حمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الہ الکریم۔اما بعد:
قال اللّٰہ تعالیٰ وَعاَشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔وقال النبی ﷺ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْراً
(۱) میاں کے تعلقات کی اہمیت:قال اللّٰہ تعالیٰ وَعاَشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔وقال النبی ﷺ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْراً
اسلام نے جو معاشرتی نظام قائم کیا ہے اس کی بنیادآپسی بھائی چارہ میل جول اور باہمی محبت والفت پر ہے اور معاشرتی نظام میں بنیادی اہمیت زوجین یعنی میاں بیوی کے تعلقات پر ہے ۔میاں بیوی کے تعلقات کی درستگی ہی کے باعث کوئی بھی معاشرہ مضبوط ومستحکم رہ سکتا ہے ۔ غرض مرد وعورت کے تعلقات کی بہتری کسی معاشرے کی صحت کی علامت اور اس کی ترقی کیلئے بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور جس معاشرہ میں ان دونوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو وہ معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتا بلکہ بہت جلد زوال وادبار کا شکار ہو کر بکھر جاتا ہے ۔اور اسلامی نقطہ نظر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ چنانچہ بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات میں اگر بگاڑ پیدا ہو جائے تو اس کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی شیطان کو ہوتی ہے جو اس تاک میں رہتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے کارندوں ( چیلوں) کو بھیجتا ہے ( تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں ) تو ان میں سب سے زیادہ مقرب کارندہ وہ ہوگا جو سب سے زیادہ فتنہ گر ہو چنانچہ جب کو ئی کا رندہ ( چیلہ ) آکر اسے یہ رپوٹ دیتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں کام کیا ہے تو کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا ۔ پھر اُن میں سے کوئی ایک کارندہ آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر دی ہے تو وہ اسے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو بہت اچھا ہے یعنی تو نے واقعی کچھ کام کیا ہے اور بعض حدیثوں میں مذکور ہے ـ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمْرَأۃً عَلٰی زَوْجِھَا ۔ رواہ مسلم کتاب صٖفات المنافقین ۴؍۲۱۶۷مطبوعہ ریاض۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جس شخص نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف اکسا کر بگاڑ پیدا کردیا تو وہ ہمار آدمی نہیں ہے ا س اعتبار سے جو شخص کسی عورت کو بھڑ کا کر میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈالتا ہے یا تفریق پیدا کرتا ہے یا جھگڑا کھڑا کر دیتا ہے تو وہ حدیث بالا کی رو سے شیطان کا ایجنٹ ہے ۔نیز اس حدیث سے ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہو تی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں عورتیں بہت جلد بد گمان ہو جاتی ہیں اور بد گمانی میں مبتلا ہو کر اپنے شوہر کے بارے میںبری رائے قائم کر لیتی ہیں اور شکوک وشبہات میں مبتلا ہو کر آمادہ جنگ ہو جاتی ہیں ۔
٭ حسن معاشرت کے چند اصول :
میاں بیوی کے تعلقات کی درستی کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اور اس کے استحکام کیلئے ایک بنیادی اور اساسی اہمیت کی چیز ہے ۔ ظاہر ہے کہ میاں بیوی کے میل ملاپ اور ان کے اتحاد واتفاق ہی کی بدولت ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑتی ہے اور مختلف خاندان کا مجموعہ ہی معاشرہ یا سماج یا سوسائٹی کہلاتا ہے لہذا جن خاندانوں میں باہمی جھگڑے پائے جاتے ہیں یا جن میں اتحاد ویگانگت موجود نہ ہو ۔ یا جن میں میاں بیوی کے درمیان تفرقہ اور انتشار پیدا ہو چکا ہو وہ معاشرہ اور سماج حد درجہ کھوکھلا ہو گا اور بہت جلد زوال واد بار کا شکار ہو جائے گا اس اعتبار سے میاں بیوی کے درمیان محبت والفت اور باہمی ہم آہنگی پیدا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ دونوں مل کر اپنے حقوق وفرائض بخوبی ادا کر سکیں اور اپنی اولاد کی بھی صحیح تر بیت کر سکیں ۔ جن کے نازک کندھوں پر اگلے خاندانوں کو سنبھالنے اور انہیںقائم رکھنے کا بار بوجھ رکھا جائے گا ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں بیوی کے درمیان کبھی کوئی اختلاف پیدا ہی نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ اختلاف ضرور پیدا ہوں گے اور زندگی کے مختلف موڑوں پر ان میں اتار چڑھاؤ بھی آئے گا ۔ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ شکایتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں اور ایسا ہونا ایک فطری بات ہے کیونکہ زندگی ہمیشہ یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں اس لئے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کو بر داشت کرنے اور جہاں تک ہو سکے آپسی اختلافات کو کم سے کم کرنے کی کو شش کرتے رہنا چاہئے اس کے بغیر گاڑی چل نہیں سکتی ۔
قرآن وحدیث میں زوجین کے درمیان حسن معاشرت کے سلسلے میں چند قیمتی اور پیارے اصول بیان کئے گئے ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو خاندانی نظام مضبوط ومستحکم ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں (۱) پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ زوجین یعنی میاں بیوی کے درمیان آپس میں محبت ومروت کا تعلق اس طرح قائم ہو جائے گویا کہ دونوں ایک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہوں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَ مِنْ اٰ یٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَۃً وَّرَحْمَۃً ( سورہ روم :۲۱ ) ترجمہ: اور اس کی ( ربوبیت کی ) نشانیوں میں سے ہے یہ بات کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان کے ذریعہ راحت حاصل کر سکو اور اس نے تمہارے درمیان محبت ومہر بانی پیدا کر دی ہے ۔
چنانچہ زوجین میں جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت ومہربانی کا تعلق پیدا نہ ہو اور ان دونوں کے درمیان خلوص اور ایثار کے جذبات نہ پائے جاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو لوٹنے یا محض وقتی اور عارضی اغراض کے تحت محض جنسی لذت حاصل کر نا مقصود ہو (جیسا کہ آ ج کل مغربی ممالک میں اس کا رواج چل پڑا ہے ) یا وہ محض ایک تجارتی بندھن ہو ( جیسا کہ موجودہ ہندستا نی معاشرہ اس کی تصویر پیش کر ر ہا ہے ) تو ایسے تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ وہ کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں ۔
٭(۲) کسی کی خامی نہیں خوبی دیکھو!
