Front - The Prophet Muhammed

Wednesday, January 8, 2014

APKI AMANAT APKI SEWA ME



ایک نادان بچہ سامنے سے ننگے پیر آرہا ہو اور اس کا ننھا سا پاؤں سیدھے آگ پر پڑنے جارہا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ آپ فوراً اس بچے کو گود میں اٹھا لیں گے اور اسے آگ سے بچاکر بے انتہا خوشی محسوس کرےں گے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان آگ میں جھلس جائے یا جل جائے تو آپ تڑپ جاتے ہیں اور اس کے لیے آپ کے دل میں ہم دردی پیدا ہوجاتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا: آخر ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ۔ آدم و حوا کی اولاد ہیں اور ہر انسان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، جس میں محبت ہے، ہم دردی ہے، غم گساری ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد پر تڑپ اٹھتا ہے اور ان کی مدد کرکے خوش ہوتا ہے، اس لیے سچا انسان وہی ہے، جس کے سینے میں پوری انسانیت کے لیے محبت کا جذبہ ہو، جس کا ہر کام انسان کی خدمت کے لیے ہو اور جوکسی کو بھی دکھ درد میں دیکھ کر بے چین ہوجائے اور اس کی مدد اس کی زندگی کا لازمی تقاضا بن جائے۔
اس جہان میں انسان کی یہ زندگی عارضی ہے اور مرنے کے بعد اسے ایک اور زندگی ملنے والی ہے، جو دائمی ہوگی۔ اپنے سچے مالک کی بندگی اور اس کی اطاعت کے بغیر اسے مرنے کے بعد کی زندگی میں جنت حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بننا پڑے گا۔
آج ہمارے لاکھوں کروڑوں بھائی اَن جانے میں دوزخ کا ایندھن بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے راستے پر چل رہے ہیں، جو سیدھا دوزخ کی طرف جاتا ہے۔ اس ماحول میں ان تمام لوگوں کی ذمے داری ہے، جو اللہ واسطے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور سچی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا اپنا فرض پورا کریں۔
ہمیں خوشی ہے کہ انسانوں سے سچی ہم دردی رکھنے والے اور ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے دکھ میں گھلنے والے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے آپ کی خدمت میں پیار ومحبت کے کچھ پھول پیش کیے ہیں، جس میں انسانیت کے لیے ان کی محبت صاف جھلکتی ہے اور اس کے ذریعے انھوں نے وہ فرض پورا کیا ہے، جو ایک سچے مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب پر عائد ہوتا ہے۔
ان الفاظ کے ساتھ دل کے یہ ٹکڑے اور آپ کی امانت آپ کے سامنے پیش ہے۔
وصی سلیمان ندوی
ایڈیٹر، ماہنامہ ارمغان ولی اللہ
پھلت ضلع مظفر نگر (یوپی)


اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور انتہائی رحم والا ہے
آپ کی امانت

مجھے معاف کردیں:

میرے پیارے قارئین!مجھے معاف کردیجیے، میں اپنی اور اپنی تمام مسلم برادری کی جانب سے آپ سے معذرت چاہتا ہوں، جس نے اس دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے بہکاوے میں آکر آپ کی سب سے بڑی دولت آپ تک نہیں پہنچائی۔ اس شیطان نے گناہ کی جگہ گنہ گارکی بے عزتی دل میں بٹھا کر اس پوری دنیا کو جنگ کا میدان بنادیا۔ اس غلطی کا خیال کرکے ہی میں نے آج قلم اٹھایا ہے کہ آپ کا حق آپ تک پہنچاوں اور بغیر کسی لالچ کے محبت اور انسانیت کی باتیں آپ کو بتاوں۔
وہ سچا مالک جو دلوں کے حال جانتا ہے، گواہ ہے کہ ان صفحات کو آپ تک پہنچانے میں انتہائی اخلاص کے ساتھ میں حقیقی ہم دردی کا حق ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان باتوں کو آپ تک نہ پہنچانے کے غم میں کتنی راتوں کی میری نیند اڑی ہے۔ 
ایک محبت بھری بات:
یہ بات کہنے کی نہیں، مگر میری تمنا ہے کہ میری ان محبت بھری باتوں کو آپ پیار کی آنکھوں سے دیکھیں اور پڑھیں۔ اس مالک کے بارے میں جو سارے جہان کو چلانے اور بنانے والا ہے، غور کریں، تاکہ میرے دل اور میری روح کو سکون حاصل ہو کہ میں نے اپنے بھائی یا بہن کی امانت اس تک پہنچائی اور اپنے انسان اور بھائی ہونے کا فرض ادا کردیا۔
اس جہان میں آنے کے بعد ایک انسان کے لیے جس سچائی کو جاننا اور ماننا ضروری ہے اور جو اس کی سب سے بڑی ذمے داری اور فرض ہے، وہ محبت بھری بات میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔
فطرت کا سب سے بڑا سچ:
اس جہان، بلکہ فطرت کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس جہان، تمام مخلوقات اورپوری کائنات کو بنانے والا، پیدا کرنے والا، اور اس کا نظام چلانے والا صرف اور صرف ایک اکیلا مالک ہے۔ وہ اپنی ذات ،صفات اور اختیارات میں اکیلا ہے۔ دنیا کو بنانے، چلانے، مارنے اور جلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ایک ایسی طاقت ہے، جو ہر جگہ موجود ہے۔ ہر ایک کی سنتا ہے، ہر ایک کو دیکھتا ہے۔ سارے جہان میں ایک پتّہ بھی اس کی اجازت کے بغیر جنبش نہیں کرسکتا۔ ہر انسان کی روح اس کی گواہی دیتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور چاہے وہ مورتی کا پجاری ہی کیوں نہ ہو، مگر اندر سے وہ یقین یہی رکھتا ہے کہ پیدا کرنے والا، پالنے والا، رب اور اصلی مالک تو صرف وہی ایک ہے۔
انسان کی عقل میں بھی اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں آتی کہ سارے جہان کا مالک ایک ہی ہے۔ اگر کسی اسکول کے دو پرنسپل ہوں تو اسکول نہیں چل سکتا۔ اگر ایک گاوں کے دو پردھان ہوں تو گاوںکا نظام تلپٹ ہوجائے گا۔ کسی ایک دیش کے دو بادشاہ نہیں ہوسکتے تو اتنی بڑی کائنات کا انتظام ایک سے زیادہ خدا یا مالکوں کے ذریعے کیسے چل سکتا ہے اور دنیا کی منتظم کئی ہستیاں کس طرح ہوسکتی ہیں؟!
ایک دلیل:
قرآن جو اللہ کا کلام ہے، اس نے دنیا کو اپنی حقانیت بتانے کے لیے یہ دعوا کیا ہے کہ 
”ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر (قرآن) اتارا ہے، اس میںاگر تم کو شک ہے (کہ قرآن اس مالک کا سچا کلام نہیں ہے )تو اس جیسی ایک سورت ہی (بنا)لے آو اور چاہو تو اس کام کے لیے اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی (مدد کے لیے) بلالو، اگر تم سچے ہوo “  (ترجمہ القرآن، البقرة ۲:۳۲) 
چودہ سو سال سے آج تک دنیا کے قابل ترین ادیب، عالم اور دانش ور تحقیق اور ریسرچ کرکے عاجز ہوچکے اور اپنا سر جھکا چکے ہیں۔ حقیقت میں کوئی بھی اللہ کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا اور نہ دے سکے گا۔
اس پاک کتاب میں مالک نے ہماری عقل کو اپیل کرنے کے لیے بہت سی دلیلیں دی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ :
”اگر زمین اور آسمانوں میں اللہ کے علاوہ مالک و حاکم ہوتے تو ان دونوں میں بڑی خرابی اور فساد مچ جاتا۔“     (ترجمہ القرآن، الانبیاء۱۲:۲۲) 
بات صاف ہے۔ اگر ایک کے علاوہ کئی حاکم و مالک ہوتے تو جھگڑاہوتا۔ ایک کہتا: اب رات ہوگی، دوسرا کہتا: دن ہوگا۔ ایک کہتا: چھے مہینے کا دن ہوگا، دوسرا کہتا: تین مہینے کا ہوگا۔ ایک کہتا: سورج آج پچھم سے نکلے گا، دوسرا کہتا: نہیں، پورب سے نکلے گا۔ اگر دیوی دیوتاو ¿ں کو یہ حق واقعی ہوتا اور وہ اللہ کے کاموں میں شریک بھی ہوتے تو کبھی ایسا ہوتا کہ ایک غلام نے پوجا ارچنا کرکے بارش کے دیوتا سے اپنی بات منوالی، تو بڑے مالک کی جانب سے آرڈر آتا کہ ابھی بارش نہیں ہوگی، پھر نیچے والے ہڑتال کردیتے۔ اب لوگ بیٹھے ہیں کہ دن نہیں نکلا، معلوم ہوا کہ سورج دیوتا نے ہڑتال کر رکھی ہے۔
سچی گواہی:
سچ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے، یہ منظم طریقے پر چلتا ہوا کائنات کا نظام گواہی دے رہا ہے کہ جہان کا مالک اکیلا اور صرف ایک ہے۔وہ جب چاہے اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس کو تصورات اور خیالوں میں نہیں باندھا جاسکتا، اس کی تصویر نہیں بنائی جاسکتی۔ اس مالک نے سارے جہان کو انسانوں کے فائدے اور ان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ سورج انسان کا خدمت گار، ہوا انسان کی خادم، یہ زمین بھی انسان کی خدمت گار ہے۔ آگ، پانی، جان دار اور بے جان دنیا کی ہر شے انسان کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے۔ اور مالک نے انسان کو اپنا بندہ بناکر اسے اپنی بندگی اور حکم ماننے کے لیے پیدا کیا ہے، تاکہ وہ اس دنیا کے تمام معاملات صحیح طور سے انجام دے اور ساتھ ہی اس کا مالک و معبود اس سے راضی و خوش ہوجائے۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ جب پیدا کرنے والا، زندگی دینے والا، موت دینے والا، کھانا، پانی دینے والا اور زندگی کی ہر ضرورت فراہم کرنے والا وہی ایک ہے تو سچے انسان کو اپنی زندگی اور زندگی سے متعلق تمام معاملات اپنے مالک کی مرضی کے مطابق اس کا فرماں بردار ہوکر پورے کرنے چاہییں۔ اگر کوئی انسان اپنی زندگی اس اکیلے مالک کا حکم مانتے ہوئے نہیں گزار رہا ہے تو صحیح معنوں میں وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔
ایک بڑی سچائی:
اس سچے مالک نے اپنی سچی کتاب قرآنِ مجید میں بہت سی سچائیوں میں سے ایک سچائی ہم کو یہ بتائی ہے:
”ہر ایک نفس (جان دار) کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاو ¿گےo “   (ترجمہ القرآن، العنکبوت ۹۲:۷۵) 
اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ہر ایک جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ ہر مذہب، ہر طبقے اور ہر جگہ کا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے، بلکہ جو مذہب کو مانتا بھی نہیں، وہ بھی اس سچائی کے آگے سرجھکاتا ہے اور جان ور تک موت کی سچائی کو سمجھتے ہیں۔ چوہا بلّی کو دیکھتے ہی جان بچا کر بھاگتا ہے اور کتا بھی سڑک پر آتی ہوئی کسی گاڑی کو دیکھ کر اپنے بچاو ¿ کے لیے تیزی سے ہٹ جاتا ہے، اس لیے کہ ان کو سمجھ ہے کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان کی موت یقینی ہے۔
موت کے بعد:
اس آیت کے دوسرے حصے میں قرآنِ مجید ایک اور بڑی سچائی کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اگر وہ انسان کی سمجھ میں آجائے تو سارے جہان کا ماحول بدل جائے۔ وہ سچائی یہ ہے کہ تم مرنے کے بعد میری ہی طرف لوٹائے جاو ¿گے اور اس دنیا میں جیسا کام کروگے، ویسا ہی بدلہ پاو ¿ گے۔
مرنے کے بعد تم مٹی میں مل جاو ¿گے یا گل سڑجاو ¿ گے اور دوبارہ پیدا نہیں کیے جاو ¿گے، ایسا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ سچ ہے کہ مرنے کے بعد تمہاری روح کسی اور جسم میں داخل ہوجائے گی، یہ نظریہ کسی بھی اعتبار سے انسانی عقل کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔
پہلی بات یہ ہے کہ آواگمن کا یہ مفروضہ ویدوں میں موجود نہیں ہے۔ بعد کے پرانوں (دیومالائی کہانیوں) میں اس کا بیان ہے۔ اس نظریے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ شیطان نے مذہب کے نام پر لوگوں کو اونچ نیچ میں جکڑ دیا۔ مذہب کے نام پر شودروں سے خدمت لینے اور ان کو نیچ اور رذیل سمجھنے والے مذہب کے ٹھیکے داروں سے سماج کے دبے کچلے طبقے کے لوگوں نے جب یہ سوال کیا کہ جب ہمارا پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس نے سب انسانوں کو آنکھ، کان، ناک ہر چیز میں برابر بنایا ہے تو آپ لوگ اپنے آپ کو اونچا اور ہمیں نیچا اور رذیل کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کا انھوں نے آواگمن کا سہارا لے کر یہ جواب دیا کہ تمہاری پچھلی زندگی کے برے کاموں نے تمہیں اس جنم میں نیچ اور رذیل بنایا ہے۔
اس نظریے کے مطابق ساری روحیں دوبارہ پیدا ہوتی ہیں۔ اور اپنے کاموں کے حساب سے جسم بدل بدل کر آتی ہیں۔ زیادہ برے کام کرنے والے لوگ جان وروں کے جسموں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ برے کام کرنے والے نباتات کے قالب میں چلے جاتے ہیں۔ جن کے کام اچھے ہوتے ہیں، وہ آواگمن کے چکر سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔
آواگمن کے خلاف تین دلائل:
۱-اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس زمین پر سب سے پہلے نباتات پیدا ہوئیں، پھر جان ور پیدا ہوئے اور اس کے کروڑوں سال بعد انسان کی پیدائش ہوئی۔ اب جب کہ انسان ابھی اس زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا تھا اور کسی انسانی روح نے ابھی برا کام ہی نہیں کےا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس کی روحیں تھیں، جنھوں نے ان گنت بے حدوحساب جان وروں اور پیڑ پودوں کی صورت میں جنم لیا؟ 
۲-دوسری بات یہ ہے کہ اس نظریے کو مان لینے کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ زمین پر جان داروں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوتی۔ جو روحیں آواگون سے نجات حاصل کرلیتیں، ان کی تعداد کم ہوتی رہنی چاہیے تھی، جب کہ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ زمین پر انسانوں، جان وروں اور نباتات ہر قسم کے جان داروں کی تعداد میں لگاتار بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ 
۳- تیسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ مرنے والوں کے مقابلے میں پیدا ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کھرب ہا کھرب ان گنت مچھر پیدا ہوجاتے ہیں، جب کہ مرنے والے اس سے بہت کم ہوتے ہیں۔ 
کبھی اپنے دیش میں کچھ بچوں کے بارے میں یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ اس جگہ کو پہچان رہا ہے، جہاں وہ پچھلے جنم میں رہتا تھا، اپنا پرانا نام بھی بتارہا ہے۔ اور یہ بھی کہ اس نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہوتا۔ اس قسم کی چیزیں مختلف قسم کی نفسیاتی و دماغی امراض یاروحانی و سماجی و ماحولیاتی ردعمل کا نتیجہ ہوتی ہیں، جس کا مناسب انداز میں علاج کرایا جانا چاہیے۔ اصل حقیقت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ سچائی مرنے کے بعد ہر انسان کے سامنے آجائے گی کہ انسان مرنے کے بعد اپنے پیدا کرنے والے مالک کے پاس جاتا ہے، او ر اس نے اس جہان میں جیسے اچھے برے کام کیے ہوں گے، اس کے حساب سے قیامت میں سزا یا اچھا بدلہ پائے گا۔
اعمال کا پھل ملے گا:
اگر انسان اپنے رب کی عبادت اور اس کی بات مانتے ہوئے اچھے کام کرے گا، بھلائی اور نیکی کے راستے پر چلے گا تو وہ اپنے رب کے فضل سے جنت میں جائے گا۔ جنت جہاں آرام کی ہر چیز ہے، بلکہ وہاں تو عیش و آرام کی ایسی چیزیں بھی ہیں، جن کو اس دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا۔ اور سب سے بڑی جنت کی نعمت یہ ہوگی کہ جنتی لوگ وہاں اپنی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کرسکیں گے، جس کے برابر آنند اور مسرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔
اسی طرح جو لوگ برے کام کریں گے، اپنے رب کی خدائی میں دوسروں کو شریک کریں گے اور سرکشی کرکے اپنے مالک کی نافرمانی کریں گے، وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ وہ وہاں آگ میں جلیں گے۔ وہاں انہیں ان کے گناہوں اور جرموں کی سزا ملے گی۔ اور سب سے بڑی سزا یہ ہوگی کہ وہ اپنے مالک کے دیدار سے محروم رہ جائیں گے اور ان پر اُن کے مالک کا دردناک عذاب ہوگا۔
رب کا شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے:
