ اپنے نفس ومال میں اس کی مرضی کے خلاف کوئی تصرف نہ کرے مال میں تصرف سے مراد وہ مال ہے جو مرد نے ضروریات زندگی کیلئے عورت کو دیا ہے اس میں اس کی مرضٰ واجازت کے بغیر خرچ کرنا درست نہیں اور بعض علماء نے کہا کہ مال سے مراد عورت کا مال مراد ہے اس صورت میں عورت کواپنے مال میں بھی بغیر شوہر کی مرضی کے تصرف نہیں کرنا چاہئے بہترین عورت کا یہی کردار ہوتا ہے ۔ عورت کو اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کسی کو تحفہ دینا بھی جائز نہیں ہے البتہ وہ اپنے مال میں سے دے سکتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو تحفہ دینا جائز نہیں ( نسائی کتاب الزکوۃ ۵؍ ۶۶)غرض کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر کی کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتی علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے مال کو اندھا دھند یا بیدردی سے خرچ نہ کرے بلکہ اس میں اعتدال اور میانہ روی کا پہلو اختیار کرے اگر وہ ایسا کرے گی تو اس پر اس کو ثواب بھی ملے گا ہاں اگر کوئی ہنگامی ضرورت پیش آجائے یا اتنا لینے کی حاجت لاحق ہو جائے جو عمومی اخراجات اور خیر وخیرات کے ماسوا ہو تو پھر اس سلسلہ میں شوہر کی اجازت ضروری ہو جائیگی لیکن اگر شوہر نے اس طرح کی اجازت پہلے سے دے رکھی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب عورت اپنے گھر کا کھانا ( یا اناج ) بغیر کسی خرابی کے خرچ کرتی ہے تو اسے اجر ملے گا اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اور جمع کرنے والے کو بھی اسی طرح کا ثواب ہو گا ۔( بخاری کتاب الزکوۃ ۲؍ ۱۲۰)
اس حدیث سے امام بخاری نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اپنا اور اپنے بچوں کا نفقہ شوہر کے مال میں سے لے سکتی ہے ۔

٭ عورت کو اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں :
اللہ تعالی کا ارشاد ہے "وَقَرْنَ فِیْ بِیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرِّجْںَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ لْاُوُلیٰ " کہ عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں قرار سے رہیں اور زمانہ جاھلیت کی طرح اپنے آپ کو دکھاتی نہ پھریں ۔اس سے معلوم ہوا کہ عورت بلاضرورت باہر نہ جائے اگر ضرورت سے باہر جانا ہو تو پردہ کے ساتھ اپنے شوہر سے جازت لے کر جائے بے پردہ ہو کر اور بلا اجازت کے عورت کو باہر جانا جائز نہیں ۔ فقہا نے یہ قانون لکھا ہے کہ اگر شوہر عورت سے یہ کہدے کہ تم گھر سے باہر نہیں جا سکتیں اور اپنے عزیز واقارب سے ملنے نہیں جا سکتیں حتی کہ اس کے والدین سے ملنے کیلئے جانے سے منع کر دے تو عورت کیلئے ان سے ملاقات کیلئے گھر سے باہر جانا جائز نہیں البتہ اگر والدین اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے اس کے گھر آجائیں تو اب شوہر ان والدین کو ملاقات کر نے سے روک نہیں سکتا لیکن فقہاء نے اس کی حد مقرر کر دی ہے کہ اس کے والدین ہفتہ میں ایک مرتبہ آئیں اور ملاقات کر کے چلے جائیں یہ اس عورت کا حق ہے شوہر اس سے روک نہیں سکتا ۔ لیکن اجازت کے بغیر عورت کے لئے جانا جائز نہیں ہے ( اصلاحی خطبات جلد۲ صفحہ ۵۳)

٭ کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر نہ کرے :