اور اس سلسلے میں دوسرا صول یہ ہے کہ مرد وعورت دونوں اختلافِ مزاج کے باعث ایک دوسرے کو برداشت کر نے کی عادت ڈالیں ۔ چنانچہ اس بارے میں مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت پر ابھارتے ہوئے ارشاد باری ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہو ئے تعلقات کو نبھا نے کی کو شش کریں ۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اگر کسی عورت میں کوئی خامی مو جود ہو تو اس میں کو ئی خوبی بھی ہو سکتی ہے ۔ وَعاَشِرُوْھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِ ھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَئْیًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہٖ خَیْراً کَثِیْراً ( سورہ نساء آیت ۱۹) ترجمہ: تم عورتوں کے ساتھ اچھی زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ چھوڑی ہو ۔اس اصول کی تشریح وتفصیل حدیث نبوی میں اس طرح آئی ہے لَایَغْرِکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمَنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْھَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْھَا آخَرُ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ مومن شخص کسی مومن عورت سے بالکلیہ بغض نہ رکھے اگر وہ اس کی کسی ایک عادت کو نا پسند کر تا ہو تو اس کی کسی دوسری عادت سے راضی ہو گا ۔مسلم کتاب الرضاع ۲؍ ۱۰۹۱۔یہ بات جس طرح عورت پر صادق آتی ہے اسی طرح مرد پر بھی صادق آسکتی ہے ۔ یعنی کسی مرد میں اگر کوئی خامی ہو تو اس میں کچھ خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ لہٰذا زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے ضروری ہے کہ میاں بیوی جہاں تک ہو سکے ایک دوسر ے کو بر داشت کرتے رہیں اور کوئی غیر دانشمندانہ اقدام کرنے سے احتراز کریں ۔
٭زوجین کے درمیان صلح وصفائی:
اس سلسلے میں تیسرا اصول یہ ہے کہ میاں بیوی کی زندگی ہمیشہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ اس میں مختلف موڑوں پر نشیب وفراز آتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر جہاں تک ہو سکے دونوں کو ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہو ئے آپس ہی میں سمجھوتہ کر لینا چاہئے اور دونوں کو خدا سے ڈرتے ہوئے اور اس کے حدود کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق خلوص اور باہمی خیر خواہی کے ساتھ ادا کرتے رہنا چاہئے ۔ جیساکہ اس سلسلے میں ارشاد باری ہے وَاِنِ مْرأ ۃٍ خَافَتْ مِنْ بَعْلھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَنْ یُّصْلِحَابَیْنِھَمَا صُلْحًا الخ۔ اور اگرکسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی اور بے اعتنائی کا اندیشہ ہو تو میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح کر لینا اچھی بات ہے طبیعتوں میں ( تھوڑا بہت ) بخل تو ہوتا ہی ہے ( لہٰذا) اگر تم اچھا برتاؤ اور احتیاط کرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی پوری خبر ہے ( سنا:۱؍ ۱۲۸
اس آیت میں مردوں کی زیادتی کی طرف اشارہ ہے اس کے بر عکس اگر زیادتی یا سر کشی عورتوں کی طرف سے ہو ( یعنی با وجود ان کی خاطر مدارات کے ) تو اس صورت میں ان کی تادیب کے حسب ذیل تین طریقے بتائے گئے ہیں ۔
(۱) اول یہ کہ ان کو نرمی اور ملائمت کے ساتھ سمجھایا جائے اور انہیں زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں نا فرمانی سے باز آنے کی تلقین کی جائے ۔ (۲) اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو ان پر نا راضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بستر علیحدہ کر دیئے جا ئیں ،بستر چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ گھر سے باہر چلے جاؤ بلکہ گھر کے اندر ہی رہو، بلکہ تادیب کیلئے کمرہ بدل دو یا بستر بدل دو مگر بالکل بات چیت ختم نہ کرو اس حدیث سے مختلف فقہاء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ مرد کو چار ماہ سے زیادہ باہر جانا بلا عورت کی اجازت کے جائز نہیں۔
(۳) لیکن اگر وہ پھر بھی سیدھی نہ ہوں تو آخری چارہ کار کے طور پر انہیں ہلکی مار دی جائے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْاھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعَ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًْاکَبِیْراً۔اور جن بیبیوں سے تمہیں نافر مانی ( اور سر چڑھنے ) کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤاور (اگر وہ اپنی ہٹ پر قائم رہیں تو) ان کے بستر الگ کردو (اور اگر وہ اس پر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو ان پر (ناحق) الزام لگانے کی کو شش نہ کرو بے شک اللہ (سب کے ) اوپر اور (بہت ) بڑا ہے (لہٰذا) اگر تم زیادتی کروگے تو وہ تم کو سزا دے گا ( سورہ نساٗ : ۳۴)
لیکن یاد رہے کہ عورتوں کو مارنے کا مطلب بے تحاشا پیٹنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اس کی شرح خود حدیث نبوی میں آئی ہے انہیں بطور تادیب ہلکی سی مار مارنا ہے تا کہ وہ نافر مانی سے باز آجائیں ۔اس کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے امت کو جوآخری نصیحت فر مائی کہ ـ وَاضْرِبُوْاھُنَّ ضَرْبًاغَیْرَمَبْرَحٍ یعنی اول تو مار کا مر حلہ آنا ہی نہ چاہئے اور اگر آئے بھی تو اس صورت کو صرف اس وقت استعمال کیا جائے جب اس کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہ رہے اور اس میں یہ قید لگادی کہ وہ مار تکلیف دینے والی نہ ہو یعنی اس مار سے تکلیف دینا مقصود نہ ہو بلکہ تادیب اور اصلاح مقصود ہو ،الٹے تکلیف دینے والی ایسی مار جائز نہیں کہ نشان پڑ جائے ۔