Front - The Prophet Muhammed

Saturday, December 28, 2013

نماز کے دوران یا بعد میں دُعا و ذِکر

دُعا کی اہمیت
س… دُعا کی اہمیت پر روشنی ڈالئے۔
ج… دُعا کے معنی اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور اس کی بارگاہ میں اپنی احتیاج کا دامن پھیلانے کے ہیں۔ دُعا کی اہمیت اسی سے واضح ہے کہ ہم سراپا احتیاج ہیں اور ہر لمحہ دُنیا و آخرت کی ہر بھلائی کے محتاج ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”دُعا موٴمن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔“ (مسندِ ابویعلیٰ، مستدرک حاکم)
ایک اور حدیث میں ہے:
”دُعا عبادت کا مغز ہے۔“ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے:
”دُعا عین عبادت ہے۔“ (مسندِ احمد، نسائی، ابوداوٴد، ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
”دُعا رحمت کی کنجی ہے، وضو نماز کی کنجی ہے، نماز جنت کی کنجی ہے۔“(دیلمی بسند ضعیف)
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دُعا کتنی محبوب ہے، اور کیوں نہ ہو؟ وہ غنیٴ مطلق ہے اور بندوں کا عجز و فقر ہی اس کی بارگاہِ عالی میں سب سے بڑی سوغات ہے۔ ساری عبادتیں اسی فقر و احتیاج اور بندگی و بے چارگی کے اظہار کی مختلف شکلیں ہیں۔ دُعا میں آدمی بارگاہِ الٰہی میں اپنی بے بسی و بے کسی اور عجز و قصور کا اعتراف کرتا ہے، اسی لئے دُعا کو عین عبادت بلکہ عبادت کا مغز فرمایا گیا، عبادت سے جس شخص کے دِل میں بندگی کی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی وہ عبادت کی حلاوت و شیرینی اور لذّت آفرینی سے محروم ہے۔
س… سب سے افضل دُعا کون سی ہے؟
ج… حدیث میں ارشاد ہے کہ: تم اپنے رَبّ سے دُنیا و آخرت کی عفو و عافیت مانگو، کیونکہ دونوں چیزیں دُنیا میں بھی مل گئیں اور آخرت میں بھی تو تم کامیاب ہوگئے۔
(ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے، اور اللہ تعالیٰ سے جتنی چیزیں مانگی جاتی ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ پسند ہے کہ آدمی عافیت مانگے۔ (ترمذی)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے افضل دُعا یہ ہے:
”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ۔“
اسی طرح سورہٴ بقرہ کی آیت:۲۰۱ میں جو دُعا مذکور ہے وہ بھی بہت جامع ترین دُعا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی دُعا فرمایا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری و مسلم)
س… کن اوقات کی دُعائیں موٴثر ہوتی ہیں؟
ج… رحمتِ خداوندی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اور ہر شخص جب چاہے اس کریم آقا کی بارگاہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے اِلتجا کرسکتا ہے، اس لئے دُعا تو ہر وقت ہی موٴثر ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا ہو اور ڈھنگ سے مانگے۔ دُعا کی قبولیت میں سب سے زیادہ موٴثر چیز آدمی کی عاجزی اور لجاجت کی کیفیت ہے، کم از کم ایسی لجاجت سے تو مانگو جیسے ایک بھیک منگا سوال کیا کرتا ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ غافل دِل کی دُعا قبول نہیں فرماتے۔“ اور قرآن مجید میں ہے: ”کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دُعا، جبکہ اس کو پکارے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے۔ قبولیتِ دُعا کے لئے ایک اہم شرط لقمہ حلال ہے حدیث میں ارشاد ہے کہ: ”ایک شخص گرد و غبار سے اَٹا ہوا، پراگندہ بال، دُور دراز سے سفر کرکے (حج کے لئے) آتا ہے، اور وہ بڑی لجاجت سے ”یا رَبّ! یا رَبّ!“ پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اس کی دُعا کیسے قبول ہو؟“
(صحیح مسلم)
قبولیتِ دُعا کے لئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی جلدبازی سے کام نہ لے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی کسی حاجت کے لئے دُعائیں مانگتا ہے، مگر جب بظاہر وہ مراد بر نہیں آتی تو مایوس ہوکر نہ صرف دُعا کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ․․․نعوذ باللہ ․․․ خدا تعالیٰ سے بدظن ہوجاتا ہے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: ”بندے کی دُعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا: جلدبازی سے کیا مطلب؟ فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دُعائیں کیں مگر قبول ہی نہیں ہوتیں۔“
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آدمی کی ہر دُعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دُعا کو آخرت کا ذخیرہ بنادیتے ہیں، اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دُعا تو ضرور قبول ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الٰہی میں اس کے لئے موزوں نہیں، یا اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ:
”اللہ تعالیٰ موٴمن کو قیامت کے دن بلائیں گے، اور اسے اپنی بارگاہ میں باریابی کا اِذن دیں گے، پھر ارشاد ہوگا کہ: میں نے تجھے مانگنے کا حکم دیا تھا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیا تم مجھ سے دُعا کیا کرتے تھے؟ بندہ عرض کرے گا: یا اللہ! میں دُعا تو کیا کرتا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: تم نے جتنی دُعائیں کی تھیں میں نے سب قبول کیں۔ دیکھو! تم نے فلاں وقت فلاں مصیبت میں دُعا کی تھی، اور میں نے وہ مصیبت تم سے ٹال دی تھی، بندہ اقرار کرے گا کہ واقعی یہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوگا: وہ تو میں نے تم کو دُنیا ہی میں دے دی تھی، اور دیکھو! تم نے فلاں وقت، فلاں مصیبت میں مجھے پکارا تھا، لیکن بظاہر وہ مصیبت نہیں ٹلی تھی، بندہ عرض کرے گا کہ: جی ہاں! اے رَبّ! یہی ہوا تھا، ارشاد ہوگا: وہ میں نے تیرے لئے جنت میں ذخیرہ بنا رکھی ہے۔“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کو نقل کرکے فرمایا ہے:
”موٴمن بندہ اللہ تعالیٰ سے جتنی دُعائیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دُنیا ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دُعاوٴں کے بدلے میں جو کچھ موٴمن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش! دُنیا میں اس کی کوئی بھی دُعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔“ (مستدرک)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
”اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹادے۔“
(ترمذی، ابنِ ماجہ)
الغرض! دُعا کرتے وقت قبولیت کا کامل یقین اور وثوق ہونا چاہئے، اور اگر کسی وقت بظاہر دُعا قبول نہ ہو، تب بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ میری اس دُعا کے بدلے مجھے بہتر چیز عطا فرمائیں گے، موٴمن کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ:
یابم او را یا نہ یابم جستجوئے می کنم
حاصل آید یا نیاید آروزئے می کنم
حضراتِ عارفین نے اس بات کو خوب سمجھا ہے، وہ قبولیت کی بہ نسبت عدمِ قبولیت کے مقام کو بلند تر سمجھتے ہیں، اور وہ تفویض و تسلیم کا مقام ہے۔
حضرت پیرانِ پیر شاہِ جیلاں غوثِ اعظم قطب جیلانی قدس اللہ روحہ فرماتے ہیں کہ:
”جب آدمی پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ اسے اپنی ذات پر سہارنے کی کوشش کرتا ہے، اور کسی دُوسرے کو اس کی اطلاع دینا پسند نہیں کرتا، اور جب وہ قابو سے باہر ہوجاتی ہے، تو عزیز و اقارب اور دوست احباب سے مدد کا خواستگار ہوتا ہے، اور اسبابِ ظاہری کی طرف دوڑتا ہے، جب اس سے بھی کام نہیں نکلتا تو بارگاہِ خداوندی میں دُعا و اِلتجا کی طرف متوجہ ہوتا ہے، خود بھی گڑگڑاکر دُعائیں کرتا ہے اور دُوسروں سے بھی کراتا ہے، اور جب اس پر بھی وہ مصیبت نہیں ٹلتی تو بارگاہِ جلال میں سرِ تسلیم خم کردیتا ہے، اپنی بندگی و بے چارگی اور عبدیت پر نظر کرتے ہوئے رضائے مولیٰ پر راضی ہوجاتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ یہ تفویض و تسلیم کا مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے۔“ (تاریخِ دعوت و عزیمت، از مولانا ابوالحسن علی ندوی)
بعض اکابر نے قبولیتِ دُعا کے سلسلے میں عجیب بات لکھی ہے، عارفِ رُومی قدس اللہ روحہ فرماتے ہیں کہ: تمہاری دُعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟ اس لئے کہ تم پاک زبان سے دُعا نہیں کرتے۔ پھر خود ہی سوال کرتے ہیں: جانتے ہو پاک زبان سے دُعا کرنے کا مطلب کیا ہے؟ پاک زبان سے دُعا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم دُوسروں کی زبان سے دُعا کراوٴ، وہ اگرچہ گناہگار ہوں، مگر تمہارے حق میں ان کی زبان پاک ہے۔
یہ ناکارہ عرض کرتا ہے کہ: پاک زبان سے دُعا کرنے کی ایک اور صورت بھی ہے، وہ یہ کہ کسی دُوسرے موٴمن کے لئے دُعا کی جائے، آپ کو جو چیز اپنے لئے مطلوب ہے، اس کی دُعا کسی دُوسرے موٴمن کے لئے کیجئے تو انشاء اللہ آپ کو پہلے ملے گی۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ: جب موٴمن دُوسرے موٴمن کے لئے پسِ پشت دُعا کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: ”اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ، وَلَکَ“ یعنی اے اللہ! اس کی دُعا کو قبول فرما، اور پھر دُعا کرنے والے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ تجھے بھی یہ چیز عطا فرمائے۔“
گویا فرشتوں کی پاک زبان سے دُعا کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی موٴمن کے لئے دُعا کریں، چونکہ اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں اور پھر دُعا کرنے والے کے حق میں بھی دُعا کے قبول ہونے کی درخواست کرتے ہیں، شاید اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک موٴمن کی دُوسرے موٴمن کے حق میں غائبانہ دُعا قبول ہوتی ہے۔
بہرحال دُعا تو ہر شخص کی قبول ہوتی ہے، اور ہر وقت قبول ہوتی ہے (خواہ قبولیت کی نوعیت کچھ ہی ہو)، تاہم بعض اوقات ایسے ہیں جن میں دُعا کی قبولیت کی زیادہ اُمید کی جاسکتی ہے، ان میں سے چند اوقات ذکر کرتا ہوں:
۱:… سجدے کی حالت میں، حدیث میں ہے کہ: ”آدمی کو حق تعالیٰ شانہ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے خوب کثرت اور دِل جمعی سے دُعا کیا کرو۔“ (صحیح مسلم)
مگر حنفیہ کے نزدیک فرض نمازوں کے سجدے میں وہی تسبیحات پڑھنی چاہئیں جو حدیث میں آتی ہیں، یعنی ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کریم آقا کی تعریف و ثنا بھی دُعا اور درخواست ہی کی مد میں شمار ہوتی ہے، اور نفل نمازوں کے سجدے میں جتنی دیر چاہے دُعائیں کرتا رہے۔
۲:… فرض نماز کے بعد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ: کس وقت کی دُعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ فرمایا: ”رات کے آخری حصے کی اور فرض نمازوں کے بعد کی۔“ (ترمذی)
۳:… سحر کے وقت، حدیث میں ہے کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو زمین والوں کی طرف حق تعالیٰ کی نظرِ عنایت متوجہ ہوتی ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ: ”کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اس کی دُعا قبول کریں؟ ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اس کی بخشش کروں؟“ یہ سلسلہ صبحِ صادق تک جاری رہتا ہے۔ (صحیح مسلم)
۴:… موٴذّن کی اذان کے وقت۔
۵:… بارانِ رحمت کے نزول کے وقت۔
۶:… اذان اور اقامت کے درمیان۔
۷:… سفر کی حالت میں۔
۸:… بیماری کی حالت میں۔
۹:… زوال کے وقت۔
۱۰:… دن رات میں ایک غیرمعین گھڑی۔
یہ اوقات احادیث میں مروی ہیں۔
حدیث میں ارشاد ہے کہ: اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے متعلقین اور اپنے مال کے حق میں بددُعا نہ کیا کرو، دن رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں جو دُعا کی جائے، قبول ہوجاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددُعا بھی اسی گھڑی میں ہو اور وہ قبول ہوجائے (تو پھر پچھتاتے پھروگے)۔ (صحیح مسلم وغیرہ)
دُعا کا صحیح طریقہ
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دُعا مانگنی چاہئے یا اس طرح سے دُعا جلد قبول ہوتی ہے، نیز بزرگانِ دین کی منتیں بھی مانتے ہیں، جبکہ بعض اس میں اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسائل کا حل یعنی دُعا صرف خدا تعالیٰ سے مانگنی چاہئے۔ آپ یہ بتائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں کہ دُعا مانگنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
ج… دُعا مانگنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف پڑھے، پھر اپنے لئے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لئے مغفرت کی دُعا کرے، پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہتا ہے، مانگے۔ سب سے بڑا وسیلہ تو اللہ تعالیٰ کی رحیمی و کریمی کا واسطہ دینا ہے، اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے طفیل اللہ تعالیٰ سے مانگنا بھی جائز ہے، حدیثِ پاک میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فقراء مہاجرین کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے فتح کی دُعا کیا کرتے تھے۔ (مشکوٰة شریف ص:۴۴۷، بروایت شرح السنة)
اللہ رَبّ العزّت سے دُعا مانگنے کا بہترین طریقہ
س… دُعا مانگنے کی فضیلت بارہا بیان ہوچکی ہے، اور میں نے بہت سی کتابوں میں بھی دُعا مانگنے کی برکت، قبولیت اور ضرورت کا مطالعہ کیا ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ ”مانگو!“، میں ایک گناہگار عاجز بندی ہوں، میری معلومات اور مطالعہ محدود ہے، زندگی کے مسائل میں بھی گھری ہوئی ہوں، خدا کا شکر ہے کہ رزقِ حلال میسر ہے، نماز کے بعد جو دُعا بچپن میں کبھی یاد کی ہوگی وہ تو خودبخود زبان سے ہر نماز کے بعد ادا ہوجاتی ہے: ”ربنا اٰتنا فی الدنیا“، مگر اس کے بعد کوئی اور دُعا یا قرآن پڑھنا چاہوں کہ اپنے مسائل کے متعلق کوئی دُعا مانگوں تو مجھے الفاظ نہیں ملتے، میری زبان گنگ ہوجاتی ہے، بس یوں لگتا ہے کہ ہر موئے تن دُعا بن گیا ہے، دِل میں یہ خیال آتا ہے کہ وہ وحدہ لا شریک، عالم الغیب ہے، وہ ہر دِل کی بات جانتا ہے، اس کو کیا بتایا جائے، اب میں نہیں جانتی کہ میرا یہ فعل دُرست ہے کہ نہیں؟ اُمید ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں گے۔
ج… یہ تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں، اس کے باوجود ہمیں دُعا کا حکم فرمایا، ظاہر ہے کہ اس میں کوئی حکمت ہوگی اور وہ حکمت ہمارے فقر و احتیاج کا اظہار ہو، جو عبدیت کا اعلیٰ مقام ہے، اور اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنے میں ایک طرح کا استغناء ہے، جو شانِ بندگی کے منافی ہے، باقی دُعا دِل سے بھی ہوسکتی ہے اور زبان سے بھی، اور آپ کا یہ فقرہ کہ ”بس یوں لگتا ہے کہ ہر موئے تن دُعا بن گیا ہے“ دِل کی دُعا کی طرف اشارہ کرتا ہے، تاہم بہتر ہے کہ زبان سے بھی مانگا جائے، اور کچھ نہ سوجھے تو یونہی کہہ لے کہ: یا اللہ! میں سراپا فقیر ہوں، میں ایک ایک چیز میں محتاج ہوں، اپنی ضرورتوں اور حاجتوں سے خود بھی واقف نہیں، اور آپ میری ساری ضرورتوں کو جانتے ہیں، پس مجھے دُنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں عطا فرمائیے اور ساری مضرتوں سے حفاظت فرمائیے۔
