Front - The Prophet Muhammed

Saturday, January 4, 2014

چائےکی تاریخ فوائد و نقصانات

چائےکی تاریخ فوائد و نقصانات

تُمہيد
ميں نے چائے کے متعلق مطالعہ 2004 عيسوی میں شروع کيا اور ڈيڑھ سال کے مطالعہ کہ بعد جو کچھ حاصل ہوا اُس کا خُلاصہ پيش کر رہا ہوں کہ شائد اس کے مطالعہ سے کسی کا بھلا ہو اور وہ ميرے لئے دعائے خير کرے ۔
افتخار اجمل بھوپال
04 دسمبر 2005ء
پيش لفظ
آجکل ہمارا حال یہ ہے ۔ ۔ ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے
کالی چائے (جو آجکل دودھ ڈال کر یا بغیر دودھ پی جاتی ہے) اور سگريٹ کی طلب بعض حضرات کے اعصاب پر اس قدر سوار ہو جاتی ہے کہ اُنہيں کُچھ سوجھتا ہی نہيں گويا کہ اُن کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ وہ نشہ آور اجزاء ہيں جو اِن ميں موجود ہيں اور نشہ کی سب سے بڑی خوبی يہ ہے کہ اس کا جو عادی ہو جائے اسے اس سے پيچھا چھڑانے کيلئے مضبوط قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انگریز ہمیں افسر شاہی کے ساتھ ساتھ يہ دو عِلّتيں دے گئے لوگوں کو عادت ڈالنے کيلئے چائے تیار کر کے اور سگریٹ سلگا کر شرو‏ع میں ہندوستان کے لوگوں کو چوراہوں میں کھڑے ہو کر مُفت پلائے گئے اور گھروں کے لئے بھی مفت دیئے گئے ۔ جب لوگ عادی ہو گئے تو معمولی قیمت لگا دی گئی۔ پھر آہستہ آہستہ قیمت بڑھتی چلی گئی۔ آج ہماری قوم ان فضول اور نقصان دہ چیزوں پر اربوں روپیہ کا ضائع کرتی ہے
یہ کالی یا انگریزی چائے جو آجکل عام پی جاتی ہے ہندوستانيوں يا مشرقی لوگوں کی دريافت يا ايجاد نہیں ۔ یہ چائے بیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان میں انگريزوں نے متعارف کرائی ۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی فوجیوں کو پہلی جنگ عظیم کے دوران سستی خوراک دی جائے۔ ایک برطانوی کمپنی نے ہندوستانی فوج کی خوراک کا خرچہ کم کرنے کے لئے بالخصوص تحقیق کر کے یہ کالی چائے دریافت کی ۔ یہ چائے بھوک کو مارتی ہے اس لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔ ہندوستانی فوجیوں کو چائے ۔ بھُنے ہوئے چنے اور کرخت بسکٹ بطور ناشتہ اور دوپہر اور رات کا کھانا دیا جاتا تھا
۔
یہ کالی یا انگریزی چائے جو آجکل عام پی جاتی ہے ہندوستانيوں يا مشرقی لوگوں کی دريافت يا ايجاد نہیں ۔ کالی چائے یا انگریزی چائے بیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان میں انگريزوں نے متعارف کرائی ۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی فوجیوں کو پہلی جنگ عظیم کے دوران سستی خوراک دی جائے۔ ایک برطانوی کمپنی نے ہندوستانی فوج کی خوراک کا خرچہ کم کرنے کے لئے بالخصوص تحقیق کر کے یہ کالی چائے دریافت کی ۔ یہ چائے بھوک کو مارتی ہے اس لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔ ہندوستانی فوجیوں کو چائے ۔ بھنے ہوئے چنے اور کرخت بسکٹ بطور ناشتہ اور دوپہر اور رات کا کھانا دیا جاتا تھا۔
ہندوستان کی مقامی چائے
کالی چائے سے پہلے ہندوستان بلکہ ایشیا میں چار قسم کی چائے رائج تھیں اور نمعلوم کب سے زیر استعمال تھیں ۔
1 ۔ جس کو آج ہم قہوہ یا سبز چائے يا چائنيز ٹی کہتے ہیں ۔ [لیمن گراس والی نہیں] ۔
2 ۔ قہوہ ہلکے براؤن رنگ کا لیکن کالی چائے کی پتی کا نہیں ۔
3 ۔ قہوہ گہرے براؤن رنگ کا جو کڑوا ہوتا ہے اور پاکستان کے شمالی علاقوں اور عرب ممالک میں اب بھی پیا جاتا ہے
4 ۔ سبز چائے جسے کشمیری چائے بھی کہتے ہیں ۔ اس چائے میں صرف نمک یا نمک اور ٹھوڑی سی چینی ڈال کر پیا جاتا تھا ۔ آجکل بغیر نمک کے صرف چينی ڈال کر پی جا رہی ہے
ہم نےگوری چمڑی کی تقلید میں چائے کی فائدہ مند قسمیں چھوڑ کر مضر کالی چائے اپنا لی ۔