اس سچے اصلی مالک نے اپنی کتاب قرآن میں ہمیں بتایا ہے کہ نیکیاں اور اچھے کام چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی، اسی طرح اس مالک کے یہاں جرم و گناہ اور برے کام بھی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ جو جرم و گناہ انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے بھیانک سزا کا حق دار بناتا ہے، جس کو وہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور جس کا کرنے والا ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتا رہے گا۔ وہ جہنم سے باہر نہیں جاسکے گا، وہ موت کی تمنا کرے گا، لیکن اس کو موت کبھی نہیں آئے گی۔ وہ جرم اس اکیلے رب کی ذات یا اس کی صفات و اختیارات میں کسی کو شریک بنانا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کے آگے اپنے سر یا ماتھے کو ٹیکنا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو پوجا کے قابل ماننا، مارنے والا، زندہ کرنے والا، روزی دینے والا اور نفع و نقصان کا مالک سمجھنا بہت بڑا گناہ اور انتہائی درجے کا ظلم ہے، چاہے ایسا کسی دیوی دیوتا کو مانا جائے یا سورج چاند، ستارے یا کسی پیر فقیر کو، کسی کو بھی اس مالک کی ذات یا صفات و اختیارات میں برابر یا شریک سمجھنا شرک ہے، جس کو وہ مالک کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی گناہ کو اگر وہ چاہے تو معاف کردے گا۔ اس گناہ کو خود ہماری عقل بھی اتنا ہی برا سمجھتی ہے اور ہم بھی اس عمل کو اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں۔
ایک مثال:
مثال کے طور پر اگر کسی کی بیوی بڑی نک چڑھی ہو، ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے پر اتر آتی ہو، کچھ کہنا سننا نہیں مانتی ہو، لیکن وہ اگر اس سے گھر سے نکلنے کو کہہ دے تو وہ کہتی ہے کہ میں صرف تیری ہوں، تیری رہوں گی، تیرے دروازے پر مروں گی اور ایک پل کے لیے تیرے گھر سے باہر نہیں جاو ¿ں گی تو شوہر لاکھ غصے کے بعد بھی اس سے نبھانے کے لیے مجبور ہوجائے گا۔
اس کے برخلاف اگر کسی کی بیوی نہایت خدمت گزار اور حکم کی پابند ہو، وہ ہر وقت اس کا خیال رکھتی ہو، شوہر آدھی رات کو گھر پر آتا ہو تو اس کا انتظار کرتی رہتی ہو، اس کے لیے کھانا گرم کرکے اس کے سامنے پیش کرتی ہو، اس سے پیار ومحبت کی باتیں بھی کرتی ہو، وہ ایک دن اس سے کہنے لگے کہ آپ میرے شریکِ حیات ہیں، لیکن میرا اکیلے آپ سے کام نہیں چلتا، اس لیے اپنے فلاں پڑوسی کو بھی میں نے آج سے اپنا شوہر بنالیاہے تو اگر اس کے شوہر میں کچھ بھی غیرت کا مادہ ہے تو وہ یہ برداشت نہیں کرپائے گا۔ وہ ایک پل کے لیے ایسی احسان فراموش بے حیا عورت کو اپنے پاس رکھنا پسند نہ کرے گا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ صرف اس لیے کہ کوئی شوہر اپنے مخصوص شوہرانہ حقوق میں کسی کو شریک دیکھنا نہیں چاہتا۔ آپ نطفے کی ایک بوند سے بنی اولاد میں کسی اور کو اپنا شریک بنانا پسند نہےں کرتے، تو وہ مالک جو انتہائی حقیر بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے، وہ کیسے یہ برداشت کرلے گا کہ اس کا پیدا کردہ انسان اس کے ساتھ کسی اور کو اس کا شریک بنائے۔ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کی جائے اور بات مانی جائے، جب کہ اس پورے جہان میں جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی نے عطا کیا ہے۔ جس طرح ایک طوائف اپنی عزت و آبرو بیچ کر ہر آنے والے آدمی کو اپنے اوپر قبضہ دے دیتی ہے تو اس کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے گری ہوئی رہتی ہے، وہ آدمی اپنے مالک کی نظروں میں اس سے زیادہ نیچ اور گرا ہوا ہے، جو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی عبادت میں مست ہو، چاہے وہ کوئی دیوتا ہو یا فرشتہ، جن ہو یا انسان ، بت ہو یا مورتی، قبرہو یا استھان یا کوئی دوسری خیالی یا حقیقی شے۔
قرآنِ پاک میں مورتی پوجا کی مخالفت:
مورتی پوجا کے لیے قرآنِ مجید میں ایک مثال پیش کی گئی ہے، جو غور کرنے کے قابل ہے:
”اللہ کو چھوڑ کر تم جن (مورتی، قبرواستھان والوں) کو پکارتے ہو، وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔( پیدا کرناتو دور کی بات ہے)، اگر مکھی ان کے سامنے سے کوئی چیز (پرساد وغیرہ) چھین لے جائے تو اسے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ طلب کرنے والا اور جس سے طلب کیا جارہا ہے، دونوں کتنے کم زور ہیںo اور انھوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی، جیسی کرنی چاہیے تھی، بلاشبہہ اللہ طاقت ور اور زبردست ہےo “  (ترجمہ القرآن، الحج ۲۲:۳۷-۴۷) 
کتنی اچھی مثال ہے۔ بنانے والا تو خود اللہ ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی مورتیوں اور بتوں کے بنانے والے غافل انسان ہیں۔ اگر ان مورتیوں میں تھوڑی بہت سمجھ ہوتی تو وہ انسانوں کی عبادت کرتیں۔
ایک بودا خیال:
کچھ لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے ہی ہمیں مالک کا راستہ دکھایا اور ان کے وسیلے سے ہم مالک کی عنایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسی بات ہوئی کہ کوئی قلی سے ٹرین کے بارے میں معلوم کرے اور جب قلی اسے ٹرین کے بارے میں معلومات دے دے تو وہ ٹرین کی جگہ قلی پر ہی سوار ہوجائے، کہ اس نے ہی ہمیں ٹرین کے بارے میں بتایاہے۔ اسی طرح اللہ کی صحیح سمت اور راستہ بتانے والے کی عبادت کرنا بالکل ایسا ہے، جیسے ٹرین کو چھوڑ کر قلی پر سوار ہوجانا۔
کچھ بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم صرف دھیان جمانے اور توجہ مرکوز کرنے کے لیے ان مورتیوں کو رکھتے ہیں۔ یہ بھی خوب رہی کہ خوب غور سے کسی کھمبے کو دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم تو صرف والد صاحب کا دھیان جمانے کے لیے کھمبے کو دیکھ رہے ہیں! کہاں والد صاحب اور کہاں کھمبا؟ کہاں یہ کم زور مورتی اور کہاں وہ انتہائی زبردست، رحیم و کریم مالک! اس سے دھیان بندھے گا یا بٹے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے کسی کو بھی اللہ کا شریک ماننا سب سے بڑا گناہ ہے، جس کو وہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا اور ایسا آدمی ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے گا۔
سب سے بڑی نیکی ایمان ہے:
اسی طرح سب سے بڑی بھلائی اور نیکی”ایمان“ ہے، جس کے بارے میں دنیا کے تمام مذہب والے یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے، مرنے کے بعد آدمی کے ساتھ صرف ایمان جائے گا۔ ایمان داری یا ایمان والا اس کو کہتے ہیں، جو حق والے کو حق دینے والا ہو، اس کے برخلاف حق مارنے والے کو ظالم کہتے ہیں۔ اس انسان پر سب سے بڑا حق اس کے پیدا کرنے والے کا ہے۔ وہ یہ کہ سب کو پیدا کرنے والا، موت و زندگی دینے والا مالک، رب اور عبادت کے لائق صرف اکیلا اللہ ہے تو پھر اسی کی عبادت کی جائے، اسی کو مالک، نفع و نقصان، عزت و ذلت دینے والا سمجھا جائے اور اس کی دی ہوئی زندگی اسی کی مرضی اور اطاعت کے مطابق بسر کی جائے، اسی کو مانا جائے اور اسی کی مانی جائے۔ اسی کا نام ایمان ہے۔ صرف اسی ایک کو مالک مانے بغیر، اور اس کی تابع داری کیے بغیر انسان ایمان دار یعنی ایمان والا نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ بے ایمان اور کافر کہلائے گا۔
مالک کا سب سے بڑا حق مار کر لوگوں کے سامنے اپنی ایمان داری جتانا ایسا ہی ہے کہ ایک ڈاکو بہت بڑی ڈکیتی سے مال دار بن جائے اور پھر دوکان پر لالہ جی سے کہے کہ آپ کا ایک روپیہ میرے پاس حساب میں زیادہ آگیا ہے، آپ لے لیجیے۔ اتنا مال لوٹنے کے بعد ایک روپیے کا حساب دینا جیسی ایمان داری ہے، اپنے مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا اس سے بھی بدتر ایمان داری ہے۔
ایمان صرف یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کو اکیلا مانے، اس اکیلے کی عبادت کرے اور زندگی کی ہر گھڑی کو مالک کی مرضی اور اس کے حکم کے مطابق بسر کرے۔ اس کی دی ہوئی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق گزارنا ہی دین کہلاتا ہے۔ اور اس کے احکامات کو ٹھکرا دینا بے دینی۔
سچا دین:
سچا دین شروع سے ہی ایک ہے اور اس کی تعلیم ہے کہ اس اکیلے ہی کو مانا جائے اور اسی کا حکم بھی مانا جائے، اللہ نے قرآنِ مجید میں کہا ہے:
”دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔“ 
(ترجمہ القرآن، آل عمران۳:۹۱) 
”اسلام کے علاوہ جو بھی کسی اور دین کو اختیار کرے گا، وہ ناقابلِ قبول ہوگا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگاo “ 
(ترجمہ القرآن، آل عمران ۳: ۵۸) 
انسان کی کم زوری ہے کہ اس کی نظر ایک مخصوص حد تک دیکھ سکتی ہے۔ اس کے کان ایک حد تک سن سکتے ہیں، اس کے سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی قوت بھی محدودہے۔ ان پانچ حواس سے اس کی عقل کو معلومات فراہم ہوتی ہے، اسی طرح عقل کی رسائی کی بھی ایک حد ہے۔
وہ مالک کس طرح کی زندگی پسند کرتا ہے؟ اس کی عبادت کس طرح کی جائے؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ جنت کن لوگوں کو ملے گی؟ وہ کون سے کام ہیں، جن کے نتیجے میں انسان جہنم میں جائے گا؟اس سب کا پتا انسانی عقل ، فہم اور علم سے نہیں لگایا جاسکتا۔
پیغمبر:
انسان کی اس کم زوری پر رحم کرکے اس کے رب نے اپنے بندوں میں سے ان عظیم انسانوں پر جن کو اس نے اس ذمے داری کے قابل سمجھا، اپنے فرشتوں کے ذریعے ان پر اپنا پیغام نازل کیا، جنھوں نے انسان کو زندگی بسر کرنے اور بندگی کے طور طریقے بتائے اور زندگی کی وہ حقیقتیں بتائیں، جو وہ اپنی عقل کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ایسے بزرگ اور عظیم انسان کو نبی، رسول یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔ اسے اوتار بھی کہہ سکتے ہیں، بشرطے کہ اوتار کا مطلب ہو ”وہ انسان جس کو اللہ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کیا ہو۔“ لیکن آج کل اوتار کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ خدا انسان کی صورت میں زمین پر اترا ہے۔ یہ فضول خیال اور اندھی عقیدت ہے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس باطل تصور نے انسان کو ایک مالک کی عبادت سے ہٹا کر اسے مورتی پوجا کی دلدل میں پھنسا دیا۔
وہ عظیم انسان جن کو اللہ نے لوگوں کو سچا راستہ بتانے کے لیے چنا اور جن کو نبی اور رسول کہا گیا، ہر قوم میں آتے رہے ہیں۔ ان سب نے لوگوں کو ایک اللہ کو ماننے، صرف اسی اکیلے کی عبادت کرنے اور اس کی مرضی سے زندگی گزارنے کا جو طریقہ (شریعت یا مذہبی قانون) وہ لائے، اس کی پابندی کرنے کو کہا۔ ان میں سے کسی رسول نے بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی دعوت نہیں دی، بلکہ انھوں نے اس کو سب سے بھیانک اور بڑا جرم قرار دیتے ہوئے سب سے زیادہ اسی گناہ سے روکا۔ ان کی باتوں پر لوگوں نے یقین کیا اور سچے راستوں پر چلنے لگے۔
مورتی پوجا کی ابتدا:
ایسے تمام پیغمبر اور ان کے ماننے والے لوگ نیک انسان تھے، ان کو موت آنی تھی (جس کو موت نہیں، وہ صرف اللہ ہے)۔ نبی یا رسول یا نیک لوگوں (بزرگوں) کی موت کے بعد ان کے ماننے والوں کو ان کی یاد آئی اور وہ ان کی یاد میں بہت روتے تھے۔ شیطان کو موقع مل گیا۔ وہ انسان کا دشمن ہے اور انسان کے امتحان کے لیے مالک اللہ نے اس کو بہکانے اور بری باتیں انسان کے دل میں ڈالنے کی ہمت دی ہے کہ دیکھیں کون اس پیدا کرنے والے مالک کو مانتا ہے اور کون شیطان کو مانتا ہے۔
شیطان لوگوں کے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں اپنے رسول یا نبی یا بزرگوں سے بڑی محبت ہے۔ مرنے کے بعد وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں، یہ سب اللہ کے چہیتے بندے ہیں، اللہ ان کی بات نہیں ٹالتا ہے، اس لیے میں ان کی ایک مورتی بنادیتا ہوں، اس کو دیکھ کر تم سکون پاسکتے ہو۔ شیطان نے مورتی بنائی۔ جب ان کا دل چاہتا، وہ اسے دیکھا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ جب اس مورتی کی محبت ان کے دل میں بس گئی تو شیطان نے کہا کہ یہ رسول، نبی و بزرگ اللہ سے بہت قریب ہیں، اگر تم ان کی مورتی کے آگے اپنا سر جھکاو ¿ گے تو اپنے کو خدا کے قریب پاو ¿ گے اور اللہ تمہاری بات مان لے گا، یا تم خدا سے قریب ہوجاو ¿گے۔ انسان کے دل میں مورتی کی محبت پہلے ہی گھر کرچکی تھی، اس لیے اس نے مورتی کے آگے سر جھکانا اور اسے پوجنا شروع کردیا اور وہ انسان جس کی عبادت کے لائق صرف ایک اللہ تھا، مورتیوں کو پوجنے لگا اور شرک میں پھنس گیا۔