دُعا کے الفاظ دِل ہی دِل میں ادا کرنا بھی صحیح ہے
س… جس طرح نماز میں قرأت دِل سے ادا کرنا صحیح نہیں، بلکہ قرأت کی آواز کا کانوں تک واضح طور پر پہنچنا ضروری ہے، کیا اسی طرح دُعا کے الفاظ بآواز ادا کرنا ضروری ہے؟ میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ دُعا کرتے کرتے ہونٹوں کی جنبش رُک جاتی ہے، اور دُعا کے الفاظ دِل ہی دِل میں ادا ہونے لگتے ہیں، کیا دُعا کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے؟
ج… صحیح ہے، دُعا دِل سے بھی ہوسکتی ہے۔
بددُعا کے اثرات سے تلافی کا طریقہ
س… ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام آتا ہے، اس میں مولوی صاحب سوالوں کے جواب دیتے ہیں، اس دفعہ انہوں نے ایک سوال کا جواب یوں دیا کہ سمجھ میں نہ آسکا، لہٰذا آپ کی خدمتِ اقدس میں سوال پیش کر رہا ہوں، یقین ہے کہ جواب ضرور دیں گے، بہت بہت مہربانی ہوگی۔
سوال یوں تھا کہ ایک آدمی نے کسی کے لئے بددُعا کی، تو وہ کچھ عرصے بعد مشکلات میں مبتلا ہوگیا، تو جس صاحب نے بددُعا کی اس نے سوچا کہ شاید یہ میری بددُعا کا اثر تھا، تو انہوں نے پوچھا کہ اگر وہ بددُعا کا اثر تھا تو کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ اس کے لئے تلافی کی جائے۔ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ تکلیفیں تو خدا کی طرف سے آتی ہیں اور پہلے دن سے لکھی جاچکی ہیں، کسی کی بددُعا نہیں لگتی، جبکہ حدیث میں آیا ہے کہ مظلوم اور یتیم کی بددُعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، لہٰذا آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ بددُعا قبول ہوتی ہے کہ نہیں؟
ج… مولانا صاحب کی یہ بات تو بالکل صحیح ہے کہ ہر تکلیف پہلے سے لکھی ہوئی ہے، مگر یہ صحیح نہیں کہ کسی کی بددُعا نہیں لگتی، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یمن بھیجا تھا تو ان کو رُخصت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ: ”مظلوم کی بددُعا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ اس کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔“ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں مظلوم اور کمزور کی بددُعا سے ڈرایا گیا ہے۔
دراصل جو شخص مظلوم ہو، مگر اپنی کمزوری کی وجہ سے بدلہ لینے کی طاقت نہ رکھتا ہو، اس کا مقدمہ ”سرکاری“ ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کا انتقام لینے کے لئے خود آگے بڑھتے ہیں، ہم نے سیکڑوں ظالموں کو انتقامِ الٰہی کا نشانہ بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اس لئے کمزوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے سے آدمی کو کانپنا چاہئے، اللہ تعالیٰ اپنے قہر و غضب سے محفوظ رکھیں۔ اور تلافی کی صورت یہ ہے کہ مظلوم سے معافی مانگ لے اور اس کو راضی کرلے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی سچی توبہ کرے کہ آئندہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
دُعا کے آداب
س… نماز کے بعد بغیر دُرود شریف کے بیماروں کے لئے دُعا کرنا کیسا ہے؟ دُعا قبول ہوگی یا نہیں؟
ج… دُعا کے آداب میں سے یہ ہے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف پڑھے، پھر اپنے لئے اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دُعائے مغفرت کرے، پھر جو حاجت ہو وہ مانگے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نماز پڑھ رہا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی حاضرِ خدمت تھے، میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود بھیجا، پھر میں نے اپنے لئے دُعا کی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگ تجھ کو دیا جائے گا!، مانگ تجھ کو دیا جائے گا!“ (ترمذی، مشکوٰة ص:۸۷)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ”دُعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے، اس میں سے کوئی چیز اُوپر نہیں چڑھتی، یہاں تک کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود پڑھو۔“ (ترمذی، مشکوٰة ص:۸۷)
دُعا میں کسی بزرگ کا واسطہ دینا
س… دُعا مانگتے وقت یہ کہنا کیسا ہے کہ: ”یا اللہ! فلاں نیک بندے کی خاطر میرا فلاں کام کردے“؟
ج… مقبولانِ الٰہی کے طفیل دُعا کرنا جائز ہے۔
فرض، واجب یا سنت کے سجدوں میں دُعا کرنا
س… فرض یا واجب، سنت، نفل نمازوں کے سجدوں میں دُعا کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر غیر عربی میں ہو تو حرج ہے کہ نہیں؟
ج… نماز کے سجدے میں قرآن و حدیث میں وارِد شدہ دُعا کرنا جائز ہے، غیر عربی میں دُرست نہیں، فرض نماز میں اگر سجدے کے طویل ہونے سے مقتدیوں کو تنگی لاحق ہو تو امام کو چاہئے کہ سجدے میں تسبیحات پر اکتفا کرے، اپنی الگ نماز میں جتنی چاہے سجدے میں دُعائیں کرے۔
فرض نماز کے بعد دُعا کی کیفیت کیا ہونی چاہئے؟
س… بعض امام صاحب ہر نماز کے بعد دُعا عربی میں مانگتے ہیں، کیا اُردو میں دُعا مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ دُعا مختصر ہونی چاہئے یا لمبی؟
ج… فرض نماز کے بعد دُعا مختصر ہونی چاہئے اور آہستہ کی جانی چاہئے، اپنے اپنے طور پر جس شخص کی جو حاجت ہو اس کے لئے دُعا کرے، عربی الفاظ ہمیشہ بلند آواز سے نہ کہے جائیں۔
فرض نمازوں کے بعد دُعا کا ثبوت
س… پانچوں نمازوں کے بعد امام کے ساتھ تمام نمازی بھی ہاتھ اُٹھاکر دُعا مانگتے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ اُٹھاکر ہر نماز کے بعد دُعا مانگنا بدعت ہے، اور یہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، اب ہم اس اُلجھن میں مبتلا ہیں کہ دُعا مانگیں یا نہ مانگیں؟ اُمید ہے آپ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔
ج… پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ”بدعت“ کسے کہتے ہیں؟ ”بدعت“ اس عمل کا نام ہے جس کی صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قولاً تعلیم دی ہو، نہ عملاً کرکے دِکھایا ہو، نہ وہ عمل سلف صالحین کے درمیان معمول و مروّج رہا ہو، لیکن جس عمل کی صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہو یا خود کبھی اس پر عمل کرکے دِکھایا ہو، وہ ”بدعت“ نہیں، بلکہ سنت ہے۔
اس کے بعد مندرجہ ذیل اُمور پیشِ نظر رکھئے:
۱:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد احادیث میں نمازِ فرض کے بعد دُعا کی ترغیب دی ہے اور اس کو قبولیتِ دُعا کے مواقع میں شمار فرمایا ہے۔
۲:… صحیح احادیث میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے اور دُعا کے بعد ان کو چہرے پر پھیرنے کو آدابِ دُعا میں ذکر فرمایا ہے۔
۳:… متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دُعا کرنا ثابت ہے، یہ تمام اُمور ایسے ہیں کہ کوئی صاحبِ علم جس کی احادیثِ طیبہ پر نظر ہو، ان سے ناواقف نہیں، اس لئے فقہائے اُمت نے فرض نمازوں کے بعد دُعا کو آداب و مستحبات میں شمار کیا ہے۔ امام نووی شرح مہذب (ج:۳ ص:۴۴۸)میں لکھتے ہیں:
”الدعاء للامام والمأموم والمنفرد مستحب عقب کل الصلوات بلا خلاف۔“
یعنی نمازوں کے بعد دُعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے، امام کے لئے بھی، مقتدی کے لئے بھی اور منفرد کے لئے بھی۔ علومِ حدیث میں امام نووی کا بلند مرتبہ جس کو معلوم ہے، وہ کبھی اس متفق علیہ مستحب کو بدعت کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اور فرض نماز جب باجماعت ادا کی گئی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دُعا صورةً اجتماعی ہوگی، لیکن امام اور مقتدی ایک دُوسرے کے پابند نہیں، بلکہ اپنی اپنی دُعا کر رہے ہیں، اس لئے امام کا پکار پکار کر دُعا کرنا اور مقتدیوں کا آمین، آمین کہنا صحیح نہیں، ہر شخص کو اپنی اپنی دُعا کرنی چاہئے، اور سنن و نوافل کے بعد امام کا مقتدیوں کے انتظار میں بیٹھے رہنا اور پھر سب کا مل کر دُعا کرنا یہ بھی صحیح نہیں۔
س… فرضوں کے بعد اجتماعی طور سے دُعا کرنے کا حدیث سے ثبوت کیا ہے؟
ج… فرض نماز کے بعد دُعا کی متعدّد احادیث میں ترغیب و تعلیم دی گئی ہے، اور ہاتھ اُٹھانے کو دُعا کے آداب میں سے شمار فرمایا گیا ہے، تفصیل کے لئے امام جزری کی ”حصن حصین“ کا مطالعہ کرلیا جائے۔ امام بخاری نے ”کتاب الدعوات“ میں ایک باب ”الدعاء بعد الصلٰوة“ کا رکھا ہے (ج:۲ ص:۹۳۷)، اور ایک باب ”رفع الأیدی فی الدعاء“ کا قائم کیا ہے (ج:۲ ص:۹۳۸)، اور دونوں کو احادیثِ طیبہ سے ثابت فرمایا ہے۔ اس لئے فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دُعا کا معمول خلافِ سنت نہیں، خلافِ سنت وہ عمل کہلاتا ہے جو شارع علیہ السلام نے خود نہ کیا ہو، اور نہ اس کی ترغیب دی ہو۔
مقتدی امام سے پہلے دُعا مانگ کر جاسکتا ہے
س… فجر کی نماز میں امام وظیفہ پڑھ کر دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں، میں چونکہ ملازم ہوں ساڑھے آٹھ بجے ڈیوٹی پر حاضری دینا ہوتی ہے، دُودھ لانا، ناشتہ تیار کرنا، پھر کھانا، کپڑے بدل کر تیار ہوکر بس کا انتظار کرنا، ایسی صورت میں کیا میں ان کے ساتھ دُعا میں شریک ہوں یا اپنی مختصر دُعا مانگ کر مسجد سے آجاوٴں؟
ج… امام کے ساتھ دُعا مانگنا کوئی ضروری نہیں، آپ نماز سے فارغ ہوکر اپنی دُعا کرکے آسکتے ہیں۔
کیا حضورِ اکرم ﷺ نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرتے تھے؟
س… کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنے کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کیا کرتے تھے؟ اگر کیا کرتے تھے تو کوئی حدیث بحوالہ بیان کریں۔
ج… نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنے کی صراحت تو منقول نہیں، البتہ فرض نماز کے بعد دُعا کرنے کی ترغیب آئی ہے، اور ہاتھ اُٹھاکر مانگنا دُعا کے آداب میں سے فرمایا ہے۔ اس لئے فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا ارشاداتِ نبوی کے عین مطابق ہے، مگر بلند آواز سے دُعا نہ کی جائے جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہو۔
نماز کے بعد عربی اور اُردو میں دُعائیں
س… نماز سے فارغ ہوکر میں دُرود شریف ابراہیمی، سورہٴ فاتحہ اور ایک دُعا ”ربنا اٰتنا فی الدنیا“ پڑھ کر باقی دُعا اُردو میں مانگتا ہوں، کیونکہ مزید دُعائیں (عربی) میں یاد نہیں ہیں، کیا میرا یہ عمل مسنون ہے؟
ج… کوئی حرج نہیں۔
سنتوں کے بعد اجتماعی دُعا کرنا بدعت ہے
س… ظہر اور عشاء کی سنتوں کے بعد دو دفعہ دُعا کرتا ہوں، اور یہ دُعا اجتماعیت کے ساتھ کر رہا ہوں، خواص کے لئے اور عوام کے لئے دُعا بحیثیت اجتماعی بدعتِ سیئہ ہے یا بدعتِ حسنہ؟ شرعی جواب ارشاد فرمائیں۔
ج… سنتوں کے بعد اجتماعی دُعا کے لئے امام اور مقتدیوں کا بیٹھے رہنا، اور پھر مل کر دُعا کرنا صحیح نہیں، اس کا اہتمام و التزام بدعت ہے، بدعت کا لفظ مطلق بولا جائے تو بدعتِ سیئہ ہی مراد ہوتی ہے۔
نماز کے بعد دُعا اُونچی آواز سے مانگنا
س… زید کہتا ہے کہ فرض نماز کے بعد امام کا اُونچی آواز میں دُعا مانگنا مکروہ ہے، فقہِ حنفیہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
ج… امام ابوحنیفہ کے نزدیک دُعا آہستہ مانگنی چاہئے، اُونچی آواز سے دُعا کی عادت کرلینا دُرست نہیں، کبھی مقتدیوں کی تعلیم کے لئے بلند آواز سے کوئی جملہ کہہ دے تو مضائقہ نہیں۔
دُعا کے وقت آسمان کی طرف نظر اُٹھانا
س… حضرت جابر بن سمرہ اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لوگو! نماز میں نظریں آسمان کی طرف نہ اُٹھاوٴ، خدشہ ہے کہ یہ نظریں اُچک لی جائیں اور واپس نہ آئیں۔“ مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ حدیثِ پاک دُعا کے وقت آسمان پر جو انسان نظریں اُٹھاتا اور ہاتھ پھیلاکر اپنے رَبّ سے مانگتا ہے، اس پر بھی صادق آتی ہے؟ یعنی دُعا کے وقت بھی کیا نظریں اُوپر نہ اُٹھائی جائیں؟ (یہ حدیث شریف صحیح مسلم سے ہے)۔
ج… امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ بعض حضرات نے خارجِ نماز میں بھی دُعا میں آسمان کی طرف نظریں اُٹھانے کو مکروہ کہا ہے، مگر اکثر علماء قائل ہیں کہ مکروہ نہیں، کیونکہ آسمان دُعا کا قبلہ ہے۔
دُعا مانگتے وقت ہاتھ کہاں تک اُٹھائے جائیں؟
س… کچھ عرصہ پہلے بچوں کے کالم میں طریقہٴ نماز سکھاتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ دُعا مانگتے وقت خیال رکھنا چاہئے کہ ہاتھ کندھوں سے اُوپر نہ جائیں، کیا یہ صحیح ہے؟
ج… جی ہاں! عام حالات میں یہی صحیح طریقہ ہے، البتہ نمازِ استسقاء میں اس سے زیادہ اُٹھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، دُعا میں عاجزی اور مسکنت کی کیفیت ہونی چاہئے۔
سجدے میں دُعا مانگنا جائز ہے
س… میں نے سنا ہے کہ سجدے میں گرکر دُعا نہیں مانگنی جاتی کیونکہ نیت کے بغیر سجدہ نہیں ہوتا۔
ج… سجدے میں دُعا مانگنے میں یہ تفصیل ہے کہ سجدہ یا تو نماز کا ہوگا یا بغیر نماز کے، اگر نماز کا سجدہ ہو تو سجدے کے اندر دُعائیں کرنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دُعا عربی زبان میں کرے، بلکہ قرآن و حدیث میں جو دُعائیں آتی ہیں، ان کو اختیار کرے، (فرض نماز میں امام کو سجدے میں دُعائیں نہیں کرنی چاہئیں تاکہ مقتدیوں پر بار نہ ہو)، اور اگر سجدہ نماز کے علاوہ ہو تو لوگوں کے سامنے اور فرض نمازوں کے بعد سجدے میں گرکر دُعائیں نہ کرے، ہاں! تنہائی میں سجدے میں گر کر دُعائیں کرنے کا مضائقہ نہیں۔
دُعا کے بعد سینے پر پھونک مارنا
س… جب لوگ دُعا مانگ لیتے ہیں تو بعض لوگ اپنے سینے میں پھونک مارتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
ج… کوئی وظیفہ پڑھ کر پھونکتے ہوں گے، اوریہ جائز ہے۔
امام کا نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کرکے دُعا مانگنا
س… فجر اور عصر کی نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کرکے اور قبلہ کی طرف تقریباً پشت کرکے کیوں دُعا مانگتا ہے؟
ج… کیونکہ نماز سے تو فارغ ہوچکے، اب مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھنا چاہئے، باقی نمازوں میں چونکہ مختصر دُعا کے بعد سنتوں کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں، اس لئے اس مختصر وقفے میں مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، اور فجر اور عصر کے بعد تسبیحات پڑھ کر دُعا کی جاتی ہے، اس لئے طویل وقفہ ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھتے ہیں، نماز کے بعد امام کو رُخ بدل لینا چاہئے خواہ دائیں جانب کر لے یا بائیں جانب، یا مقتدیوں کی طرف، بہرحال مقتدیوں کی طرف پش کرکے نہ بیٹھے۔
نماز کے وقت بلند آواز سے ذکر کرنا ناجائز ہے
س… ہماری مسجد میں نمازِ عشاء کے فوراً بعد ذکر و اذکار کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے، ذکر اتنی بلند آواز سے کیا جاتا ہے کہ آواز احاطہٴ مسجد سے باہر تک سنائی دیتی ہے، (بتیاں گل کردی جاتی ہیں)، جبکہ نمازی عشاء دیر تک پڑھتے رہتے ہیں، شور سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے، مفصل تحریر کریں آیا یہ کہاں تک دُرست ہے؟
ج… ایسے وقت بلند آواز سے ذکر کرنا جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں، دُرست نہیں، حضراتِ فقہاء نے اس کو ناجائز لکھا ہے۔
مسجد میں اجتماعی ذکر بالجہر کہاں تک جائز ہے؟
س… ہماری مسجد بلکہ اس علاقے کی تمام مساجد میں صبح کی نماز کے بعد، بلکہ بعض جگہ لاوٴڈ اسپیکر بھی لگاکر سلام پھیرنے کے فوراً بعد کلمہ طیبہ کا ذکر ہوتا ہے، اور بعد میں دُرود شریف ان الفاظ کے ساتھ: ”صل علٰی نبینا صل علی محمد“۔ البتہ ہماری مسجد میں مسبوق اپنی رکعت ایک یا دو پڑھ لیتے ہیں، اس کے بعد اُونچا ذکر چیخ چلاکر درمیانہ جہر بھی نہیں، بلکہ زور لگاکر ایک سُر کے ساتھ تمام نمازی ذکر کرتے ہیں، اور پھر وہ ذکر مسنون یعنی آیت الکرسی اور تسبیح ۳۳ بار، تحمید ۳۳ بار، اور تکبیر ۳۴ بار بھی پڑھتے ہیں۔ اور ایک دفعہ اجتماعی دُعا مانگی جاتی ہے، ایسا ذکر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ دُوسری مسجد میں سلام کے بعد تین دفعہ استغفراللہ آہستہ پڑھتے ہیں اور آیت الکرسی اور ”اللّٰھم اجرنی من النار“ ۷ دفعہ، اور تسبیحاتِ مسنونہ، بعدہ ایک بار دُعا ہوتی ہے۔ آپ ارشاد فرمائیں کہ آہستہ طریقہ مسنون ہے حضرت کا فرمایا ہوا یا کہ اُونچا ذکر کرنا یعنی بہت اُونچا ذکر کرنے والے ثواب پر ہیں؟ اس وقت کوئی سویا ہوا نہیں ہوتا، اگر سویا ہوا ہو تو اس کو نماز کے لئے اُٹھایا جاتا ہے تاکہ صبح کی نماز قضا نہ ہوجائے، اور مسجد کے قریب کوئی بیمار بھی نہیں ہوتا، اور نہ کوئی نمازی ہوتا ہے۔ محلے کے لوگ اکثر آجاتے ہیں، ہاں عورتیں گھروں پر پڑھتی ہوں تو ہوں گی۔ ایسے وقت ایسی صورت میں کون سا ذکر مسنون ہے، اور کون سا ذکر بدعت اور منع ہے؟ تاکہ ہم لوگ ذکرِ مسنون کریں اور ذکرِ بدعت بند کردیں۔ اُونچا ذکر کرنے والے بڑے بڑے اشتہار پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام، حضرت علی اور صحابہ کرام اُونچا ذکر کرتے تھے، ہم بھی اہلِ سنت والجماعت ہیں، بلکہ یہ علامت ہے، جو کوئی کلمہ بعد نماز اُونچا پڑھے وہ سنی حنفی ہے، اور جو اُونچا ذکر نہ کرے وہ ذکر کے مانعین سے ہے، عذاب کے مستحق ہیں، وہابی ہیں، وغیرہ وغیرہ، جھگڑا کرتے ہیں۔
ج… ۱: نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا جس سے مسبوق نمازیوں کی نماز میں خلل پڑے، جائز نہیں، اور اس مقصد کے لئے لاوٴڈ اسپیکر کا استعمال اور بھی بُرا ہے۔ حدیث میں علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت یہ ارشاد فرمائی ہے: ”وارتفعت الأصوات فی المساجد“ یعنی مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں آوازیں بلند کرنا اُمت کے بگاڑ کی علامت ہے۔
۲:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، سلف صالحین سے جو طریقہ منقول ہے وہ یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر زیرِ لب تسبیحات اور اذکارِ مسنونہ پڑھے جائیں، اور آہستہ ہی دُعا کی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی تعلیم کے لئے کوئی کلمہ بلند آواز سے بھی فرمادیتے تھے، بلند آواز سے کبھی دُعا ہوجائے جبکہ اس سے کسی کی نماز میں خلل نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جہری دُعا کو معمول بنالینا اور سنت کی طرح اس کی پابندی کرنا صحیح نہیں۔
۳:… ذکر اور دُعا کا تعلق بندے اور معبودِ برحق جل شانہ کے درمیان ہے، بلند آواز سے، خصوصاً لاوٴڈ اسپیکر پر ذکر اور دُعا کی اذان دینا اس کی رُوح کے منافی ہے، اور اس میں ریا اور مخلوق کی طرف التفات کا خطرہ زیادہ سے زیادہ ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس سے احتراز کرنا چاہئے، اور اگر کوئی اس کے خلاف کرتا ہے تو اس سے اُلجھنے کی ضرورت نہیں۔
دورانِ نماز اُنگلیوں پر تسبیحات شمار کرنا
س… میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ نماز میں الحمدللہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر وغیرہ ہاتھ پر یا تسبیح پر نہیں پڑھنی چاہئے، اس سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے، اگر یہ بات سچ ہے تو ہم کیسے ان الفاظ کو پڑھ سکتے ہیں؟
ج… نماز میں اُنگلیوں پر یا تسبیح پر گننا واقعی مکروہ ہے، صلوٰة التسبیح میں ان کلمات کے گننے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس کی تدبیر یہ ہے کہ ایک ایک اُنگلی کو ذرا سا دباتے رہیں۔
آیتیں، سورتیں اور تسبیحات اُنگلیوں پر شمار کرنا
س… آیتیں، سورتیں یا تسبیحات اُنگلیوں پر شمار کرنا مکروہاتِ نماز میں شامل ہے، کیا یہ دُرست ہے؟ نماز کے بعد جو ہم تسبیح اُنگلیوں پر شمار کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
ج… آیات یا تسبیحات کا اُنگلیوں پر گننا نماز کے اندر مکروہ ہے، نماز سے باہر مکروہ نہیں، بلکہ مأموربہ ہے۔
تسبیحاتِ فاطمی کی فضیلت
س… میں نے ایک حدیث میں پڑھا ہے کہ ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴مرتبہ اللہ اکبر، مطلب یہ ہے کہ سو دانوں کی یہ تسبیح جو شخص روزانہ صبح فجر کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد یا ہر نماز کے بعد پڑھے گا تو قیامت کے دن اس کا مرتبہ بہت ہی بلند ہوگا؟
ج… آپ نے صحیح لکھا ہے، یہ کلمات و تسبیحاتِ فاطمی کہلاتے ہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھائے تھے۔ حدیث میں ان کے بہت سے فضائل آئے ہیں، جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی مدنی قدس سرہ کے رسالے ”فضائلِ ذکر“ میں جمع کردئیے گئے ہیں، یہ پاکیزہ کلمات ہر نماز کے بعد اور رات کو سوتے وقت بڑے اہتمام سے پڑھنے چاہئیں۔
نماز کے بعد کی تسبیحات اُنگلیوں پر گننا افضل ہے
س… میں نے کہیں یہ مسئلہ پڑھا تھا کہ نماز کے بعد پڑھی جانے والی تسبیح (۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر) ہاتھ کی اُنگلیوں پر گن کر پڑھنا مکروہ ہے۔ گزارش ہے کہ آپ اس سلسلے میں یہ فرمائیں کہ آیا یہ مسئلہ دُرست ہے یا نہیں؟
ج… دُرست نہیں! اُنگلیوں پر تسبیحات کا گننا نہ صرف جائز ہے، بلکہ حدیث شریف میں تسبیحات کو اُنگلیوں پر گننے کا حکم آیا ہے:
”عن یسیرة رضی الله عنھا، وکانت من المھاجرات قالت: قال لنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم: علیکن بالتسبیح والتھلیل والتقدیس واعقدن بالأنامل فانھن مسوٴلات مستنطقات ولا تغفلن فتنسین الرحمة۔“ (رواہ الترمذی وابوداوٴد، مشکوٰة ص:۲۰۲)
ترجمہ:…”حضرت یسیرة رضی اللہ عنہا جو ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا کہ: تسبیح و تہلیل اور تقدیس کو اپنے اُوپر لازم کرلو اور ان کو اُنگلیوں پر گنا کرو، کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان کو بلوایا جائے گا، اور ذکر سے غفلت نہ کیا کرو، ورنہ رحمت سے بھلادی جاوٴگی۔“
چلتے پھرتے تسبیح کرنا
س… میں نے کراچی میں مردوں اور عورتوں کو راستہ چلتے پھرتے تسبیح کرتے دیکھا ہے، اکثر یوں بھی دیکھا ہے کہ سڑک پار کر رہے ہیں مگر تسبیح کے دانے چلتے رہتے ہیں، پچھلے دنوں میں نے بس اسٹاپ پر ایک عورت کو دیکھا آدھے سے زیادہ سر کھلا ہوا تھا، کھڑی تسبیح کر رہی تھی، میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کیا تسبیح کرنے کا یہ طریقہ دُرست ہے؟
