Front - The Prophet Muhammed

Thursday, October 3, 2013

جہاد سے متعلق پچاس سوالات اور ان کے جوابات

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے



سوال:1- جہاد کے کیا معنی ہیں؟

جواب:- اللہ رب العزت کے دین کی سربلندی اور مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خوب محنت کے ساتھ کافروں سے مسلح جنگ کرنا یا جنگ کرنے والوں کی تمام ضروری امور میں بھرپور معاونت کرنا خواہ یہ جنگ ان کافروں سے ھو جن تک اسلامی دعوت پہنچ چکی ھو اور انہوں نے اس دعوت کو قبول نی کیا ھو یا ان کافروں سے ھو جو مسلمانوں پر حملہ آور ھوں(امیر کی اطاعت میں کافروں کے ساتھ جنگ کے کسی بھی شعبے میں کام کرنا جہاد ھوگا)(تعلیم الجہاد/صفحہ 3)



سوال:2- جہاد کا حکم کب نازل ھوا ؟

جواب:- جہاد کا حکم مدینہ منورہ میں سن دو ھجری میں نازل ھوا۔
(تعلیم الجہاد/صفحہ3)


سوال:3- جہاد کے متعلق سب سے پہلی کون سی آیات نازل ھوئی؟

جواب:- جہاد کے متعلق سب سے پہلی آیت سورہ حج کی یہ آیت کریمہ ھے

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ بِأَنَّهُمۡ ظُلِمُواْ‌ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصۡرِهِمۡ لَقَدِيرٌ 
الحج:39

ان لوگوں کو حکم دیا گیا جہاد کا جن سے کافر لڑتے ہیں اس واسطے کہ ان پر ظلم ھوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ھے


سوال:4- غزوہ کس جہاد کو کہتے ہیں ؟

جواب:-جس جہاد میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ھو اسے غزوہ کہتے ہیں ۔
(تعلیم الجہاد/صفحہ4)


سوال:5- سریہ کس جہاد کو کہتے ہیں؟

جواب:- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک زمانے میں جہاد کے لئے جو لشکر روانہ فرمائے اور خود اس میں شریک نہیں ھوئے ،ان معرکوں کو سریہ کہاجاتاھے۔ا(تعلیم الجہاد/صفحہ5)


سوال :6- غزوات کی تعداد کتنی ھے ؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائس جنگوں میں حصہ لیا، (بعض روایات سے اس سے زیادہ یا کم تعداد بھی معلوم ھوتی ھے)(تعلیم الجہاد/صفحہ5)


سوال:7- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں کتنے سریے ھوئے؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں چھپن سرایا ھوئے، اس میں اورروایات بھی ہیں۔
(تعلیم الجہاد/صفحہ5)


سوال:8- جہاد کا کیا حکم ھے ؟

جواب:- جہاد اک اسلامی فریضہ ھے اور اہم ترین عبادت ھے۔

حدیث
““ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے بیان کیا مجاہد سے‘ انہوں نے طاؤس سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد اب ہجرت ( فرض ) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو ۔““صحیح بخاری
کتاب الجہاد


وعن ابن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: أُمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأنَّ محمدًا رسول الله، ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام، وحسابهم على الله -تعالى-( البخاري ومسلم )
ترجمہ
““مجھے حکم دیا گیا ھے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہان تک کہ وہ اقرار کر لیں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں(محمد) صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ھوں، اقرار کیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا سوائے اسلامی حق کے،اور اس کا حساب اللہ تعالٰی کے زمے ھے۔““