انسان جسے اللہ نے زمین پر خلیفہ بنایا تھا، جب اللہ کے علاوہ دوسروں کے آگے جھکنے لگا تو اپنی اور دوسروں کی نظروں میں ذلیل وخوار ہوا اور مالک کی نظروں سے گر کر ہمیشہ کے لیے دوزخ اس کا ٹھکانا بن گیا۔ اس کے بعد اللہ نے پھر اپنے رسول بھیجے، جنھوں نے لوگوں کو مورتی پوجا ہی نہیں، ہر قسم کے شرک اور ظلم و ستم سے تعلق رکھنے والی برائیوں اور اخلاقی خرابیوں سے روکا، کچھ لوگوں نے ان کی بات مانی، اور کچھ لوگوں نے ان کی نافرمانی کی۔ جن لوگوں نے بات مانی، اللہ ان سے خوش ہوا، اور جن لوگوں نے ان کی ہدایت اور نصیحتوں کی خلاف ورزی کی، اللہ کی جانب سے دنیا ہی میں ان کو تباہ و برباد کردینے والے فیصلے کیے گئے۔
رسولوں کی تعلیم:
ایک کے بعد ایک نبی اور رسول آتے رہے، ان کے دین کی بنیاد ایک ہوتی، وہ ایک دین کی طرف بلاتے کہ ایک اللہ کو مانو، کسی کو اس کی ذات اور صفات و اختیارات میں شریک نہ ٹھہراو ¿، اس کی عبادت و اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرو، اس کے سب رسولوں کو سچا جانو، اس کے فرشتے جو اس کے بندے اور پاک مخلوق ہیں، جو نہ کھاتے پیتے ہیں، نہ سوتے ہیں، ہر کام میںمالک کی فرماں برداری کرتے ہیں، اس کی نافرمانی نہیںکرسکتے، وہ اللہ کی خدائی یا اس کے معاملات میں ذرہ برابر بھی دخیل نہیں ہیں، ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرو۔ اس نے اپنے فرشتوں کے ذریعے سے اپنے رسولوں و نبیوں پر جو وحی بھیجی یا کتابیں نازل کیں، ان سب کو سچا جانو، مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پاکر اپنے اچھے برے کاموں کا بدلہ پانا ہے، اس پر یقین کے ساتھ اسے برحق جانو اور یہ بھی مانو کہ جو کچھ تقدیر میں اچھا یا برا ہے، وہ مالک کی طرف سے ہے اور رسول اس وقت اللہ کی جانب سے جو شریعت اور زندگی گزارنے کا طریقے لے کر آیا ہے، اس پر چلو اور جن برائیوں اور حرام کاموں اور چیزوں سے اس نے منع کیا، ان کو نہ کرو۔
جتنے اللہ کے نبی اور رسول آئے، سب سچے تھے اور ان پر جو مقدس کلام نازل ہوا، وہ سب سچا تھا۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے اور ہم ان میں فرق نہیں کرتے۔ حق بات تو یہ ہے کہ جنھوں نے ایک اللہ کو ماننے کی دعوت دی ہو، ان کی تعلیمات میں ایک مالک کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا ہی نہیں خود اپنی پوجا کی بھی بات نہ ہو، ان کے سچے ہونے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ البتہ جن مہاپرشوں کے یہاں مورتی پوجا یا بہت سے معبودوں کی عبادت کی تعلیم ملتی ہے،یا تو ان کی تعلیمات میں ردوبدل کردی گئی یا وہ رسول ہی نہیں ہیں۔ محمد ﷺ سے پہلے کے تمام رسولوں کی زندگی کے حالات میں ردوبدل کردیا گیا ہے اور ان کی تعلیمات کے بڑے حصے کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔
آخری پیغمبر محمد ﷺ:
یہ ایک بیش قیمت سچ ہے کہ ہر آنے والے رسول اور نبی کی زبان سے اور اس پر اللہ کی جانب سے اتارے گئے صحیفوں میں ایک آخری نبی کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ان کے آنے کے بعد اور ان کو پہچان لینے کے بعد ساری پرانی شریعتیں اور مذہبی قانون چھوڑ کر ان کی بات مانی جائے اور ان کے ذریعے لائے گئے آخری کلام اور مکمل دین پر چلا جائے۔ یہ بھی اسلام کی حقانیت کا ثبوت ہے کہ پچھلی کتابوں میں انتہائی ردوبدل کے باوجود اس مالک نے آخری رسول محمد ﷺ کے آنے کی خبر کو تبدیل نہ ہونے دیا، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو خبر ہی نہ تھی۔ ویدوں میں اس کا نام نراشنس، پرانوں میں کلکی اوتار، بائبل میں فارقلیط اور بودھ گرنتھوں میں آخری بدھ وغیرہ لکھا گیا ہے۔
ان مذہبی کتب میں محمد ﷺ کے علاقہ ¿ پیدائش، زمانہ ¿ پیدائش اور ان کی صفات و خوبیوں وغیرہ کے بارے میں واضح اشارے دیے گئے ہیں۔
محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا تعارف:
اب سے تقریباً ساڑھے چودہ سو برس پہلے وہ آخری نبی و رسول محمد رسول ﷺ سعودی عرب کے مشہور شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ پیدائش سے چند مہینے پہلے ہی آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ والدہ آمنہ بھی کچھ زیادہ دن زندہ نہیں رہیں۔ پہلے دادا عبدالمطلب اور ان کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابوطالب نے انہیں پالا۔ آپ اپنی خوبیوں اور نیکیوں کی بدولت جلد ہی تمام مکہ شہر کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے گئے، آپ سے لوگوں کی محبت بڑھتی گئی۔ آپ کو سچا اور ایمان دار کہا جانے لگا۔ لوگ حفاظت کے لیے اپنی بیش قیمتی امانتیں آپ کے پاس رکھتے۔ اپنے آپسی جھگڑوں کا فیصلہ کراتے۔ لوگ محمد ﷺ کو ہر اچھے کام میں آگے پاتے۔ آپ اپنے وطن میں ہوں یا سفر پر، سب لوگ آپ کی خوبیوں کے معترف ہوتے۔ 
ان دنوں وہاں اللہ کے گھر کعبہ میں ۰۶۳ بت ، دیوی دیوتاو ¿ں کی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ پورے عرب دیش میں شرک و کفر کے علاوہ قتل و غارت گری، لوٹ مار، غلاموں اور عورتوں کی حق تلفی، اونچ نیچ، دغا و فریب، شراب، جوا، سود، بے بنیاد جنگ، زنا جیسی جانے کتنی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
محمد ﷺ جب ۰۴ برس کے ہوئے تو اللہ نے اپنے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے آپ پر قرآن نازل کرنا شروع کیا اور آپ کو رسول بنانے کی خوش خبری دی اور لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کی طرف بلانے کی ذمے داری سپرد کی۔
سچ کی آواز:
اللہ کے رسول محمد ﷺ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر خطرے سے باخبر کرنے کے لیے آوازلگائی۔ لوگ اس آواز پر تیزی کے ساتھ جمع ہوگئے، اس لیے کہ یہ ایک سچے ایمان دار آدمی کی آواز تھی۔ آپ نے سوال کیا:اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک بہت بڑی فوج چلی آرہی ہے اور تم پر حملہ کرنے والی ہے، تو کیا تم یقین کرو گے؟
سب نے ایک آواز ہوکر کہا: بھلا آپ کی بات پر کون یقین نہیں کرے گا! آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور ہمارے مقابلے پہاڑ کی چوٹی سے دوسری طرف دیکھ بھی رہے ہیں۔ آپ نے جہنم کی بھیانک آگ سے ڈراتے ہوئے انہیں شرک و بت پرستی سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی اسلام کی طرف بلایا۔
انسان کی ایک کم زوری:
انسان کی یہ کم زوری رہی ہے کہ وہ اپنے باپ دادا اور بزرگوں کی غلط باتوں کو بھی آنکھ بند کرکے مانتا چلا جاتا ہے،چاہے ان کی عقلیں اور دلائل ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہوں، لیکن اس کے باوجود انسان خان دانی باتوں پر جما رہتا ہے اور اس کے خلاف عمل تو کیا، کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔
رکاوٹیں اور آزمائش:
یہی وجہ تھی کہ چالیس برس کی عمر تک محمد ﷺ کا احترام کرنے اور سچا ماننے اور جاننے کے باوجود مکہ کے لوگ رسول کی حیثیت سے اللہ کی جانب سے لائی گئی آپ کی تعلیمات کے دشمن ہوگئے۔ آپ جتنا زیادہ لوگوں کو سب سے بڑی سچائی، شرک کے خلاف توحید کی طرف بلاتے، لوگ اتنا ہی آپ کے ساتھ دشمنی کرتے۔ کچھ لوگ اس سچائی کو ماننے والوں اور آپ کا ساتھ دینے والوں کو ستاتے، مارتے، اور دہکتے ہوئے آگ کے انگاروں پر لٹا دیتے۔ گلے میں پھندا ڈال کر گھسیٹتے، اور ان کو پتھروں اور کوڑوں سے مارتے، لیکن آپ سب کے لیے اللہ سے دعا مانگتے، کسی سے بدلہ و انتقام نہیں لیتے، ساری ساری رات اپنے مالک سے ان کے لیے ہدایت کی دعا کرتے۔ ایک بار آپ مکہ کے لوگوں سے مایوس ہوکر قریبی شہر طائف گئے۔ وہاں کے لوگوں نے اس عظیم انسان کی توہین کی۔ آپ کے پیچھے شریر لڑکے لگادیے، جو آپ کو برا بھلا کہتے۔
انھوں نے آپ کو پتھر مارے، جس کی وجہ سے آپ کے پیروں سے خون بہنے لگا۔ تکلیف کی وجہ سے جب آپ کہیں بیٹھ جاتے تو وہ لڑکے آپ کو دوبارہ کھڑا کردیتے، اور پھر مارتے۔ اس حال میں آپ شہر سے باہر نکل کر ایک جگہ پر بیٹھ گئے۔ آپ نے انہیں بددعا نہیں دی، بلکہ اپنے مالک سے دعا کی: ”اے مالک! ان کو سمجھ دے دے، یہ جانتے نہیں۔“ اس پاک کلام اور وحی پہنچانے کی وجہ سے آپ کا اور آپ کا ساتھ دینے والے خان دان اور قبیلے کا سماجی بائی کاٹ کیا گیا۔ اس پر بھی بس نہ چلاتو آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے، آخر کاراللہ کے حکم سے آپ کو اپنا پیارا شہر مکہ چھوڑکر مدینہ جانا پڑا۔ وہاں بھی مکہ والے فوجیں تیار کرکے بار بار آپ سے جنگ کرنے کے لیے دھاوا بولتے رہے۔
حق کی فتح:
سچائی کی ہمیشہ دیر یا سویر فتح ہوتی ہے، ۳۲ سال کی سخت مشقت کے بعد آپ نے سب کے دلوں پر فتح پائی اور سچائی کے راستے کی جانب آپ کی بے لوث دعوت نے پورے ملک عرب کو اسلام کی ٹھنڈی چھاو ¿ں میں لاکھڑا کیا۔ اس طرح اس وقت کی معلوم دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ بت پرستی بند ہوئی، اونچ نیچ ختم ہوگئی اور سب لوگ ایک اللہ کو ماننے اور اسی کی عبادت و اطاعت کرنے والے اور ایک دوسرے کو بھائی جان کر ان کا حق ادا کرنے والے ہوگئے۔
آخری وصیت:
اپنی وفات سے کچھ ہی مہینے پہلے آپ نے تقریباً سوا لاکھ لوگوں کے ساتھ حج کیا اور تمام لوگوں کو اپنی آخری وصیت کی، جس میں آپ نے یہ بھی کہا: لوگو! مرنے کے بعد قیامت میں حساب کتاب کے دن میرے بارے میں بھی تم سے پوچھا جائے گا، کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام اور اس کا دین تم تک پہنچایا تھا، تو تم کیا جواب دوگے؟ سب نے کہا: بے شک آپ نے اسے مکمل طور سے پہنچا دیا، اس کا حق ادا کردیا۔ آپ نے آسمان کی جانب انگلی اٹھائی اور تین بار کہا: اے اللہ! آپ گواہ رہیے، آپ گواہ رہیے، آپ گواہ رہیے۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں سے فرمایا: یہ سچا دین جن تک پہنچ چکا ہے، وہ ان کو پہنچائیں، جن کے پاس نہیں پہنچا ہے۔
آپ نے یہ بھی خبر دی کہ میں آخری رسول ہوں۔ اب میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ میں ہی وہ آخری نبی ہوں، جس کا تم انتظار کررہے تھے اور جس کے بارے میں تم سب کچھ جانتے ہو۔
قرآن میں ہے:
”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس (پیغمبر محمد ) کو ایسے پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔اگرچہ ان میں کا ایک گروہ حق کو جانتے بوجھتے چھپاتا ہےo “                   (ترجمہ القرآن، البقرة ۲:۶۴۱) 
ہر انسان کی ذمے داری:
اب قیامت تک آنے والے ہر انسان پر یہ لازم ہے اور یہ اس کا مذہبی اور انسانی فریضہ ہے کہ وہ اس اکیلے مالک کی بندگی کرے، اسی کی اطاعت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، قیامت اور دوبارہ اٹھائے جانے، حساب کتاب، جنت و جہنم کو صحیح تسلیم کرے اور اس بات کو مانے کہ آخرت میں اللہ ہی مالک و مختار ہوگا، وہاں بھی اس کا کوئی شریک نہ ہوگا اور اس کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کو سچا جانے اور ان کے لائے ہوئے دین اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر چلے۔ اسلام میں اسی کو ایمان کہا گیا ہے۔ اس کو مانے بغیر مرنے کے بعد قیامت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔
کچھ اشکالات:
یہاں کسی کے ذہن میں کچھ سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ مرنے کے بعد جنت یا دوزخ میں جانا دکھائی تو دیتا نہیں، اسے کیوں مانیں؟
اس سلسلے میں یہ جان لینا مناسب ہوگا کہ تمام الہامی کتابوں میں جنت اور دوزخ کا حال بیان کیا گیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ کا تصور تمام الہامی مذاہب میں مسلّم ہے۔
اسے ہم ایک مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اگر اس سے کہا جائے کہ جب تم باہر آو ¿گے تو دودھ پیوگے اور باہر آکر تم بہت سے لوگوں اور بہت سی چیزوں کو دیکھو گے، تو حالتِ حمل میں اسے یقین نہیں آئے گا، مگر جیسے ہی وہ حالتِ حمل سے باہر آئے گا، تب سب چیزوں کو اپنے سامنے پائے گا۔ اسی طرح یہ تمام جہان ایک حمل کی حالت میں ہے، یہاں سے موت کے بعد نکل کر جب انسان آخرت کے جہان میں آنکھیں کھولے گا تو سب کچھ اپنے سامنے پائے گا۔
وہاں کی جنت و دوزخ اور دوسری حقیقتوں کی خبر ہمیں اس سچے شخص نے دی ہے، جس کو اس کے جانی دشمن بھی کبھی دل سے جھوٹا نہ کہہ سکے، اور قرآن جیسی کتاب نے دی ہے، جس کی سچائی ہر اپنے پرائے نے مانی ہے۔
دوسرا سوال:
دوسری چیز جو کسی کے دل میں کھٹک سکتی ہے، وہ یہ کہ جب تمام رسول، ان کالایا ہوا دین اور الہامی صحائف سچے ہیں تو پھر اسلام قبول کرنا کیا ضروری ہے؟
آج کی موجودہ دنیا میں اس کا جواب بالکل آسان ہے۔ ہمارے ملک کی ایک پارلیمنٹ ہے، یہاں کا ایک منظور شدہ دستور(constitution ) ہے۔ یہاں جتنے وزیر اعظم ہوئے، وہ سب ہندوستان کے حقیقی وزیراعظم تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو، شاستری جی، اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ وغیرہ۔ ملک کی ضرورت اور وقت کے مطابق جو دستوری ترمیمات اور قوانین انھوں نے پاس کیں، وہ سب بھارت کے دستور اور قانون کا حصہ ہیں، اس کے باوجود اب جو موجودہ وزیر اعظم ہیں، ان کی کابینہ اور سرکار دستور یا قانون میں جو بھی ترمیم کرے گی، اس سے پرانی دستوری دفعہ اور پرانا قانون ختم ہوجائے گا اور بھارت کے ہر شہری کے لیے ضروری ہوگا کہ اس نئے ترمیم شدہ دستور و قانون کو مانے۔ اس کے بعد کوئی ہندوستانی شہری یہ کہے کہ اندرا گاندھی اصلی وزیراعظم تھیں، میں تو ان کے ہی وقت کے دستور و قانون کو مانوں گا، اس نئے وزیر اعظم کے ترمیم شدہ دستور و قانون کو میں نہیں مانتا اور نہ ان کے ذریعے لگائے گئے ٹیکس دوں گا تو ایسے شخص کو ہر کوئی ملک کا مخالف کہے گا اور اسے سزا کا مستحق سمجھا جائے گا۔ اسی طرح تمام الہامی مذاہب، اورالٰہی کتابوں میں اپنے وقت میں حق اورسچائی کی تعلیم دی جاتی تھی، لیکن اب تمام رسولوں اور الہامی کتابوں کو سچا مانتے ہوئے بھی سب سے آخری رسول محمد ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی لائی ہوئی آخری کتاب و شریعت پر عمل کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔
سچا دین صرف ایک ہے:
اس لیے یہ کہنا کسی طرح مناسب نہیں کہ تمام مذاہب خدا کی طرف لے جاتے ہیں۔ راستے الگ الگ ہیں، منزل ایک ہے۔ سچ صرف ایک ہوتا ہے۔ جھوٹ بہت ہوسکتے ہیں۔ نور ایک ہوتا ہے، اندھیرے بہت ہوسکتے ہیں۔ سچا دین صرف ایک ہے۔ وہ شروع ہی سے ایک ہے، اس لیے اس ایک کو ماننا اور اسی ایک کی ماننا اسلام ہے۔ دین کبھی نہیں بدلتا، صرف شریعتیں وقت کے مطابق بدلتی رہی ہیں اور وہ بھی اسی مالک کے بتائے ہوئے طریقے پر۔ جب انسان کی نسل ایک ہے اور ان کا مالک ایک ہے تو راستہ بھی صرف ایک ہے۔ قرآن نے کہا ہے:
”دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔“
(ترجمہ القرآن، آل عمران۳:۹۱) 
ایک اور سوال:
یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی اور پیغمبر ہیں اور وہ دنیا کے آخری پیغمبر بھی ہیں، اس کا کیا ثبوت ہے؟
جواب صاف ہے کہ اول تو یہ قرآن جو خدا کا کلام ہے، اس نے دنیا کو اپنے سچے ہونے کے لیے جو دلیلیں دی ہیں، وہ سب کو ماننی پڑی ہیں اور آج تک ان کی کاٹ نہیں ہوسکی ہے۔ اس نے محمد ﷺ کے سچے اور آخری نبی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے محمد ﷺ کی زندگی کا ایک ایک پَل دنیا کے سامنے ہے۔ ان کی تمام زندگی تاریخ کی کھلی کتاب ہے۔ دنیا میں کسی بھی انسان کی زندگی آپ کی زندگی کی طرح محفوظ اور تاریخ کی روشنی میں نہیں ہے۔ آپ کے دشمنوں اور اسلام دشمن تاریخ دانوں نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ محمد ﷺ نے اپنی ذاتی زندگی میں کبھی کسی سلسلے میں جھوٹ بولا ہو۔ آپ کے شہر والے آپ کی سچائی کی گواہی دیتے تھے۔ جس بہترین انسان نے اپنی ذاتی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہ دین کے نام پر اور رب کے نام پر جھوٹ کیسے بول سکتا تھا؟ آپ نے خود یہ بتایا ہے کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تمام مذہبی کتابوں میں آخری رشی، کلکی اوتار کی جو پیشین گوئیاں کی گئیں اور علامتیں بتائی گئی ہیں، وہ صرف محمد ﷺ پر پوری اترتی ہیں۔
پنڈت وید پرکاش اپادھیائے کا فیصلہ:
پنڈت وید پرکاش اپادھیائے نے لکھا ہے کہ جو شخض اسلام قبول نہ کرے اور محمد ﷺ اور آپ کے دین کو نہ مانے، وہ ہندو بھی نہیں ہے، اس لیے کہ ہندوو ¿ں کے مذہبی گرنتھوں میں کلکی اوتار اور نراشنس کے اس زمین پر آجانے کے بعد ان کو ماننے، اور ان کے دین کوتسلیم کرنے پر زور دیا گیا ہے، اس طرح جو ہندو بھی اپنے مذہبی گرنتھوں میں عقیدہ رکھتا ہے، اللہ کے رسول محمد ﷺ کو مانے بغیر مرنے کے بعد کی زندگی میں دوزخ کی آگ، وہاں اللہ کے دیدار سے محرومی اور اس کے دائمی غضب کا مستحق ہوگا۔
ایمان کی ضرورت:
مرنے کے بعد کی زندگی کے علاوہ اس دنیا میں بھی ایمان اور اسلام ہماری ضرورت ہے اور انسان کا فرض ہے کہ ایک مالک کی عبادت و اطاعت کرے۔ جو اپنے مالک اور رب کا در چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکتا پھرے، وہ جان وروں سے بھی گیا گزرا ہے۔ کتا بھی اپنے مالک کے در پر پڑا رہتا ہے اور اسی سے آس لگاتا ہے۔ وہ کیسا انسان ہے، جو اپنے سچے مالک کو بھول کر در در جھکتا پھرے!
لیکن اس ایمان کی زیادہ ضرورت مرنے کے بعد کے لیے ہے، جہاں سے انسان واپس نہ لوٹے گا اور موت پکارنے پر بھی اس کو موت نہ ملے گی۔ اس وقت پچھتاوا بھی کچھ کام نہ آئے گا۔ اگر انسان یہاں سے ایمان کے بغیر چلا گیا تو ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ اگر اس دنیا کی آگ کی ایک چنگاری بھی ہمارے جسم کو چھو جائے تو ہم تڑپ جاتے ہیں تو دوزخ کی آگ کیسے برداشت ہوسکے گی! دوزخ کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ تیز ہے اور بے ایمان والوں کو اس میں ہمیشہ جلنا ہوگا۔ جب ان کے بدن کی کھال جل جائے گی تو دوسری کھال بدل دی جائے گی، اس طرح لگاتار یہ سزا بھگتنا ہوگی۔
انتہائی توجہ طلب بات:
میرے عزیز قارئین! موت کا وقت نہ جانے کب آجائے۔ جو سانس اندرہے، اس کے باہر آنے کا بھروسا نہیں اور جو سانس باہر ہے، اس کے اندر آنے کا بھروسا نہیں۔ موت سے پہلے مہلت ہے، اس مہلتِ عمل میں اپنی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمے داری کا احساس کرلیں۔ ایمان کے بغیر نہ یہ زندگی کام یاب ہے اور نہ مرنے کے بعد آنے والی زندگی۔
کل سب کو اپنے مالک کے پاس جانا ہے، وہاں سب سے پہلے ایمان کی پوچھ تاچھ ہوگی۔ہاں،اس میں میری ذاتی غرض بھی ہے کہ کل حساب کے دن آپ یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تک رب کی بات پہنچائی ہی نہیں گئی تھی۔
مجھے امید ہے کہ یہ سچی باتیں آپ کے دل میں گھر کرگئی ہوں گی تو آئیے محترم! سچے دل اور سچی روح والے میرے عزیز دوست! اس مالک کو گواہ بناکر اور ایسے سچے دل سے جسے دلوں کا حال جاننے والا مان لے، اقرار کریں اورعہد کریں:
اَشْهَدُ اَن لَّآ اِلٰهَ اِلَّا االلهُ  وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْ لُهُ
”میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، (وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں)اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
میں توبہ کرتا ہوں کفر سے، شرک (کسی بھی طرح اللہ کا شریک بنانے) سے اور تمام طرح کے گناہوں سے اور اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ اپنے پیدا کرنے والے سچے مالک کے سب حکم مانوں گا اور اس کے سچے نبی محمد ﷺ کی سچی اطاعت کروں گا۔
رحیم اور کریم مالک مجھے اور آپ کو اس راستے پر مرتے دم تک قائم رکھے، آمین!
میرے عزیز دوست! اگر آپ اپنی موت تک اس یقین اور ایمان کے مطابق اپنی زندگی گزارتے رہے تو پھر معلوم ہوگا کہ آپ کے اس بھائی نے کیسا محبت کا حق ادا کیا۔
ایمان کا امتحان:
اس اسلام اور ایمان کے باعث آپ کی آزمائش بھی ہوسکتی ہے، مگر جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ یہاں بھی حق کی جیت ہوگی اور اگر زندگی بھر امتحان سے گزرنا پڑے تو یہ سوچ کر سہہ جانا کہ اس دنیا کی زندگی تو کچھ دنو ں تک محدود ہے۔ مرنے کے بعد کی ہمیشہ کی زندگی وہاں کی جنت اور اس کے سکھ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے مالک کو راضی کرنے کے لیے اور اس کے بالمشافہ دیدار کے لیے یہ آزمائشیں کچھ بھی نہیں ہیں۔
آپ کا فرض:
ایک بات اور ۔ ایمان اور اسلام کی یہ سچائی ہر اس بھائی کا حق اور امانت ہے، جس تک یہ حق نہیں پہنچا ہے، اس لیے آپ کا بھی فرض © ہے کہ بے لوث ہوکر اللہ واسطے صرف اپنے بھائی کی ہم دردی میں اسے مالک کے غضب، دوزخ کی آگ اور سزا سے بچانے کے لیے، دکھ درد کے پورے احساس کے ساتھ جس طرح اللہ کے رسول ﷺ نے عمر بھر یہ سچائی پہنچائی تھی، آپ بھی پہنچائیں۔ اس کو صحیح سچا راستہ سمجھ میں آجائے، اس کے لیے اپنے مالک سے دعا کریں۔ کیا ایسا شخص انسان کہلانے کا حق دار ہے، جس کے سامنے ایک اندھا بینائی سے محروم ہونے کی وجہ سے آگ کے الاو ¿ میں گرنے والا ہو، اور وہ ایک بار بھی پھوٹے منھ سے یہ نہ کہے کہ تمہارا یہ راستہ آگ کے الاو ¿ کی جانب جاتا ہے۔ سچی انسانیت کی بات تو یہی ہے کہ وہ اس کو روکے، اس کو پکڑ کر بچائے اور عزم کرے کہ جب تک اپنا بس ہے، میں ہرگز اسے آگ میں گرنے نہیں دوں گا۔
ایمان لانے کے بعد ہر مسلمان پر حق ہے کہ جس کو دین کی، نبی کی، قرآن کی ہدایت مل چکی ہے، وہ شرک اور کفر کی شیطانی آگ میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی دھن میں لگ جائے۔ ان کی ٹھوڑی میں ہاتھ دے، ان کے پاو ¿ں پکڑے کہ لوگ ایمان سے ہٹ کر غلط راستے پر نہ جائیں۔ بے غرض اور سچی ہم دردی میں کہی گئی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ اگر آپ کے ذریعے ایک آدمی کو بھی ایمان مل گیا اور ایک شخص بھی مالک کے سچے در پر لگ گیا تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا، اس لیے کہ اللہ اس شخص سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، جو کسی کو کفر اور شرک سے نکال کر سچائی کے راستے پر لگادے۔ آپ کا بیٹا اگر آپ سے باغی ہوکر دشمن سے جاملے اور آپ کے بجائے وہ اسی کے کہنے پر چلے، پھر کوئی نیک آدمی اس کو سمجھا بجھا کر آپ کا فرماں بردار بنادے تو آپ اس نیک آدمی سے کتنے خوش ہوںگے۔ مالک اس بندے سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے، جو دوسرے تک ایمان پہنچانے اور بانٹنے کا ذریعہ بن جائے۔
ایمان لانے کے بعد:
اسلام قبول کرنے کے بعد جب آپ مالک کے سچے بندے بن گئے تو اب آپ پر روزانہ پانچ بار نماز فرض ہے۔ آپ اسے سیکھیں اور پڑھیں۔ اس سے روح کو تسکین ہوگی اور اللہ کی محبت بڑھے گی۔ مال دار ہیں تو دین کی مقرر کی ہوئی در سے ہر سال اپنی آمدنی میں سے مستحقین کا حصہ زکوٰة کے طور پر نکالنا ہوگا، رمضان کے پورے مہینے روزے رکھنے ہوں گے اور اگر بس میں ہو تو عمر میں ایک بار حج کے لیے مکہ جانا ہوگا۔
خبردار! اب آپ کا سر اللہ کے علاوہ کسی کے آگے نہ جھکے۔ آپ پر کفر و شرک، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، بدمعاملگی و رشوت، قتلِ ناحق،پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے بعد اولاد کا قتل، بہتان تراشی، شراب، جوا، سود، سور کا گوشت ہی نہیں، حلال گوشت کے علاوہ تمام حرام گوشت، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی ہر حرام کی ہوئی چیز منع ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ اور اللہ کی پاک اور حلال بتائی ہوئی چیزوں کو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، پورے شوق سے کھانا چاہیے۔
اپنے مالک کے ذریعے دیا گیا پاک کلام قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنا ہے اور پاکی اور صفائی کے طریقے اور دینی معاملات سیکھنے ہیں۔ سچے دل سے یہ دعا کرنی ہے کہ اے ہمارے مالک! ہم کو، ہمارے دوستوںکو، خان دان کے لوگوں اور رشتے داروں کو اور اس روئے زمین پر بسنے والی پوری انسانیت کو ایمان کے ساتھ زندہ رکھ اور ایمان کے ساتھ انہیں موت دے، اس لیے کہ ایمان ہی انسانی سماج کا پہلا اور آخری سہارا ہے۔ جس طرح اللہ کے ایک پیغمبر ابراہیم علیہ السلام جلتی ہوئی آگ میں اپنے ایمان کی بدولت کود گئے تھے اور ان کا بال بیکا نہیں ہوا تھا، آج بھی اس ایمان کی طاقت آگ کو گل و گل زار بناسکتی ہے اور سچے راستے کی ہر رکاوٹ کو ختم کرسکتی ہے 
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
٭٭٭

GIFT FOR U


In the Name of God, Most Gracious, Most Merciful

PREFACE

How would you react if you were to see a child coming barefoot and about to step onto a tiny, burning ember shouldering on the ground? Obviously, you would, at once, rush to the child and sweep him off into your arms. And, what a huge sense of relief and satisfaction would you experience by thus drawing him away from the flames!
In much the same way, if a man were about to be burnt and torched up in a fire, you would be terribly upset... Your heart, your whole being, would reach out to him in agony and compassion. Ever thought why this happens? It happens because all of us, men and women, are offspring’s of the same parents, the same first couple who first inhabited earth. But this happens because of another reason too, a reason which lies cradled in our heart. Yes, the heart. Each of us has a beautiful heart that beats, and this heart is a brim with love, compassion and mercy. This heart writhes and bleeds at another’s pain, and blossoms forth like a flower with joy while helping others. Such is our heart in its original state. It follows, then, that a true human being is he who holds, in his heart, a love for entire mankind. Every act of such a person becomes an act of service to the human race. He gets restless at someone’s pain and sorrow. To erase that pain, somehow, becomes his urgent concern and immediate objective of life.
Man’s life in this world is transient and too short-lived. Post-death, he will get another life which is permanent. In that after-life, he cannot attain paradise if he has not worshipped and obeyed his true Master, the One God. Rather, he will have to become a fuel of hell-fire forever. Today, millions of people are in the race for becoming the fuel of the blazing hell-fire. They are blundering up a path that heads straight into hell. In such a scenario, it is a case of conscience for all lovers of humanity who believe in the human bond, to come forward and discharge their obligation of salvaging those who are heading towards hell.
The author of this book Muhammad Kaleem Siddiqui is a person consumed with a passion and compassion to rescue men from that fire. In this book, he has placed some flowers in your hands, and his love for mankind can be clearly felt in them. He has taken the call of duty by presenting them, a duty that is due upon all of us as true humans.
With these words, I place before you these pieces of a heart and return to you what is your’s, your trust, your legacy.

Wasi Sulaiman Nadwi,
Editor, ‘Armughaan’ (Urdu Monthly),
Phulat, Muzaffarnagar, U.P., India.

MY APOLOGIES…
My Dear Readers! Please forgive me. I apologize to you. On my own behalf and on behalf of the entire Muslim community, I sincerely apologize for not handing over to you your greatest wealth. This happened due to the trappings of Satan. Satan planted in our hearts a disregard for the sinner instead of a disregard for the sin; and he thus converted the entire world into one huge battle-field. A realization of our failure propelled me to pick the pen today with the intention of delivering your due right back to you and to say a few words of love and fellow-feeling free from any self-interest.
As I place these pages in your hands, He Who is the Real Master Who knows the state of each heart is a Witness, here and now, that I truly wish to do that which my sincere concern for you, demands of me. The distress at not being able to reach out to you so far, has given me many sleepless nights. You have a heart. Turn to it and ask it about the truth of my words. The heart always speaks the truth.
A WORD OF LOVE
Needless to say, it is my deep desire that you see and read my words of love through eyes of love. For God’s sake, for the sake of the Master and Creator of this world, please stop and ponder awhile so that my heart and soul may get some peace in the thought that I have delivered a ‘trust’ back to a brother or a sister and, thus, acquitted myself of an obligation which was due upon me as a human.
I now wish to convey to you a beautiful fact.. This fact, in reality, is the greatest truth of which man needs to be conscious and which he needs to believe in after stepping into this world. And, to be aware of this truth is man’s responsibility too. I wish to speak to you about this lovely truth.
NATURE’S GREATEST TRUTH
Nature’s greatest truth, the supreme truth of this cosmos, is that the Creator and Organizer of the universe and its creatures is the One and only One Master, One God.
He is sole and singular in all His qualities. None else is His associate or partner in creating and managing this world, in creating all creatures and in giving them life and death. He is a Power Who is Omni-present, Omniscient. He hears all, sees all. Not a leaf stirs sans His consent. Every man’s soul, inner being, acknowledges this. Be he a believer in One God or a worshipper of idols, he surely knows deep down within him and believes that the Nourished and the Real Master is but ‘One’ only.
A person’s intellect too refuses to accept anything other than this that the world’s Master and Creator is One. The logic is plain. Take the case of the school which has two Principals or a village having two Heads. They cannot function at all. Their functioning is disrupted and in turmoil. For that matter, a nation too cannot have two kings or two Presidents or Prime-ministers. How, then, can the affairs of such a vast universe be managed by more than One God or by many masters? How, then, can there be many directors and managers of the world?

HERE IS THE EVIDENCE

 God’s own declaration, His own Word is the first evidence (of His Oneness). Yes, His Word – the Quran. But in order to prove that the Quran is the word of God, in the first place, the Quran itself threw a challenge-cum-clincher thus:
“And if you are in doubt concerning that which We have sent down (i.e., the Quran) to our slave, then produce a chapter like it thereof and (for doing this work) call all your people besides God, if you are truthful.” (Quran-2-23)
Fourteen hundred summers have passed by since this challenge was issued. People around the world researched, using Science and now computers too, but gave up. None could take up this challenge or bring together a case to establish that the Quran is not the Word of God.
The Quran presented 1400 years back the scientific facts (like DNA, the origin of the universe and Big Bang, embryology, particles smaller than atoms, sub-atomic particles, the expansion and final implosion of the universe, the birth place of stars, black holes, recording of sounds and images, the atmospheric layers and a hundred other scientific facts) which have been discovered only now, proving that the Quran is from God, the Knower and creator of these facts. It is this true book that vouches for God’s Oneness.
In this book (the Quran), God has furnished many arguments, evidences and touch-stones directed at out intellect. And, these evidences testify to His Oneness. Here is one such argument:
“Had there been many gods (and masters) of the heavens and the earth then there would have been great turmoil and unrest.” (Quran)
Simple logic! Had there been many gods, the scenario would have been something like this: One god would order that night should set in but another god would insist that it should be day-time. One god would decide that the span of a day would be six months while another would decide differently. Yet another god would want the sun to rise in the west but one of the gods would disagree and say, “No, the sun will rise in the east.”
Had there many gods sharing the One Supreme God’s powers, decisions and management, then again the scene would be somewhat like this: A man would pray to the rain-god for rains. The rain-god would accept his supplication. But, suddenly, another god would disagree and would command that there will be no rain. Then, the subordinate rain-god would go on strike in protest. Meanwhile, the people would be waiting for day-break but it would turn out that the sun-god was on strike.
A TRUE TESTIMONY
The plain and sober truth is that everything in the universe and its harmonious,  organized functioning, speaks for itself and testifies to the fact that there is One and only One Master of this universe. He can do, at one command, whatever He wishes any time, anywhere. He can neither be visualized in imagination or thoughts nor can he be depicted in images. Lo! He created the heavens and the earth, the entire cosmos only to put them at the service of mankind! The sun serves us! The winds serve us! This earth too is at our disposal. Fire, water and all inanimate and animate creation, apart from our own species, of course, have seen daylight only to be put to our service and use. Eureka! God crowned man as the chief and leader of all these things and created him as His slave only, to worship and obey Him.
It is only fair, then, that an honest person should utilize his life and possessions according to the wishes of his Master Who alone gives him life and death, nourishes him with food, water and all other requirements of life. Now, despite this, if a person does not employ his life in following His Master’s commands, then surely such a person is not worthy of being called a human.
A PRIME TRUTH
 The True Master has laid out a bare truth in His true book, the Quran:     “Everyone shall taste of death. Then unto US you shall be returned.” (Quran-29-57)
This verse has two parts. The first part mentions that every human soul has to surely experience death. This is a reality which every man believes, whatever his religion, sect or region may be. In fact, even those who don’t believe in religion, the atheists, too acknowledge the reality of death. Animals too understand this fact. A mouse flees at the sight of a cat. A dog bolts at the sight of an approaching truck. Why? Because they believe in death.
AFTER DEATH

The second part of the above-mentioned verse of the Quran, states another absolute reality. If only man could grasp it! If he could perceive this one reality to the hair, the world’s social environment and circumstances would change overnight. This absolute truth is: After death, you will meet God, yes, face to face, and will be handed out your dues (rewards or penalties) according to your deeds of this life.
It is not true that, once your body has disintegrated in the mud after death, you will not be raised up again. It is also not true that, after death, your soul will enter someone’s body. This idea does not pass the litmus test of man’s own intellect.
First of all, this whole concept of re-incarnation or transmigration of souls (also known as ‘awagaman’) is not mentioned in the Vedas (Hindu holy books). We can trace it only in the later religious books – the Puranas. This reference too merely mentions that a person’s genetic characteristics embedded in his genes are transferred down the generations genetically from father to son and so on.
Actually, the roots of the notion and belief in re-incarnation and transmigration of souls, lie elsewhere: An artificial hierarchy of superior and inferior divisions developed in society. Of course, this was the handiwork of Satan’s machinations. The high-point was that this hierarchy was erected in the name of religion. The self-appointed patrons of religion took obeisance from the ‘Shudras’ whom they considered lowly. Now, these down-trodden and crushed souls questioned the religious representatives, putting the million dollar question thus: “When God our Creator has granted equal faculties, eyes, nose, etc equally to all humans, why do you make yourself superior and us inferior?”
The reply of the religious leaders was interesting. They justified the system of social divisions by dishing out this theory of transmigration of souls. They explained the injustice meted out to some thus: They said, “Your bad deeds of your past life are responsible for your inferior position now!”
As per their theory, souls are born again in the world. They return inside different bodies according to their past -life deeds. Those with bad past-life deeds are born again as animals (or low castes or with physical defects) while those with the worst deeds are re-born in the form of vegetation. Those with good past-life accounts escape the cycle of re-birth or transmigration and they gain salvation (moksha).
THREE PROOFS AGAINST TRANS-MIGRATION OF SOULS
  1.  The foremost proof, in this matter, is that the international community of scholars, scientists and researchers concur unanimously on the view that the first to appear on our planet were plants, followed by animals. Humans were born millions of years after that. Now, the question is: If man had not yet appeared on the scene and, hence, had not yet committed any vice or virtue, then from where did souls take re-birth in the form of plants and animals?
  2.  Secondly, if we accept the idea of transmigration of souls, then it should result in a constant decrease in population caused by a reduction caused by those souls who never return and gain salvation. But, the reality is just the reverse. There is a constant increase in the population of humans, animals and plant -life too.
  3.  Thirdly, there is a huge difference in the number of births and deaths. The birth-rate is more than the death-rate. Interestingly, sometimes a million mosquitoes are born while only a few die.
Have we not all heard of cases wherein a child suddenly claims to recognize a house or location as the place where he lived in his past life? He also gives his past-life name and declares that he has taken re-birth. How do we explain this? The answer is simple: This is nothing but a machination of Satan and jinns who speak thus through children and try to damage man’s faith. (Science attributes this behaviour to the phenomenon of the collective unconscious)
The hard truth is that no sooner does a person breathe his last; he faces the greatest reality – the reality of returning directly to His Master and getting a full recompense for his good or bad deeds which he committed in this life.
ACTIONS WILL BEAR FRUIT
A person, who works the oracle here, performs deeds of merit and walks the path of virtue here, will tread the enchanted grounds of paradise there, after death. And, in Paradise, he will find every imaginable and unimaginable object of comfort, bliss and luxury and treats and pleasures such as no man has ever imagined, no eye has seen or no ear has ever heard of. Nay, not even a thought of such a Paradise crossed any heart or mind. But wait! Hold your breath! The greatest gift and pleasure of Paradise will be the sight of the Master, the One God Whom the residents of Paradise will see directly. Nothing will be more blissful and pleasurable than this experience.
Now, we also have people with bad report cards. Their poor performance, evil doings and defiance of God here, will land them in Hell. There they will go through the fiery chastisement and retribution for their sins. They will burn in blazing fires there. But – the greatest of all their punishments will be that they will not be allowed to see God. There, in the midst of hell-fire, they will drain the cup of misery and suffer painful torments.

POLYTHEISM - THE GREATEST SIN
The One True God informed us in the Quran that good deeds can be big or small, and sins too can be major or minor. However, He also declared something exceptional in this regard: He informed us that there is one sin which is the greatest and it will draw maximum punishment and He will NEVER-NEVER forgive such a sinner who comes along with this Capital sin. Such a man or woman will burn in hell-fire forever and ever. He or she will not get death there either (to end the torment).
That master-sin is to accept someone or something as a partner of the One God and Master, to bow and humble yourself before someone else, to fold hands and supplicate to anything or anyone else too, to consider someone else too to be worthy of worship and obeisance and to be convinced that something or someone else too has the power to grant life or death, profit or loss or livelihood.
This, in effect, is the master-sin. This sin is in itself the greatest oppression, corruption and outrage. To even consider that an idol or the sun, moon, stars, some ascetic, fakir or saint is worthy of worship, is something that God will never forgive.
He might, if He so desires, forgive other sins but not this one. Our own intellect, our logical mind too holds this sin to be vile and repulsive.

A CASE IN POINT
Consider the case of this man whose wife is engaged in a regular tussle with him. She argues abuses and absolutely refuses any truce with him. Eventually, the man asks her to move out, whereupon she says to him, “I am yours only and shall ever remain so. I shall live and die here and I promise never to leave your house, not for a moment.”
The result: Despite his fury, the man is compelled to compromise and continue with the relationship.
On the other hand, there is a wife, extremely docile, caring and duty-conscious. She serves her man a hot dinner even if he turns up at midnight and gladdens his heart with tender affection. One day, this woman turns around and says to her husband, “Look here, just having you is not sufficient for me. I need that neighbour of mine too as a husband.”
Now, if the husband has an iota of self-respect, he will not tolerate this. In fact, he would either kill her or kill himself.
Why does he react in this manner? You guessed it right. No man on earth can wish to have a rival or a partner in his marital rights as a husband. Just imagine! A man created from a humble drop of water, cannot tolerate a partner along with himself! How, then, can God the Master Who created man from this humble and impure drop of water, tolerate or permit that man should ascribe a partner to Him and worship someone else too? How can God stand this when the fact remains that He alone is the Provider of all of man’s possessions?
Another case in point, here, is a prostitute. She plunges into degradation and dishonour for the sole reason that she sells her honour to anyone and everyone. In the same manner, a person who worships others be they idols, deities, humans or anything else, falls from God’s grace, and he is worse than the prostitute who fell into disgrace. (She at-least realizes her sin)

NEGATION OF IDOLATORY IN THE QURAN
 The Quran presents an allegory about idol-worship. It is thought-worthy. It runs thus:
“The things which you worship besides God, they cannot, together, create even a fly; far from creating it, they cannot take back something which the fly might lift away from them. How feeble are those that are worshipped and how feeble are the worshippers. And they did not realize God (His Power) as they should have; He is Most Powerful and One Who can do anything.” (Quran)
What an amazing and beautiful example! As for these idols which we have crafted with our own hands, it is we who have sculpted them. If these idols had any sense, they would have worshipped us!
A FLIMSY IDEA
Some people argue that they worship others besides God just because these ‘others’ lead them to God. They say that they gain God’s favours through them and through the idols. This argument is very much like the case of a man at the railway station. This man inquired from a porter about his train. When the porter informed him about the details of the train, the man leaped onto the porter’s shoulders instead of boarding the train. He argued that he did so because it was, after all, the porter who gave him information about the train! To worship someone who gives information about God, instead of worshipping God, is as ridiculous as the action of the man who climbed onto the porter instead of climbing into the train.
There are some brothers who argue that they keep idols to ensure concentration of attention towards God (during worship). Now, this is indeed strange! This is much like the case of a man who is staring at a dog. He insists that he is doing so in order to concentrate attention on the thought of his father! But, there is no relation between the dog and his father. Similarly, where is the relation between a weak idol and that All-Powerful, Merciful and Compassionate Master? Will the act of looking at an idol ensure concentration of attention towards God or cause distraction?
In essence, the conclusion is that it is the greatest of all sins to attribute partners to God. God will never pardon this particular sin. Anybody guilty of this sin will become fuel of hell-fire for eternity.
FAITH - THE SUPREME VIRTUE
Faith is the greatest of all virtues, the essence of all that is good and worthy. Everyone, adhering to any religion, believes that it is only faith that a person carries with him after death while he abandons all his possessions behind him. A person of faith, a ‘Faithful’ is he who hands over to others their due rights. On the other hand, he who usurps others’ rights is termed an ‘oppressor’.
Now, the greatest right over us is that of our Creator. And what is this greatest right that He has over us? This right is that we should worship Him alone and accept Him only as the Master, the Giver of profit or loss, honour or dishonour. And why so? Because HE alone is the Creator, Nourisher, Provider and Giver of life and death. Yes, this is His greatest right on us - that we spend this God-given life as per His wishes and obey Him alone. This, in essence, is faith (Imaan). A person cannot be a “Faithful’, a person of faith, without accepting Him alone as the only Master and without submitting to Him. Rather, such a person would be termed ‘faithless’.
The example of a person who usurps this greatest right of the Creator and yet claims to be a ‘man of faith’ is similar to the case of a dacoit who commits a major robbery and becomes a millionaire. Then, one day, he walks up to a shop to return a coin and says magnanimously to the shopkeeper, “Take this coin back. I got it extra from you by mistake.”
Bizarre, isn’t it?  If, returning a single paise after committing a major plunder, is his ‘faith’ and ‘honesty’, then it would be a worse faith, indeed, to worship someone else instead of one’s own Master.
Faith, in effect, means only one thing: that you accept that your Master is only One and that you worship Him alone and spend each moment of your life in implementing His wishes and commands. True faith really means that you spend the life given by Him according to His wishes. To reject His commands is ‘irreligion’ and faithlessness.
THE TRUE RELIGION
True religion has always been one ever since the dawn of time. This one and true religion always taught the same thing – that we accept and believe in the ‘One and Only God’, worship Him alone and obey His commands. The Quran says:
“Truly, the religion with God is Islam.” (Quran- 3-19)
“And whoever seeks a religion other than Islam, it will never be accepted of him, and in the hereafter he will be one of the losers.” (Quran – 3-85)
It is a human shortcoming that man’s faculties have boundaries and limits. His eyes do see but not beyond a distance. He can hear but only within a certain range. His powers of smell, taste and touch too have their limits. These five senses provide man with information. But, his mind too has its own constraints. It cannot perceive or answer some questions such as: What kind of life does God, His Master, prefer for Him? In what manner should he worship God? What will happen after death? Which are the actions which will take him to paradise or, alternately, to hell? A person cannot, on his own, answer these posers.
THE PROPHETS
God, in His Mercy, turned towards this shortcoming and disability of man. He sent messages and guidance to some select, noble souls through angels. These men, the prophets, conveyed the art of living and the ways of worship. They unveiled to people those truths of life which were out of bounds of the intellect.
These men were known as prophets and messengers. They could also be called ‘Avtaars’ provided the term ‘Avtaar’ means ‘one on whom something has been sent down or revealed’. These days, the term ‘Avtaar’ is generally taken to mean ‘God or God in the guise of man’. This is an absolute fallacy and a major sin too. This delusion wrenches man away from worship of One God and Master and lands him straight into the quick-sand of idol-worship.
These great men, the prophets and messengers, selected by God to blaze out the true path for mankind, appeared in every region and nation and in all times and climes. Each of them instructed the people to believe in and worship none but One God only and to abide by the code and way of life which they brought and spend their lives according to His wishes. Not one of these prophets invited men to worship anyone other than the One God. On the contrary, they made every effort to drag people away from this sin (of polytheism). People accepted their teachings and began treading the true path.
THE ORIGIN OF IDOL - WORSHIP