یہ بات تو معلوم ہو گئی کہ عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں شوہر اجازت دے تو باہر جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ کہیں کا سفر کر رہی تو اپنے کسی ذی محرم شخص کے بغیر تین دن بعض روایات کے مطابق ایک دن اور ایک رات کا اور بعض روایات کے مطابق صرف ایک رات کا سفر تنہا نہیں کر سکتی اور اس میں سفر حج بھی شامل ہے ذی محرم سے مراد عورت کا وہ قریبی رشتہ دار ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہو جیسے باپ بیٹا بھائی وغیرہ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت تین دن کا سفر صرف کسی حرمت والے ( محرم) شخص کے ساتھ ہی کر سکتی ہے ( بخاری کتاب التفسیر ۲؍ ۳۵)
رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی عورت کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ بات جائز نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر بغیر کسی محرم شخص کے کرے ۔ ( بخاری جلد ۲ ؍ ۳۶) رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ کسی مسلمان عورت کیلئے ایک رات کا سفر بھی بغیر کسی محرم شخص کے ساتھ کرنا جائز نہیں ہے ( کتاب النکاح ،ابو داؤد ۲؍ ۳۴۶)
رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر اسی صورت میں کر سکتی ہے جب کہ اس کا باپ ، یا اس کا بھائی ، یا اس کا بیٹا ، یا اس کا شوہر ، یا اور کوئی حرمت والا شخص اس کے ساتھ ہو ( ابو داؤد کتاب اللباس جلد ۴ س ۳۵۵)
ان احادیث سے واضح ہو گیا کہ عورت اپنے محرم کے بغیر تنہا سفر نہیں کر سکتی چاہے حج کا سفر یا کوئی دوسرا سفر ہو ۔

٭ شوہر کی نا شکری سے پر ہیز :
عام طور پر عورتوں میں ایک بیماری یہ ہے کہ شوہر کی نا شکری کرتی ہیں ۔ مال روپیہ ملے عمدہ کھانے د وبہترین کپڑے میں ، راحت وآشائش کا پورا سامان میسر ہو مگر ذرا سی بات بھی خلاف مزاج پیش آجائے تو بلا جھجھک یہ کہ دیتی ہیں کہ ا س گھر میںمیں نے کبھی راحت نہیں پائی یہاں مجھے کوئی سکون نہیں ۔ چنانچہ عورتوں کی اس زود رنجی اور نا شکری کا حدیث میں ذکر آیا ہے اور اس پر نبی کریم ﷺ نے وعید سنائی ہے ان احادیث کو بغور ملاحظہ کریں ۔
نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ میں نے دوزخ کو دیکھا اس میں اکثر عورتیں تھیں صحابہ کرام ؓ نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ کس وجہ سے ؟ آپ ﷺ نے فر مایا کہ ان کی نا شکری کر نے کی وجہ سے ، پو چھا گیا کہ کیا وہ اللہ کی نا شکری کرتی ہیں ؟ فر مایا کہ اپنے شوہر کی نا شکری کرتی ہیں اور احسان کوجھُٹلا تی ہیں اگر تو ان میں سے کسی سے پوری زندگی بھی احسان کرے سلوک کرے پھر تجھ سے کوئی بات خلاف طبع دیکھے گی تو یوں کہے گی کہ میں تیرے سے کوئی بھلائی کبھی نہیں دیکھی ۔ ( بخاری ۱؍ ۱۴۴ ۔ مسلم ۱؍ ۲۹۸)
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ وحضرت عبد اللہ بن عمر وغیرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کہ اے عورتو ! تم صدقہ دو اور کثرت سے استغفار کرو کیونکہ میں نے دیکھا کہ تم دوذخ والوں میں زیادہ تعداد میںہو ایک جری عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہماری کیا بات ہے کہ ہم دوزخ میں زیادہ جائیں گی؟
آپ ﷺ نے فر مایا کہ تم ( عورتیں) لعنت بہت کرتی اور شوہر کی نا شکری کرتی ہو ۔ ایک روایت میں ہے کہ تم شکوہ بہت کرتی ہو ( ابن ماجہ ص ۲۸۸۔ مسلم جلد ۱ ص ۲۸۹)
ان روایا ت سے معلوم ہوا کہ عورتوں میں کچھ بری باتیں اور اخلاقی رذائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے اکثر عورتیں جہنم جائینگی ۔ ایک یہ کہ زبان پر بہت لعن وطعن کے الفاظ کا ہونا ۔چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر عورتیں اپنے بچوں کو، بڑوں کو ، اپنوں اور غیروں سب کو اکثر وبیشتر لعن طعن کرتی رہتی ہیں دوسرے یہ کہ شکوہ وشکایت ان کا محبوب مشغلہ ہے کہ معمولی معمولی باتوںپر شکوہ وشکایت کر نے لگتیں ہیں تیسرے یہ کہ شوہر کی نا شکری کرتی ہیں اور کتنا بھی انہیں چین وراحت شوہر کی طرف سے پہنچے مگر جوں ہی ذرا سی بات خلاف مزاج پیش آئی سارے پر پانی پھیر دیتی ہیں ۔ بنی کریم ﷺ نے اس پر وعید سنائی ہے کہ ایسی عورتیں جہنم میں جائینگی ۔ اس لئے ایک تو عورتوں کو اس قسم کی برائیوں سے خصوصیت سے پر ہیز کر نا چاہئے دو سرے صدقہ وخیرات اور ستغفار کے ذریعہ ان گناہوں کو دھونا چاہئے ۔

٭ شوہر کیلئے زیب وزینت :
ازداوجی زندگی میں جن امور کی بہت زیادہ اہمیت ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کیلئے زیب وزینت اختیار کے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی کریم ﷺ ایک غزوہ سے واپس ہوئے تو صحابہ ؓ سے فر مایا کہ ابھی فورا گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں کو ٹھیک کرلیں اور غیر ضروری بال صاف کرلیں ( بخاری ۲؍ ۷۶ ۔ مسلم ۱؍ ۴۷ )
اس حدیث میں سفر سے آنے والوں کو نبی کریم ﷺ فر ماتے ہیں کہ ابھی فورا ًواچانک گھروں میں داخل نہ ہو اور عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں میں کنگھی کر لیں اور غیر ضروری بالوں کو استرے سے صاف کر کے زینت اختیار کر لیں ۔ملا علی قاری اس کی شرح میں فر ماتے ہیں معنیٰ یہ ہیں کہ اس وقت تک ٹہر جاؤ کہ عورتیں اپنے شوہروں کیلئے زیب وزینت کر لیں اور اپنے آپ کو شوہر کیلئے تیار کرلیں ( مرقات ۶؍ ۱۹۲) اس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ عورت کا مر د کیلئے زیب وزینت اختیار کر نا ضروری ہے اس لئے مردوں کو حکم دیا گیا کہ ایک دم واچانک گھروں میں داخل نہ ہوں تا کہ عورتیں زیب وزینت کر لیں ۔ اور علماء نے اس کو مرد کے حقوق میں شمار کیا ہے کہ عورت پا کی وصفائی اور زیب وزینت کے ساتھ رہے اور اس میں کوتاہی کر نے پر سزا دی جا سکتی ہے ۔ درمختار ورد المحتارمیں ہے کہ زینت کو ترک کرنے پر شوہر بیوی کو سزا دے سکتا ہے اسی طرح غسل جنابت نہ کر نے پر بھی سزا دے سکتا ہے ( شامی ۴؍ ۷۷)
اسی طرح خانیہ اور بحر الرائق میں ہے کہ چار باتوں پر شوہر بیوی کو مار سکتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ عورت زینت ترک کرے اور ایک حیرت ناک بات یہ بھی سن لیجئے کہ ان چاروں میں سے ایک چیز نماز کا ترک کرنا اور چھوڑنا بھی ہے ۔ مگر اس میں علما ء کا اختلاف ہے کہ نماز کے چھوڑنے پر عورت کو شوہر ما رسکتا ہے یا نہیں لیکن تر ک زینت پر مارنے کے جواز پر سب کا اتفاق ہے ( خانیہ علی ہامش الھندیہ جلد ۱ ص۴۴۲)
اس سے اندازہ لگایئے کہ عورت پر شوہر کیلئے زینت کا اختیار کرنا کس قدر ضروری واہم ہے اور زینت ونظافت وصفائی میں یہ چیز یں بھی داخل ہیں کہ منہ کو مسواک یا کسی اور چیز سے صاف کرے اور جسم اور کپڑوں کو عطر وخوشبو سے معطر کرے اور صافٖ ستھرے کپڑے پہنے بالوں میں کنگھی کرے زیر ناف اور بغلوں کے بالوں کو صاف کرے وغیرہ ۔ ( اسلام میں عورت کا کردارص ۶۶)

٭ گھر اور بچوں کی حفاظت :