تاريخی حقائق پر ايک نظر [انگريزوں کی مکّاری]
چائے کیسے اور کب بنی اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تہذیب و تمدن میں یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے ایشیا اور افریقہ بہت ترقّی کر چکے تھے ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دولت کے نشہ میں اپنی لاپرواہیوں عیاشیوں اور اہل مغرب بالخصوص انگریزوں کی عیاریوں کے باعث ایشیا اور افریقہ کے لوگ رو بتنزّل ہو کر پیچھے رہتے چلے گئے ۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کردار سے تو سب واقف ہی ہوں گے ۔ چین کے بارے بھی سنیئے ۔ انگریزوں کو پہلی بار سبز چائے کا علم ستارھویں صدی کے شروع میں اس وقت ہوا جب 1615 عیسوی میں ایک شخص رچرڈ وکہم نے چائے کا ایک ڈبّہ شہر مکاؤ سے منگوایا ۔ اس کے بعد لگ بھگ تین صدیوں تک یورپ کے لوگ چائے پیتے رہے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ چائے ہے کیا چیز ۔ اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 میٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔ انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی ۔ پھر چینیوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہردل عزیز لیڈر بن گیا ۔ وہ موزے تنگ تھا جس نے قوم کو ٹھیک کیا اور افیمچیوں کو راہ راست پر لایا جو ٹھیک نہ ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیا جہاں وہ افیون نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ جس کے نتیجہ میں آج پھر چین سب سے آگے نکلنے کو ہے ۔ یہ موذی افیون ہندوستانیوں کو بھی لگ گئی مگر ہندوستان بشمول پاکستان میں ابھی تک کوئی موزے تنگ پیدا نہیں ہوا ۔
تسميہ
جسے آج ہم بھی مغربی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹی کہنے لگے ہیں اس کا قدیم نام چاء ہمیں 350 عیسوی کی چینی لغات یعنی ڈکشنری میں ملتا ہے ۔ شروع میں یورپ میں بھی اسے چاء ہی کہا جاتا تھا ۔ چھٹی یا ساتویں صدی میں بُدھ چین سے چاء کوریا میں لے کر آئے ۔ کوریا میں کسی طرح سی ایچ کی جگہ ٹی لکھا گیا ۔ ہو سکتا ہے اس زمانہ کی کورین زبان میں چ کی آواز والا حرف ٹ يا انگريزی کی ٹی کی طرح لکھا جاتا ہو ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ چاء کو ” ٹے” لکھا گیا ۔ اسطرح یورپ میں چاء ۔ ٹی اور ٹے ۔ بن گئی ۔ جرمنی میں اب بھی چاء کو ” ٹے” کہتے ہیں ۔ آج سے پچاس سال قبل ہند و پاکستان ميں بھی زيادہ تر لوگ چاء ہی کہتے اور لکھتے تھے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ مارکوپولو نے اپنی چین کے متعلق تحریر میں چاء یا چائے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ اس سے شُبہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا مارکو پولو واقعی چین گیا تھا ؟
چائے کی دريافت اور ابتدائی استعمال
چاۓ کی دریافت تقريباً پونے پانچ ہزار سال قبل ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین ۔ شین یا سین میں شہنشاہ دوم شین نونگ [جس کا دور 2737 قبل مسيح سے 2697 قبل مسيح تک تھا] نے علاج کے لئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چاء بھی دریافت کی ۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا ۔ چاء ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے ۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا ۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز ۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سُوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے ۔ بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے پیا جاتا ۔
