علماء دیوبند ڈاکٹر علامہ اقبال کی نظر میں
١۔''دیوبند ایک ضرورت تھی ۔اس سے مقصود تھا ایک روایت کا تسلسل وہ روایت جس سے ہماری تعلیم کا رشتہ ماضی سے قائم ہے ۔''
(اقبال کے حضور ص ٢٩٣)
٢۔'' میری رائے ہے کہ دیوبند اور ندوہ کے لوگوں کی عربی علمیت ہماری دوسری یونیورسٹیوں کے گریجویٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔''
(اقبال نامہ حصہ دوم ص٢٢٣)
٣۔'' میں آپ (صاحبزادہ آفتاب احمد خان) کی اس تجویز سے پورے طور متفق ہوں کہ دیوبند اور لکھئنو (ندوہ) کے بہترین مواد کو بر سرِکار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔''
(اقبال نامہ حصہ دوم ص ٢١٧)
٤۔''ایک بار کسی نے علامہ مرحوم سے پوچھا کہ دیوبندی کیا کوئی فرقہ ہے ؟ کیا'' نہیں ہر معقولیت پسند دیندار کا نام دیوبندی ہے ۔''
(علماء دیوبند کا مسلک ص ٥٥)
٥۔''مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھئے وہ اس (مثنوی مولاناروم ) کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں میں اس (مثنوی کی تفسیر کے ) بارے میں انہی کا مقلد ہوں ۔''
(مقالات اقبال ص ١٨٠)
٦۔''میں ان (مولانا سید حسین احمد مد نی ) کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں ۔''
(انوار اقبال ص ١٦٧)
٧۔''نیز فرماتے ہیں مولانا (سید حسین احمد مدنی ) کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں ۔''
(انواراقبال ص ١٧٠)
٨۔''… اس ( وہٹر ) کے متعلق مولوی سید انور شاہ صاحب سے جو دنیا ئے اسلام سے جید ترین محدث وقت میں سے ہیں میری خط و کتابت ہوئی ۔''
(انوار اقبال ص ٢٥٥)
٩۔''مجدد الف ثانی عالمگیر اور مولانا اسمعٰیل شہید رحمتہ اﷲ علیہم نے اسلامی سیر ت کے احیاء کی کوشش کی مگر صوفیاء کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا ۔''
(اقبال نامہ حصہ دوم ص ٤٩)
١٠۔''مولانا شبلی رحمتہ اﷲ علیہ (م١٣٣٢ ھ ١٩١٤ ئ) کے بعد آپ (حضرت مولانا سید سلمان ندوی خلیفہ مجازحضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ) اساذ الکل ہیں ۔''
(اقبال نامہ حصہ اول ص ٨٠)
عرضئہ اقبال بخدمت مولانا انور شاہ کشمیرے
مخدوم و مکر م حضرت قبلہ مولانا ! اسلامُ علیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ ۔
مجھے ماسٹر عبد اﷲ صاحب سے ابھی معلوم ہوا کے آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اور ایک دو روز قیام فرمائیں گئے میں اسے اپنی بڑی سعادے تصّور کروں گا ۔اگر آپ کل شا م اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب ارحمٰن صاحب قبلہ عثمانی حضرت مولوی بشیر احمد صاحب اور جناب مفتی عزیز الرحمٰن صاحب کی خدمت میں یہی التماس ہے
۔مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرفِ قبولیت بخشیں گے ۔آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی ۔''
(منقول از اقبال نامہ حصہ دوم ص ٢٥٧
No comments:
Post a Comment