سوال:9- جہاد کی حکمت کیا ھے؟

جواب:-اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی ھے کہ اگر جہاد نہ ھو تو زمین پر فساد برپا ھو جائے اور عبادت گاھوں کو ڈھادیا جائے یعنی اگر جہاد کی وجہ سے ظلم اور سرکش لوگوں کو ختم نہ کیا جائے تو پھر یہ زمین فتنہ اور فساد کی لپیٹ میں آجائے گی کافر مسلمانوں کی عبادت گاھوں کو گرا دیں گے اور مسلمانوں کو ختم کردیں گے مگر جہاد کے زریعے سے تمام فتنے ختم ھوجاتے ہیں اور زمین پر امن و سکون اور عدل و انصاف عام ھوتا ھے اور اللہ کادین اور نظام بلند رہتا ھے۔
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ22:40
ترجمہ:-
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اسکی ضرور مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ توانا ہے غالب ہے۔


سوال:10- کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے بھی جہاد کیا ؟

جواب:- جی ہاں ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کئی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے جہاد فرمایا،اور ان کے ساتھ مل کر اس زمانے کے اللہ والوں نے بھی بھرپور طریقے سے جہاد میں حصہ لیا۔
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُواْ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَكَانُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ3:146
ترجمہ:-
اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر لڑے ہیں بہت خدا کے طالب پھر نہ ہارے ہیں کچھ تکلیف پہنچنے سے اللہ کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور اللہ محبت کرتا ہے ثابت قدم رہنے والوں سے 


سوال :11- وہ کون سے نبی علیہ السلام ہیں جنہوں نے بچپن میں ظالم و کافر بادشاہ کو قتل کیا؟
جواب:- حضرت داؤد علیہ السلام ہیں جنہوں نے بچپن میں ظالم و کافر بادشاہ جالوت کو قتل کیا تھا۔
فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ2:251
ترجمہ:-
پھر شکست دی مومنوں نے جالوت کے لشکر کو اللہ کے حکم سے اور مار ڈالا داؤد نے جالوت کو اور دی داؤد کو اللہ نے سلطنت اور حکمت اور سکھایا ان کو جو چاہاا اور اگر نہ ہوتا دفع کرا دینا اللہ کا ایک کو دوسرے سے تو خراب ہو جاتا ملک لیکن اللہ بہت مہربان ہے جہان کے لوگوں پر

سوال:12- وہ کون سے نبی علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو جہاد کی دعوت دی مگر قوم نے ہٹ دھرمی دکھائی؟
جواب:- حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاد کا حکم سنایا تو قوم بولی کہ آپ اور آپ کا خدا مل کر لڑیں ہم تو یہاں بیٹھے ھوئے ہیں۔
قَالُواْ يَا مُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُواْ فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ5:24
ترجمہ:-
بولے اے موسٰی ہم ہرگز نہ جاویں گے ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں سو تو جا اور تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں

سوال:13- وہ کون سے نبی علیہ السلام ہیں جنہوں نے نیت کی تھی کہ اللہ پاک ان کو سو بیٹے دے ، اور وہ ان سب کو اللہ کے راستے کا شہسوار اور مجاھد بنائیں گے؟
[size=xx-large]جواب:- حضرت سلیمان علیہ السلام


حدیث
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن ہرمز نے بیان کیا انہوں نے کہاکہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا‘ ان سے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سلیمان بن داؤد علیھماالسلام نے فرمایا آج رات اپنی سویا ( راوی کو شک تھا ) ننانوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں گے ۔ ان کے ساتھی نے کہا کہ ان شاءاللہ بھی کہہ لیجئے لیکن انہوں نے ان شاءاللہ نہیں کہا ۔ چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اوران کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت ان شاءاللہ کہہ لیتے تو ( تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور ) سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے 
صحیح بخاری
کتاب الجہاد


سوال:14- قرآن مجید کی کون سی آیت میں جہاد کی فرضیت کا حکم ھے؟
جواب:- سورۃ بقرہ آیت نمبر 216 پارہ دوئم۔

كُتِبَ عَلَيۡڪُمُ ٱلۡقِتَالُ وَهُوَ كُرۡهٌ۬ لَّكُمۡ‌ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تَكۡرَهُواْ شَيۡـًٔ۬ا وَهُوَ خَيۡرٌ۬ لَّڪُمۡ‌ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّواْ شَيۡـًٔ۬ا وَهُوَ شَرٌّ۬ لَّكُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَأَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ2:216
ترجمہ:-
فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے 

سوال:15- قتال کے کیا معنی ہیں ؟

جواب:- قتال اللہ کے راستے میں کلمے اور دین کی سربلندی کی خاطر دشمنوں سے لڑنے کو کہتے ہیں
حدیث
وعن ابن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: أُمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأنَّ محمدًا رسول الله، ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام، وحسابهم على الله -تعالى- ( البخاري ومسلم )
ترجمہ:-
مجھے حکم دیا گیا ھے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہان تک کہ وہ اقرار کر لیں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں(محمد) صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا رسول ھوں، اقرار کیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا سوائے اسلامی حق کے،اور اس کا حساب اللہ تعالٰی کے زمے ھے۔

سوال:16- جہاد رحمت ھے یا فساد؟

جواب:- جہاد اللہ رب العزت کی جانب سے پوری انسانیت کے لئے بہت بڑی رحمت ھے

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أُوْلَـئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللّهِ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ2:218

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور لڑے اللہ کی راہ میں وہ امیدوار ہیں اللہ کی رحمت کے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے 

سوال:17- جہاد مسلمانوں کے لئے کسطرح رحمت ھے؟

جواب:- جہاد کے زریعے مسلمانوں کو اللہ پاک کی محبت اور قرب ملتا ھے،اور وہ بڑے بڑے انعامات ملتے ہیں جن کا اللہ رب العزت نے جہاد کرنے والوں سے وعدہ فرما رکھا ھے، اسی طرح جہاد کے زریعے سے مسلمانوں کو زمین پر خلافت ملتی ہے اور کافروں سے اموال غنیمت ملتے ہیں جن سے ان کی معاشی حالت سدھرتی ہے اور جہاد سے شہادت کا عالی مقام بھی خوش نصیبوں کو ملتا ھے۔
لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمً4:95
ترجمہ:-
برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے مال اور جان سے بیٹھ رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی کا اور زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں

سوال:18- جہاد کافروں کے لئے کس طرح رحمت ھے؟

جواب:- جہاد کافروں کے لئے اس طور پر رحمت ھے کہ انہیں جہاد کی بدولت بسااوقات کفر سے نجات ملتی ھے،اور وہ مسلمانوں سے شکست کھاکر ہٹ دھرمی چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ کی عظمت جال لیتے ہیں، اور بعض اوقات مسلمانوں کے زیر سایہ رہنے کی وجہ سے انہیں اسلام سے محبت ھوجاتی ھے اور وہ مسلمان ھوجاتے ہیں ، اسی طرح کافروں کو جہاد کی برکت سے کفر کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارہ ملتا ھے اور وہ اسلامی حکومت کے عدل و انصاف میں سکون سے رہتے ہیں۔(تعلیم الجہاد/)


سوال:19- جہاد سے پہلے کیا چیز ضروری ھے؟
جواب:- جہاد سے پہلے جہاد کی تربیت اور تیاری ضروری ھے، قرآن مجید میں اللہ نے مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کا حکم دیا ھے۔
وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ8:60
ترجمہ:-
اور تیار کرو انکی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور دوسروں پر ان کےسوا جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں وہ پورا ملے گا تم کو اور تمہار حق نہ رہ جائے گا 

سوال:20- جہاد کی تیاری کے کیا معنی ہیں ؟
جواب:- جہاد کی تیاری سے مراد اسلحہ بنانا اور اسے استعمال کرنا سیکھنا، جسمانی طور پر جہاد کے لئے مظبوط بننا، جنگی فنون اور آلات حرب کو زیادہ سے زیادہ سیکھنا، ہر زمانے کے مطابق اتنا اسلحہ جمع رکھنا کہ کفار رعب میں رہیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہ کرسکیں۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ8:60
ترجمہ:-
اور تیار کرو انکی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور دوسروں پر ان کےسوا جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں وہ پورا ملے گا تم کو اور تمہار حق نہ رہ جائے گا 

سوال:21- کیا جہاد کی تیاری پر بھی ثواب ملے گا؟
جواب:- جہاد کی تیاری پر اللہ رب العزت کی طرف سے بہت اجر ملتا ھے، یہاں تک کہ اگر جہاد کی نیت سے گھوڑہ پالا جائے تو اس گھوڑے کے جلنے پر بھی اس کے مالک مجاھد کو اجر ملتا ھے اور اس گھوڑے کے پیشاب اور لید کرنے پر بھی قیامت کے دن اس کے مالک کو اجر و ثواب ملے گا، یہی حکم جہاد کی تیاری کے لئے رکھی جانے والی ہر چیز کا ھے۔
حدیث
““ہم سے علی بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام عبداللہ بن المبارک نے بیان کیا ، کہا مجھ کو طلحہ بن ابی سعید نے خبردی ، کہا کہ میں نے سعید مقبری سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ اور اس کے وعدہ ثواب کو جانتے ہوئے اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لیے ) گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا ، پینا اور اس کا پیشاب و لید سب قیامت کے دن اس کی ترازو میں ہوگا اور سب پر اس کو ثواب ملے گا ““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد

سوال:22- جہاد کی دعوت دینے کی کیا اہمیت ھے؟
جواب:- اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ خود بھی جہاد کیجئے اور ایمان والوں کو اس عمل پر ابھارئے،چونکہ جہاد ایک مشکل عمل ھے اور نفس و شیطان انسان کو اس عظیم عمل سے روکتے ہیں اس لئے جہاد کی خوب دعوت دینی چاھئیے تاکہ دعوت دینے والے اور سننے والوں کا جزبہ زندہ رہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ8:65
ترجمہ:-
اے نبی شوق دلائیے مسلمانوں کو لڑائی کا اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے 

سوال:23- جو مسلمان جہاد کرتے ھوئے دشمن کے ہاتھوں مارا جائے اسے کیا کہتے ہیں؟
جواب:- شہید
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ36:26
ترجمہ:-
حکم ہوا چلا جا بہشت میں بولا کسی طرح میری قوم معلوم کر لیں

سوال:24- شہید کی کیا فضیلت ھے ؟
جواب:- اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ھے "شہید کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں" حدیث شریف میں ھے کہ اللہ شہید کو چھ نعمتیں عطا فرماتے ہیں ، پہلے ہی لمحے اس کی مغفرت اور جنت میں ٹھکانہ دکھادیا جاتا ھے، عزاب قبر سے محفوظ کردیا جاتا ھے، فزع اکبر(قیامت کی مصیبت) سے مامون کردیا جاتا ھے، اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جاتا ھے جسکا اک یاقوت دنیا اور جوکچھ اس دنیا میں ھے اس سے بہتر ھے، بڑی بڑی آنکھوں والی 72بہتر حوروں سے شہید کی شادی کردی جاتی ھے، اور شہید کے 70ستر رشتہ داروں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے،( سبحان اللہ)(اللہ مجھے بھی میٹھی اور لزیز شہادت عطا فرمائے۔ آمین)

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ2:154
ترجمہ:-
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔
إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ9:111
ترجمہ:-
اللہ نے مومنوں سے انکی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور اسکے عوض انکے لئے بہشت تیار کی ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

سوال:25- شہادت کی تمنا کرنا کیسا ھے ؟
جواب:- ہر مسلمان کو شہادت کی تمنا کرنی چاھئیے اور اللہ پاک سے اس کے لئیے دعا کرنی چاھئے ، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے پیں بار بار شہید ھونے کی تمنا فرمائی۔،
حدیث
““ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر د ی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں سعید بن مسیب نے ، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لئے نکل جاوں اور مجھے خود اتنی سواریا ں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ساتھ لے چلو ں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو اللہ کے راستے میں غزوہ کے لئے جارہا ہوتا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاوں پھر قتل کیا جاوں اور پھر زندہ کیا جاوں اور پھر قتل کردیا جاوں ۔
صحیح بخاری
کتاب الجہاد