چائے بطور مشروب
ساتویں صدی عيسوی میں چاء کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا ۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا ۔ اسی دوران یہ چاء تبت اور پھر شاہراہِ ریشم کے راستے ہندوستان ۔ ترکی اور روس تک پہنچ گئی ۔
چائے بطور پتّی
سال 850 عیسوی تک چاء کی ٹکیاں بنانے کی بجائے سوکھے پتوں کے طور پر اس کا استعمال شروع ہو گیا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی میں چاء پیالہ میں ڈال کر اس پر گرم پانی ڈالنے کا طریقہ رائج ہو گیا ۔ جب تیرہویں صدی میں منگولوں یعنی چنگیز خان اور اس کے پوتے کبلائی خان نے چین پر قبضہ کیا تو انہوں نے چاء میں دودھ ملا کر پینا شروع کیا ۔
چو یوآن چانگ جس کا دور 1368 سے 1399 عیسوی تھا نے 1391 عیسوی میں حکم نافذ کروایا کہ آئیندہ چاء کو پتی کی صورت میں رہنے دیا جائے گا اور ٹکیاں نہیں بنائی جائیں گی ۔ اس کی بڑی وجہ ٹکیاں بنانے اور پھر چورہ کرنے کی فضول خرچی کو روکنا تھا ۔
چاء دانی کی ايجاد
سولہویں صدی عيسوی کے شروع میں چائے دانی نے جنم لیا ۔ اس وقت چائے دانیاں لال مٹی سے بنائی گیئں جو کہ آگ میں پکائی جاتی تھیں پھر اسی طرح پیالیاں بنائی گیئں ۔ ایسی چائے دانیاں اور پیالیاں اب بھی چین میں استعمال کی جاتی ہیں ۔
چاء کا يورپ کو سفر
سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں پرتغالی لوگ چین کے مشرق میں پہنچے اور انہیں مکاؤ میں تجارتی اڈا بنانے کی اجازت اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ علاقے کو قزّاقوں سے پاک رکھیں گے ۔ خیال رہے کہ انگریزوں کو چینیوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بالکل نہیں دی اور تجارت کی اجازت بھی ستارہویں صدی کے آخر تک نہ دی ۔ گو شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے ترکوں کے ذریعہ چاء پہلے ہی یورپ پہنچ چکی ہوئی تھی مگر پرتغالی تاجر چینی چاء کو براہ راست یورپ پہنچانے کا سبب بنے ۔
يورپ ميں چائے خانوں کی ابتداء
یورپ میں ولندیزی یعنی ڈچ تاجروں نے چاء کو عام کیا ۔ انہوں نے ستارہویں صدی میں اپنے گھروں کے ساتھ چائے خانے بنائے ۔ سال 1650 عیسوی میں آکسفورڈ میں پہلا چائے خانہ ۔ کافی ہاؤس کے نام سے بنا ۔ اور 1660 عیسوی کے بعد لندن کافی خانوں سے بھرنے لگا جن کی تعداد 1682 عیسوی تک 2000 تک پہنچ گئی ۔
کالی چائے کی دريافت اور سفيد چينی برتنوں کی ايجاد
ستارہویں صدی کے آخر میں کسی نے پتے سوکھانے کے عمل کے دوران تخمیر یعنی فرمنٹیشن کا طریقہ نکالا جو بعد میں کالی چائے کی صورت میں نمودار ہوا یعنی وہ چائے جو آجکل دودھ ملا کر یا دودھ کے بغیر پی جا رہی ہے ۔ یہ کالی چائے ایک قسم کا نشہ بھی ہے جو لگ جائے تو چھوڑنا بہت مُشکل ہوتا ہے ۔ اسے عام کرنے کے لئے اس کا رنگ خوبصورت ہونے کا پراپیگنڈا کیا گیا چنانچہ رنگ دیکھنے کے لئے سفید مٹی کی چائے دانی اور پیالیاں بننی شروع ہوئیں ۔
انگريزوں کی کالی چائے کی دريافت
چین کا مقابلہ کرنے کے لئے انیسویں صدی میں انگریزوں نے چاء کے پودے اور بیج حاصل کئے اور ہندوستان میں چاء کی کاشت کا تجربہ شروع کر دیا ۔ اس کوشش کے دوران بیسویں صدی کے شروع میں يعنی 1905 عیسوی میں انگریزوں کو فلپین لوگوں کے ذریعہ پتا چلا کہ چاء کے پودے کی جنگلی قسم آسام کی پہاڑیوں میں موجود ہے ۔اور چاء کے پودے کا نباتاتی نام کامیلیا سائنیسس ہے ۔ چنانجہ اس کی باقاعدہ کاشت ہندوستان میں شروع کر کے کالی چائے تیار گئی جس کی پیداوار اب 200000 مٹرک ٹن سے تجاوز کر چکی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انگريزوں نے کالی چائے کو ہندوستان میں عام کيا ۔ ہندوستان اور سری لنکا میں صرف کالی چائے پیدا ہوتی ہے ۔
