Front - The Prophet Muhammed

Thursday, October 3, 2013

سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ


سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ


نوٹ: یاد رہے سر سید احمد خان نے ہند میں سب سے پہلے حدیث کا انکار کیا اور اسلام کی تشریح اپنی ٹیڑھی عقل اور فہم کے مطابق کی ، قرآن کا معنی اور تفسیر لغات کے مطابق کیا.عجیب عجیب باتیں اسلام میں نئی پیش کیں
جن کا ذکر پچھلی ١٤ صدیوں میں نہیں ملتا.


سرسید احمد خان ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں کے لیےانتہائی محترم ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک وہ دنیا کی ایک مخصوص برادری (فری میسن) کے متحرک فرد تھے، خود ہمارے سامنے سکولوں کالجوں میں سرسید احمد خان کو ایک عظیم قائد کے طور پر پیش کیا گیا، آج بھی انکی تصویر ہر سکول کالج میں لٹکی نظر آتی ہے، جسے ہماری قوم کا ہر بچہ آتے جاتے دیکھتا ہے اور صبح شام ان کی عظمت کا قائل ہوتا جاتا ہے ۔کئی دفعہ ان کی معتبر شخصیت اور تاریخی کارناموں پر لکھنے کا ارادہ کیا لیکن توفیق نہ ہوسکی ۔ چند دن پہلے خان صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خود خان صاحب نے اپنا نظریہ، اپنے خیالات و افکار نہایت خوبی سے بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب کی مدد سے ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ اس لیے پختہ ہوتا گیا کہ ایک متنازع شخصیت کے متعلق فیصلہ کرنا عام طور پر کافی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں انکی اپنی تحریر جو بدست خود بقلم خود تھی ’ ہاتھ آگئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں خود وہ اپنی تحریروں کے بین السطور میں اپنا تعارف کس انداز میں کرواتے ہیں۔ جناب کی تحریر کردہ کتاب " مقالات سرسید" کے مندرجات اس مخمصے سے نکلنے میں یقینا ہماری مدد کریں گے۔

1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں

" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری کی جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:

۔(مقالات سرسید، صفحہ 41)۔

انگریز سرکار کے متعلق سرسید صاحب کے دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔

" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو 
گورنمنٹ (فرنگی) کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنمنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔

(مقالات سرسید، صفحہ 44)

اس کے عوض میں جناب کو کیا ملا، پڑھیے

" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ کی خبر بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔

سبحان اللہ ! یہ تو تھا جذبہ جاں سپاری۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر حال یہ تھا کہ خاں صاحب اپنی جان کو اتنا ہلکا اور گوری چمڑی والے گماشتے فرنگیوں کو اتنا قیمتی سمجھتے تھے کہ خود کو ان پر بے دریغ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ ارشاد فرماتے ہیں :

" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔

(مقالات سرسید، صفحہ 47)

انگریز حکام کی طرف سے خاں صاحب پر یہ کرم نوازیاں محض وقتی نہ تھیں، انہیں باقاعدہ پنشن کا مستحق سمجھا گیا اور یوں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی خدمت اور خیر خواہی کا صلہ دشمنان ملت سے پاتے رہے۔ ثبوت حاضر ہیں:

" دفعہ پنجم رپورٹ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ایام غدر میں کارگذاری سید احمد خان صاحب صدر امین کی بہت عمدہ ہوئی، لہذا ہم نے ان کے واسطے دوسو روپیہ ماہواری کی پنشن کی تجویز کی ہے۔ اگرچہ یہ رقم ان کی نصف تنخواہ سے ذیادہ ہے، مگر ہمارے نزدیک اس قدر روپیہ ان کے استحقاق سے ذیادہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری تجویز کو مسلم رکھیں۔ اس واسطے کہ یہ افسر بہت لائق اور قابل نظر عنایت ہے۔ دستخط شیکسپیئر صاحب، مجسٹریٹ کلکٹر" ۔(مقالات سرسید، صفحہ 54)۔

ہماری روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں۔ خان صاحب اسی مشن پر اس فریضہ عادلہ کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔

" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟ شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔

(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)

جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں :۔

" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو " (مقالات سرسید، صفحہ 94)۔

آہستہ آہستہ وہ اپنی رو میں بہتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ مفتی اور مصلح کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ تمام علما اور مجاہدین، تمام محب وطن ہندوستانی انگریز کے خلاف سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، جان مال لٹا رہے تھے اور خان صاحب انہیں مبلغ اعظم اور مصلح وقت بن کر سمجھا رہے تھے:۔

اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

" اس ہنگامہ میں برابر بدعہدی ہوتی رہی۔ سپاہ نمک حرام عہد کر کے پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کرکر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔

مقالات سرسید، صفحہ 99

خان صاحب نے اس یادواشت نما کتابچے میں اور بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک پیش کیا جائے۔ اس ڈر سے کہ مضمون کی طوالت عموما قارئین میں بددلی پیدا کرتی ہے،آخری پیرگراف پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں سرسید مسلمانوں کو تہذیب سکھلا رہے ہیں:۔

" اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی وجہ اسکی کارتوس تھا۔ کارتوس میں کاٹنے سے مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ؟ہمارے مذہب میں اہل کتاب کاکھانا درست ہے، انکا ذبیحہ ہم پر حلال ہے (چاہیں سور کھلادیں: راقم) ہم فرض کرتے ہیں کہ اس میں سور کی چربی ہوگی۔ تو پھر بھی ہمارا کیا نقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہوچکا ہے کہ جس چیز کی حرمت اور ناپاکی معلوم نہ ہو، وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے( کارتوس میں تو معلوم تھی جناب: راقم) اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا۔ صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا، سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا، ان گناہوں سے جو اس غدر میں بدذات مفسدوں نے کیے"۔

(مقالات سرسید، صفحہ 105)

گویا سور جیسی ناپاک چیز کا استعمال اتنا ذیادہ گناہ نہیں جتنا انگریز جیسے غمخوار حاکم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس قسم کی تحریروں سے خان صاحب کی تعلیمی تحریکوں کا ہدف اور اصلاحی تحریروں کا اصل مشن سامنے آجاتا ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ مسلمانان برصغیر کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کا ہدف اور انہیں جدید تعلیم کے نام پر انگریز کی لامذہب تہذیب میں رنگنے کا مشن انہوں نے کس لگن سے انجام دیا۔ انکی " تحریک علی گڑھ" میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے نام پر یورپ کے فرسودہ اور ناکارہ نظریات ہندوستان کے آزادی پسندوں کو پڑھائے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ممالک کے باشندے آج تک تعلیمی ترقی کے نام پر یورپ کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوچکے ہیں، لیکن ترقی ابھی تک سراب ہی ہے۔ یہ تو برصغیر کے باشندوں کی ذاتی ذہانت و قابلیت ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلیں ورنہ جدید تعلیم یافتہ حضرات تو محض بابو گیری سیکھ کر یورپ کی نقالی تک محدود رہے۔اس جدید ترقی سے ہمیں بس اتنا حصہ ملا ہے کہ ہمارے ذہین دماغ اور قابل نوجوان امریکا و یورپ کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے پڑھ کر مغربی زندگی کی چکا چوند کے سحر میں ایسے آئے کہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔

سرسید کی تعلیمی تحریک کے سیل رواں میں خس و خاشاک کی طرح مشرق کے باسیوں کے بہنے کے باوجود انکے حصے میں وہی پرانا مٹکا آیا، بلوریں جام تو ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ مغربی محققین کے لیے جو تعلیم وتحقیق فرسودہ ہوجاتی ہے تو وہ ڈسٹ بن میں پھینکنے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں بھجوادیتے ہیں اور اصل ٹیکنالوجی اور اس کے حصول کے ذرائع کی ہوا نہیں لگنے دیتے، لہذا ہمارے ہاں سائنس نے کبھی رواج پایا نہ ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کا مزاج بنا۔ البتہ ہماری نسل کی نسل "ہمٹی ڈمٹی" ٹائپ کے نیم مشرقی نیم مغربی ہندوستانیوں میں تبدیل ہوگئی اور بابوؤں کی کھیپ کی کھیپ پیدا ہوکر شکل وصورت کے ہندوستانی اور فکرو طرز زندگی کے لحاظ سے انگلستانی بنتے گئے۔ اس سارے کارنامہ کا کریڈٹ خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی دلی خواہش پوری ہوئی ان کے تعلیمی اداروں نے انگریز کی حکومت کے لیے وفادار کلرک اور بابو تیار کر کر کے فراہم کیے ، یہ وفادار ملازم انگریز کی غلامانہ اطاعت تو کرسکتے تھے، اس سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

تحریکات سیاسی ہوں یا تعلیمی۔۔۔۔ ان کو ان شخصیات کے نظریات کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے جنہوں نے انہیں برپا کیا اور کسی شخصیت کے نظریات کی ترجمانی اس کی اپنی تحریرات سے ذیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر ہم نے خاں صاحب کی برپا کردہ تحریک کو اس مضمون میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ، شاید کہ ہماری قوم حقیقت اور سراب کا فرق سمجھ لے، جدید تعلیم کو جدید تہذیب سے الگ کرکے دیکھنا شروع کردے اور ترقی کی خواہش میں مغرب کی ایسی نقالی نہ کرے کہ اپنی چال بھول جائے۔

1 comment:

  1. چائے دنیا کے محبوب ترین مشروبات میں سے ایک ہے۔
    چائے کے نقصانات

    ReplyDelete