سوال:26- جو مسلمان جہاد میں شہید نہ ھو اسے کیا کہتے ہیں؟
جواب:- اسے عام طور پر غازی کہا جاتا ھے،ویسے تو غازی ہر جہاد کرنے والے کو کہا جاتا ھے مگر خصوصی طور پر ان کو کہا جاتا ھے جو جہاد میں شہید نہیں ھوتے اور جہاد کرتے ھوئے واپس آجاتے ہیں۔حدیث
““ہم سے ابو معمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ہم سے حسین نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے ابو سلمہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے بسربن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے کو سازوسامان دیا تو وہ ( گویا ) خود غزوہ میں شریک ہو ااور جس نے خیر خواہانہ طریقہ پر غازی کے گھر بار کی نگرانی کی تووہ ( گویا ) خود غزوہ میں شریک ہوا““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد


سوال:27- وہ مال جو مسلمان جہاد میں کافروں سے حاصل کرتے ہیں اسے کیا کہتے ہیں؟
جواب:- مالِ غنیمت
حدیث
““ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیا ن کیا ‘ ان سے قتادہ نے اور انہیں انس رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جعرانہ سے ‘ جہاں آپ نے جنگ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا ‘ عمرہ کا احرام باندھا تھا ““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد


سوال :28- مال غنیمت کیسا مال ھے؟
جواب:- مال غنیمت بہت پاکیزہ مال ھے، اللہ تعالٰی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہی مال پسند فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں یہی مال استعمال فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مسلمان کے لئے سب سے پاکیزہ مال ،مال غنیمت ھے"۔
فَكُلُواْ مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ8:69
ترجمہ:-
اب جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ کہ وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے
سوال:29- مال غنیمت اور مال فئے میں کیا فرق ھے؟
جواب:- اگر دشمنوں سے لڑائی کے بعد مال ھاتھ آئے تو اسے "مال غنیمت " کہتے ہیں اور اگر میدان جہاد میں کافروں کا لشکر مسلمانوں کے سامنے بغیر جنگ کئے ہتھیار ڈال دے تو ان سے ملنے والا مال " مال فئے" کہلاتا ھے۔(تعلیم الجہاد)


سوال:30- مسلمان کو میدان جہاد میں کس طرح لڑنا چاھئے؟
جواب:- اللہ رب العزت کا حکم ھے کہ" اے ایمان والو! جب تم کافروں سے لڑو تو ثابت قدمی کے ساتھ لڑائی کرو اور ثابت قدم رہنے کے لئے اللہ تعالٰی کا خوب ذکر کرو"، اس لئے مسلمانوں کو جہاد میں ڈٹ کر ثابت قدمی کے ساتھ لڑنا چاھئیے اور اللہ تعالٰی کا خوب ذکر کرنا چاھئیے کیوں کہ اللہ کے ذکر سے خوب توانائی ملتی ہے اور دل سے دشمن کا خوف نکل جاتا ھے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ8:65
ترجمہ:-
اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر سو ایسے ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اس لئے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔

سوال:31-میدان جہاد میں پیچھے ہٹنا جائز ھے یا نہیں؟
جواب:- اگر پیچھے پڑاؤ ڈالے ھوئے لشکر تک پہنچنے کے لئے پیچھے ھٹا یا دشمنوں کو دھوکہ دے کر دوبارہ عقب سے حملہ کرنے کئ لئے پیچھے ھٹا تو اس کی اجازت ھے
وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُO(الانفال:16)
ترجمہ:-
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے ان سے پیٹھ پھیرے گا تو سمجھو کہ وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

سوال:32- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ شہید ھوئے؟
جواب:- 259 صحابہ شھادت کے رتبہ پر پہنچے۔(تعلیم الجہاد،صفحہ19)


سوال:33- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے جہاد میں کتنے کافر مارے گئے؟
جواب:- 759 کافر مارے گئے۔(تعلیم الجہاد،صفحہ19)


سوال:34- رباط کسے کہتے ہیں ؟
جواب:- اسلامی سرحدوں کے لئے یا مسلمانوں کے لشکر کی حفاظت کی خاطر پہرے داری کرنے کو "رباط" کہتے ہیں۔
حدیث
““ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ، انہوں نے ابوالنضر ہاشم بن قاسم سے سنا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوحازم ( سلمہ بن دینار ) نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں شام کو چلے یا صبح کو تو وہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہے ““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد

سوال:35- رباط کی کیا فضیلت ھے؟

جواب:- رباط افضل عمل ھے، اللہ تعالٰی نے قرآن میں اس کا حکم دیا ھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے شمار فضائیل بیان فرمائے ، جو خوشقسمت مجاھد رباط کا عمل کرتا ھے اسے پیچھے رہ جانے والوں کے تمام اعمال کا ثواب ملتا رہتا ھے، اور وہ آنکھ جو پہرے داری میں جاگی ھو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی اور ایک دن کی پہرے داری دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔(تعلیم الجہاد،صفحہ20 )


سوال:36-حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نبی السیف صلی اللہ علیہ وسلم ھے ، اس کے کیا معنی ہیں؟
جواب:- نبی السیف کے معنی "تلوار والے نبی" ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 
“" میں قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ھوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ھے اور زلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنادی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔“"(مسند احمد)

سوال:37- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی السیف کیوں کہتے ہیں؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ " اللہ نے مجھے تلوار کے ساتھ بھیجا ھے"، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار کے زریعے سے سرکش کافروں کو ختم فرمایا جس کی وجہ سے لوگوں کو اسلام کے قریب آنے کا موقع ملا، اور انسانیت کو امن و سکون ملا ، اسلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام "تلوار والے نبی" بھی ھے،تلوار سے مراد جہاد ھے یعنی جہاد والے نبی، اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کی طاقت عطاء کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرایا نہ جا سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 
“" میں قیامت سے پہلے تلوار دے کر بھیجا گیا ھوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ھے اور زلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنادی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔"(مسند احمد )


سوال:38- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نبی الملاحم ھوں" اس کے کیا معنی ہیں؟

جواب:- نبی الملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی ہیں " جنگوں والے نبی "صلی اللہ علیہ وسلم ، ملحمہ گھمسان کی جنگ کو کہتے ہیں ، چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنا جہاد ھوا اس سے پہلے کبھی نہیں ھوا، اور یہ جہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں قیامت تک رہے گا، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگوں والے نبی کہا جاتا ھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھمسان کے معرکے لڑے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی بہادر نہ تھا اور نہ ھے اور نہ ھوگا۔ (شعب الایمان،امام بہقی رحمۃ اللہ)


سوال:39- جہاد کی دوسرے دینی اعمال کے مقابلے میں کیا حیثیت اور مقام ھے؟
جواب:- جہاد تمام دینی اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ھے، کیونکہ جہاد میں جان اور مال کی قربانی دینی ھوتی ھےجو کسی اور دینی عمل میں نہیں، اسلئے جہاد سب سے افضل عمل قرار دیا گیا ، اور ایک وجہ یہ بھی ھے کہ جہاد دیگر تمام اعمال کا محافظ ھے اس لئے جہاد کو تمام دینی اعمال پر فضیلت حاصل ھے۔
مامن شی افضل عملک الا الجہاد فی سبیل اللہ 
(طبرانی)
تمہارے اعمال میں جہاد فی سبیل اللہ سب سے افضل ھے

خیراعمالکم الجہاد
(ابن عساکر)
اعمال میں سب سے بہتر جہاد ھے

سوال:40- جہاد میں اک صبح اور اک شام لگانے کی کیا فضیلت ھے؟

جواب:- حدیث شریف میں ھے کہ جہاد میں ایک صبح یا اک شام کا لگا دینا دنیا اور دنیا کے تمام مال و اسباب سے افضل ھے۔ اس حدیث کی تشریح میں علماء نے لکھا ھے کہ اگر ایک آدمی کو تمام دنیا کا مال و دولت اور اسباب دے دئے جائیں اور وہ یہ سارا مال و اسباب اللہ کی اطاعت میں خرچ کردے تب بھی اس کا اجر اس آدمی کے اجر کے برابر نہیں ھو سکتا جس نے جہاد میں ایک صبح یا اک شام لگائی۔حدیث
““ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے وہب بن خالد نے ( فضل جہاد میں ) بیان کیا‘ کہا ہم سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح یا ایک شام دنیا سے اورجو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد


سوال:41- جہاد کب فرض عین ھوتا ھے؟

جواب:- جب کافر مسلمانوں پر حملہ کردیں یا مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیں یا اس وقت جب مسلمانوں اور کافروں کی صفیں‌میدان میں آمنے سامنے آجائیں یا مسلمانوں کا خلیفہ لوگوں کو جہاد کے لئے بلائے ، تو ان تمام صورتوں میں جہاد فرض عین ھو جاتا ھے۔،(تعلیم الجہاد//۔صفحہ24۔۔۔)


سوال:42- فرض عین کے معنی کیا ہیں ؟

جواب:- فرض عین کے معنی ہیں کہ ہر مسلمان مرد عورت پر جہاد فرض ھو جانا، کسی کے ادا کرلینے کی وجہ سے دوسروں کے زمہ سے ساقط نہیں ھوگا، جب جہاد فرض عین ھوجائے تو والدین کی اجازت یا جس کا قرض دینا ھو اس کی اجازت ضروری نہیں رہتی اور نہ ہی غلام اور ملازم کے لئے اپنے آقا اور مالک کی اجازت ضروری ھوتی ہے
حدیث
““ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا‘ ہم سے یحیٰ قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا مجاہد سے‘ انہوں نے طاؤس سے اورانہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا مکہ فتح ہونے کے بعد ( اب مکہ سے مدینہ کے لئے ) ہجرت باقی نہیں ہے‘ لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے اس لئے تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو ““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد(اورتعلیم الجہاد،صفحہ24)


سوال:43- جہاد نہ کرنے کا کیا گناہ ھے؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ھے کہ" جس نے جہاد نہ کیا اور جہاد کا شوق اور ارادہ بھی اس کے دل میں نہ ھوا تو یہ آدمی منافقت کے ایک حصہ پر مرے گا"۔ اک اور حدیث میں ھے کہ "جس نے جہاد نہ کیا اور نہ کسی مجاھد کو سامان جہاد دیا اور نہ کسی مجاھد کے گھر کی دیکھ بھال کی تو اللہ پاک قیامت سے پہلے پہلے اسے کسی درد ناک مصیبت میں مبتلا فرمادیں گے"۔(اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو اس وعید سے محفوظ فرمادے)(آمین)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ9:38
ترجمہ:-
مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپکے جاتے ہو یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ سو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔

سوال:44- جہاد میں اگر مسلمان مجاھد کو زخم لگے تو اس کا کیا ثواب ھے؟

جواب:- جہاد میں زخمی ھونے کا بہت ثواب ھے، حدیث میں آیا ھے کہ " جہاد میں زخمی ھونے والا قیامت میں آئے گا تو اس کے خون کا رنگ تو خون کا ھو گا مگر خوشبو مشک کی ھو گی"۔
حدیث
““ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابو الزناد سے‘ انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کوئی زخمی ہوا ہے‘ وہ قیامت کے دن اس طرح سے آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہوگا‘ رنگ تو خون جیسا ہوگا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہوگی ۔““
صحیح بخاری
کتاب الجہاد


سوال:45- اگر جہاد پر جاتے ھوئے راستے میں مجاھد کا انتقال ھوجائے تو کیا اجر ملے گا؟
جواب:- مجاھد جب جہاد کے لئے نکل کھڑا ھو تو کسی بھی وجہ سے اس کا انتقال ھوجائے اس کے لئے جنت کا وعدہ ھے۔
وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللّهِ وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا4:100
ترجمہ:-
اور جو شخص اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی رہنے کی جگہ اور کشائش پائے گا۔ اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آ پکڑے۔ تو اسکا ثواب اللہ کے ذمے ہو چکا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔

سوال:46- جہاد میں مال خرچ کرنے کا کیا ثواب ھے؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے جس نے مجاھد کے لئے سامان کا انتظام کیا اس نے بھی جہاد کیا، جو آدمی اپنے گھر بیٹھے ھوئے جہاد کے لئے ایک روپیہ خرچ کرے اسے سات سو گنا اجر ملتا ھے اور جو خود جہاد میں نکلے اور خرچ کرے اسے ایک کے بدلے سات لاکھ کا اجر ملتا ھے اور اللہ جسے چاھے اس سے بھی زیادہ عطاء فرمادیتا ھے۔(تعلیم الجہاد،صفحہ26 )


سوال:47- سب سے افضل جہاد کون سا ھے؟

جواب:- حدیث شریف میں ھے کہ " سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ مجاھد کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں اور اس کا اپنا خون بھی بہہ جائے " یعنی شہید ھو جائے۔(المستدرک/المعجمالمعجم الصغیر اللطبری)


سوال:48- دشمن پر تیر پھینکنے یا گولی چلانے کا کیا ثواب ھے؟

جواب:- جس نے دشمن کی جانب ایک تیر پھینکا اور وہ تیر دشمن کو لگا یا نہ لگا تیر پھینکنے والے کو ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ھے، حدیث میں ھے کہ" اللہ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت عطا فرمائیں گے، ایک اس کو جس نے ثواب کی نیت سے وہ تیر بنایا، دوسرا تیر پھینکنے والا، اور تیسرا تیر مارنے والے کے ھاتھ میں تیر پکڑانے والا"۔(تعلیم الجہاد،صفحہ27:28)


سوال:49- جہاد میں کافر کو قتل کرنے کا کیا ثواب ھے؟

جواب:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" کافر اور اس کو قتل کرنے والا جہنم میں جمع نہیں ھوں گے"، یعنی کافر تو جہنم میں ہی جائے گا لیکن اس کو قتل کرنے والا مجاھد جنت میں جائے گا۔
(تعلیم الجہاد)
حدیث1
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَجْتَمِعُ فِي النَّارِ کَافِرٌ وَقَاتِلُهُ أَبَدًا(سنن ابوداؤد)
محمد بن صباح بزار، اسماعیل، ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کافر اور اس کو قتل کرنے والا دوزخ میں کبھی جمع نہ ہوگا۔ (یعنی جس مسلمان نے جہاد میں کسی کافر کو قتل کیا وہ دوزخ میں جانے سے محفوظ ہوا)
حدیث2


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا
إِسْمَعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَجْتَمِعُ کَافِرٌ وَقَاتِلُهُ فِي النَّارِ أَبَدًا
(صحیح ابوداؤد)
یحیی بن ایوب، قتیبہ، علی بن حجر، اسماعیل یعنون ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کافر اور اسے قتل کرنے والا مسلمان کبھی جہنم میں اکٹھے نہ ہوں گے۔


سوال:50- جہاد میں نکلتے ھوئے کیا نیت ھونی چاھئیے؟

جواب:- جہاد میں نکلتے وقت اللہ رب العزت کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کی نیت کرنی چاھئیے، اپنے آپ کو بہادر کہلوانے یا مال و دولت جمع کرنے کی نیت سے ھرگز نہیں جانا۔(تعلیم الجہاد)


No comments:

Post a Comment