مولانا محمداعجاز
اتباع سنت جنت میں داخلہ کی ضمانت
خالق کائنات نے انسان کو وجود بخشا‘ تمام مخلوقات میں اسے اشرف المخلوق بنایا‘ انسان کو انسانیت اور تہذیب سکھانے کی غرض سے عالم دنیا میں نبیوں اور رسولوں کی بعثت کا سلسلہ قائم فرمایا۔ ان برگزیدہ ہستیوں کے ذریعے انسانوں تک ہدایت کا پیغام پہنچایا اور ان کے ذریعے اپنا فرمان بنی نوع انسان کو بھیجا۔ ہر نبی نے اپنی قوم اور امت کو اللہ کی وحدانیت کا درس دیا‘ صراط مستقیم اور راہِ ہدایت سے روشناس کرایا۔ نبی کی بات ماننے والوں کو جنت کی بشارت اور نہ ماننے والوں کو عذابِ الیم سے ڈرایا۔ انسانیت کا پھیلاؤ
اور انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا یہ سلسلہ چلتا رہا‘ یہاں تک کہ سید الاولین والآخرین‘ امام الانبیاء‘ خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے سلسلہ نبوت اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس امت کو انسانیت‘ تہذیب‘ شائستگی سکھانے اور اپنی بندگی کے آداب سمجھانے کی غرض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نبوت کے تاج سے سرفرا ز فرمایا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کو خاتم الکتب اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خاتم الامم قرار دیا۔ خداوند قدوس نے اپنے پیغام کو براہ راست بندوں پر نازل نہیں کیا‘ بلکہ پیغام و فرمان کے ساتھ اس کو سمجھانے والا‘ اس پر عمل کرکے دکھلانے والا بھی بھیجا‘ کیونکہ پیغام الٰہی کو سمجھنا اور اس سے ہدایت حاصل کرنا نبی و رسول کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و معمولات قرآن کا بیان اور منشاء ربانی کے ترجمان ہیں‘ جو صبح سے شام اور پیدائش سے موت تک پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں‘ جس نے شخصی و انفرادی زندگی سے لے کر سماجی‘ معاشی‘ سیاسی اور اجتماعی مسائل تک ہر باب میں ہماری رہنمائی کی ہے اور ہمیں کہیں تاریکی میں نہیں رہنے دیا‘ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول و عمل ہمارے لئے روشن نقوش اور قرآن کریم کی زبان میں اسوئہ حسنہ ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیراً۔“ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:… ”تمہارے لئے بھلی تھی سیکھنی رسول اللہ کی چال اس کے لئے جو کوئی امید رکھتا ہے اللہ کی اور پچھلے دن کی اور یاد کرتا ہے اللہ کو بہت سا۔“
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی زبانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لئے معلم‘ مزکی‘ مطاع اور ہادی بناکر بھیجا‘ اپنی اطاعت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا‘ مزید یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کے تمام مراحل کے لئے راہ نمائی کی ہے‘ مرد ہو یا عورت‘ ہر ایک کی خوشی ہو یا غمی ‘ بچپن ہو یا جوانی‘ صحت ہو یا بیماری‘ مسافرت ہو یا اقامت ‘غرض پیدائش سے موت تک زندگی کے ہر لمحہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور اسوئہ حسنہ موجود ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے بتائے ہوئے طریقوں اور سنتوں پر عمل پیرا ہوکر کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کیں‘ جب تک یہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن نقوش اور پاکیزہ سنتوں پر عمل کرتی رہی‘ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کا مقدر بنیں اور جب سے آپ کی سنتوں کی اتباع اور پیروی میں سستی اور کاہلی در آئی‘ اس وقت سے امت فتنہ و فساد اور ظلم کی لپیٹ میں آگئی‘ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ترجمہ:… ”تمہارے لئے بھلی تھی سیکھنی رسول اللہ کی چال اس کے لئے جو کوئی امید رکھتا ہے اللہ کی اور پچھلے دن کی اور یاد کرتا ہے اللہ کو بہت سا۔“
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی زبانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لئے معلم‘ مزکی‘ مطاع اور ہادی بناکر بھیجا‘ اپنی اطاعت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا‘ مزید یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کے تمام مراحل کے لئے راہ نمائی کی ہے‘ مرد ہو یا عورت‘ ہر ایک کی خوشی ہو یا غمی ‘ بچپن ہو یا جوانی‘ صحت ہو یا بیماری‘ مسافرت ہو یا اقامت ‘غرض پیدائش سے موت تک زندگی کے ہر لمحہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور اسوئہ حسنہ موجود ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے بتائے ہوئے طریقوں اور سنتوں پر عمل پیرا ہوکر کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کیں‘ جب تک یہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن نقوش اور پاکیزہ سنتوں پر عمل کرتی رہی‘ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کا مقدر بنیں اور جب سے آپ کی سنتوں کی اتباع اور پیروی میں سستی اور کاہلی در آئی‘ اس وقت سے امت فتنہ و فساد اور ظلم کی لپیٹ میں آگئی‘ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”اتبعونی‘ فواللہ ان لم تفعلوا تضلوا۔“(مجمع الزوائد‘ ج:۱‘ ص:۱۷۳)
”میری اتباع کرو‘ قسم خدا کی اگر تم میری اتباع نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔“
آج ہمارے معاشرہ کا کیا حال ہے؟ اکثریت اپنے روزمرہ کے معمولات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کرتی‘ کھانا‘ پینا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ جاگنا‘ چلنا‘ پھرنا‘ شادی‘ بیاہ‘ خوشی‘ غمی‘ سیرت‘ صورت‘ وضع قطع ‘ لباس‘ پوشاک ہر چیز میں نفس اور خواہش کی اتباع ہوتی ہے‘ غیروں کا طریقہ ہمارے معاشرہ میں پیوست اور جڑ پکڑ چکا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ترک سنت کی قباحت و کراہیت کا بھی احساس نہیں ہے‘ بلکہ خلاف سنت طریق کو اپنے لئے باعثِ عزت و وقار تصور کیا جاتا ہے۔
آج ہمیں غیروں اور دشمنوں کے طریق میں عزت و شرافت محسوس ہوتی ہے‘ خصوصاً شادی بیاہ کے موقعہ پر‘ رسم و رواج کے علاوہ کھڑے ہوکر کھانا افتخار اور عزت کا معیار سمجھا جاتا ہے‘ تقریبات میں مرد و زن کے اختلاط اور تصویر و مووی جیسی حیا سوز فحش حرکات اور گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے‘ حالانکہ اہل ایمان کو ان مذموم حرکات سے شدید نفرت کرنی چاہئے‘ کیونکہ یہ ملعون و مغضوب قوم یہود و نصاریٰ کی عادت اور وطیرہ ہے‘ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے روز مرہ کے تمام معمولات و معاملات میں طریق نبوی کو پیش نظر رکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوکر سو شہیدوں کا اجر و ثواب حاصل کریں‘ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”میری اتباع کرو‘ قسم خدا کی اگر تم میری اتباع نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔“
آج ہمارے معاشرہ کا کیا حال ہے؟ اکثریت اپنے روزمرہ کے معمولات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کرتی‘ کھانا‘ پینا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ جاگنا‘ چلنا‘ پھرنا‘ شادی‘ بیاہ‘ خوشی‘ غمی‘ سیرت‘ صورت‘ وضع قطع ‘ لباس‘ پوشاک ہر چیز میں نفس اور خواہش کی اتباع ہوتی ہے‘ غیروں کا طریقہ ہمارے معاشرہ میں پیوست اور جڑ پکڑ چکا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ترک سنت کی قباحت و کراہیت کا بھی احساس نہیں ہے‘ بلکہ خلاف سنت طریق کو اپنے لئے باعثِ عزت و وقار تصور کیا جاتا ہے۔
آج ہمیں غیروں اور دشمنوں کے طریق میں عزت و شرافت محسوس ہوتی ہے‘ خصوصاً شادی بیاہ کے موقعہ پر‘ رسم و رواج کے علاوہ کھڑے ہوکر کھانا افتخار اور عزت کا معیار سمجھا جاتا ہے‘ تقریبات میں مرد و زن کے اختلاط اور تصویر و مووی جیسی حیا سوز فحش حرکات اور گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے‘ حالانکہ اہل ایمان کو ان مذموم حرکات سے شدید نفرت کرنی چاہئے‘ کیونکہ یہ ملعون و مغضوب قوم یہود و نصاریٰ کی عادت اور وطیرہ ہے‘ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے روز مرہ کے تمام معمولات و معاملات میں طریق نبوی کو پیش نظر رکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوکر سو شہیدوں کا اجر و ثواب حاصل کریں‘ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”من تمسک سنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائة شہید۔“
(مشکوٰة۳۰)
ترجمہ:… ”جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ “
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مشکوٰة۳۰)
ترجمہ:… ”جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ “
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنة۔“
(مشکوٰة:۳۰)
ترجمہ:… ”جس نے میری سنت سے محبت کی یقینا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت اور اپنے طریقہ پر عمل کرنے والوں کے لئے بشارات اور عمل نہ کرنے والوں کے لئے وعیدات ارشاد فرمائی ہیں‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(مشکوٰة:۳۰)
ترجمہ:… ”جس نے میری سنت سے محبت کی یقینا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت اور اپنے طریقہ پر عمل کرنے والوں کے لئے بشارات اور عمل نہ کرنے والوں کے لئے وعیدات ارشاد فرمائی ہیں‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”کل امتی یدخلون الجنة الا من ابیٰ‘ قیل ومن ابیٰ؟ قال من اطاعنی دخل الجنة ومن عصانی فقد ابیٰ۔“ (مشکوٰة: ۲۷)
ترجمہ: ”میری کل امت جنت میں داخل ہوگی‘ مگر وہ آدمی جس نے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: کس نے انکار کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔“
یعنی جس نے میری سنت کا انکار کیا اور بالقصد اس پر عمل کرنے سے گریز کیا‘ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع جنت میں داخلہ کی ضمانت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس صرف عبادات میں اسوئہ حسنہ ہے‘ باقی حیات طیبہ کے احوال‘ عادات‘ معاملات‘ معاشرت اسوہ حسنہ نہیں ‘ یعنی ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ عمل نہیں ہیں‘ اپنے باطل دعوے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ معاشرتی امور میں‘ عادات و ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تابع تھے‘ عرب کا جو عرف و عادت اور رسم و رواج تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رعایت کرتے تھے‘ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھی‘ چونکہ وہاں کا ماحول تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنتے تھے‘ چونکہ ٹوپی کا رواج تھا‘ یعنی یہ امور ماحول و رواج کے طور پر تھے‘ اس لئے ان امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع باعث ِ ثواب نہیں۔
ایسے لوگوں کو اگر نظر صحیح اور نور بصیرت سے کچھ حصہ ملا ہوتا تو ان کو نظر آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی زندگی میں ماحول اور رواج کی مخالفت کی ہے‘ ماحول تو کفر‘ شرک‘ ظلم‘ تشدد لوٹ مار کا تھا‘ زنا اور بے حیائی کا رواج تھا‘ شعروشاعری اور قمار بازی کا دور دورہ تھا‘ ننگے اور برہنہ طواف کرنے کا عام رواج تھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ماحول کی موافقت اور اسی جاہلیت کے طور طریقہ پر اپنے آپ کو اور صحابہ کرام کو ڈھالا؟ یا ان خرافات اور واہیات سے بچنے اور ان سے علیحدہ رہنے کی راہ دکھائی؟ اللہ پاک ایسی سوچ رکھنے والوں کو عقل سلیم اور فطرت سلیم عطا فرمائے اور ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور آپ کے اسوئہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ترجمہ: ”میری کل امت جنت میں داخل ہوگی‘ مگر وہ آدمی جس نے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: کس نے انکار کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔“
یعنی جس نے میری سنت کا انکار کیا اور بالقصد اس پر عمل کرنے سے گریز کیا‘ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع جنت میں داخلہ کی ضمانت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس صرف عبادات میں اسوئہ حسنہ ہے‘ باقی حیات طیبہ کے احوال‘ عادات‘ معاملات‘ معاشرت اسوہ حسنہ نہیں ‘ یعنی ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ عمل نہیں ہیں‘ اپنے باطل دعوے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ معاشرتی امور میں‘ عادات و ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تابع تھے‘ عرب کا جو عرف و عادت اور رسم و رواج تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رعایت کرتے تھے‘ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھی‘ چونکہ وہاں کا ماحول تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنتے تھے‘ چونکہ ٹوپی کا رواج تھا‘ یعنی یہ امور ماحول و رواج کے طور پر تھے‘ اس لئے ان امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع باعث ِ ثواب نہیں۔
ایسے لوگوں کو اگر نظر صحیح اور نور بصیرت سے کچھ حصہ ملا ہوتا تو ان کو نظر آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی زندگی میں ماحول اور رواج کی مخالفت کی ہے‘ ماحول تو کفر‘ شرک‘ ظلم‘ تشدد لوٹ مار کا تھا‘ زنا اور بے حیائی کا رواج تھا‘ شعروشاعری اور قمار بازی کا دور دورہ تھا‘ ننگے اور برہنہ طواف کرنے کا عام رواج تھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ماحول کی موافقت اور اسی جاہلیت کے طور طریقہ پر اپنے آپ کو اور صحابہ کرام کو ڈھالا؟ یا ان خرافات اور واہیات سے بچنے اور ان سے علیحدہ رہنے کی راہ دکھائی؟ اللہ پاک ایسی سوچ رکھنے والوں کو عقل سلیم اور فطرت سلیم عطا فرمائے اور ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور آپ کے اسوئہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
بشکریہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون
No comments:
Post a Comment