سبز چائے اور کالی چائے ميں فرق
سبز چائے اور کالی چائے پینے کے لئے ان کے تیار کرنے میں فرق ہے ۔ کالی چائے تيار کرنے کيلئے پتے سوکھانے سے پہلے تخمیر یعنی فرمنٹیشن کے عمل سے گذارے جاتے ہيں ۔ مزيد اِسے پينے کيلئے کھولتے ہوئے پانی ميں پتّی ڈال کر تيار کيا جاتا ہے جبکہ سبز چائے پتے احتياط سے سُوکھا کر بيائی جاتی ہے اور پينے کيلئے اس کی پتّی میں 70 درجے سیلسیئس کے لگ بھگ گرم پانی ڈالنا ہوتا ہے ۔
سبز چائے کے فوائد
چائے کا استعمال ہزاروں سال سے ہو رہا ہے ۔ چائے کی ايک قسم سبز جائے يا قہوا جسے چائينيز ٹی بھی کہتے ہيں اور اس کا نباتاتی نام کاميلا سينينسِز ہے صحت و تندرُستی کے بہت سے فوائد رکھتی ہے ۔ سالہا سال سے سبز چائے کے لاتعدار تجربات انسانوں اورجانوروں پر اور تجربہ گاہوں ميں کئے گئ جن سے ثابت ہوا کہ سبز چائے بہت سی بيماريوں کو روکنے يا اُن کا سدِّباب کرنے ميں مدد ديتی ہے ۔
کوليسٹرال
چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس
سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ کے محقق بھی سبز چائے کی مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔
سرطان يا کينسر کا علاج
سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذيل حصّوں کے سرطان يا کينسر کو جو کہ بہت خطرناک بيماری ہے روکتی ہے
مثانہ ۔ چھاتی يا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ يا شريان ۔ پھيپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ يا پروسٹيٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔
ديگر فوائد
سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھيروسکليروسيس ۔ انفليميٹری باويل ۔ السريٹڈ کولائيٹس ۔ ذيابيطس ۔ جگر کی بيماريوں ميں بھی مفيد ہے ۔ ريح يا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی يورَيٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔
جو لوگ روزانہ سبز چائے کے دس یا زیادہ کپ پیتے ہیں انہیں جگر کی بیماریوں بشمول یرقان کا کم خطرہ ہوتا ہے ۔ سبز چائے کا ایکسٹریکٹ چربی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے آدمی موٹا نہیں ہوتا ۔ ۔ سبز چائے بطور سٹیمولینٹ بھی استعمال ہوتی ہے
کالی چائے مُضرِ صحت ہے
کالی چائے پتوں کو فرمنٹ کر کے بنائی جاتی ہے ۔ فرمنٹیشن کو اردو میں گلنا سڑنا کہا جائے گا ۔ اس عمل سے چائے کئی اچھی خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے ۔ اس میں اینٹی آکسی ڈینٹس ہوتے تو ہیں مگر فرمنٹیشن کی وجہ سے بہت کم رہ جاتے ہیں ۔ کالی چائے پینے سے ایڈکشن ہو جاتی ہے اور پھر اسے چھوڑنا مشکل ہوتا ہے ۔ ہر نشہ آور چیز میں یہی خاصیت ہوتی ہے ۔ کالی چائے بھوک اور پیاس کو مارتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھوک اور پیاس کے قدرتی نظام میں خلل ڈالتی ہے جو صحت کے لئے مضر عمل ہے ۔ کالی چائے پیٹ کے سفرا کا باعث بنتی ہے جس سے ہاضمہ کا نظام خراب ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا مضر خصوصیات کے اثرات کئی سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی لوگ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں یا زکام کو ٹھیک کرنے کے لئے کالی چائے بطور علاج کے پیتے ہیں حالانکہ کالی چائے دونوں کے لئے نہ صرف موزوں نہیں بلکہ مضر ہے ۔ جو ذیابیطس کے مریض بغیر چینی کے کالی چائے پیتے ہیں وہ اپنے مرض کو کم کرنے کی کوشش میں دراصل بڑھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ کالی چائے گُردوں کے عمل میں خلّل ڈالتی ہے جِس سے ذیابیطس بڑھ سکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment