دلنشین اور آسان ترین ترجمہ قرآن
مصنف: بنیاد
پرست
رمضان کا
معاملہ بھی بڑا عجیب ہے، وه مسلمان جو سارا سال اس انداز سے گزارتا ہے کہ
اسے الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا خیال تک نہیں آتا مگر رمضان کا چاند نظر آتے
ہی ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے دین و ایمان کی فکر کرتا
نظر آتا ہے. لوگ وہ سبق جو وہ دن رات کے جھمیلوں ، پریشانیوں میں کہیں بھول بسار
گئے ہوتے ہیں اس کو دوہراتے ہیں، تجدید عہد کرتے ہیں، ہر شخص اپنی
ہمت و استعداد کے مطابق رمضان کی برکات سے مستفید ہوتا ہے، نماز، روزہ،
صدقہ کے اہتمام کے علاوہ اس مہینہ میں لوگوں کا قرآن کے ساتھ
بھی تعلق بڑھ جاتا ہے، بہت سے لوگ ترجمہ و تفسیر پڑھ کر اسکے پیغام کو
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، کئی دوست اس سلسلے میں مشورہ بھی لیتے رہتے ہیں کہ
کوئی ایسا ترجمہ بتائیں جو مستند بھی ہو اورہمیں آسانی سے سمجھ بھی
آجائے۔ کچھ عرصے پہلے اس سلسلے میں تھوڑی الجھن ہوتی تھی کہ قرآن کریم کا
کونسا ترجمہ تجویز کیاجائے؟ کوئی ایسی مختصر اور آسان تشریح ہو
جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دےاور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات
سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ الجھن کی وجہ یہی
تھی کہ ہمارے ہاں قرآن کے رائج اردو تراجم
میں عموما مترجم کا انداز خالص علمی اور فقہی
ہوتاہے ،پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین
اردو" میں ہوتا اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی ہوتے ہیں
، مزید علماء حضرات ترجمہ میں فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ
اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے ہیں اور یہ سب
عموما ایک غیر عالم ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں یا
ایسے لوگوں کے لیے جنکا دینی علوم اور کتابوں
سے قریبی تعلق نہ ہو ' سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ جو
قرآن کے ترجمہ اور پیغام کو اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہیں شاید
اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ اکابر علماء کے تو تراجم علم و ادب کے اعلی معیار
پر ہیں، ان کا انداز تحقیق اور اسلوب بیان محتاج بیان بھی نہیں ، لیکن ہماری قوم
ان کو نہیں سمجھ سکی، ہمارے ہاں اردو زبان میں چند سال پہلے تک
ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے
مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد
اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سب کیلئے یکساں طور پر مفید
اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی
طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی اس لیے ہم اپنے حلقے میں
ترجمہ کے لیے مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن کی
پڑھنے کا کہہ دیتے تھے اور تفسیر کے لیے تفسیر عثمانی اور تفسیر معارف
القرآن کی طرف رجوع کرنے کا کہتے۔ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ وہی ہے
جو مارکیٹ میں شیخ عبدلارحمن السدیس اور شیخ عبدالباسط کے
اردو ترجمہ والے قرآن کی کیسٹ اور سی ڈیز میں بھی استعمال کیا گیا
ہے۔۔ چند سال پہلے عصر حاضر کی ایک عبقری صفت اور نابغہ روزگار شخصیت جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی
عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے قرآن کے تراجم پر کام
شروع کیا ، اس سلسلے کی آپ کی پہلی کاوش آپ کا انگریزی میں ترجمہ قرآن
کریم تھا جو تین سال قبل چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایک ایسی ضرورت
تھی جو مسلمانوں اور انگریزوں کے ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے لے کر آج تک
پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو تراجم موجود تھے وہ کسی ایسے عالم کی
کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی
براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ وہ یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو
مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی
گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند
ہونے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے بہت سے لوگوں کے
مطالبہ اور خود اردو زبان میں موجود تراجم کی اس کمی کو محسو س
کرتے ہوئے قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھنا شروع کیا جو حال ہی
میں "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے چھپ کر سامنے آیا۔
ترجمہ کی چند خصوصیات :۔
قرآن کریم
کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو دینی علوم ، خصوصاً علوم
عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری
نظر۔علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت
ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات
علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع)۔ علمی حوالے سے
دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی دارالعلوم کراچی میں انہی
علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہےاور ادبی اعتبار سے آپ کا قلم نثر ہو یا نظم،
تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں ہر میدان میں لوہا منوا
چکا ہے ۔ آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے
زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ ویسے قرآن کے ترجمہ کے لیے علوم عربیت
میں مہارت سے ادب میں مہارت بھی ذیادہ اہم ہوتی ہے، ہمارے ہاں
عوام کو اسی لیے غیر عالم اسلامی اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز کے
درس قرآن وغیرہ سننے ، پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ
یہ لوگ اردو ادب کے تو بہت ماہر ہوتے ہیں ، اچھے کہانی نویس، منظر نگاری کرنے والے
اور انشاء پرداز ہوتے ہیں لیکن انکی اوپر گنائے گئے علوم خصوصاً
"علم الفقہ" سے ناواقفیت اور عربی زبان میں عدم مہارت
کی وجہ سے "آیات الاحکام" کی تفسیر میں انکی کی
جانے والی غلطیوں سے عوام کے دینی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ
علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے
دور طالب علمی میں یہ علوم پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ تقی عثمانی صاحب کا
ترجمہ قرآن دونوں خوبیوں کو لیے ہوئے ہیں، مزید آپ نے اپنے اس
ترجمہ قرآن میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی شامل کیا جن کی
پہلے تراجم میں کمی محسوس کی جاتی تھی ۔ مثلا
سورتوں کا
تعارف:۔
ہر سورت سے
پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی
پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں سورت کا ضروری تعارف ، اس میں بیان ہونے
والے مضامین واقعہ کا خلاصہ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ تعارف میں مصنوعی
ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو
اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں ایک مبسوط مقدمہ بھی دیا گیا ہے جو
مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔
مختصر
تشریحات :۔
ترجمہ پڑھنے
کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش
آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان
تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے
انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
سلیس و
دلنشین انداز تحریر :۔
بیان
زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے
فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو
ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً:
هَيْتَ لَكَ
"آ بھی
جاؤ" (یوسف:23)۔
فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ
"ان کی
اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)۔
تراکیب کے بامحاورہ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:۔
نَسْيًا مَنْسِيًّا
بھولی بسری
قِسْمَةٌ ضِيزَى
بھونڈی
تقسیم
سَبْحًا طَوِيلًا
لمبی
مصروفیت
لفظی
اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں:۔
مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ۔"
کیا بات ہے؟
مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)
فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ۔
""اب
تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)
وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔
"اپنے
ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)
اصل الفاظ
کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ
اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس
گھاٹی سے گزرے ہیں:.
فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا۔
"پھر
جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)
فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ۔
"تو
انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)
وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا۔
"بلکہ
یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" (
الفرقان:22) اسی طرح
وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔
"اور
ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" (البقرۃ:7)۔
دوبارہ
پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو
تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری
طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے:
وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)
"اور
تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔"
پہلی
آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے
ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔
جملوں کی
سادگی ملاحظہ فرمائیں۔
قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ
عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ
لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ۔
کہنے لگے
" اباجی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کرنے چلے گئے تھے اور ہم نے یوسف
کو اپنے سامان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اسے کھاگیا۔ اور آپ
ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں۔
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی
سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔
گنتی کے چند
دن روزے رکھنے ہیں ۔ پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ
دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا
هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۷۷ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ
کیا انسان
نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا تھا؟ پھر اچانک وہ کھلم کھلا
جھگڑا کرنے والا بن گیا۔ ہمارے بارے میں تو باتیں بناتا ہے اور خود اپنی پیدائش کو
بھول بیٹھا ہے۔
مختلف تراجم
کے ساتھ تقابل:۔
عربی
کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد
کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم
"آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا پانچ مشہور معاصر تراجم کے ساتھ
تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ
گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں
تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔
پہلی
مثال:.
وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لقمان:20
"اور
اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
"اور
تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان
بریلوی)
"اور
تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد
جالندھری)
"اور
پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا
سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اور
تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ
قرآن)
دوسری
مثال:۔
وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ
أُمَّهَاتِكُمْ (الاحزاب: 04)
"نہ
اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا
ہے۔" (مولانا مودودی)
"اور
اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں
نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور
نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری
مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اور
تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔"
(مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
"اور
نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا
فتح محمد جالندھری)
"اور
تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں
بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)
ظہار کے
حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی
طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ
سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔
تیسری
مثال:.
نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)
"(ایوب
علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا
مودودی)
"کیا
اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان
بریلوی)
"وہ
بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا
گڑھی)
"بہت
خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد
جالندھری)
"بہترین
بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا
سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"وہ
بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ
قرآن)
"اواب"
کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔
آخری مثال
: "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" ملاحظہ فرمائیں:
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ
(یوسف:24)
"وہ
اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو
نہ دیکھ لیتا۔" ( مولانا مودودی)
"اور
بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل
نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"اس
عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی
دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور
اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی
نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور
یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ
دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان
تحریک)
"اس
عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل
میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔"
(آسان ترجمۂ قرآن)
سبحان اللہ!
ترجمہ ایسا کیا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب
ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ ۔
تحریر طویل
ہوتی جارہی ہے اس کو یہیں ختم کرتے ہیں، مقصد کتاب پر کوئی کوئی مقالہ
لکھنا نہیں بلکہ صرف اس ترجمہ کی کچھ خصوصیات کی طرف متوجہ کرنا تھا ، باقی اس کو
پڑھنے والے اس سے ملنے والے سرور اور نفع کا خود اندازہ کرلیں گے، ان سب خصوصیات
کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس ترجمہ میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی
شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس
سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر
سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔
ایک نئی
روایت :.
اس کا
طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے مطالعے کا شوق رکھنے والے حضرات کو یہ ترجمہ پڑھنے
کی ترغیب دیں ، آسان ترجمہ قرآن میڈیم کوالٹی پرنٹ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا ہے،
اسکا ایک نسخہ اپنی گھریلو لائبریری میں رکھا جائے ، وسعت ہو تو قریبی لائبریری یا
مسجد کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے ، اپنے امام صاحب سے اس ترجمہ کا کورس شروع کروانے کا
مطالبہ کریں ، اس کے علاوہ ترجمہ اعلی کوالٹی پرنٹنگ میں بھی دستیاب ہے وہ تکمیل
القرآن اور نکاح وغیرہ کے موقع پر گفٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ پہنچ رکھتے ہیں وہ
سعودی حکام کو ایک یادواشت بھیج سکتے ہیں کہ عمرہ اور حج کے لیے جانے والے مہمانان
حرم کو یہی نسخہ ہدیہ دیا کریں۔ مزید بہت سے مصنفین و مؤلفین اور مضمون نگار و
تحقیق کار حضر ات کو اپنی تحریروں میں قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دینے کی ضرورت
پیش آئے تو وہ اس ترجمہ قرآن سے ترجمہ نقل کرسکتے ہیں۔خیر کی بات جس درجہ
میں ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس
نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔ )
No comments:
Post a Comment