ج… تسبیح پڑھنا چلتے پھرتے بھی جائز ہے، بلکہ بہت اچھی بات ہے کہ ہر وقت آدمی ذکرِ الٰہی میں مصروف رہے، اگر کوئی تسبیح کے دوران غلط کام کرتا ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
تسبیح بدعت نہیں، بلکہ ذکرِ الٰہی کا ذریعہ ہے
س… آپ نے ایک سوال کے جواب میں چلتے پھرتے تسبیح پڑھنے کو جائز، بلکہ بہت اچھی بات لکھا ہے، یہاں پر میرا مقصود آپ کے علم میں کسی قسم کا شک و شبہ کرنا نہیں۔ بلاشبہ آپ کا علم وسیع ہے، مگر جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ یہ کہ تسبیح کے دانے پڑھنا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں داخل نہ تھا، اور نہ ہی اسے ذکر اللہ کہا جاسکتا ہے، ذکر اللہ کے عملی معنی اس سے بالکل مختلف ہیں، یہ ایک شرعی بدعت ہے جو آج کل ہماری زندگی میں فیشن کی شکل میں داخل ہوگئی ہے، اُمید ہے آپ اس مسئلے پر مزید کچھ روشنی ڈالیں گے۔
ج… تسبیح بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ ذکر کے شمار کرنے کا ذریعہ ہے، بہت سی احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ فلاں ذکر اور فلاں کلمہ کو سو مرتبہ پڑھا جائے تو یہ اجر ملے گا، حدیث کے طلبہ سے یہ احادیث مخفی نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس تعداد کو گننے کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور اختیار کیا جائے گا، خواہ اُنگلیوں سے گنا جائے یا کنکریوں سے، یا دانوں سے۔ اور جو ذریعہ بھی اختیار کیا جائے وہ بہرحال اس شرعی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔ اور جو چیز کسی مطلوبِ شرعی کا ذریعہ ہو وہ بدعت نہیں کہلاتا، بلکہ فرض کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا فرض، اور واجب کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا واجب ہے، اسی طرح مستحب کے لئے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا مستحب ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ حج پر جانے کے لئے بحری، بری اور فضائی تینوں راستے اختیار کئے جاسکتے ہیں، لیکن اگر کسی زمانے میں ان میں سے دو راستے مسدود ہوجائیں، صرف ایک ہی کھلا ہو تو اسی کا اختیار کرنا فرض ہوگا، اور اگر تینوں راستے کھلے ہوں تو ان میں کسی ایک کو لا علی التعیین اختیار کرنا فرض ہوگا۔ اسی طرح جب تسبیحات و اذکار کا گننا عندالشرع مطلوب ہے اور اس کے حصول کا ایک ذریعہ تسبیح بھی ہے، تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے، بلکہ دُوسرے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کہلائے گا، اور چونکہ تمام ذرائع میں زیادہ آسان ہے، اس لئے اس کو ترجیح ہوگی۔
۲:… متعدّد احادیث سے ثابت ہے کہ کنکریوں اور دانوں پر گننا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا اور نکیر نہیں فرمائی، چنانچہ:
الف:… سنن ابی داوٴد (ج:۱ ص:۳۱۰ باب التسبیح بالحصیٰ) اور مستدرک حاکم (ج:۱ ص:۴۸۵) میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ:
”انہ دخل مع النبی صلی الله علیہ وسلم علی امرأة وبین یدیھا نوی أو حصٰی تسبح بہ فقال: اخبرک بما ھو ایسر علیک من ھٰذا وافضل ․․․․ الحدیث۔“
(سکت علیہ الحاکم وقال الذھبی صحیح)
ترجمہ:…”وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاتون کے پاس گئے، جس کے آگے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن پر وہ تسبیح پڑھ رہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے ایسے چیز بتاوٴں جو اس سے زیادہ آسان اور افضل ہے؟ ․․․․․ الخ۔“
ب:… ترمذی اور مستدرک حاکم (ج:۱ ص:۵۴۷) پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
”قالت: دخل علی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وبین یدی اربعة اٰلاف نواة اسبح بھن، فقال: یا بنت حی! ما ھٰذا؟ قلت: اسبح بھن! قال: قد سبحت منذ قمت علٰی رأسک اکثر من ھذا، قلت: علمنی یا رسول الله! قال: قولی: سبحان الله عدد ما خلق من شیٴ۔“ (قال الحاکم ھٰذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، وقال الذھبی صحیح)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میرے آگے چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن پر میں تسبیح پڑھ رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: میں ان پر تسبیح پڑھ رہی ہوں! فرمایا: میں جب سے تیرے پاس کھڑا ہوا ہوں، میں نے اس سے زیادہ تسبیح پڑھ لی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بھی سکھائیے۔ فرمایا: یوں کہا کر: سبحان الله عدد ما خلق من شیٴ۔“
حدیثِ اوّل کے ذیل میں صاحبِ ”عون المعبود“ لکھتے ہیں:
”ھٰذا اصل صحیح لتجویز السبحة بتقریرہ صلی الله علیہ وسلم فانہ فی معناھا اذ لا فرق بین المنظومة والمنشورة فیما یعد بہ ولا یعتد بقول من عدھا بدعة۔“ (عون المعبود ج:۱ص:۵۵۵)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گٹھلیوں پر نکیر نہ فرمانا، تسبیح کے جائز ہونے کی صحیح اصل ہے۔ کیونکہ تسبیح بھی گٹھلیوں کے ہم معنی ہے، کیونکہ شمار کرنے کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گٹھلیاں پروئی ہوئی ہوں یا بغیر پروئی ہوئی ہوں، اور جو لوگ اس کو بدعت شمار کرتے ہیں، ان کا قول لائقِ اعتبار نہیں۔“
۳:… تسبیح، ایک اور لحاظ سے بھی ذکرِ الٰہی کا ذریعہ ہے، وہ یہ کہ تسبیح ہاتھ میں ہو تو زبان پر خودبخود ذکر جاری ہوجاتا ہے، اور تسبیح نہ ہو تو آدمی کو ذکر یاد نہیں رہتا، اسی بنا پر تسبیح کو ”مذکرہ“ کہا جاتا ہے، یعنی یاد دِلانے والی، اور اسی بنا پر صوفیہ اس کو ”شیطان کے لئے کوڑا“ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ شیطان دفع ہوجاتا ہے، اور آدمی کو ذکر سے غافل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، پس جب ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا مطلوب ہے اور تسبیح کا ہاتھ میں ہونا اس مشغولی کا ذریعہ ہے، تو اس کو بدعت کہنا غلط ہوگا، بلکہ ذریعہٴ ذکرِ الٰہی ہونے کی وجہ سے اس کو مستحب کہا جائے تو بعید نہ ہوگا۔
دُرود شریف کا ثواب زیادہ ہے یا اِستغفار کا؟
س… دُرود شریف کا ثواب زیادہ ہے یا اِستغفار کا؟
ج… دونوں کا ثواب اپنی اپنی جگہ ہے، اِستغفار کی مثال برتن مانجھنے کی ہے، اور دُرود شریف کی مثال برتن قلعی کرنے کی۔
مختصر دُرود شریف
س… ہم اکثر سنتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دُردو شریف بھیجو، تو مولانا صاحب! آپ دُرود بھیجنے کا کوئی آسان طریقہ بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ دُرود شریف میں کون سا دُرود افضل ہے؟
ج… سب سے افضل دُرود شریف تو وہ ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے، اور مختصر دُرود شریف یہ بھی ہے: ”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہوَاَصْحَابِہ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ“، اس دُرود شریف کی تین تسبیح صبح کو، تین تسبیح شام کو پڑھی جائیں، اتنی فرصت نہ ہو تو صبح و شام ایک ایک تسبیح ہی پڑھ لی جائے، اس کے علاوہ جب بھی فرصت و فراغت ملے دُرود شریف کو وردِ زبان بنانا چاہئے۔
نماز والے دُرود شریف میں ”سیّدنا ومولانا“ کا اضافہ کرنا
س… نماز میں التحیات اور تشہد کے بعد والے دُرود میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ناموں سے پہلے ”سیّدنا ومولانا“ پڑھنا کیسا ہے؟
ج… ہمارے ائمہ سے تو یہ مسئلہ منقول نہیں، درمختار میں اس کو شافعیہ کے حوالے سے مستحب لکھا ہے، اور اس سے موافقت کی ہے۔
روضہٴ اقدس پر دُرود شریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں
س… حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود و سلام بھیجنا جائز ہے؟ اور جب ہم پڑھتے ہیں تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود و سلام پڑھنے کا تو حکم ہے، اور اس کے بے شمار فضائل آئے ہیں، مگر اس کے الفاظ اور اس کا وہی طریقہ صحیح ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا ہے، آج کل جو لوگ گاگاکر دُرود و سلام پڑھتے ہیں، یہ طریقہ نہ صرف خلافِ سنت ہے، بلکہ محض ریاکاری ہے۔ دُرود شریف اگر روضہٴ اقدس پر پڑھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں، ورنہ فرشتے پہنچاتے ہیں۔
ایک مجلس میں اسمِ مبارک پر پہلی بار دُرود شریف واجب اور ہر بار مستحب ہے
س… لانڈھی کالونی ایریا-۳ بی میں رحمانیہ مسجد واقع ہے، وہاں پر مجھے نمازِ جمعہ ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، امامِ محترم نماز سے پون گھنٹہ پہلے تقریر فرماتے ہیں، دورانِ تقریر ”رسول اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم“ کا لفظ بار بار زبان پر آتا ہے، مگر اس طرح کہ: ”رسول اللہ نے فرمایا، حضور نے فرمایا“ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہتے، مجھے ذاتی طور پر بہت تکلیف ہوتی ہے، کیا اس طرح نامِ مبارک (صلی اللہ علیہ وسلم) لینا بے ادبی نہیں؟
ج… ایک مجلس میں پہلی بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی آئے تو دُرود شریف (صلی اللہ علیہ وسلم) پڑھنا واجب ہے، اور ہر بار اسمِ مبارک کے ساتھ دُرود پڑھنا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ جی نہیں چاہتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک نام لیا جائے اور دُرود شریف نہ پڑھا جائے، خواہ ایک مجلس میں سو بار نامِ مبارک آئے، ہر بار ”صلی اللہ علیہ وسلم“ کہنا مستحب ہے۔
دُعا کی قبولیت کے لئے اوّل و آخر دُرود شریف کا ہونا زیادہ اُمید بخش ہے
س… کیا دُعا کے اوّل اور آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف پڑھے بغیر دُعا قبول نہیں ہوتی؟
ج… دُعا کے اوّل و آخر دُرود شریف کا ہونا دُعا کی قبولیت کے لئے زیادہ اُمید بخش ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: دُعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کے اوّل و آخر میں دُرود شریف نہ ہو۔
بغیر وضو دُرود شریف پڑھنا جائز ہے
س… بغیر وضو دُرود شریف پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ میں اوّل و آخر دُرود شریف پڑھ کر خدا سے دُعا مانگتا ہوں، کیا اس طرح دُعا مانگنا صحیح ہے یا نہیں؟
ج… بغیر وضو کے دُرود شریف پڑھنا جائز ہے، اور دُعا کے اوّل و آخر دُرود شریف پڑھنا دُعا کے آداب میں سے ہے، حدیث میں اس کا حکم آیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ”دُعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود شریف نہ پڑھا جائے۔“
دُرود شریف کی کثرت موجبِ سعادت و برکت ہے
س… میں ہر نماز کے بعد دُرود شریف کی ایک تسبیح پڑھتا ہوں، کیا دُرود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں؟
ج… اپنی صحت، قوّت اور فرصت کا لحاظ رکھتے ہوئے جتنا زیادہ دُرود شریف پڑھیں موجبِ سعادت و برکت ہے۔
خالی اوقات میں دُرود شریف کی کثرت کرنی چاہئے
س… خالی اوقات میں مساجد یا گھر پر دُرود شریف یا اِستغفار پڑھیں تو دونوں میں افضل دُرود کون سا ہوگا؟
ج… دونوں اپنی جگہ افضل ہیں، آپ دُرود شریف کی کثرت کریں۔
دُرود شریف بھی اُٹھتے بیٹھتے پڑھنا جائز ہے
س… دُرود شریف کھڑے ہوکر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ اُٹھتے بیٹھتے اللہ کی حمد و ثنا کرنی چاہئے۔
ج… دُرود شریف بھی اُٹھتے بیٹھتے پڑھنا جائز ہے۔
بے نمازی کی دُعا قبول نہ ہونا
س… کیا نماز نہ پڑھنے والوں کی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ اور ایسے لوگ جو دُعائیں کرتے ہیں ان دُعاوٴں کا اللہ کے نزدیک کوئی مرتبہ ہے؟ ایسی دُعائیں کوئی مطلب رکھتی ہیں؟
ج… دُعا تو کافر کی بھی قبول ہوسکتی ہے، باقی جو شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے صحیح نہیں، اس کی دُعا قبول بھی ہوجائے تو یہ ایسا ہی ہوگا کہ جیسے کتے کو روٹی ڈال دی جاتی ہے۔
ستر ہزار بار کلمہ شریف پڑھ کر بخشنے سے مردے سے عذاب ٹل جاتا ہے
س… میں نے کچھ عرصہ قبل کسی جگہ پڑھا تھا کہ ایک شخص فوت ہوگیا، دُوسرے کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہے، کسی نے اس کو بتایا تھا کہ کلمہ شریف سوا لاکھ دفعہ (تعداد مجھے ٹھیک سے یاد نہیں) پڑھ کر اس کو اس کا ثواب پہنچائے تو اللہ پاک اس کا عذاب دُور کردیں گے، لہٰذا انہوں نے یہ پڑھا اور پھر دوبارہ خواب میں دیکھا کہ اس شخص کا عذاب دُور ہوچکا ہے، اس سلسلے میں کچھ بزرگوں کے نام تھے جو مجھے یاد نہیں، کیا ایسی کوئی چیز ہے؟
ج… اس قسم کا واقعہ ہمارے شیخ حضرتِ اقدس مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی قدس سرہ نے شیخ ابویزید قرطبی سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ”میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ ”لا الٰہ الا اللہ“ پڑھے، اس کو دوزخ سے نجات ملے، میں نے یہ خبر سن کر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہٴ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا، جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ یہ صاحبِ کشف ہے، جنت و دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے، مجھے اس کی صحت میں کچھ تردّد تھا، ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا، کہ دفعةً اس نے چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ: میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے، اس کی حالت مجھے نظر آئی۔
قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا، مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں، جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا اُن نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے، اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دِل میں چپکے ہی سے بخشا تھا، اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی، مگر وہ نوجوان فوراً کہنے لگا کہ: چچا! میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔
قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصے سے دو فائدے ہوئے، ایک تو اس برکت کی جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی، اس کا تجربہ ہوا، دُوسرے اس نوجوان کی سچائی کا مجھے یقین ہوگیا۔“
کیا آنحضرت ﷺ کے لئے دُعائے مغفرت کرسکتے ہیں؟
س… عام طور پر ہم اپنے عزیز و اقرباء (مرحومین) کی مغفرت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں، اور قرآن مجید اور نوافل پڑھ کر ان کو ثواب پہنچاتے ہیں، اور خدا تعالیٰ سے ان کے لئے جنت الفردوس کی دُعا مانگتے ہیں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ کامل انسان تھے اور جن کے متعلق غلطی یا تقصیر کا تصوّر بھی گناہ ہے، تو کیا ان کے لئے مغفرت کی دُعا مانگنی چاہئے یا نہیں؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے تو گناہگاروں کی مغفرت ہوگی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دُعائے مغفرت کی ضرورت نہیں، بلکہ بلندیٴ درجات کی دُعا کرنی چاہئے۔ سب سے بہترین تحفہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں دُرود شریف ہے، اور نفلی عبادات کا ثواب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بخشنا چاہئے، کہ یہ ہماری محبت و تعلق کا تقاضا ہے، مثلاً: قربانی کے موقع پر گنجائش ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کی جائے، صدقہ و خیرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا جائے، حج و عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا جائے۔
اِستغفار سب کے لئے کیا جاسکتا ہے
س… اِستغفار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنے بھائیوں کے لئے اِستغفار کیا کرو، یہ سمجھائیں کہ زندہ بھائی یا مردہ بھائی کے لئے اِستغفار کا کیا طریقہ ہے؟ اور پھر یہ اِستغفار ان بھائیوں کے لئے کیا فائدہ پہنچاتا ہے؟
ج… اِستغفار زندوں اور مُردوں سب کے لئے کیا جاسکتا ہے، مثلاً: عربی میں یہ الفاظ بہت جامع ہیں: ”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَاءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ“ اور اُردو میں یہ الفاظ کہہ لے کہ: ”یا اللہ! میری اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کی بخشش فرما۔“
رہا یہ کہ مسلمان کے لئے اِستغفار کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص پوری اُمت کے لئے اِستغفار کرے، اللہ تعالیٰ اس کی بھی بخشش فرما دیتے ہیں۔ اور جس شخص کے لئے بہت سے مسلمان اِستغفار کر رہے ہوں، اللہ تعالیٰ ان کی دُعا کی برکت سے اس شخص کی بھی مغفرت فرمادیتے ہیں، گویا پوری اُمت کے لئے اِستغفار کرنے کا فائدہ اِستغفار کرنے والے کو بھی پہنچتا ہے، اور جن کے لئے اِستغفار کیا جائے ان کو بھی، کیونکہ اِستغفار کے معنی بخشش کی دُعا کرنے کے ہیں، اور یہ دُعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی، جس کے لئے اِستغفار کیا جائے گویا اس کی مغفرت کی شفاعت کی جاتی ہے، اور حق تعالیٰ شانہ اہلِ ایمان کی شفاعت کو قبول فرماتے ہیں۔
”رات کے آخری تہائی حصہ“ کی وضاحت اور اس میں عبادت
س… میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے دُنیا پر نزولِ اجلال فرماتے ہیں اور جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، مراد کتنے بجے ہیں؟ یعنی۳بجے یا ۲بجے؟ یعنی صحیح وقت کون سا ہے؟ اور یہ کہ وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھنی چاہئے اور پھر دُعا مانگنی چاہئے یا کوئی اور طریقہ ہو؟ جواب ضروری دیں، منتظر رہوں گی۔
ج… غروبِ آفتاب سے صبحِ صادق تک کا وقت تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو آخری تہائی مراد ہے، مثلاً آج کل مغرب سے صبحِ صادق تک تقریباً ۹گھنٹے کی رات ہوتی ہے، اور سوا ایک بجے تک دوتہائی رات گزر جاتی ہے، سوا ایک بجے سے صبحِ صادق تک وہ وقت ہے جس کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے، اس وقت وضو کرکے چار سے لے کر بارہ رکعتوں تک جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دے، نماز تہجد میں پڑھنی چاہئے، اس کے بعد جتنی دُعائیں مانگ سکے مانگے۔
عہدنامہ، دُعائے گنج العرش، دُرود تاج وغیرہ کی شرعی حیثیت
س… میں نے اربعین نووی پڑھی جس کے صفحہ:۱۶۸ پر دُعائے گنج العرش، دُرود لکھی، عہدنامہ، وغیرہ کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میں چند دُعاوٴں کو آپ کی رائے شریف کی روشنی میں دیکھنا چاہتا ہوں، ان دُعاوٴں کے شروع میں جو فضیلت لکھی ہوئی ہے، اس سے آپ بخوبی واقف ہوں گے، زیادہ ہی فضیلت ہے جو تحریر نہیں کی جاسکتی، کیا یہ لوگوں نے خود تو نہیں بنائیں؟
آپ صرف یہ جواب دیں ان میں سے کون سی دُعا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور کون سی نہیں؟ اگر ثابت ہے تو جو شروع میں فضیلتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم کو ان دُعاوٴں کو پڑھنا چاہئے یا کہ نہیں؟ کیا یہ دُشمنانِ اسلام کی سازش تو نہیں؟
دُعائیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱:-وصیت نامہ۔ ۲:- دُرود ماہی۔ ۳:- دُرود لکھی۔
۴:-دعائے گنج العرش۔ ۵:-دُعائے جمیلہ۔ ۶:-دُعائے عکاشہ۔
۷:- عہدنامہ۔ ۸:- دُرود تاج۔ ۹:- دُعائے مستجاب۔
ج… ”وصیت نامہ“ کے نام سے جو تحریر چھپتی اور تقسیم ہوتی ہے،وہ تو خالص جھوٹ ہے، اور یہ جھوٹ تقریباً ایک صدی سے برابر پھیلایا جارہا ہے، اسی طرح آج کل”معجزہ زینب علیہا السلام“ اور ”بی بی سیّدہ کی کہانی“ بھی سو جھوٹ گھڑ کر پھیلائی جارہی ہے۔
دیگر دُردو و دُعائیں جو آپ نے لکھی ہیں، وہ کسی حدیث میں تو وارِد نہیں، نہ ان کی کوئی فضیلت ہی احادیث میں ذکر کی گئی ہے، جو فضائل ان کے شروع میں درج کئے گئے ہیں، ان کو صحیح سمجھنا ہرگز جائز نہیں، کیونکہ یہ خالص جھوٹ ہے، اور جھوٹی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا وبالِ عظیم ہے۔ جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے، یہ بات تو قطعی ہے کہ یہ الفاظ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ نہیں، بلکہ کسی شخص نے محنت و ذہانت سے ان کو خود تصنیف کرلیا ہے، ان میں سے بعض الفاظ فی الجملہ صحیح ہیں، اور قرآن و حدیث کے الفاظ سے مشابہ ہیں، اور بعض الفاظ قواعدِ شرعیہ کے لحاظ سے صحیح بھی نہیں، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات تو کیا ہوتے!
یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دُعاوٴں اور دُرود کا رواج کیسے ہوا؟ کسی سازش کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے یا کتابوں کے ناشروں نے مسلمانوں کی بے علمی سے فائدہ اُٹھایا ہے؟ ہمارے اکابرین ان دُعاوٴں کے بجائے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے منقول الفاظ کو بہتر سمجھتے ہیں، اور اپنے متعلقین اور احباب کو ان چیزوں کے پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
نمازوں کے بعد مصافحہ کی رسم بدعت ہے
س… میں دیکھتا ہوں کہ بالخصوص فجر اور عصر کی نمازوں کے بعد، اس کے علاوہ ظہر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد بالعموم مصلّی حضرات جناب امام صاحب سے (جو نماز پڑھاتے ہیں) اس کے بعد آپس میں ایک دُوسرے سے مصافحہ کیا کرتے ہیں، یہ مصافحہ بعد نماز کیسا ہے؟ براہ کرم اَحکامِ شرعی فقہِ حنفیہ کے مطابق مطلع فرمائیں۔
ج… نمازوں کے بعد مصافحہ کو فقہاء نے بدعت لکھا ہے، اس لئے اس کا التزام نہ کیا جائے۔
نماز کے بعد بغل گیر ہونا یا مصافحہ کرنا بدعت ہے
س… باجماعت نماز کے بعد مقتدیوں کا آپس میں بغل گیر ہونا، ہاتھ ملانا باعثِ ثواب ہے، سنت یا واجب ہے؟
ج… نہ سنت ہے، نہ واجب، بلکہ بدعت ہے، اگر کوئی شخص دُور سے آیا ہو اور نماز کے بعد ملے تو اس کا مصافحہ و معانقہ کرنا جائز ہے۔
فرض نمازوں کے فوراً بعد اور سنتوں سے قبل کسی سے ملنا کیسا ہے؟
س… میرے بھائی جان مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے فرض پڑھ کر سلام پھیرا، برابر والے صاحب نے بھی سلام پھیرا، وہ بھائی جان کے بہت پُرانے دوست نکلے، کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، اس لئے دونوں نے مصافحہ وغیرہ کیا، اور پھر بقیہ نماز پڑھ لی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ غلط ہے، پہلے آپ لوگ پوری نماز پڑھ لیتے، کچھ نے کہا کوئی بات نہیں۔ آپ ضرور بتائیے کہ واقعی غلطی ہوگئی؟
ج… اگر کسی سے اس طرح ملاقات ہو جیسی کہ آپ کے بھائی کی اپنے دوست سے ہوتی تھی، تو فرض نماز کے بعد بھی دُعا اور مصافحہ جائز ہے، مگر آواز اُونچی نہ ہو جس سے نمازی پریشان ہوں۔

No comments:

Post a Comment