اسلام نے پاکیزہ اور پر سکون اور پر لطف زندگی کیلئے جو اصول وضوابط تعلیم فر مائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کے گھر کی اس کے مال واسباب کی اور اس کے بچوں کی نگرانی وحفاظت کرتی رہے یہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں داخل ہے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچے کی راعی ونگراں اور حفاظت کرنے والی ہے راعی وہ امانت دار نگراں ہے جو اس چیز کی اصلاح وتدبیر میں لگا رہتا ہے جو اس کی ذمہ داری میں دی گئی ہو ( بخاری ۲؍ ۱۰۵۷ ،۱۳؍ ۱۱۲۔ فتح الباری ۱۱۳)اور عورت کی نگرانی یہ ہے کہ گھریلو امور اور اولاد اور خدام کی تدبیر کرے اور اس معاملے میں شوہر کا تعاون کرے یعنی شوہر کے مال اور اولاد کی حفاظت کرے کسی چیز کو ضائع نہ ہونے دے کوئی چیز خراب نہ کرے ورنہ اس سلسلے میں اسکی پوچھ ہوگی ۔ چنانچہ اوپر درج کردہ حدیث کے اول آخر میں یہ جملہ ہے کہ اَلاَ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُْکُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَّعِیْتِہِ ۔ ترجمہ: تم سے ہر ایک نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اپنی ماتحت رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی سنت اختیار کریں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں ۔

٭ بچوں کی تر بیت ونگرانی :
عورت پر شادی کے بعد جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان میں سے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت بھی اہم اور نازک ذمہ داری ہے اس کی طرف اوپر کی حدیث میں اشارہ گزر چکا ہے مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسکو الگ سے ذکر کرنا مناسب سمجھا گیا۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اگر چہ باپ پر عائد ہوتی ہے لیکن اس سلسلہ میں ماں جو کردار ( رول ) ادا کر سکتی ہے اس کے مقابلے میں باپ کی حیثیت ثانوی درجہ کی رہ جاتی ہے اسلئے ماں کی گود بچہ کا سب سے پہلا مدرسہ اور تعلیم گاہ ہوتی ہے ۔ پھر بچہ کو ماں سے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے اکثر اوقات سابقہ پڑتا ہے جبکہ باپ سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے ۔اس لئے عورت پر بچوں کی تعلیم وتر بیت کی یہ نازک ذمہ داری باپ سے زیادہ عائد ہوتی ہے ۔
اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو شروع ہی سے ایمان ویقین میں مضبوط کر نے کی فکر کریں ۔دوسرے اسلامی آداب واسلامی تہذیب سے ان کو آراستہ کر نے کی کوشش کر نا چاہئے ۔ پھر جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائیں تو تعلیم کا بند وبست کرنا چاہئے ۔ تعلیم میں اول و مقدم دینی تعلیم کو رکھنا چاہئے پھر عصری و دنیوی علوم سے بھی بچوں کو بھی آراستہ کرنے کی تدبیر کرنا چاہئے ۔
یہ مختصر جملے بڑی تفصیل کے متقاضی ہیں لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے ۔آج عام طور پر مائیں اپنے بچوں کی تر بیت میں انتہائی کوتاہی کرتی ہیں ان کو نہ اسلامی آداب سکھاتی ہیں نہ اسلامی تہذیب واخلاق سے ان کو آراستہ کرتی ہیں ۔ بلکہ صرف انگریزی اسکولوں کے حوالہ کر کے یہ سمجھ جاتی ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا ۔ مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ ان اسکولوں میں ایمان ویقین تو ایک طرف رہا وہاں ان بچوں کو اخلاق وآداب کی بھی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اور زیادہ بے ادبی ، گستاخی ، بد تہذیبی سکھائی جاتی ہے جیسا کی مشاہدہ وتجربہ ہے اس لئے بچوں کی تر بیت کا گھر میں نظام بنا نا چاہئے مگر اس کے لئے پہلے ماؤں کو علم واخلاق ایمان واسلام سے اپنے آپ کو مزین وآرستہ کر نا چاہئے ورنہ جہالت وبد اخلاقی وبد تہذیبی سے ماں خود آزاد نہ ہو توبچوں کی وہ کیا تر بیت کر سکے گی؟ بچوں کی تر بیت کیلئے انبیاء کرام کے قصے حضرات صحابہ وصحابیات کے واقعات اور بزرگان دین کے حالت وکوائف کا پیش کرنا اور ان کو سنانا نہایت مفید ہو تا ہے اور چونکہ بچے کہانی سننے کے شوقین ہو تے ہیں اس لئے ان قصوں کو وہ بہت ذوق ورغبت سے سنتے ہیں اور یاد بھی رکھتے ہیں ۔ لہٰذااس کا بھی اہتمام کیا جانا چاہئے ۔ بعض عورتیں بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بچے کی زبان سے گالی سن کر خوش ہوتی ہیں اور اکثر عورتیں اپنے بچوں کو ٹی وی کا عادی بنا تی ہیں اور بچے اس کی وجہ سے فحش اور بیحیائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض عورتیں اپنے بچوں کو گالیاں سکھا کرخوش ہو جاتی ہیں غور کیجئے کہ یہ تر بیت ہو رہی ہے یا بگاڑ ؟ غرض یہ کہ ماں پر یہ بڑی اہم ونازک ذمہ داری ہے اس کو احساس ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا چاہئے ۔تربیت اولاد کے سلسلے میں علماء نے لکھا ہے کہ جن چیزوں کا بچہ زیادہ محتاج ہو تا ہے ان میں سے ایک اس کے اخلاق کی طرف تو جہ بھی ہے کیونکہ اخلاق پیدا ہی ہوتے ان چیزوں سے جن کی عادت مربی ذہن میں ڈالتے ہیں جیسے سخت مزاجی ، غصہ ، چاپلوسی ، جلد بازی ، طیش شدت اور لا لچ وغیرہ ۔ پس بڑے ہو نے کے بعد ان چیزوں کی تلافی اس پر مشکل ہو جاتی ہے اور یہ صفات وحالات اس میں راسخ ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ان کے اخلاق منحرف ہو تے ہیں کیونکہ ان کی تر بیت ہی اسی طرح ہو ئی ہے ۔
اسی طرح ضروری ہے کہ بچہ جب عقل وشعور کی عمر کو پہنچ جائے تو لہو ولعب باطل قسم کی مجالس سے بچے ، گانے بجانے ، فحش اور بدعت اور بری گفتگوسننے سے بچے کیونکہ جب یہ اس کی سماعت سے معلق ہو جاتے ہیں تو بڑے ہو کر ان باتوں سے الگ ہو نا اس پر مشکل ہو تا ہے اور اس کے ذمہ دارکو بھی ان باتوں سے اس کو ہٹانا شاق( مشکل ) ہوتا ہے کیونکہ عادت کو بدلنا مشکل کاموں میں سے ہے ۔
ذمہ دار کو چاہئے کہ وہ بچہ کو کسی سے کوئی چیز لینے سے بہت ہی زیادہ اجتناب کرائے کیونکہ جب وہ لینے کا عادی ہو جائیگا تو یہ اس کی طبیعت ثانیہ بن جائیگی اور وہ لینے کا عادی ہو گا نہ کہ کسی کو دینے کا لہٰذا بچہ کو دینے اور خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور ذمہ دار جب کسی کو کچھ دینا چاہے تو بچے کے ہاتھ دلوائے تاکہ وہ دینے کی حلاوت کا مزہ چکھے ۔ نیز بچے کو جھوٹ اور خیانت سے اس سے زیادہ بچائے جتناکہ اس کو زہر سے بچاتے ہیں کیونکہ جھوٹ اور خیانت اگر اس کے اندر آگیا تو دنیا وآخرت کی سعادت اور خیر سے محروم ہو گیا ۔ بچہ کو سستی اور بیکاری سے راحت وآرام سے بچائے بلکہ اس کے خلاف( محنت ومجاہدہ) کی عادت ڈالے۔ کیونکہ کو سستی اور بیکاری برے نتائج اور شرمندگی کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں ،غرض علامہ ابن القیم ؒ کے اس کلام سے بہت سی باتوں پر روشنی پڑتی ہے اگر ہماری مائیں ان پر توجہ مر کوز کریں تو ان کی اولاد سلف کے نمونہ پر چلے گی اور مخلوق کو بھی ان سے نفع ہو گا۔ آخر میں اولا دسے متعلق یہ حدیث بھی سن لیں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فر مایا "ادبوا اولادکم علیٰ ثلث خصال حب نبیکم وحب آل بیتہ وتلاوۃ القرآن " ( طبرانی بحوالہ کنوز السنۃ ص ۱۳۸) ترجمہ۔ اپنی اولاد کو تین عادتوں پر تربیت کرو ایک تمہارے نبی اکرم ﷺ کی محبت ، دوسرے نبی کے گھر والوں کی محبت ، تیسرے تلاوت قرآن ۔ اس حدیث میں اول ایمان دوسرے اعمال کی تعلیم وتلقین اور اس پر تر بیت کی ہدایت فر مائی گئی ہے ۔ رسول اور آل رسول کی محبت ایمان کا تقاضا ہے اور جس کے دل میں یہ چیز پیدا ہو جائے وہ اتباع رسول اور اتباع آل رسول کے ذریعہ اپنے عمل کو بھی درست کر لیتا ہے لہٰذا سب سے پہلے رسول کی محبت بچوں میں پیدا کی جائے پھر تلات قرآن کی تعلیم ہو نا چاہئے اس لئے کہ قرآن ہمارا اصل ماخذ اور سرچشمہ ہدایت ہے ۔ آج بچوںکو خود ماں باپ فلم اسٹاروں ، کھلاڑیوں اور دنیا داروں کی محبت سکھاتے ہیں اور دنیا بھر کی چیزں پڑھاتے ہیں مگر قرآن اور اسلام کی تعلیم نہیں دیتے یا اگر دیتے بھی ہیں تو ثانوی در جہ دیتے ہیں جس سے بچوں کے اندر بگاڑ اور فساد کا آنا لازمی ہے ۔ غرض یہ کہ ماں باپ کے ذمہ ہے کہ بچوں کی تر بیت پر خاص زور صرف کریں اور ہر اچھی عادت اور تمام اچھوں اخلاق ان میں پید اکرنے کو کو شش کریں ۔

٭ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں سے سلوک :
عورت پر لاز م ہے کہ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے شوہر کی ماں کو اپنی ماں اور باپ کو اپنا باپ اور بھائی کو اپنا بھائی اور بہن کو اپنی بہن اور اس طرح دیگر رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ مقام دے کران کو اس درجہ ومقام کے لحاظ سے دیکھے اور اسی کے مناسب ان سے سلوک کرے ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں عورت پر واجب ہے کہ شوہر کے خاندان والوں اور ان کے رشتہ داروں کا اکرام کرے ( الکبائر ص ۱۷۵) آج کل امت میں جو خرابیاں اور جو امراض وبیماریاں پھیلی ہو ئی ہیں جن سے معاشرہ فاسد اور خراب ومتعفن ہو گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت شادی ہوتے ہی شوہر کو اس کے رشتہ داروں اور والدین سے جدا کر نے کی فکر کرتی ہے ۔ اور اس کی تحریک شروع ہوتی ہے شوہر کے والدین سے بد سلوکی شوہر کے بھائی بہنوں سے لڑائی جھگڑا اور اس کے رشتہ داروں سے نفرت وکراہت اور ان کی تو ہین وتذلیل سے آخر کار نو بت یہاں تک پہنچتی ہے کہ شوہر اور اس کے خاندان میںنفاق وشقاق پیدا ہو جاتا ہے اور جدائی وفراق کے حا لات بن جاتے ہیں اور اس سب کی ہیروئن یہی نئی نویلی دلھن ہو تی ہے اسلام تو اتحاد واتفاق کا پیار ومحبت کا سبق دیتا ہے اور یہاں اس کے خلاف نفاق وشقاق وفراق کی باتیں ہو تی ہیں ۔ اور عورت کو چاہئے کہ اس روش سے دور رہے اور شوہر کے تمام اہل خاندان سے محبت کے ساتھ اور حسن سلوک کے ساتھ رہے ۔
تنبیہ : میں یہ نہیں کہتا کہ ہر جگہ اور کلی طور پر اس صورۃ حال کی ذمہ دار یہ شادی ہو نے والی لڑکی ہو تی ہے نہیں بلکہ بہت ساری جگہوں پر شوہر کے والدین رشتہ دار اور خود شوہر کی طرف سے لڑکی پر ظلم وزبردستی اور بیجا مطالبات وغیرہ کی وجہ سے اس طرح کی صورت حال پید اہو جاتی ہے اگر ذیادتی شوہر کی طرف سے یا اس کے والدین اور رشتہ داروں کی طرف سے ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار شوہر ہوگا اس صورت میں عورت کو صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو سکے صبر کرنا چاہئے اور دعا بھی کرتے رہنا چاہئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سب حالات درست کردے گا ۔

No comments:

Post a Comment