مدارس اسلام کے قلعے ہیں، یہ نہ توہوائی بات ہے اور نہ ہی کسی خطیب کی بھڑک بلکہ یہ حقیقت ہے۔جتنے بھی دینی کام ہورہے ہیں چاہے وہ کسی ادارے کی شکل میں ہوں یا تنظیم کی شکل میں، انہیں کوئی جماعت چلا رہی ہو یا کوئی فرد، دینی کام کسی اسلامی اخبار یا رسائل کے ذریعے ہوں یا سیکولرذرائع ابلاغ اور میڈیا پر ہر ایک کا کسی نہ کسی طرح تعلق مدارس سے جڑتا ہے۔ بظاہر آپ کو ایک عام آدمی دین کا بہت بڑا کام کرتا ہوا نظر آئے گا لیکن آپ اگر اس راز کو معلوم کرنے کی کوشش کریں تو یہ دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ اس عام آدمی کادینی کام کسی نہ کسی طرح مدرسے سے جُڑا ہوا ہے۔اس سے معلوم ہوا مدارس اسلام کے ایسے قلعے ہیں جہاں سے دین کا کام کرنے والے بلاواسطہ بھی تیار ہورہے ہیں اور بالواسطہ بھی۔
میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ علماءکو مشورے دوں لیکن اپنے مختصر سے تعلیمی عرصے میں جو کمی محسوس کی اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
مسئلہ نمبر1
اصلاح نفس
لارڈ میکالے نے جب یہ اعلان کیا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو شکل وصورت کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے انگلستانی ہوں اس کے مقابلے میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے یہ اعلان کیا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو شکل وصورت کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ مدارس کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو مکمل اسلامی ہوں۔
آج کل بعض مدارس میں اس چیز کی بہت کمی ہے طلباءمدرسے میں قرآن وحدیث بھی پڑھتے ہیں مگر ان میں اور عام لوگوں میں صرف داڑھی کا فرق ہوتا ہے بلکہ کئی طلباءتو داڑھی بھی خشخشی رکھتے ہیں، محلے کے نمازی تو تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھتے ہیں مگر مدرسے کے کئے طلباءمسبوق رہ جاتے ہیں، ایک عام اور اَن پڑھ شخص سہ روزہ لگا کر تبدیل ہوجاتا ہے مگر طلباءسالہا سال تک مدرسے میں پڑھنے کے باوجود تبدیل نہیں ہوتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مدارس کے علاوہ باقی مدارس میں تعلیم تو ہوتی ہے مگر تربیت نہیں ہوتی۔
چھ ارب انسانوں میں سے صرف چند لاکھ طلباءقرآن وحدیث براہ راست پڑھتے ہیں اگر یہ طلباءہم سے نہ سدرھے تو باقی انسانیت کیسے سدرھے گی ؟ ، حالانکہ یہ طلباءتو ہمارے ہاتھ میں ہیں، ہمارے پاس خود آئے ہوئے ہیں، چوبیس گھنٹے مسجد ومدرسہ کے پاکیزہ ماحول میں رہتے ہیں، ہماری بات کو سنتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ طلباءہمارے پاس امانت ہیں، والدین جب اپنے بچے کو اسکول سے نکال کر مدرسہ بھیجتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ یہ امام بنے گا بلکہ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹا نیک بنے گا۔ایک وہ وقت تھا جب مدرسے سے نکلنے والا ہر طالبعلم ایک تحریک ہوا کرتا تھا مگر آج ہر سال تقریباً بارہ ہزار طلباءفارغ ہونے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، لہٰذا مدرسے میں طلباءکی ایسی اصلاحی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ مدرسے سے فارغ ہو کر جہاں بھی جائیں انقلاب برپا کردیں۔
تجاویز
۱....٭ مدرسے میں عصر سے قبل یا عشاءکے بعد ہر روز صرف دس منٹ کے لئے اصلاحی تربیتی پروگرام ہونا چاہئے جس میں کوئی استاد بیان کرلیا کرے یا اکابر کی کتابوں میں سے کسی کتاب کی تعلیم کرلیا کرے کسی مصنف کی کتاب پڑھنا اسکی صحبت میں بیٹھنے کے مترادف ہے لہٰذا مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمود الحسن ، مولانا سید سلمان ندوی، قاری محمد طیب رحمہم اللہ کی کتب زیادہ موزوں ہیں۔
۲....٭ اس تربیتی مجلس میں نمازوں کی پابندی تہجد کی پابندی اور دیگر نوافل کی پابندی کی بار بار تاکید کی جائے اور فضائل سنائے جائیں،نوافل کی بار بار تاکید کرنے سے کم از کم فرائض کی پابندی ضرور ہو جائے گی۔
۳....٭ سکولوں میں ہزاروں روپے فیس بھی لی جاتی ہے اوراپنا یونیفارم،پینٹ شرٹ اور ٹائی پہننے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے کیا ہم اپنے طلباءکو یہ بات کہنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ علماءکا لباس پہنو، کالر نہ بنواو ¿ ٹخنے ننگے رکھو۔ لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ طلباءکو ان چیزوں کی تاکیدکریں کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے ،علم تو عمل کو پکارتا ہے آجا اگر عمل آجائے تو علم باقی رہتا ہے اور اگر عمل نہ آئے تو علم بھی چلا جاتا ہے۔
مسئلہ نمبر2
محنت کا فقدان
وہ شوق اور ذوق جو پہلے ہوا کرتا تھا اب ختم ہوتا جارہا ہے نہ تو طلباءمحنت کرتے ہیں اور نہ مدارس میں ان سے محنت کروائی جاتی ہے چند مدارس ایسے ہیں جہاں طلباءسے محنت کروائی جاتی ہے اور اس کے مفید نتائج بھی نکل رہے ہی۔ اس زمانے میں طلباءسے محنت کروانا پہلے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اب وہ زمانہ اور وہ طلباءتو ہیں نہیں جو کتاب کے مطالعہ میں مستغرق بادشاہ کے قافلے کے ساتھ اس کے محل میں پہنچ جایا کرتے تھے اور آس پاس کا شور وغل ان کی یکسوئی میں دخیل نہیں ہوا کرتا تھا۔ نہ تو بکری کے ساتھ نحو کا تکرار کرنے والا اخفش موجود ہے اور نہ ہی اِس زمانے میں اپنے بالوں کو چھت کے ساتھ باندھ کر صَرف کا رَٹّا لگانے والا طالب علم، آج کل تو اپنے آپ کو مولوی کہلوانا ہی بڑا مشکل ہے اس کے باوجود اگر چند نوجوان ہمت کرکے مدرسے میں آجاتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ان پر محنت کریں اور ان سے محنت کروائیں۔
جب مدارس کی انتظامیہ نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے اور عوام بھی کھلے دل سے تعاون کرتی ہے اور اپنا مال خرچ کرتی ہے تو پھر نفس کتاب پڑھانے اور سبق کی تقریر سنانے سے یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ طلباءکو یہ کہنا کہ ”آپ اپنے نفع ونقصان کے خود مالک ہیں پڑھیں یا نہ پڑھیں ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے آپ کی مرضی ہے “ ہمارے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے طلباءکو کھلی چھٹی مل جاتی ہے شیطان غالب آجاتاہے اور طلباءکورے کے کورے رہ جاتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مفید ہوگا کہ ”آپ کے گھر والوں نے آپ کو ہمارے پاس امانت رکھا ہے ہم اس امانت میں خیانت نہیں کریں گے آپ پڑھیں یا نہ پڑھیں ہم ضرور پڑھائیں گے مرضی آپ کی ہے چاہیں تو ویسے پڑھیں چاہیں تو ڈنڈے سے پڑھیں“ اگرچہ ڈنڈا استعمال نہ کیا جائے مگر ترہیب میں تو کوئی حرج نہیں۔
تجاویز۱....٭ تکرار کی پابندی
شام کے اوقات میں تکرار کی پابندی ہونی چاہئے تکرار کے اوقات میں ایک استاد کی نگرانی ضرور ہونی چاہئے جو طلباءمیں موجود ہو اگر کوئی طالبعلم کچھ پوچھنا چاہے تو وہ بھی بتائے۔
۲....٭ خاموش مطالعہ
کوئی ایک وقت مقرر کر لیا جائے جس میں خاموش مطالعہ ہو، درجہ ثانیہ سے دورہ حدیث تک کے تمام طلباءمسجد میں صفوں کی صورت میں بیٹھ کر خاموش مطالعہ کریں اس وقت میں باتیں کرنے یا دوسرے طلباءسے کچھ پوچھنے پر پابندی ہونی چاہئے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ
ایسے طلباءجو پورا سال صرف سماعت پر اکتفاءکرنے ہیں، جو دن کو اساتذہ اور رات کو طلباءسے صرف سنتے ہیں ان کا کتاب کے ساتھ تعلق پیدا ہوجائے گا،
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مطالعہ کرنے سے خود اعتمادی پیدا ہوگی،
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ صبح اساتذہ سے سبق صحیح سمجھ آئے گا،
چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنے اندر کتاب سے اخذ کرنے اور مستفید ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
۳....٭شروحات پر پابندی
ابتدائی درجات کے طلباءکو شروحات دیکھنے سے منع کرنا چاہئے کیونکہ مبتدی جب شروحات کا سہارا لیتا ہے تو اس کے اندر جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے، شروحات کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلباءاستاد کا سبق توجہ سے اس لئے نہیں سنتے کہ چلو بعد میں شرح سے دیکھ لیں گے۔ شروحات کا عادی پھر ہمیشہ شروحات کے سہارے ہی جیتا ہے ہاں بڑے درجات کے طلباءاحادیث کی شروحات اور قرآن کی تفاسیر کا ضرور مطالعہ کریں۔
۴....٭ اسباق سننا
طلباءسے سبق باقائدگی سے سنا جائے، چھوٹے درجات کے سب طلباءسے سبق سننا چاہئے البتہ بڑے درجات کے کچھ طلباءسے سبق سننا چاہئے کیونکہ سبق زیادہ اور وقت کم ہوتا ہے، سبق سننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلباءسبق یاد کرنے کا از خود اہتمام کریں گے، جو سبق انہیں سمجھ نہیں آئے گا وہ اسے سمجھنے کےلئے کبھی دوسرے طلباءاور کبھی اساتذہ کے پیچھے بھاگیں گے اس طرح طلباءکا پیریڈ کے علاوہ بھی اساتذہ کے ساتھ رابطہ اور تعلق رہے گا اور جب اتنی محنت اور سعی سے سبق یاد کیا جائے گا تو وہ کبھی نہیں بھولے گا۔
۵....٭ وقت کی پابندی
اہل مدرارس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طلباءکو وقت کا پابند بنائیں اس بات کی بار بار تاکید کی جائے کہ طلباءاستاد کے آنے سے پہلے درسگاہ میں موجود ہوں اور غیر حاضری سے اجتناب کریں۔ غیر حاضری کے معاملے میں ذرا سختی سے کام لینا چاہئے، غیر حاضر طلباءکا مہینے بعد پانچ یا دس روپے وظیفہ کاٹنے کے بجائے ہر روز کلاس میں کھڑا کرکے صرف اتنا پوچھ لینا کہ کل آپ کیوں نہیں آئے ؟ زیادہ مو ¿ثر ہے۔ یہ تمام باتیں طلباءمیںپیدا کرنے کے لئے دو کام کرنے چاہئے:
۱۔ منتظمین عمل در آمد کرانے کے لئے ذرا سختی کریں۔
۲۔ دس منٹ کی تعلیم ( جس کا پہلے تذکرہ ہوا) میں ایسی کتب کی تعلیم کرائی جائے جن سے علم کا شوق پیدا ہوتا ہے مثلاً ”متعلمین کے آداب ، شیخ الحدیث زکریا رحمہ اللہ کی آب بیتی“وغیرہ۔
مسئلہ نمبر3
عربی بول چال
ہمارے مدارس کے نصاب تعلیم میں جو کتب شامل ہیں وہ تمام قدیم عربی زبان میں ہیں جن کو پڑھ کر یقیناً قرآن وحدیث سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن میں جس بات کی نشاندھی کرنے چلا ہوں وہ یہ ہے کہ طلباءآٹھ دس سال تک ان کتب کو پڑھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں لیکن عربی زبان بول نہیں سکتے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا اردگرد کا ماحول ایسا نہیں جس میںعربی زبان بولی جاتی ہو جب کہ گورنمنٹ سکولوں میں اگرچہ مکمل انگلش نصاب تعلیم نہیں ہر کلاس میں صرف ایک یا دو انگلش کتابیں ہیں مگر پھر بھی وہ طلباءکافی حد تک انگلش بول بھی سکتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں کیونکہ عمومی ماحول انگلش بولنے کا بن چکا ہے، اس کے برعکس مدارس کے طلباءمکمل عربی کتب آٹھ دس سال تک پڑھتے ہیں لیکن انہیں عربی صرف کتاب کی حد تک آتی ہے وہ کتاب کا عربی سے اردو ترجمہ تو کرلیتے ہیں مگر اسی بات کو عربی میں بیان نہیں کرسکتے۔ کئی مدارس میں اس طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان مدارس کے طلباءعربی زبان بول بھی لیتے ہیں اور امتحانی پرچہ بھی عربی میں حل کرلیتے ہیں۔ اس معاملے میں جامعة الرشید کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
عربی مدارس کے طلباءکا عربی زبان نہ بول سکنا بہت بڑی کمی اور خجالت ہے اگرچہ عربی بول چال سے ہمارا مقصد کسی کے سامنے اپنی شان بڑھانا نہیں مگر عربی بول چال سے نابلد ہونا بڑی محرومی کا سبب ہے اس لئے اہل مدارس سے ہماری گذارش ہے کہ اس معاملہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔
تجاویز
۱....٭ کم از کم مدارس کی حد تک ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہئے جس میں بتکلف عربی بول چال ہو، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی تعلیم یافتہ افراد صرف ایک سالہ عربی کورس کرنے کے بعد عربی بول چال پر عبور حاصل کرلیتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اساتذہ اور طلباءآپس میں بتکلف عربی بول چال کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک عام شخص مزدوری کی غرض سے سعودی عرب جاتا ہے اور جب ایک دو سال بعد واپس آتا ہے تو نہ صرف عربی بول سکتا ہے بلکہ ہمارے طلباءسے دو چار باتیں کرکے ان کوخاموش بھی کردیتا ہے، ایسے مواقع پر طلباءکو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔
۲....٭ جس طرح سالانہ چھٹیوں میں صَرف نحو اور تفسیر کے دورے ہوتے ہیں اس طرح اہل مدارس کو عربی لینگویج کورس اور دورے کرانا چاہئے۔
۳....٭ مدارس میں ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ طلباءاور اساتذہ آپس میں عربی بول چال کریں کتاب کا ترجمہ اور ضروری تشریح اردو میں ہو اور باقی بات چیت عربی میں ہونی چاہئے۔
۴....٭ مدرسہ کے مہتمم صاحب چھٹی یا بیماری کی درخواست صرف عربی میں لکھی ہوئی قبول کریں۔
۵....٭ مدرسہ کی طرف سے تعطیلات اور دیگر اعلانات وغیرہ جو نوٹس بورڈ پر لگائے جاتے ہیں وہ عربی تحریر میں ہونے چاہیں۔
۶....٭ ہفتہ میں ایک دن مثلاً جمعرات والے دن ہر استاد اپنے سبق میں چار طلباءکو باری باری کھڑا کرکے عربی میں تقریر یا کسی چیز کا تعارف پیش کرنے کا کہے مثلاً اپنے گاو ¿ں یا ملک کا تعارف یا کسی واقعہ کی کارگزاری وغیرہ۔یہ سلسلہ پورا سال ہر ہفتے ہرکلاس میں ہونا چاہئے اس سے خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
مسئلہ نمبر4
جدید اسلوب
کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی سکالر کے پاس یہودی علماءکا ایک وفد آیا ہوا تھا جو کہ ان سے اسلام کے بارے میں سوال وجواب کر رہا تھا اس وفد میں شامل ایک یہودی پروفیسر ڈاکٹر ابراھام ابو رابی جو کہ امریکا میں ھارٹ فورد سیمناری سی ٹی میں اسلامی تعلیمات اور کرسچن مسلم تعلقات کا پروفیسر ہے نے کہا کہ اس وقت امریکا میں لگ بھگ ستر یا اسی لاکھ مسلمان ہیں مگر وہ اسلامی نقطہ نظر انگریزی میں سمجھانے کی صلاحیت یا تو رکھتے ہی نہیں اور اگر کچھ لوگ سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ اسلامی فلسفے اور گہرائی سے ناواقف ہیں، اس یہودی پروفیسر نے کہا نائن الیون کے واقعہ کے بعد یہودی اور عیسائی اسلام کو جاننا چاہتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے اسلامی اداروںسے رابطہ بھی کیا مگر کہیں سے بھی اطمینان بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ہم اسی سلسلے میں آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہام کی یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مسلمان اپنا نقطہ نظر انگریزی میں سمجھانے میں کمزور ہیں اس وقت اس چیز پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ مغربی اقوام اسلام کی طرف لوٹ رہی ہیں جبکہ علماءحق کی طرف سے ان کو صحیح راہنمائی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے وہ بے دین عناصر جو نام کے مسلمان ہیں مغربی اقوام کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اس کام میں دیگر بے دین عناصر کے علاوہ قادیانی سب سے آگے آگے ہیں، لہٰذا اس وقت اہل مدارس اور علماءکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کی ایک کھیپ تیار کریںجو اسلامی علوم میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید اسلوب اور انگریزی بولنے پر عبور رکھتے ہوں تاکہ مغربی اقوام کی صحیح سمت میں راہنمائی کی جاسکے۔ ہمارے طلباءجدید اسلوب سے اتنے نابلد ہیں کہ مغربی اقوام تو دور کی بات اپنے محلے کی عوام سے بھی ہمارا تعلق اسی اسلوب کی وجہ سے ٹوٹا جارہا ہے، کیونکہ عوام کی زبان اور اسلوب تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں مدارس کے طلبا کی تعداد تقریباً چارسے پانچ لاکھ ہے جبکہ اسکولوں میں صرف پرائمری کے طلباءکی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے، اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ کروڑوں لوگوں کی زبان اور اسلوب جب ہم سمجھ نہیں سکتے تو ان کی راہ نمائی کیسے کریں گے؟ ایک وقت وہ تھا جب ہندوستان کے اسکولوں اور مدرسوں دونوں میں فارسی ذریعہ تعلیم وتدریس تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک کے بادشاہ اور وزراءسے لیکر ایک عام فوجی، سپاہی اورکلرک تک کے اکثر لوگ عالم اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوتے تھے۔
شیخ الحدیث مولانا زاہدالراشدی مدظلہ فرماتے ہیں جب بھٹو کے دور میں تحریک نظام مصطفیٰ چلی میں نے آئی جی(I-G) پنجاب سے کہا کہ تم اسلام کیوں نہیں نافذ کرتے؟ اس آئی جی نے جواب دیا آپ مجھ سے سے اسلام کی توقع رکھتے ہیں؟ میری تو اپنی زندگی میں اسلام نہیں اور نہ اسلام کے بارے میں جانتا ہوں، دوسروں پر اسلام کا نفاذ کیسے کروں گا؟ اگر آپ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں تو میری جگہ پر کوئی ایسا آئی جی لائیں جو اسلام پر چلنے والا اور اسلام جاننے والا ہو پھر دیکھیں خود اسلام نافذ ہوجائے گا۔
بقول ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی:
دینی مدارس نے اسلامی علوم وفنون کے پرانے نظام کو اپنایا اور دنیاوی علوم کے اسکولوں کالجوں اور یونیوسٹیوں نے مغربی علوم وفنون پر توجہ مرکوز کردی ( اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ایک دنیا سے نا آشنا بنا اور دوسرا دین سے بے بہرہ ہوگیا۔
اور بقول ڈاکٹر محمد امین:
نصاب کوئی غیر متبدل چیز نہیں، نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا بعد میں لوگوںنے حدیث بھی پڑھنا شروع کردی اگلی صدی میں فقہ بھی شامل ہوگئی اس سے اگلی صدی میں اصول کی تعلیم شروع ہوگئی جب یونانی علوم کا ریلا آیا تو منطق بھی شامل ہوگئی، نصاب کوئی مقدس گائے نہیں ہوتی یہ ہمیشہ زمانے اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے ہاں نصاب کے کچھ اجزاءقرآن وسنت اور عربیہ زبان یقیناً تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن معاف کیجیے فارسی کو کوئی تقدس حاصل نہیں اُس وقت اس کی یقیناً ضروت تھی جب اس کو قومی زبان کی کی حیثیت حاصل تھی یہ اُس وقت معاشرتی زبان تھی اب نہیں اُس وقت جو فارسی نہیں پڑھتا تھا تیل بیچتا تھا یہ اُس وقت ذریعہ اظہار تھی اب فارسی ذریعہ اظہار نہیں۔ نصاب سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے مو ¿ثر اور متبحر علماءتیار کئے جائیں جو معاشرے تک بہترین طریقے سے دین پہنچا سکیں لوگوں کے قول وعمل کو شریعت کے مطابق ڈھال سکیں، اب آپ ہماری موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیںتو کئی خامیاں محسوس ہوںگی، مغرب اور امریکا کے ایجنڈے کو چھوڑیے خود سوچیے کہ کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا کو سمجھیں؟ اگر امام غزالی کی یہ ضرورت تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں اور پھر ”تہافت“ لکھیں تو آج ہماری یہ مجبوری کیوں نہیں کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں اور پھر اس ک تردید کریں؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں تو اس کا رد کیسے کریں گے؟ اس لئے اس وقت ان علوم کا جاننا جو اس وقت دنیا میں مروج ہیں خود ہماری ضرورت ہے جس طرح قدیم زمانے میں یونانی فکر گمراہیوں کا شرچشمہ تھی آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں کا منبع ہے آپ کیسے کہتے ہیں انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ؟ جب تک آپ انگریزی پڑھیں گے نہیں تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟
(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دوروزہ مشاورتی اجتماع سے خطاب ۴دسمبر ۳۰۰۲)
قطع نظر اس کے کہ یہ دونوں قول کس حد تک درست ہیں لیکن قابل غور ضرور ہیں، آج اگر علماءذرائع ابلاغ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان کو ایسے افراد میسر نہیں جو اس کام کو سمجھتے اور موجودہ تقاضوں پر پورا اترتے ہوں اس لئے علماءکو مجبوراً بے ریش اور دین سے نابلد افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
آج مدارس اور سکولوں کے پڑھے ہوئے افراد کے درمیان دیوار کھڑی ہے ، ایک کا منہ اگر شمال کی طرف ہے تو دوسرے کا جنوب کی طرف، دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں یہ اپنی بات ان کو نہیں سمجھا سکتے اور وہ اپنا مسئلہ ان کو نہیں سمجھا سکتے، دونوں کے درمیان یہ خلیج انتہائی خطرناک ہے اس کا تدارک ضروری ہے۔
سکولوں کا پڑھا ہوا نوجوان جب تبلیغ میں وقت لگا کر دین دار بنتا ہے تو وہ جب دین کی بات کرتا ہے اس کے گرد یہ عام لوگ اور نوجوان اکٹھے ہوجاتے ہیں، جبکہ ہمارے طلباءدین کی بات سمجھانے کےلئے لوگوں کو اکٹھا نہیں کرسکتے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے طلباءوہ اردو زبان نہیں بول سکتے جو موجودہ دور میںذریعہ اظہار ہے اور بولی جاتی ہے، ورنہ یہ طلباءاس نوجوان سے زیادہ کامل ہیں اور ان کے پاس قرآن وحدیث کی روشنی بھی ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا ہے اور ابتدائی طور پر میٹرک تک تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے یہ اقدام نہایت خوش آئند ہے۔
جامعة الرشید کراچی نے ایک کلیة الشریعہ قائم کیا ہے جہاں ایسے نوجوانوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے جو نہ صرف گریجویٹ ہوں بلکہ انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہوں۔
ادارہ علوم اسلامیہ اسلام آباد اس سلسلے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ لہٰذا مدارس کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اس سلسلے میں بھرپور کام کرنا چاہئے۔
مسئلہ نمبر 5
اساتذہ کی تربیت
ہمارے مدارس میں اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے نئے آنے والے اساتذہ طلباءکو مطمئن نہیں کرسکتے، اس کے برعکس جو اساتذہ سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح طلباءکو سبق سمجھا دیتے ہیں اگرچہ کتاب انہیں تھوڑی بہت ہی کیوں نہ آتی ہو۔اسکولوں میں اساتذہ کی تربیت کا باقاعدہ کورس ہوتا ہے اس کے بغیر کوئی استاد بھرتی ہی نہیں ہوسکتا، اس لئے اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پشتو یا سرائیکی وغیرہ بولنے والا استاد ہو جو اردو صحیح نہ بول سکتا ہو وہ جب علم صرف وغیرہ کی کتاب پڑھارہا ہو تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت صورت حال یوں ہوتی ہے
استاد پٹھان، شاگرد پنجابی، کتاب فارسی زبان میں، جو چیز سمجھانا مقصود ہے وہ عربی اور جس زبان میں سمجھایا جارہا ہے وہ اردو۔
جہاں تک ممکن ہو اس کا حل بھی نکالنا چاہئے، چاہے نصاب میں بہتری لاکر یا اساتذہ کی تربیت کرکے۔
بعض تبلیغی مدارس میں تعلیمی سال کے نام سے ایک سالہ تربیتی کورس کرایا جاتا ہے جس میں نئے آنے والے مدرس کو قدیم مدرسین کے ساتھ بٹھا کر طریقہ تدریس سکھایا جاتا ہے، لہٰذا وفاق المدارس کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
مسئلہ نمبر6
فقہی مسائل پر ایک نئی کتاب کی ضرورت
مدارس میں جو فقہ کی کتب پڑھائی جاتیں ہیں وہ بہت ہی اہم اور مناسب ہیں، ان کتب میں مسائل کے اندر جو دوسرے ائمہ کے ساتھ اختلافات ہیں وہ بھی پڑھائے جاتے ہیں اس کے علاوہ ایک مسئلے میں کئی کئی اقوال کا ذکر بھی ہوتا ہے، چونکہ آج کل طلباءمیں وہ پہلے والی صلاحیت نہیں ہے اس لئے طلباءاصل مسئلہ اور اصل بات جو بتائی جارہی ہو بھول جاتے ہیں لہٰذا نصاب میں ایک ایسی کتاب ہونی چاہئے جس میں صرف مفتیٰ بہ مسائل مذکور ہوں۔
داخل نصاب کتابیں چونکہ کئی صدیاں قبل لکھی گئیں تھیں اور اب زمانے میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں بہت سے جدید مسائل بھی پیدا ہوچکے ہیں اور کئی چیزوں میں عُرف عام بھی تبدیل ہو چکا ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ فقہ کی ایک جدید کتاب تالیف کی جائے جس میں جدید مسائل بھی مذکور ہوں اور قدیم وجدید مسائل کی مثالیں بھی موجودہ چیزوں پر ہوں مثلاً جہاز، ریل گاڑی، بسیں،ٹی وی، کمپیوٹر، بنک، اخبارات، مزائل، ٹینک وغیرہ۔ کیونکہ تیر، تلوار، نیزہ، خود، اونٹ، گھوڑا اور دیگر کئی چیزوں کا استعمال بلکہ وجود آج نہیں ہے۔ آج پوری کلاس میں اگر طلباءسے یہ سوال کیا جائے کہ کسی نے تیر یا تلوار کو تصویر کے علاوہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا ہاتھ میں لیا ہے یا گھوڑے ،اونٹ پر لمبا سفر کیا ہے تو یقیناً منفی جواب آئے گا۔
پہلے قصر نماز کےلئے مسافت سفر دنوں میں بیان ہوتی تھی پھر میلوں میں اور اب کلومیڑوں میں بیان کی جاتی ہے اسی طرح اگر تمام مسائل میں وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی اصطلاحات کو بیان کیا جائے اور ان تمام اصطلاحات انچ،فٹ،گز،میٹر،کلومیٹر، میل، سکوائرمیل، کلو، سیر، پونڈ وغیرہ وغیرہ کو باقاعدہ مرتب کرکے نصاب میں پڑھایا جائے تو بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے۔
جس طرح ہمارے اکابر نے وقت کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے فارسی میں کتابیں تحریر کرکے ان کو نصاب میں شامل کیا اسی طرح آج فقہ کی ایک آدھ کتاب اردو میں تحریر کرکے باقاعدہ سبقاًسبقاً پڑھائی جائے۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے شاید ایک صدی قبل اردو میں فقہ کی کتابیں(بہشی زیور،بہشتی گوہر) تحریر کیں لیکن ان کی زبان میں فارسی اور ہندی کی ملاوٹ ہے اب جو زبان بولی جاتی ہے اس میں انگریزی کی ملاوٹ ہے، لہٰذا موجودہ دور کی اردو زبان میں فقہ کی ایک کتاب ہونی چاہئے۔
مسئلہ نمبر7
تحریر کی مشق
موجودہ دور میں صحافت اور ذرائع ابلاغ کی بڑی اہمیت ہے، دنیا کے بڑے بڑے اخبارات جو لاکھون کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ان پر کفار خاص طور پر یہودی لابی کا قبضہ ہے اسلامی ممالک میں جو اخبارات ہیں ان پر بے دین عناصر قابض ہیں جبکہ علماءنے اس میدان کو خالی چھوڑا ہوا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تحریر کا ملکہ حاصل نہیں۔
چند سال قبل جب کفار نے طالبان، مجاہدین اور علماءومدارس کے خلاف اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا ہوا تھا اس وقت میں اور چند دیگرطلباءایک اخبار کے کالم نویس کا کالم ہر روز پڑھا کرتے تھے جو اسلام، علمائ، مدارس اور مجاہدین اسلام کے خلاف اس موقع کو غنیمت جان کر شعلے برسارہا تھا اور امریکا سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر حقیقت کو جھٹلا رہا تھا، ہم اس کے کالم ہر روز اخبار میں پڑھتے اور ان پر تبصرہ کرتے بلکہ ان کے جوابات بھی آپس میں دھراتے لیکن ان جوابات کو تحریری کی شکل میں نہیں ڈھال سکتے تھے، اس کے کالم پڑھ کر ہمارا خون تو خشک ہوگیا مگر ہماری قلم حرکت میں نہ آئی کیونکہ ہمیں تحریر کا ملکہ نہیں تھا ورنہ ہماری تحریر بھی ضرور اس اخبار میں شائع ہوتی۔ اس لئے اہل مدارس کو چاہئے کہ وہ طلباءکو تحریر کی خوب مشق کرائیں۔
میدان صحافت بہت وسیع ہے ، جہاں ہزاروں اخبارات،سینکڑوں ٹی وی چینلز،ریڈیو اور لکھاری ومداری ہوں وہاں اکیلا روزنامہ اسلام کیا کر سکتا ہے لیکن پھر بھی اس تاریکی میں یہ روشنی کی ایک کرن ہے۔اسی طرح جامعة الرشید نے صحافت کورس شروع کرکے ایک بہتری مثال قائم کی ہے ، کم از کم کراچی کی حد تک تو مدارس کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں کام کا آغاز کریں کیونکہ باقی ملک کے مدارس کے مقابلے اللہ تعالیٰ نے کراچی والوں کو زیادہ وسائل دیئے ہیں۔میرے ناقص خیال میں عمارتوں پر محنت کرنے کے بجائے افراد پر محنت کی جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔
تجاویز
۱....٭ سب سے پہلے تحریر کا شوق پیدا کیا جائے اور اس کی افادیت کو اجاگر کیا جائے۔
۲....٭ طلباءمیں لکھنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے کہ وہ روزانہ کے اسباق لکھا کریں کیونکہ جو طلباءلکھتے نہیں بعد میں ان کو لکھنے سے اکتاہٹ ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ لکھنے سے بالکل معذور ہوجاتے ہیں اور خط کا مضمون بنانا بھی نہیں آتا۔ میں نے ایسے کئی طلباءکو دیکھا جو میٹرک پاس ہیں اور مدرسہ کے بڑے درجات میں پڑھتے ہیں لیکن چھٹی کی درخواست تک دوسرے طلباءسے لکھواتے ہیں۔ اب جس طالبعلم کو چار سطروں کی درخواست لکھنے سے اتنی اکتاہٹ ہوتی ہو وہ کیا کارنامہ انجام دیگا۔
۳....٭ طلباءکو مختلف موضوعات دیئے جائیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کریں اور پھر اپنی تحقیق کو تحریری صورت میں پیش کریں اس طرح طلباءکا مطالعہ بھی وسیع ہوگا اور تحریر کی مشق بھی ہوگی، لیکن اس کام کے لئے ان کو وقت زیادہ دیا جائے تاکہ ان کی پڑھائی متاثر نہ ہواور وہ اس کام کو پوری دلجمعی سے کریں۔
۴....٭ وقتاً فوقتاً بین المدارس مقابلے کرانے کا اہتمام کیا جائے جس میں طلباءسالانہ امتحان کی طرح ایک جگہ بیٹھ کر مقررہ وقت میں اپنی تحریر پیش کریں، طلباءکی حوصلہ افزائی کے لئے ان کو انعام بھی دیا جائے۔
روزنامہ اسلام 2004ئ (سید شیرازی اسلام آباد)
میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ علماءکو مشورے دوں لیکن اپنے مختصر سے تعلیمی عرصے میں جو کمی محسوس کی اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
مسئلہ نمبر1
اصلاح نفس
لارڈ میکالے نے جب یہ اعلان کیا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو شکل وصورت کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے انگلستانی ہوں اس کے مقابلے میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے یہ اعلان کیا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو شکل وصورت کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل ودماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ مدارس کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو مکمل اسلامی ہوں۔
آج کل بعض مدارس میں اس چیز کی بہت کمی ہے طلباءمدرسے میں قرآن وحدیث بھی پڑھتے ہیں مگر ان میں اور عام لوگوں میں صرف داڑھی کا فرق ہوتا ہے بلکہ کئی طلباءتو داڑھی بھی خشخشی رکھتے ہیں، محلے کے نمازی تو تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھتے ہیں مگر مدرسے کے کئے طلباءمسبوق رہ جاتے ہیں، ایک عام اور اَن پڑھ شخص سہ روزہ لگا کر تبدیل ہوجاتا ہے مگر طلباءسالہا سال تک مدرسے میں پڑھنے کے باوجود تبدیل نہیں ہوتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مدارس کے علاوہ باقی مدارس میں تعلیم تو ہوتی ہے مگر تربیت نہیں ہوتی۔
چھ ارب انسانوں میں سے صرف چند لاکھ طلباءقرآن وحدیث براہ راست پڑھتے ہیں اگر یہ طلباءہم سے نہ سدرھے تو باقی انسانیت کیسے سدرھے گی ؟ ، حالانکہ یہ طلباءتو ہمارے ہاتھ میں ہیں، ہمارے پاس خود آئے ہوئے ہیں، چوبیس گھنٹے مسجد ومدرسہ کے پاکیزہ ماحول میں رہتے ہیں، ہماری بات کو سنتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ طلباءہمارے پاس امانت ہیں، والدین جب اپنے بچے کو اسکول سے نکال کر مدرسہ بھیجتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ یہ امام بنے گا بلکہ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹا نیک بنے گا۔ایک وہ وقت تھا جب مدرسے سے نکلنے والا ہر طالبعلم ایک تحریک ہوا کرتا تھا مگر آج ہر سال تقریباً بارہ ہزار طلباءفارغ ہونے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، لہٰذا مدرسے میں طلباءکی ایسی اصلاحی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ مدرسے سے فارغ ہو کر جہاں بھی جائیں انقلاب برپا کردیں۔
تجاویز
۱....٭ مدرسے میں عصر سے قبل یا عشاءکے بعد ہر روز صرف دس منٹ کے لئے اصلاحی تربیتی پروگرام ہونا چاہئے جس میں کوئی استاد بیان کرلیا کرے یا اکابر کی کتابوں میں سے کسی کتاب کی تعلیم کرلیا کرے کسی مصنف کی کتاب پڑھنا اسکی صحبت میں بیٹھنے کے مترادف ہے لہٰذا مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمود الحسن ، مولانا سید سلمان ندوی، قاری محمد طیب رحمہم اللہ کی کتب زیادہ موزوں ہیں۔
۲....٭ اس تربیتی مجلس میں نمازوں کی پابندی تہجد کی پابندی اور دیگر نوافل کی پابندی کی بار بار تاکید کی جائے اور فضائل سنائے جائیں،نوافل کی بار بار تاکید کرنے سے کم از کم فرائض کی پابندی ضرور ہو جائے گی۔
۳....٭ سکولوں میں ہزاروں روپے فیس بھی لی جاتی ہے اوراپنا یونیفارم،پینٹ شرٹ اور ٹائی پہننے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے کیا ہم اپنے طلباءکو یہ بات کہنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ علماءکا لباس پہنو، کالر نہ بنواو ¿ ٹخنے ننگے رکھو۔ لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ طلباءکو ان چیزوں کی تاکیدکریں کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے ،علم تو عمل کو پکارتا ہے آجا اگر عمل آجائے تو علم باقی رہتا ہے اور اگر عمل نہ آئے تو علم بھی چلا جاتا ہے۔
مسئلہ نمبر2
محنت کا فقدان
وہ شوق اور ذوق جو پہلے ہوا کرتا تھا اب ختم ہوتا جارہا ہے نہ تو طلباءمحنت کرتے ہیں اور نہ مدارس میں ان سے محنت کروائی جاتی ہے چند مدارس ایسے ہیں جہاں طلباءسے محنت کروائی جاتی ہے اور اس کے مفید نتائج بھی نکل رہے ہی۔ اس زمانے میں طلباءسے محنت کروانا پہلے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اب وہ زمانہ اور وہ طلباءتو ہیں نہیں جو کتاب کے مطالعہ میں مستغرق بادشاہ کے قافلے کے ساتھ اس کے محل میں پہنچ جایا کرتے تھے اور آس پاس کا شور وغل ان کی یکسوئی میں دخیل نہیں ہوا کرتا تھا۔ نہ تو بکری کے ساتھ نحو کا تکرار کرنے والا اخفش موجود ہے اور نہ ہی اِس زمانے میں اپنے بالوں کو چھت کے ساتھ باندھ کر صَرف کا رَٹّا لگانے والا طالب علم، آج کل تو اپنے آپ کو مولوی کہلوانا ہی بڑا مشکل ہے اس کے باوجود اگر چند نوجوان ہمت کرکے مدرسے میں آجاتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ان پر محنت کریں اور ان سے محنت کروائیں۔
جب مدارس کی انتظامیہ نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے اور عوام بھی کھلے دل سے تعاون کرتی ہے اور اپنا مال خرچ کرتی ہے تو پھر نفس کتاب پڑھانے اور سبق کی تقریر سنانے سے یہ ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ طلباءکو یہ کہنا کہ ”آپ اپنے نفع ونقصان کے خود مالک ہیں پڑھیں یا نہ پڑھیں ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے آپ کی مرضی ہے “ ہمارے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے طلباءکو کھلی چھٹی مل جاتی ہے شیطان غالب آجاتاہے اور طلباءکورے کے کورے رہ جاتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مفید ہوگا کہ ”آپ کے گھر والوں نے آپ کو ہمارے پاس امانت رکھا ہے ہم اس امانت میں خیانت نہیں کریں گے آپ پڑھیں یا نہ پڑھیں ہم ضرور پڑھائیں گے مرضی آپ کی ہے چاہیں تو ویسے پڑھیں چاہیں تو ڈنڈے سے پڑھیں“ اگرچہ ڈنڈا استعمال نہ کیا جائے مگر ترہیب میں تو کوئی حرج نہیں۔
تجاویز۱....٭ تکرار کی پابندی
شام کے اوقات میں تکرار کی پابندی ہونی چاہئے تکرار کے اوقات میں ایک استاد کی نگرانی ضرور ہونی چاہئے جو طلباءمیں موجود ہو اگر کوئی طالبعلم کچھ پوچھنا چاہے تو وہ بھی بتائے۔
۲....٭ خاموش مطالعہ
کوئی ایک وقت مقرر کر لیا جائے جس میں خاموش مطالعہ ہو، درجہ ثانیہ سے دورہ حدیث تک کے تمام طلباءمسجد میں صفوں کی صورت میں بیٹھ کر خاموش مطالعہ کریں اس وقت میں باتیں کرنے یا دوسرے طلباءسے کچھ پوچھنے پر پابندی ہونی چاہئے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ
ایسے طلباءجو پورا سال صرف سماعت پر اکتفاءکرنے ہیں، جو دن کو اساتذہ اور رات کو طلباءسے صرف سنتے ہیں ان کا کتاب کے ساتھ تعلق پیدا ہوجائے گا،
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مطالعہ کرنے سے خود اعتمادی پیدا ہوگی،
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ صبح اساتذہ سے سبق صحیح سمجھ آئے گا،
چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنے اندر کتاب سے اخذ کرنے اور مستفید ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
۳....٭شروحات پر پابندی
ابتدائی درجات کے طلباءکو شروحات دیکھنے سے منع کرنا چاہئے کیونکہ مبتدی جب شروحات کا سہارا لیتا ہے تو اس کے اندر جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے، شروحات کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلباءاستاد کا سبق توجہ سے اس لئے نہیں سنتے کہ چلو بعد میں شرح سے دیکھ لیں گے۔ شروحات کا عادی پھر ہمیشہ شروحات کے سہارے ہی جیتا ہے ہاں بڑے درجات کے طلباءاحادیث کی شروحات اور قرآن کی تفاسیر کا ضرور مطالعہ کریں۔
۴....٭ اسباق سننا
طلباءسے سبق باقائدگی سے سنا جائے، چھوٹے درجات کے سب طلباءسے سبق سننا چاہئے البتہ بڑے درجات کے کچھ طلباءسے سبق سننا چاہئے کیونکہ سبق زیادہ اور وقت کم ہوتا ہے، سبق سننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلباءسبق یاد کرنے کا از خود اہتمام کریں گے، جو سبق انہیں سمجھ نہیں آئے گا وہ اسے سمجھنے کےلئے کبھی دوسرے طلباءاور کبھی اساتذہ کے پیچھے بھاگیں گے اس طرح طلباءکا پیریڈ کے علاوہ بھی اساتذہ کے ساتھ رابطہ اور تعلق رہے گا اور جب اتنی محنت اور سعی سے سبق یاد کیا جائے گا تو وہ کبھی نہیں بھولے گا۔
۵....٭ وقت کی پابندی
اہل مدرارس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طلباءکو وقت کا پابند بنائیں اس بات کی بار بار تاکید کی جائے کہ طلباءاستاد کے آنے سے پہلے درسگاہ میں موجود ہوں اور غیر حاضری سے اجتناب کریں۔ غیر حاضری کے معاملے میں ذرا سختی سے کام لینا چاہئے، غیر حاضر طلباءکا مہینے بعد پانچ یا دس روپے وظیفہ کاٹنے کے بجائے ہر روز کلاس میں کھڑا کرکے صرف اتنا پوچھ لینا کہ کل آپ کیوں نہیں آئے ؟ زیادہ مو ¿ثر ہے۔ یہ تمام باتیں طلباءمیںپیدا کرنے کے لئے دو کام کرنے چاہئے:
۱۔ منتظمین عمل در آمد کرانے کے لئے ذرا سختی کریں۔
۲۔ دس منٹ کی تعلیم ( جس کا پہلے تذکرہ ہوا) میں ایسی کتب کی تعلیم کرائی جائے جن سے علم کا شوق پیدا ہوتا ہے مثلاً ”متعلمین کے آداب ، شیخ الحدیث زکریا رحمہ اللہ کی آب بیتی“وغیرہ۔
مسئلہ نمبر3
عربی بول چال
ہمارے مدارس کے نصاب تعلیم میں جو کتب شامل ہیں وہ تمام قدیم عربی زبان میں ہیں جن کو پڑھ کر یقیناً قرآن وحدیث سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن میں جس بات کی نشاندھی کرنے چلا ہوں وہ یہ ہے کہ طلباءآٹھ دس سال تک ان کتب کو پڑھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں لیکن عربی زبان بول نہیں سکتے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا اردگرد کا ماحول ایسا نہیں جس میںعربی زبان بولی جاتی ہو جب کہ گورنمنٹ سکولوں میں اگرچہ مکمل انگلش نصاب تعلیم نہیں ہر کلاس میں صرف ایک یا دو انگلش کتابیں ہیں مگر پھر بھی وہ طلباءکافی حد تک انگلش بول بھی سکتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں کیونکہ عمومی ماحول انگلش بولنے کا بن چکا ہے، اس کے برعکس مدارس کے طلباءمکمل عربی کتب آٹھ دس سال تک پڑھتے ہیں لیکن انہیں عربی صرف کتاب کی حد تک آتی ہے وہ کتاب کا عربی سے اردو ترجمہ تو کرلیتے ہیں مگر اسی بات کو عربی میں بیان نہیں کرسکتے۔ کئی مدارس میں اس طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان مدارس کے طلباءعربی زبان بول بھی لیتے ہیں اور امتحانی پرچہ بھی عربی میں حل کرلیتے ہیں۔ اس معاملے میں جامعة الرشید کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
عربی مدارس کے طلباءکا عربی زبان نہ بول سکنا بہت بڑی کمی اور خجالت ہے اگرچہ عربی بول چال سے ہمارا مقصد کسی کے سامنے اپنی شان بڑھانا نہیں مگر عربی بول چال سے نابلد ہونا بڑی محرومی کا سبب ہے اس لئے اہل مدارس سے ہماری گذارش ہے کہ اس معاملہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔
تجاویز
۱....٭ کم از کم مدارس کی حد تک ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہئے جس میں بتکلف عربی بول چال ہو، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی تعلیم یافتہ افراد صرف ایک سالہ عربی کورس کرنے کے بعد عربی بول چال پر عبور حاصل کرلیتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اساتذہ اور طلباءآپس میں بتکلف عربی بول چال کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک عام شخص مزدوری کی غرض سے سعودی عرب جاتا ہے اور جب ایک دو سال بعد واپس آتا ہے تو نہ صرف عربی بول سکتا ہے بلکہ ہمارے طلباءسے دو چار باتیں کرکے ان کوخاموش بھی کردیتا ہے، ایسے مواقع پر طلباءکو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔
۲....٭ جس طرح سالانہ چھٹیوں میں صَرف نحو اور تفسیر کے دورے ہوتے ہیں اس طرح اہل مدارس کو عربی لینگویج کورس اور دورے کرانا چاہئے۔
۳....٭ مدارس میں ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ طلباءاور اساتذہ آپس میں عربی بول چال کریں کتاب کا ترجمہ اور ضروری تشریح اردو میں ہو اور باقی بات چیت عربی میں ہونی چاہئے۔
۴....٭ مدرسہ کے مہتمم صاحب چھٹی یا بیماری کی درخواست صرف عربی میں لکھی ہوئی قبول کریں۔
۵....٭ مدرسہ کی طرف سے تعطیلات اور دیگر اعلانات وغیرہ جو نوٹس بورڈ پر لگائے جاتے ہیں وہ عربی تحریر میں ہونے چاہیں۔
۶....٭ ہفتہ میں ایک دن مثلاً جمعرات والے دن ہر استاد اپنے سبق میں چار طلباءکو باری باری کھڑا کرکے عربی میں تقریر یا کسی چیز کا تعارف پیش کرنے کا کہے مثلاً اپنے گاو ¿ں یا ملک کا تعارف یا کسی واقعہ کی کارگزاری وغیرہ۔یہ سلسلہ پورا سال ہر ہفتے ہرکلاس میں ہونا چاہئے اس سے خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
مسئلہ نمبر4
جدید اسلوب
کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی سکالر کے پاس یہودی علماءکا ایک وفد آیا ہوا تھا جو کہ ان سے اسلام کے بارے میں سوال وجواب کر رہا تھا اس وفد میں شامل ایک یہودی پروفیسر ڈاکٹر ابراھام ابو رابی جو کہ امریکا میں ھارٹ فورد سیمناری سی ٹی میں اسلامی تعلیمات اور کرسچن مسلم تعلقات کا پروفیسر ہے نے کہا کہ اس وقت امریکا میں لگ بھگ ستر یا اسی لاکھ مسلمان ہیں مگر وہ اسلامی نقطہ نظر انگریزی میں سمجھانے کی صلاحیت یا تو رکھتے ہی نہیں اور اگر کچھ لوگ سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ اسلامی فلسفے اور گہرائی سے ناواقف ہیں، اس یہودی پروفیسر نے کہا نائن الیون کے واقعہ کے بعد یہودی اور عیسائی اسلام کو جاننا چاہتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے اسلامی اداروںسے رابطہ بھی کیا مگر کہیں سے بھی اطمینان بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ہم اسی سلسلے میں آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہام کی یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مسلمان اپنا نقطہ نظر انگریزی میں سمجھانے میں کمزور ہیں اس وقت اس چیز پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ مغربی اقوام اسلام کی طرف لوٹ رہی ہیں جبکہ علماءحق کی طرف سے ان کو صحیح راہنمائی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے وہ بے دین عناصر جو نام کے مسلمان ہیں مغربی اقوام کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اس کام میں دیگر بے دین عناصر کے علاوہ قادیانی سب سے آگے آگے ہیں، لہٰذا اس وقت اہل مدارس اور علماءکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کی ایک کھیپ تیار کریںجو اسلامی علوم میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید اسلوب اور انگریزی بولنے پر عبور رکھتے ہوں تاکہ مغربی اقوام کی صحیح سمت میں راہنمائی کی جاسکے۔ ہمارے طلباءجدید اسلوب سے اتنے نابلد ہیں کہ مغربی اقوام تو دور کی بات اپنے محلے کی عوام سے بھی ہمارا تعلق اسی اسلوب کی وجہ سے ٹوٹا جارہا ہے، کیونکہ عوام کی زبان اور اسلوب تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتا جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں مدارس کے طلبا کی تعداد تقریباً چارسے پانچ لاکھ ہے جبکہ اسکولوں میں صرف پرائمری کے طلباءکی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے، اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ کروڑوں لوگوں کی زبان اور اسلوب جب ہم سمجھ نہیں سکتے تو ان کی راہ نمائی کیسے کریں گے؟ ایک وقت وہ تھا جب ہندوستان کے اسکولوں اور مدرسوں دونوں میں فارسی ذریعہ تعلیم وتدریس تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک کے بادشاہ اور وزراءسے لیکر ایک عام فوجی، سپاہی اورکلرک تک کے اکثر لوگ عالم اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوتے تھے۔
شیخ الحدیث مولانا زاہدالراشدی مدظلہ فرماتے ہیں جب بھٹو کے دور میں تحریک نظام مصطفیٰ چلی میں نے آئی جی(I-G) پنجاب سے کہا کہ تم اسلام کیوں نہیں نافذ کرتے؟ اس آئی جی نے جواب دیا آپ مجھ سے سے اسلام کی توقع رکھتے ہیں؟ میری تو اپنی زندگی میں اسلام نہیں اور نہ اسلام کے بارے میں جانتا ہوں، دوسروں پر اسلام کا نفاذ کیسے کروں گا؟ اگر آپ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں تو میری جگہ پر کوئی ایسا آئی جی لائیں جو اسلام پر چلنے والا اور اسلام جاننے والا ہو پھر دیکھیں خود اسلام نافذ ہوجائے گا۔
بقول ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی:
دینی مدارس نے اسلامی علوم وفنون کے پرانے نظام کو اپنایا اور دنیاوی علوم کے اسکولوں کالجوں اور یونیوسٹیوں نے مغربی علوم وفنون پر توجہ مرکوز کردی ( اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ) ایک دنیا سے نا آشنا بنا اور دوسرا دین سے بے بہرہ ہوگیا۔
اور بقول ڈاکٹر محمد امین:
نصاب کوئی غیر متبدل چیز نہیں، نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا بعد میں لوگوںنے حدیث بھی پڑھنا شروع کردی اگلی صدی میں فقہ بھی شامل ہوگئی اس سے اگلی صدی میں اصول کی تعلیم شروع ہوگئی جب یونانی علوم کا ریلا آیا تو منطق بھی شامل ہوگئی، نصاب کوئی مقدس گائے نہیں ہوتی یہ ہمیشہ زمانے اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے ہاں نصاب کے کچھ اجزاءقرآن وسنت اور عربیہ زبان یقیناً تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن معاف کیجیے فارسی کو کوئی تقدس حاصل نہیں اُس وقت اس کی یقیناً ضروت تھی جب اس کو قومی زبان کی کی حیثیت حاصل تھی یہ اُس وقت معاشرتی زبان تھی اب نہیں اُس وقت جو فارسی نہیں پڑھتا تھا تیل بیچتا تھا یہ اُس وقت ذریعہ اظہار تھی اب فارسی ذریعہ اظہار نہیں۔ نصاب سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے مو ¿ثر اور متبحر علماءتیار کئے جائیں جو معاشرے تک بہترین طریقے سے دین پہنچا سکیں لوگوں کے قول وعمل کو شریعت کے مطابق ڈھال سکیں، اب آپ ہماری موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیںتو کئی خامیاں محسوس ہوںگی، مغرب اور امریکا کے ایجنڈے کو چھوڑیے خود سوچیے کہ کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا کو سمجھیں؟ اگر امام غزالی کی یہ ضرورت تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں اور پھر ”تہافت“ لکھیں تو آج ہماری یہ مجبوری کیوں نہیں کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں اور پھر اس ک تردید کریں؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں تو اس کا رد کیسے کریں گے؟ اس لئے اس وقت ان علوم کا جاننا جو اس وقت دنیا میں مروج ہیں خود ہماری ضرورت ہے جس طرح قدیم زمانے میں یونانی فکر گمراہیوں کا شرچشمہ تھی آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں کا منبع ہے آپ کیسے کہتے ہیں انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ؟ جب تک آپ انگریزی پڑھیں گے نہیں تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟
(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دوروزہ مشاورتی اجتماع سے خطاب ۴دسمبر ۳۰۰۲)
قطع نظر اس کے کہ یہ دونوں قول کس حد تک درست ہیں لیکن قابل غور ضرور ہیں، آج اگر علماءذرائع ابلاغ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان کو ایسے افراد میسر نہیں جو اس کام کو سمجھتے اور موجودہ تقاضوں پر پورا اترتے ہوں اس لئے علماءکو مجبوراً بے ریش اور دین سے نابلد افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
آج مدارس اور سکولوں کے پڑھے ہوئے افراد کے درمیان دیوار کھڑی ہے ، ایک کا منہ اگر شمال کی طرف ہے تو دوسرے کا جنوب کی طرف، دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں یہ اپنی بات ان کو نہیں سمجھا سکتے اور وہ اپنا مسئلہ ان کو نہیں سمجھا سکتے، دونوں کے درمیان یہ خلیج انتہائی خطرناک ہے اس کا تدارک ضروری ہے۔
سکولوں کا پڑھا ہوا نوجوان جب تبلیغ میں وقت لگا کر دین دار بنتا ہے تو وہ جب دین کی بات کرتا ہے اس کے گرد یہ عام لوگ اور نوجوان اکٹھے ہوجاتے ہیں، جبکہ ہمارے طلباءدین کی بات سمجھانے کےلئے لوگوں کو اکٹھا نہیں کرسکتے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے طلباءوہ اردو زبان نہیں بول سکتے جو موجودہ دور میںذریعہ اظہار ہے اور بولی جاتی ہے، ورنہ یہ طلباءاس نوجوان سے زیادہ کامل ہیں اور ان کے پاس قرآن وحدیث کی روشنی بھی ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا ہے اور ابتدائی طور پر میٹرک تک تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے یہ اقدام نہایت خوش آئند ہے۔
جامعة الرشید کراچی نے ایک کلیة الشریعہ قائم کیا ہے جہاں ایسے نوجوانوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے جو نہ صرف گریجویٹ ہوں بلکہ انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہوں۔
ادارہ علوم اسلامیہ اسلام آباد اس سلسلے میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ لہٰذا مدارس کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اس سلسلے میں بھرپور کام کرنا چاہئے۔
مسئلہ نمبر 5
اساتذہ کی تربیت
ہمارے مدارس میں اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے نئے آنے والے اساتذہ طلباءکو مطمئن نہیں کرسکتے، اس کے برعکس جو اساتذہ سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح طلباءکو سبق سمجھا دیتے ہیں اگرچہ کتاب انہیں تھوڑی بہت ہی کیوں نہ آتی ہو۔اسکولوں میں اساتذہ کی تربیت کا باقاعدہ کورس ہوتا ہے اس کے بغیر کوئی استاد بھرتی ہی نہیں ہوسکتا، اس لئے اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پشتو یا سرائیکی وغیرہ بولنے والا استاد ہو جو اردو صحیح نہ بول سکتا ہو وہ جب علم صرف وغیرہ کی کتاب پڑھارہا ہو تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت صورت حال یوں ہوتی ہے
استاد پٹھان، شاگرد پنجابی، کتاب فارسی زبان میں، جو چیز سمجھانا مقصود ہے وہ عربی اور جس زبان میں سمجھایا جارہا ہے وہ اردو۔
جہاں تک ممکن ہو اس کا حل بھی نکالنا چاہئے، چاہے نصاب میں بہتری لاکر یا اساتذہ کی تربیت کرکے۔
بعض تبلیغی مدارس میں تعلیمی سال کے نام سے ایک سالہ تربیتی کورس کرایا جاتا ہے جس میں نئے آنے والے مدرس کو قدیم مدرسین کے ساتھ بٹھا کر طریقہ تدریس سکھایا جاتا ہے، لہٰذا وفاق المدارس کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
مسئلہ نمبر6
فقہی مسائل پر ایک نئی کتاب کی ضرورت
مدارس میں جو فقہ کی کتب پڑھائی جاتیں ہیں وہ بہت ہی اہم اور مناسب ہیں، ان کتب میں مسائل کے اندر جو دوسرے ائمہ کے ساتھ اختلافات ہیں وہ بھی پڑھائے جاتے ہیں اس کے علاوہ ایک مسئلے میں کئی کئی اقوال کا ذکر بھی ہوتا ہے، چونکہ آج کل طلباءمیں وہ پہلے والی صلاحیت نہیں ہے اس لئے طلباءاصل مسئلہ اور اصل بات جو بتائی جارہی ہو بھول جاتے ہیں لہٰذا نصاب میں ایک ایسی کتاب ہونی چاہئے جس میں صرف مفتیٰ بہ مسائل مذکور ہوں۔
داخل نصاب کتابیں چونکہ کئی صدیاں قبل لکھی گئیں تھیں اور اب زمانے میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں بہت سے جدید مسائل بھی پیدا ہوچکے ہیں اور کئی چیزوں میں عُرف عام بھی تبدیل ہو چکا ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ فقہ کی ایک جدید کتاب تالیف کی جائے جس میں جدید مسائل بھی مذکور ہوں اور قدیم وجدید مسائل کی مثالیں بھی موجودہ چیزوں پر ہوں مثلاً جہاز، ریل گاڑی، بسیں،ٹی وی، کمپیوٹر، بنک، اخبارات، مزائل، ٹینک وغیرہ۔ کیونکہ تیر، تلوار، نیزہ، خود، اونٹ، گھوڑا اور دیگر کئی چیزوں کا استعمال بلکہ وجود آج نہیں ہے۔ آج پوری کلاس میں اگر طلباءسے یہ سوال کیا جائے کہ کسی نے تیر یا تلوار کو تصویر کے علاوہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا ہاتھ میں لیا ہے یا گھوڑے ،اونٹ پر لمبا سفر کیا ہے تو یقیناً منفی جواب آئے گا۔
پہلے قصر نماز کےلئے مسافت سفر دنوں میں بیان ہوتی تھی پھر میلوں میں اور اب کلومیڑوں میں بیان کی جاتی ہے اسی طرح اگر تمام مسائل میں وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی اصطلاحات کو بیان کیا جائے اور ان تمام اصطلاحات انچ،فٹ،گز،میٹر،کلومیٹر، میل، سکوائرمیل، کلو، سیر، پونڈ وغیرہ وغیرہ کو باقاعدہ مرتب کرکے نصاب میں پڑھایا جائے تو بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے۔
جس طرح ہمارے اکابر نے وقت کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے فارسی میں کتابیں تحریر کرکے ان کو نصاب میں شامل کیا اسی طرح آج فقہ کی ایک آدھ کتاب اردو میں تحریر کرکے باقاعدہ سبقاًسبقاً پڑھائی جائے۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے شاید ایک صدی قبل اردو میں فقہ کی کتابیں(بہشی زیور،بہشتی گوہر) تحریر کیں لیکن ان کی زبان میں فارسی اور ہندی کی ملاوٹ ہے اب جو زبان بولی جاتی ہے اس میں انگریزی کی ملاوٹ ہے، لہٰذا موجودہ دور کی اردو زبان میں فقہ کی ایک کتاب ہونی چاہئے۔
مسئلہ نمبر7
تحریر کی مشق
موجودہ دور میں صحافت اور ذرائع ابلاغ کی بڑی اہمیت ہے، دنیا کے بڑے بڑے اخبارات جو لاکھون کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ان پر کفار خاص طور پر یہودی لابی کا قبضہ ہے اسلامی ممالک میں جو اخبارات ہیں ان پر بے دین عناصر قابض ہیں جبکہ علماءنے اس میدان کو خالی چھوڑا ہوا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تحریر کا ملکہ حاصل نہیں۔
چند سال قبل جب کفار نے طالبان، مجاہدین اور علماءومدارس کے خلاف اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا ہوا تھا اس وقت میں اور چند دیگرطلباءایک اخبار کے کالم نویس کا کالم ہر روز پڑھا کرتے تھے جو اسلام، علمائ، مدارس اور مجاہدین اسلام کے خلاف اس موقع کو غنیمت جان کر شعلے برسارہا تھا اور امریکا سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر حقیقت کو جھٹلا رہا تھا، ہم اس کے کالم ہر روز اخبار میں پڑھتے اور ان پر تبصرہ کرتے بلکہ ان کے جوابات بھی آپس میں دھراتے لیکن ان جوابات کو تحریری کی شکل میں نہیں ڈھال سکتے تھے، اس کے کالم پڑھ کر ہمارا خون تو خشک ہوگیا مگر ہماری قلم حرکت میں نہ آئی کیونکہ ہمیں تحریر کا ملکہ نہیں تھا ورنہ ہماری تحریر بھی ضرور اس اخبار میں شائع ہوتی۔ اس لئے اہل مدارس کو چاہئے کہ وہ طلباءکو تحریر کی خوب مشق کرائیں۔
میدان صحافت بہت وسیع ہے ، جہاں ہزاروں اخبارات،سینکڑوں ٹی وی چینلز،ریڈیو اور لکھاری ومداری ہوں وہاں اکیلا روزنامہ اسلام کیا کر سکتا ہے لیکن پھر بھی اس تاریکی میں یہ روشنی کی ایک کرن ہے۔اسی طرح جامعة الرشید نے صحافت کورس شروع کرکے ایک بہتری مثال قائم کی ہے ، کم از کم کراچی کی حد تک تو مدارس کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں کام کا آغاز کریں کیونکہ باقی ملک کے مدارس کے مقابلے اللہ تعالیٰ نے کراچی والوں کو زیادہ وسائل دیئے ہیں۔میرے ناقص خیال میں عمارتوں پر محنت کرنے کے بجائے افراد پر محنت کی جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔
تجاویز
۱....٭ سب سے پہلے تحریر کا شوق پیدا کیا جائے اور اس کی افادیت کو اجاگر کیا جائے۔
۲....٭ طلباءمیں لکھنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے کہ وہ روزانہ کے اسباق لکھا کریں کیونکہ جو طلباءلکھتے نہیں بعد میں ان کو لکھنے سے اکتاہٹ ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ لکھنے سے بالکل معذور ہوجاتے ہیں اور خط کا مضمون بنانا بھی نہیں آتا۔ میں نے ایسے کئی طلباءکو دیکھا جو میٹرک پاس ہیں اور مدرسہ کے بڑے درجات میں پڑھتے ہیں لیکن چھٹی کی درخواست تک دوسرے طلباءسے لکھواتے ہیں۔ اب جس طالبعلم کو چار سطروں کی درخواست لکھنے سے اتنی اکتاہٹ ہوتی ہو وہ کیا کارنامہ انجام دیگا۔
۳....٭ طلباءکو مختلف موضوعات دیئے جائیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کریں اور پھر اپنی تحقیق کو تحریری صورت میں پیش کریں اس طرح طلباءکا مطالعہ بھی وسیع ہوگا اور تحریر کی مشق بھی ہوگی، لیکن اس کام کے لئے ان کو وقت زیادہ دیا جائے تاکہ ان کی پڑھائی متاثر نہ ہواور وہ اس کام کو پوری دلجمعی سے کریں۔
۴....٭ وقتاً فوقتاً بین المدارس مقابلے کرانے کا اہتمام کیا جائے جس میں طلباءسالانہ امتحان کی طرح ایک جگہ بیٹھ کر مقررہ وقت میں اپنی تحریر پیش کریں، طلباءکی حوصلہ افزائی کے لئے ان کو انعام بھی دیا جائے۔
روزنامہ اسلام 2004ئ (سید شیرازی اسلام آباد)
No comments:
Post a Comment