اس کے متعلق ایک خطبہ میں منجملہ اور باتوں کے یہ بات بھی ارشاد فر مائی کہ آپ نے فر مایا یہ بری بات ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جیسے آقا غلام کو مارتا ہے اور دوسری طرف اسی سے اپنی جنسی خواہش بھی پوری کرتا ہے (صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر ۵۲۰۴)یہ کتنی بد اخلاقی اور بے غیرتی کی بات ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو اس طرح مارے جیسے آقا اپنے غلام کو مارتا ہے آپ ﷺ نے کبھی زندگی میں کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھا یا یہی آپ کا طریقہ ہے اور مارنے کی جو اجازت ہے وہ نا گزیر حالات کے اندر ہے بلکہ آپ کی سنت تو یہ ہے آپ کے چہرے پر تبسم ہوتا تھا ۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایاکہ مسلمانو! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت میں لے رکھا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمہ ( نکاح کے بول ) کے ذریعہ حلال کر لیاہے تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے آدمی کو نہ بٹھائیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہواور اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں ( بطور سزا) ہلکی مار مارو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف طریقہ سے ان کے کھانے کپڑے کا بوجھ اٹھاؤ ( مسلم کتاب الحج ۲؍ ۸۹۰)
(۶) نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث میں عورتوںکو اپنے شوہروں کے بستروں پر نا پسندیدہ لوگوں کو بٹھانے سے جو منع کیا گیا ہے ان میں اجنبی مرد اور وعرتیں اور بیوی کے محرم رشتہ دار بھی شامل ہیں ۔ جن کا گھر میں داخل ہونا اور بیٹھنا شوہروں کی نظر میں نا پسندیدہ ہو۔ اور فقہاء کے نزدیک بیوی کو ایسے تمام لوگوںکو اپنے شوہر کے گھر میں داخل ہو نے کی اجازت دینا جائز نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں گمان ہو کہ ان کا داخلہ شوہر کی نظر میں نا پسندیدہ نہیں ہے ۔ نیز یہ مرد کو حکم ہے کہ عورت کے چہرے پرنہ مارے حدیث میں ہے لَاتَضْرِبُ الْوَجْہِ ۔ کہ عورت کے چہرے پر نہ مارو( ابو داؤد کتاب ا لنکاح ۲؍۲۰۶)
لیکن اگر ان تمام کو ششوں کے باوجود بھی زوجین کے درمیان سمجھوتہ نہ ہو سکے بلکہ آپسی اختلافات بر قرار رہیں تو پھر اس صورت میں مرد عورت دونوں کی جانب سے ایک ایک پنچ یا ثالث کو بٹھا کر تصفیہ کر نے کی کوشش کرنا چاہئے جیساکہ اس سلسلے میں ارشاد باری ہے ۔ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَافَابْعَثُوْاحَکَمًامِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًامِّنْ اَھْلِھَااِنْ یُّرِیْدَااِصْلَاحًایُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھْمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًاخَبِیْراً ۔ اور اگر تم کو میاں بیوی کی باہمی کھٹ پٹ کا اندیشہ ہو تو ایک منصف شخص کو مرد کی طرف سے اور ایک منصف شخص عورت کی طرف سے مقرر کرو۔ اگر یہ صلح کرانا چاہیں تو اللہ میاں بیوی کے درمیان ملاپ کرا دے گا یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا بہت باخبر ہے (نساء :۳۵)
اگر خدا نخواستہ اس کے بعد بھی مصالحت نہ ہو سکے تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر طلاق ہو سکتی ہے لیکن طلاق دینے سے پہلے یہ ساری کو ششیں ضرور ہو نی چاہیں یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر طلاق داغ ڈالی ۔ طلاق تو مرض کا آخری علاج ہے جب کوئی دوسری دوا کار گر نہ رہ جائے ۔اس بحث سے شریعت کا مزاج اور اس کی حکمت عملی بھی واضح ہو گئی کہ وہ ہر حال میں حسَ معاشرت پر زور دیتی ہے اور حقوق العباد کے سلسلے میں ایک دوسرے کی رعایت کرنے کی تاکید کرتی ہے اور یہ اسلام کے نظام معاشرت کے پیش بہا اصول ہیں جو پورے انسانی معاشرے کے لئے قابل تقلید ہیں۔اگر ان اصولوں پر صحیح معنیٰ میں اور پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام معاشرتی اور سماجی جھگڑے فسادات دور ہو سکتے ہیں اور پورا انسانی معاشرہ امن وامان اور چین وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ضرورت ہے کہ اسلامی اصولوں کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور پھر اس پر پورے خلوص کے ساتھ عمل کیا جائے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے مسلمان اپنی شریعت ،اپنے قانون پر پوری طرح عمل پیرا ہو جائیں تاکہ وہ دوسروں کیلئے اچھا نمونہ بن سکیں کیونکہ کسی دین کے اصول اچھے ہونے کے با وجود وہ صرف کتابوںمیں بند ہوں اور عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہ ہو تو پھر ایسے قیمتی اصولوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لوگ پہلے کسی قوم کے عمل وکردار کو دیکھتے ہیں اور اس کے بعد کسی اور کی طرف نظر ڈالتے ہیں اگر کسی قوم کا عمل صحیح نہ ہو تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس قوم کا دین ہی صحیح نہیں ہے ۔ اب ہم میاں بیوی کے حقوق وفرائض کو بیان کرتے ہیں ۔
٭مرد کے فرائض اور بیوی کے حقوق:
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ میں فضیلت ضرور عطا کی ہے ۔ مگر جس طرح مردوں کے حقوق ہیںاسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں جن کی ادائیگی مردوں پر واجب قرار دی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃًاورعورتوں کے بھی معروف طریقے سے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر عائد ہو تے ہیں ۔لیکن مرووں کو ان پر ایک درجہ فضیلت ہے (سور بقرہ آیت ۲۲۸)
مگر اکثر مرد اپنی مردانگی کے غرور میں یعنی اپنے آپ کو برتر اور عورتوں کو کمتر سمجھتے ہوئے ان کے حقوق غصب کر لیتے ہیں اور ان کا کوئی حق تسلیم کر نے سے انکار کرتے ہوئے من مانی کر نے لگ جاتے ہیں یہ شرعی اور اخلاقی نقطہٗ نظر سے ایک معیوب اور بری بات ہے جس طرح عورت اپنے فرائض اور واجبات ادا کر نے کی ذمہ دار ہے بالکل اسی طرح مرد بھی اپنے فرائض واجبات ادا کر نے کا ذمہ دار ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر شخص کو ذمہ دار بنا کر پیدا کیا ہے یہاں پر کوئی بھی شخص اپنی ذمہ داری سے آزاد نہیں ہے ۔اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کُلُّکُمْ رَعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَّ عِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَا ع ٍعَلیٰ اَہْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُولٌعَنْ رَّعِیَّتِہٖ ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اسکی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا اور آدمی بھی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اسکی ذمہ داری کے بارے میں پو چھا جائے گا کہ بیوی بچے جو تمہارے ماتحت تھے ان کا کیا حق ادا کیا ۔
٭کامل ایمان والا کون ہے؟:
اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت وفر ماں برداری ایمان کا تقاضا ہے اور ایمان کی علامت اور اس کی کسوٹی اچھے عادات واطوار ہیں جو حسن معاشرت کے طالب ہیں اور حسن معاشرت کا اولین اور پہلا زینہ بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے اس اعتبار سے جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا وہ اخلاق وکرادار کے لحاظ سے اچھا شخص نہیں ہو سکتا اور جو شخص اخلاق وکردار میں ناقص وناکارہ ہو وہ درجہ ایمان ہی میں ناقص وکمزور ہوگا گویا کہ اس کے سینے میں ایمان کی حرارت سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔یہی وہ حقیقت ِعظمیٰ ہے جو اس حدیث نبوی میں بیان کی گئی ہے اَکْمَلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًااَحْسَنُھُمْ خُلُقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِھِمْ خُلُقًا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ایمان کے اعتبار سے کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ سلوک کر نے والے ہوں ( تر مذی کتاب الرضاع ص ۴۲۶جلد ۳)
اللہ رب العزت کا ارشاد پہلے گزر چکا ہے جس میں عورتوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا گیا ہے وَعَاشِرُوْھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ ۔ کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو اس میں تمام مسلمانوں سے خطاب ہے کہ تم خواتین کے ساتھ معروف یعنی نیکی کے ساتھ اچھا سلوک کر کے زندگی گزارو اور ان کے ساتھ اچھی معاشرت برتو ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ یہ عام ہدایت ہے اور حضور ﷺ نے اس آیت کی تشریح اپنے اقوال وافعال سے فر مائی ۔ جب تک اسلام نہیں آیا تھا اور جب تک آپ کی تعلیمات نہیں آئی تھیں اس وقت تک عورت کو ایسی مخلوق سمجھا جاتا تھا جو معاذ اللہ گویا انسانیت سے خارج ہے اور اس کے ساتھ بھیڑ بکریوںجیسا سلوک ہوتا تھا ۔اس کوا نسانیت کے حقوق لوگ دینے سے انکار کرتے تھے ۔حضور ﷺ نے پہلی بار اس دنیا کو جو آسمانی ہدایت سے بے خبر تھی خواتین کے حقوق کا احساس دلایا آپ ﷺ نے فر مایا خِیَارُکُمْ خِیَارْکُمْ لِنِسَائِھِمْ وَاَنَا خِیَارُکُمْ لِنِّسَائِیْ ۔ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جوا پنی خواتین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور میں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے ولا ہوں ( ترمذی ماجاء فی المرأۃ علیٰ زوجھا حدیث نمبر ۱۱۷۲)صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا اِسْتَوْصُوْا بِا لِنّسَائِ خَیْراً ۔ کہ میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں تم میری اس نصیحت کو قبول کر لو۔ اس سے پہلی حدیث میں حضور ﷺ نے اپنی زندگی کو مثال بنا کر پیش کیا کہ کسی بندے کی اچھائی کا پتہ لگانا ہو تو اس کے دوستوں سے نہ پو چھیں پو چھنا ہو تو اس کی بیوی سے ذرا پو چھیں کہ یہ کیسا انسان ہے اگر بیوی کہے اس کی معاشرت اچھی ہے تو وہ اچھا انسان ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ( ترمذی کتاب الرضاع جلد ۳ ص ۴۶۶)
٭ گھر یلو زندگی پورے تمدن کی بنیاد:
مرد وعورت کے جو تعلقات ہیں اور انسان کی جو گھریلو زندگی ہے وہ پورے تمدن کی بنیاد ہوتی ہے اور اس پر پورے معاشرے اور سماج کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اگر مرد وعورت کے تعلقات ٹھیک ہیں ، خوشگوار ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرہے ہیں تو اس سے گھر کا نظام درست ہوتا ہے اولاد درست ہوتی ہے اور اولاد کے درست ہو نے سے معاشرہ سدھر تا ہے اس پر پو رے معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے لیکن اگر گھر کا نظام خراب ہو اور میاں بیوی کے درمیان رات دن تو تو میں میں ہوتی ہو تو اس سے اولاد پر برُا اثر پڑیگا اور اس کے نتیجہ میں جو قوم تیار ہو گی اس کے بارے میں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی شائستہ قوم کے افراد بن سکتے ہیں یا نہیں ۔ اور یادرکھیںکہ دو باتیں بڑی عام ہیں ایک یہ کہ عورت کی زبان قابو میں نہیں رہتی دوسرے مرد کے ہاتھ قابو میں نہیں رہتے جب تک ایک دوسرے کے حقوق نہ جانیں گے ۔اسی طرح کے جگڑے کھڑے ہوں گے ۔اس لئے تفصیل سے ان کے حقوق کو بیان کیا گیا۔
٭خوشگوار زندگی گزارنے کا ایک گُر:
اللہ تعالیٰ نے عورت کی تخلیق اپنی ابدی حکمت ومصلحت کی بنا پر کچھ اس انداز میں کی ہے کہ اس کی فطرت وطبیعت میں تھوڑی سی کجی یعنی ٹیڑھا پن بھی رکھ دیا ہے جسے برداشت کر نے کی مرد کو تاکید کی گئی ہے اور عورت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ حدیث نبوی میں صراحت مو جود ہے کہ عورت کا ٹیڑھا پن کبھی درست نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی اسے درست کرنا چاہے گا تو اس کا نتیجہ دونوں کے درمیان جدائی یعنی طلاق کی صورت میں ظاہر ہو گا لہٰذا دانش مندی کا تقاضاہ یہ ہے کہ عورت کی اس فطرت اوراس کی نفسیات کے پیش نظر عورت کا استعمال بڑی ہو شیاری سے کیا جائے اس طرح جو مرد عورت کی نفسیات کو پہچان کر اسے ہینڈل کر نے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ ایک خوشگوار اور کا میاب زندگی گزار سکیں گے ۔
دیکھے حدیث نبوی میں فطرت انسانی کے ان رازوں سے پردہ کس طرح اٹھایا گیا جو اس بات میں حکمت ودانش کے پیش بہا موتیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اِسْتَوْصُوْا بِا لِنّسَائِ فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَاِنَّ اَعْوَجَ شَئْیٌ فِی الضِّلَعِ اَعْلَاہُ فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمَہَ کَسَرْتَہُ وَاِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجٌ فَا سْتَوْاصُوْابِالِنّسَائِ ۔حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی ( کی ہڈی) میں زیا دہ ٹیڑھا پن اس کے اوپری حصہ میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو اسے توڑ دوگے اور اگر اس ٹیڑھے پن کو رہنے دوگے تو وہ بر قرار رہے گا لہٰذا تم عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ ( بخاری کتاب الانبیاء ، مسلم کتاب الرضاع ۲؍ ۱۰۹۱)ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ عورت پسلی کی ہڈی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو تم توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تمہیں اس کے ٹیڑھا پن کو برداشت کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا( بخاری کتاب النکاح ۶؍ ۱۲۵)
٭ خوبی دیکھو:
ایک حدیث میں حضور ﷺ نے فر مایا کہ عورت پسلی کی ہڈی سے پیدا کی گئی ہے وہ تمہارے لئے کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی ۔ لہٰذا تم اگر اس سے لطف اندوز ہونا چاہو تو تمہیں اس کے ٹیڑھے پن کو برداشت کرنا پڑے گا اور اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو اسے توڑ دوگے اور اس کا توڑنا طلاق ہوگا ( صحیح مسلم کتاب الرضاع ۲؍۱۰۹۱)حافظ ابن حجر ؒ نے تحریر کیا ہے کہ پسلی کی ہڈی میں زیادہ ٹیڑھا پن اس کے اوپری حصہ میں ہوتا ہے اس سے مراد( ایک قول کے مطابق ) دراصل عورت کی زبان درازی کی طرف اشارہ ہے جو ایک ضرب المثل ہے ان احادیث میں حضور ﷺ نے عورت کے مزاج کے متعلق بڑی اچھی تشبیہ بیان فر مائی ہے اور ایسی عجیب وغریب اورحکیمانہ تشبیہ ہے کہ ایسی تشبیہ ملنا مشکل ہے ۔ یہ جوفر مایا کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔بعض لوگوں نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا فر مایا اس کے بعد حوا علیھا السلام کو انہی کی پسلی سے پیدا کیا ۔
اور بعض علماء نے اس کی دوسری تشریح یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ عورت کی تشبیہ دیتے ہوئے فر مارہے ہیں کہ عورت کی مثال پسلی کی سی ہے کہ جس طرح پسلی دیکھنے میں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے لیکن پسلی کا حسن اور صحت ٹیڑھا ہونے ہی میں ہے چنانچہ کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ اس پسلی کو سیدھا کردںو تو جب اسے سیدھا کرنا چاہے گا تو وہ سیدھی نہیں ہوگی البتہ ٹوٹ جائیگی پھر وہ پسلی نہیں رہے گی اب دوبارہ اس کو ٹیڑھا کر کے پلستر کے ذریعہ جوڑنا ہوگا اس طرح حدیث شریف میں عورت کے بارے میں یہی فرمایا اِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُھَا کَسَرْتَھاَ اگر اس پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ پسلی ٹوٹ جائیگی وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اِسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیھَا عِوَجٌ اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو گے تو اس کے ٹیڑھے ہونے کے باوجود فائدہ اٹھاؤگے یہ عجیب وغریب وحکیمانہ تشبیہ حضور اقدس ﷺ نے بیان فر مائی کہ اس کی صحت ہی اس کے ٹیڑھے ہونے میں ہے اگر وہ سیدھی ہوگی تو وہ بیمار ہے صحیح نہیں ہے ( اصلاحی خطبات )
٭یہ عورت کی مذمت کی بات نہیں ہے :
بعض لوگ اس تشبیہ کو عورت کی مذمت میں استعمال کرتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے لہٰذا اسکی اصل ٹیڑھی ہے چنانچہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عورت ٹیڑھی پسلی کی مخلوق ہے گویا اس کو عورت کی مذمت اور برائی کے طور پر استعمال کرتے ہیںحالانکہ خود حضور اقدسﷺ کے ارشاد کا منشاء یہ نہیں ہے ۔
٭ عورت کا ٹیڑھا پن ایک فطری تقاضا ہے :
بات یہ ہے کہ اللہ نے مرد کوکچھ اوصاف دے کر پیدا کیا ہے اور عورت کو کچھ اوصاف دے کر پیدا کیا ہے دونوں کی فطرت اور مزاج میں فرق ہے اس فرق کی وجہ سے مرد عورت کے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ میری طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے حالانکہ عورت کا تمہاری فطرت اور طبیعت کے خلاف ہو نا کوئی عیب نہیں ہے ۔چونکہ یہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو ۔ جیسے کوئی شخص پسلی کو یہ کہے کہ یہ پسلی کے اندر جو ٹیڑھا پن ہے وہ اس کے اندر عیب ہے ظاہر ہے وہ عیب نہیں ہے بلکہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو اس لئے آنحضرت ﷺ یہ ارشاد فرمارہے ہیں اگر تمہیں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے جو تمہاری طبیعت کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے تم اس کو ٹیڑھا سمجھ رہے ہو تو اس کو اس بنا پر کنڈم نہ کرو بلکہ یہ سمجھو کہ یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائیگی اور اگر فائدہ اٹھانا چاہو گے تو اسکے ٹیڑھے پن سے بھی ٹیڑھا ہونے کی حالت میں بھی فائدہ اٹھا سکو گے ۔ حضور ﷺ چونکہ مرد اور عورت کی نفسیات سے واقف ہیں اس لئے حضور ﷺ نے سارے جھگڑے کی جڑ پکڑ لی۔ کہ سارے جھگڑے صرف اس بنا پر ہوتے ہیں کہ مرد یہ چاہتا ہے کہ جیسا میں خود ہوں یہ بھی ویسی بن جائے تو بھائی یہ تو ویسی بننے سے رہی اگر ویسی بنا نا چاہوگے تو ٹوٹ جائیگی اس لئے اس فکر کو تو چھوڑ دو ہاں! جو چیزیں اس کے حق میں اس کے حالات کے لحاظ سے اس کے لئے عیب ہیں اس کی اصلاح کی فکر کرو اور ان کی اصلاح کی فکر بھی مرد کی ذمہ داری ہے لیکن اگر تم یہ چاہو کہ وہ تمہارے مزاج اور طبیعت کے موافق ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا ( اصلاحی خطابات )
٭ عورت کو پسلی سے پیدا کر نے میں ایک اور حکمت :
عورت کو اللہ نے مرد کی پسلی سے نکالا اس میں بھی ایک میسج اور پیغام ہے وہ یہ کہ یہاں بیوی کے درمیان گہرا تعلق ہے ۔ ہم نے عورت کو تمہاری پسلی سے نکالا پاؤں سے اس لئے نہیں بنایا کہ تم اسے پاؤں کی جوتی نہ سمجھ لینا اور سر سے اس لئے نہیں بنا یا کہ تم اس کو سر پر نہ بٹھا لینا بلکہ ہم نے اسے پسلی سے بنایا ہے اور یہی تمہارے دل کے سب سے ذیادہ قریب ہے لہذا اے خاوند! تم اپنی بیوی کو دل کے قریب رکھنا تمہاری زندگی اچھی گز رجائے گی( مثالی ازدواجی زندگی کے سنہرے اصول)
خلاصہ یہ کہ عورت کے اچھے وصف کی طرف نگاہ کرو اس سے تمہار ے کو تسلی ہوگی اور بد سلوکی کے راستے بھی بند ہوں گے ۔لہٰذا خاوندوں کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
٭بیوی کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک :
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ،اس وقت نو ازواج مطہرات آپ ﷺ کے نکاح میں تھیں اور ازواج مطہرات آسمان سے نازل کئے ہوئے فرشتے نہیں تھے وہ اسی معاشرے کے افراد تھے اور ان کے درمیان وہ باتیں بھی ہوا کرتی تھیں جو سوکنوں کے درمیان آپس میں ہوا کرتی ہیں وہ مسائل بھی کھڑے ہوتے تھے جو بعض اوقات شوہر اور بیوی میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ ساری عمر نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے کسی خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ جب بھی آپ ﷺ گھر کے اندر داخل ہوئے تو چہرہ انور پر تبسم ہو تا تھا تو سرکار دو عالم ﷺ کی سنت یہی ہے کہ ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے بلکہ ان کے ساتھ پیار ومحبت اور نرمی کا بر تاؤ کیا جائے ۔
٭ میاں بیوی کے تعلقات کی عمدہ ترین مثال:
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لِّھُنَّ ۔ شادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جائے کہ میاں اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے میاں کے ذریعہ گناہوں سے بچ جائیں اس لئے کہ ان دونوں کو زندگی کاساتھی کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی فر ماں برداری والی زندگی میں ایک دوسرے کے معاون بن جاتے ہیں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ قرآن مجید نے اس تعلق کے بارے میں ایسی مثالیں دی ہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب ایسی مثالیں پیش نہ کر سکا ۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ۔ تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم اپنی بیویوں کا لباس ہو۔
٭ میاں بیوی کو لباس کیوں کہا گیا؟
لباس کے دو فائدے ہیں ایک تو اس سے انسان کے بدن کے عیب چھپ جاتے ہیں ۔اگر بے لباس مرد کو کہیں کہ لوگوں میں چلا جائے تو شرم کے مارے اس کو پسینہ آجائے اور اگر کوئی زبر دستی اسے لوگوں کے سامنے بے لباس کر دے تو جی چاہے گا کہ زمین پھٹے اور میں اندر اتر جاؤں ۔تو لباس کے ذریعہ انسان اپنے جسم کے اعضاء کو چھپاتا ہے ۔ یہ قدرتی شرم وحیا کاتقاضا ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ انسان کو زینت بخشتا ہے جسم تو دو چادر سے بھی چھپ جاتا ہے مگر ہم عموماً اچھا لباس پہن کر جب چلتے ہیں تو لوگ شخصیت کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ کپڑوں نے انسان کی شخصیت کو زیبایش بخشی یہ لباس کا دوسرا فائدہ ہے ۔اسی طرح میاں بیوی کے تعلق سے یہ دو اہم فائدے ہیں ۔ بیوی نہ ہو تو خاوند اپنے جنسی تقاضوں کے پیچھے معلوم نہیں کہاں کہاں منہ مارتا پھرے اور لوگوں کے سامنے ذلت اور رسوائی اٹھاتا پھرے ۔ یوں میاں بیوی کی زندگی کی وجہ سے اس کی شخصیت کے عیب چھپ گئے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر مرد کو اکیلا رہنا پڑے تو گھر کے اندر بے ترتیبی ہوگی اور اس کی زندگی میں جمال نہیں ہوگا بیوی کے آنے سے انسان کی زندگی کو زینت نصیب ہو جاتی ہے ایک تیسری چیز جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو لباس سے زیادہ انسان کے جسم کے قریب ہو ۔ قرآن مجید میں جو لباس کی مثال دی ہے اس سے بتانا مقصود ہے کہ میاں بیوی کو یہ پیغام مل جائے کہ اے خاوند! اب زندگی میں سب سے زیادہ قریب ترین ہستی تمہاری بیوی ہے اور بیوی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تیرے لئے اب زندگی میں قریب ترین ہستی تمہارا خاوند ہے تم دونوں لباس کی طرح ایک دوسرے کے جسم کے قریب ہوجب کو ئی چیز اتنی قریب ہو تی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس سے انسان کو محبت ہوتی ہے ( مثالی ازدواجی زندگی کے چند سنہرے اصول)
٭ ہمارے معاشرے کی خواتین دنیا کی حوریں ہیں:
حضرت تھانویؒ فر مایا کرتے تھے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین دنیا کی حوریں ہیں اور اس کہ وجہ یہ بیان فر مایا کرتے تھے کہ ان کے اندر وفا داری کا وصف ہے ۔ ہاں جب سے مغربی تہذیب وتمدن کا وبال آیا ہے اس وقت سے رفتہ رفتہ یہ وصف بھی ختم ہوتا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر وفاداری کا ایسا وصف رکھا ہے کہ چاہے جو کچھ ہو جائے لیکن یہ اپنے شوہر پر جان نثار کرنے کیلئے تیار ہے اور اس کی نگاہ شوہر کے علاوہ کسی اور پر نہیں پڑتی ۔ یہ اسلام کی برکت ہے کہ مشرق میں آج بھی ایسی جوانیاں ہوتی ہیں جو اپنے گھر سے قدم نکالتی ہیں تو ان کے دلوں میں کسی غیر مرد کا دخل نہیں ہوتا ۔کئی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ مرد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو بچوں کی خاطر اپنی پوری زندگی ایسے ہی گذار دیتی ہیں جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی تو بہار خزاں میں تبدیل ہو گئی مگر یہ خزاں کے موسم میں بھی اپنے پروں کے نیچے اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو چھپا کر اپنی زندگی گزار دیتی ہیں شعر:
چمن کا رنگ گو تونے سرا سراے خزاں بدلا ٭نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا ۔
٭بیوی شوہر کیلئے کتنی قربانی دیتی ہے:
یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں حضور ﷺ نے فر مایا کہ میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں تم اس نصیحت کو قبول کرلو یہ وہی جملہ ہے جو پہلے حدیث میں آچکا ہے اور اگلا جملہ آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا فَاِنَّمَا ھُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ ۔اس لئے کہ وہ خواتین تماہرے پاس تمہارے گھروں میں مقید اور ماتحت رہتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے یہ خواتین کا ایسا وصف بیان فر مایا کہ اگر مرد صرف اس وصف پر غور کر لے تو اس کو کبھی ان کے ساتھ بد سلوکی کا خیال بھی نہ آئے ۔ہمارے حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک نادان غیر تعلیم یافتہ لڑکی سے سبق لو کہ صرف دو بول پڑھ کر جب ایک شوہر سے تعلق قائم ہو گیا ۔ایک نے کہا میں نے نکاح کیا دوسرے نے کہا میں نے قبول کیا ۔اس لڑکی نے اس دو بول کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو اس نے چھوڑا باپ کو اس نے چھوڑا بہن بھائیوں کو اس نے چھوڑا اپنے خاندان کو چھوڑا پورے کنبے کو چھوڑا اور شوہر کی ہو گئی اور اس کے سا تھ آکر اسی کی ہو گئی تو اس دو بول کی اس نادان لڑکی نے اتنی لاج رکھی اور اتنی وفاداری کی تو حضرت فر ماتے ہیں کہ ایک نادان لڑکی تو دو بول کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر ایک کی ہو گئی لیکن تم سے یہ نہ ہو سکا کہ تم یہ دو بول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ کر اس اللہ کے ہو جاتے جس کے لئے یہ دو بول پڑھے تھے تم سے تو وہ نادان لڑکی اچھی کہ یہ دو بول پڑھ کر اتنی لاج رکھتی ہے تم سے اتنی لاج بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ اس اللہ کے ہو جاؤ ۔
٭ عورت کو اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں :
حضور ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ یہ تمہارے گھروں میں مقید اور پابند رہتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے کہیں جانا جائز نہیں۔ لہٰذا اگر شوہر عورت سے کہدے کہ تم گھر سے باہر نہیں جا سکتیں حتی کہ اپنے عزیز واقارب اور اپنے ماں باپ سے ملنے کیلئے جانے سے منع کر دے تو عورت کو ان سے ملاقات کیلئے گھر سے باہر جانا جائز نہیں البتہ اگر والدین اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے اس کے گھر آجائیں تو اب شوہر ان کے والدین کو ملاقات کیلئے روک نہیں سکتا ۔ غرض حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ دیکھو! اس نے تمہاری خاطر کتنی بڑی قربانی دی ہے اگر با لفرض معاملہ بر عکس ہوتا اور تم سے کہا جاتا کہ تمہاری شادی ہو گی لیکن تمہیں اپناخاندان چھوڑنا پڑے گا اپنے ماں باپ چھوڑ نے ہوں گے تو یہ تمہارے لئے کتنا مشکل کام ہوتا ۔ایک اجنبی ماحول ،اجنبی گھر ،اجنبی آدمی کے ساتھ زندگی بھر نباہ کیلئے وہ مقید ہو گئی اس لئے نبی کریم فر مارہے ہیں کہ کیاتم اس قربانی کا لحاظ نہیں کر و گے ؟ اس قربانی کا لحاظ کرو اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔
٭ دو نوں مل کر زندگی کی گاڑی کو چلائیں :
عورت کو مرد کی اجازت کے بغیر باہر جانا جائز نہیں یہ تو قانون کی بات تھی لیکن حسن سلوک کی بات یہ ہے کہ وہ اس کی خوشی کا خیال رکھے یہ اس کی خوشی کا خیال رکھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے درمیان یہ تقسیم کار فر مارکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کے تمام کام انجام دیتی تھیں قانون کی باریکیوں میں ہر وقت نہ پڑے رہیں بلکہ شوہر بیوی کے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ خوش اسلوبی کا معاملہ کریں اور یہ فطری تقسیم بھی ہے کہ گھر کے کام بیوی کے ذمہ اور باہر کے کام شوہر کے ذمہ ہوںاور اس طرح دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کوچلائیں ۔
٭عورت کا نفقہ واجب ہے :
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک پہلا تقاضا یہ ہے کہ ان کا نان ونفقہ پا بندی کے ساتھ ادا کیا جائے انہیں بلا وجہ مارا نہ جائے اور نہ کوئی تکلیف دی جائے اگر ان سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو انہیں گھر سے باہر نہ کیا جائے بلکہ گھر کے اندر رکھتے ہوئے منا سب طریقہ سے ان کو تنبیہ کی جائے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے آقاء نا مدار ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے کسی ایک شخص پر بیوی کے کیا حقوق وفرائض عائد ہوتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا اَنْ تُطْعِمَھَا اِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوْھَا اِذَاکْتَسَیْتَ ،وَلَا تَضْرِبِِ الْوَجْہَ ،وَلَا تُقَبِحْ وَلَا تَھْجُرْ اِلَّا فِی الْبَیْتِ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب پہنو ( یا کماؤ) تو اسے بھی پہناؤ ۔ اس کے منہ پر مت مارو، برا بھلا مت کہو اور اگر اسے ( بطور سز ا کچھ وقفہ کیلئے ) چھوڑنا ہو تو اپنے ہی گھر میں رکھو ۔اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر کوئی چیز نہ کھائے بلکہ جب بھی وہ کوئی چیز کھائے تو اپنی رفیقہ حیات کو بھی اس میں شریک کرے ۔ بہر حال اس سے ثابت ہے کہ عورتوں کے نفقہ ہی میں نہیں بلکہ ان کی خاطر مدارات میں بھی کوئی کمی نہ ہو نا چاہئے اور یہ چیز حسن معاشرت کیلئے بہت ضروری ہے ۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بھی ذہن میں رکھنے کی ہیں جن پر حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مواعظ میں جا بجا زور دیا ہے ۔ ایک بات یہ کہ کھانے پینے میں اچھا سلوک کرو یہ نہ ہو کہ صرف ــ،قوتِ لا یموت ، دیدی یعنی اتنا کھانا دے دیا جس سے موت نہ آئے بلکہ احسان کرو اور اس احسان کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی آمدنی کے معیار کے مطابق فراخی اور کشادگی کے ساتھ گھر کا خرچ اس کو دے البتہ ہر آدمی کی ضرورت اس کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا کشادگی کا معیار بھی الگ الگ ہے اب جو شخص کم آمدنی والا ہے اس کی کشادگی کا معیار اور ہے اور جو متوسط آمدنی والا ہے اس کا معیار اور ہے اور جو زیادہ آمدنی والا ہے اس کی کشادگی کا معیا ر اور ہے اس لئے ہر شخص کی آمدنی کے معیار کے اعتبار سے کشادگی ہونی چاہئے یہ نہ ہو کہ شوہر بیچارے کی آمدنی تو کم ہے اور ادھر بیوی صاحبہ نے دولت مند قسم کے لوگوں کے گھر میں جو چیزیں دیکھیں ان کی نقل اتارنے کی فکر لگ گئی اور شوہر سے اس کی فر مائش ہونے لگیں ۔اس قسم کی فر مائشوں کا کوئی جواز نہیں ۔ لیکن شوہر کو چاہئے کہ اپنی آمدنی کو مد نظر رکھتے ہوئے کشادگی سے کام لے بخل اور کنجوسی نہ کرے ۔ دوسری بات حضرت تھانوی نے یہ ارشاد فر مائی کہ نفقہ صرف یہ نہیں کہ کھانے کا انتظام کر دیا اور کپڑے کا انتظام کر دیا بلکہ نفقہ کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ کھانے اور کپڑے کے علاوہ بھی کچھ رقم بطور جیب خرچ کے بیوی کو دی جائے جس کو وہ آزادی کے ساتھ اپنی خواہش کے مطابق صرف کر سکے ۔ بعض لوگ کھانے اور کپڑے کا انتظام تو کر دیتے ہیں لیکن جیب خرچ کا اہتمام نہیں کرتے لہٰذا جیب خرچ بھی دینا ضروری ہے اس لئے کہ انسان کی بہت سی ضروریات ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان کرتے ہوئے انسان شرماتا ہے یا اس کے بیان کرتے ہوئے الجھن محسوس ہوتی ہے اسلئے کچھ رقم بیوی کے پاس ایسی ضروریات کیلئے بھی ہونی چاہئے تاکہ وہ دوسرے کی محتاج نہ ہو یہ نفقہ کا ایک حصہ ہے ۔حضرت تھانویؒ نے فر مایا جو لوگ جیب خرچ نہیں دیتے وہ اچھا نہیں کرتے ۔یاد رکھیں کہ ایک مسلمان جب اپنی بیوی کے نفقہ کو بوجھ نہ سمجھتے ہوئے اسے خوش دلی کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے صدقہ یعنی اجر وثواب کا باعث بن جاتا ہے ۔ بلکہ وہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے گا اس کا بھی اجر وثواب اس کو ملے گا اِذَا اَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلیٰ اَھْلِہٖ یَحْتَسِبُھَا فَھُوَ لَہُ صَدَقَۃٌ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ جب کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے ( بخاری کتاب الایمان ۱؍۲۰) دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ تم جو بھی نفقہ اللہ کی رضامندی کی خاطر خرچ کروگے اس پر تمہیں اجر وثواب ضرور دیا جائیگا یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ۔حوالہ بالا ۔
اس لئے اگر کسی کو بیوی مل جائے تو اس کی قدر کرے اس لئے کہ دنیا کی بہترین چیز نیک عورت ہے ۔
ایک حدیث میںاللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں (۱) خوشبو(۲) نیک عورت اور نماز کہ وہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔
ایک حدیث میں ارشاد فر مایا کہ پوری دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کا بہترین متاع نیک سیرت عورت ہے ( مسلم کتاب الرضاع)۔
٭ دوعورتوں کے درمیان برابری:
اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان برابری کا برتاؤ کرے یعنی دونوں کو یکساں یعنی برابر قسم کا نفقہ اور ہر ایک کی باری بھی ایک جیسی ہو ان ظاہری معاملات میں اس کے لئے کسی ایک بیوی کی حق تلفی جائز نہیں ہے اب رہا دلی رجحان یا محبت کا معاملہ تو اس میں برابری مطلوب نہیں ہے بلکہ دلی رجحان کے معاملے میںبرابری ہو ہی نہیں سکتی جیسا کی سورہ نسا ء کی آیت نمبر ۱۲۹ میں موجود ہے اور آپ ﷺ نے فر مایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان برابری نہ کرتے ہوئے ایک کی طرف مائل ہو جائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرا ہو ا ہوگا ۔(کتاب ابوداؤد کتاب النکاح ۲؍ ۴۰۱)
٭ بلا وجہ طلاق دینا سخت گناہ کا باعث ہے :
نکاح کا مقصد نسل انسانی کا تحفظ گناہوں سے بچنا اور نظام تمدن ومعاشرت کی اصلاح ہے مگر طلاق کی وجہ سے یہ تمام مقاصد نہ صرف فوت ہو جاتے ہیں بلکہ بعض معاشرتی جھگڑے اور مسائل بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے اسلام میں طلاق کا جواز صرف ناگزیر حالات ہی میں روا رکھا گیا ہے جبکہ مرد عورت کے تعلقات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ مزید اصلاح کی کوئی امید ہی باقی نہ رہ جائے اسی وجہ سے اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ شئے قرار دی گئی ہے لہٰذا اسلام میں طلاق کے جواز کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اٹھے اٹھے بیٹھے بیٹھے ذرا ذرا سی بات پر طلاق دے ڈالیں اور آپس کے تمام رشتوں ناتوں کو کاٹ کر رکھ دیں ۔ جیسا کہ آج کل لوگ کر رہے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ کو ہر گز پسند نہیں بہر حال کسی شخص کیلئے ایک عورت کو بلا وجہ طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ایسا کرنا شرعی اعتبار سے برُا کام ہے اللہ کے نبی نے اس کو سختی سے منع فر مایا لہٰذا کوئی شخص بلا وجہ اپنی عورت کو طلاق نہ دے۔
اللہ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق ع
No comments:
Post a Comment