The prophets were mortals after all. They died. (There is no death for God only)
Their death aroused strong sentiments of grief, love and memories in their followers after them. The people missed them, mourned them, wept in their memory. This was the break, the golden chance for Satan, and he pounced upon it. Recall that he was man’s enemy. God had given him the power to whisper evil thoughts into man’s heart and mind and to tempt and lead him astray. Of course, God wanted to test man to see who obeyed Him and who followed Satan.
Now, Satan got his chance. He approached the grieving people and said, “You love your prophets but, now that they are dead, you are unable to see them. But, I will ensure that you can still see them. I’ll carve out their statues. You can then look at the statues and gain peace.”
The statues were made. The people would gaze at them at their will. By and by, a deep regard and love for these statues grew in their hearts. Another opening for Satan! He approached them again and whispered, “Believe me, if you bow to these statues, you will find God in them.”
The people’s hearts, already a brim with love for these idols, readily bowed to them and soon began worshipping them. Lo! Man, who was meant to worship One God only, began worshipping idols. And, before he knew it, he was caught in the trap of polytheism.
When this happened, when man, the leader and chief of this world, stooped down to bow to stones and dust, he lost his honour and fell into degradation. He fell from God’s grace and became a fuel for the fires of hell till the end of time.
Now, God sent more prophets again. They came to unhook people from idol-worship and to stop them from worshipping anything other than God. Some people accepted their exhortations. Some did not. Those who did gained God’s pleasure. But grave, divine decisions were taken, decisions of destruction for those who spurned the prophets’ advice. They were obliterated off the face of the earth.
THE MAXIM OF THE PROPHETS
The prophets kept coming continuously in quick succession. A common premise and the same thread ran through their teachings. They invited people to one and the same religion and the same principles (the principles of Oneness of God, life after death, accountability of actions after death, heaven, hell and God’s messages sent to mankind through prophets)
Each of them said: “Believe in One God. Do not conjoin anyone with God or His qualities. Do not make anyone a partner in His worship. Accept all His prophets as His true prophets and all His angels as His pure creatures who do not eat or sleep but merely execute His commands. Accept and believe the revelations, the scriptures which He sent through the angels, to be true. Believe also in the plain truth that, after death, you will surely be handed out your recompense for your virtues and vices. Finally, have faith that all positive or negative happenings in life are part of destiny and are from God. So, follow the way of life and the religious code which I have brought.”
All the prophets were true. All the scriptures revealed to them were true. We believe in each of them, and do not discriminate between them. But – there is a question: What is the proof that these prophets were actually the true and genuine prophets of God? The proof of their truth and authenticity is in this that they be tested on the litmus stone of this one principle: The teachings of these men, who invited people to believe in One God, must not contain any talk of worshipping anyone else or worshipping their own selves, except God.
Now, if the teachings of some religious personalities today contain a sanction for idol – worship or worship of many gods, then these personalities were either not prophets or their teachings have been manipulated later. It is, indeed, a hard reality that the teachings of all prophets prior to Prophet Muhammad (saw) have been altered and, in many cases, their holy scriptures too have been tampered with.
THE LAST PROPHET - MUHAMMAD (saw)
There is an amazing and precious fact! That fact is: All prophets and Holy Scriptures prophesied the coming of a last and final prophet. These prophets also instructed and their scriptures mentioned that once this final prophet appears and is recognized (through certain signs), people must accept him and his scripture and code of religion which he brings, and give up all earlier religious laws.
But, there is another amazing fact here! This fact is that despite major changes in all previous holy books, the forecasts about the coming of the last prophet could not be tampered with. God did not allow it. These forecasts exist in all holy books today. This very fact is, by itself, an open proof of the truth of Islam. Why did this happen (preservation of these forecasts in holy books)? This happened so that none can stand up and give excuses on D-Day (Judgment Day) and say, “I did not know (about the coming of the last prophet)”.
This last prophet - Muhammad (saw) - has been called ‘Naraashans” in the Vedas, ‘Mahammad’ in the Bhavishya Purana, ‘Kalki-Avtaar’ in the Puranas, ‘Parakletos’ in the Bible and the ‘Last Buddha’ in Buddhist scriptures. The date, time and place of Prophet Muhammad’s birth and many other signs related to him, have been mentioned in these holy books.
PROPHET MUHAMMAD’S LIFE - AN INTRODUCTION
About 1400 years ago, that last Prophet Muhammad was born in the city of Makkah in Saudi Arabia. His father died before his birth. His mother too did not live long. His grandfather and, later, his uncle raised him. Soon, this most extra-ordinary person of the world became the apple of the eyes of the Makkans. Their love for him grew as he grew up. He was popularly known as ‘The truthful’ and ‘the trustworthy’. The people would deposit their valuables with him (as in a bank). They would invite him to arbitrate in their disputes.
An interesting incident took place once. The Kabah, the sacred mosque of God, was being renovated. A sacred stone lay in its corner. Due to its sanctity, all the Makkan tribes and their leaders wished to get the honour of installing this stone themselves. Matters came to a head, and swords were drawn. Just then, a sensible man came up with a solution to the impasse. He suggested that the first person to enter the Kabah should settle the dispute. The crowds agreed. Lo and behold! The first to arrive at the Kabah just then was Prophet Muhammad! The people cried out in one voice, “This is just fine! The ‘truthful and trustworthy’ has arrived, and we are pleased.”
The Prophet broke the stand-off in an ingenious way. He rolled out a sheet of cloth on the ground and himself lifted the stone, placing it on the cloth. He then asked all leaders of the various tribes to come forth and hold the hem of the cloth and lift it. When these leaders reached the Kabah’s wall carrying the cloth with the stone in it, the Prophet lifted the stone and installed it in its original spot. He thus averted a near -blood-bath.
As a norm, the people consistently involved him prominently in their affairs. They would become upset and restless in his absence when he travelled, and would weep inconsolably when he returned.
In those days, 360 idols and statues of deities were installed in the Kabah. Arabia overflowed with evils like castes, social divisions, oppression and suppression of women, alcoholism, gambling, usury, conflicts, violence, adultery, etc.
When Prophet Muhammad was 40, God began sending down the Quran to him through an angel and also gave him the glad tidings of having appointed him as a Prophet of God. God, now, conferred on him the responsibility of inviting people to monotheism or worship of One God only.

THE VOICE OF TRUTH
Prophet Muhammad stood atop a hill. His voice rang out in the still desert air as he called out to the people. The people responded. They had recognized the familiar voice. It was the voice of ‘the truthful’ and ‘the trustworthy’. Promptly, they rushed to the bottom of the hill.
From the crest of the hill, the Prophet asked them, “Will you believe me if I inform you that a vast army is approaching behind this hill and is about to attack you?”
The people echoed back, “How can we not believe you? You never lie or deceive. Moreover, you are in an elevated position up there and can see the other side of the hill from atop.”
Thereupon, the Prophet invited the people to Islam and cautioned them against idol-worship. He warned them about the fires of hell after death. He tried to impress upon them that they could not see those fires just as they could not see the other side of the hill from below while he could see it from his elevated position on the hill-top.
A HUMAN WEAKNESS
It is a human shortcoming that a person emulates even those fallacious beliefs and actions of his forefathers which are wide off the mark .He does so despite the fact that his own logical mind and other evidence refutes the validity or correctness of these ideas and actions. Despite this, he persists with the practices of his ancestors. Far from examining or refuting these practices, he does not tolerate a word against them.
ROAD-BLOCKS AND TRIALS

This human shortcoming, above-mentioned, was the very reason why the very people of Makkah who had honoured and trusted the Prophet for 40 years and had titled him ‘The Truthful’, suddenly became his worst enemies. The more he invited them to this single truth (of monotheism), the more vehemently and violently they opposed him. Some of them persecuted his followers who believed him. They assaulted them, strapped their necks, dragging and stoning them. They pinned down many believers on burning coals. Despite all this, the Prophet took no revenge. He harboured no vindictive or negative feelings for his persecutors but only prayed for their guidance.
Once, disheartened and disappointed with his own people of Makkah, he visited the nearby town of Taif. There, the people derided him. They set young pranksters after him. These truants ran after him, abused and stoned him until his feet bled. When he would sit down in exhaustion, these boys would raise him up forcibly, only to stone him again. He left the town. On the outskirts, he sat down to gather his breath. He did not curse them. Instead, he supplicated to God with these words: “O Lord! Grant them understanding, for they know not.”
Ultimately, he was compelled to bid farewell to his beloved city of Makkah for the only fault that he had conveyed God’s pure words – the Quran – to the people there. Subsequently, he migrated to the city of Madina. However, the Makkan armies attacked him there too repeatedly.

THE TRIUMPH OF TRUTH
Truth always wins. It won here too. After going through the grind for 23 years, victory finally embraced the Prophet. His sincere and selfless appeals and invitation to the truth touched the deepest chords of hearts. A flood of affirmations poured in from across the length and breath of the lands around him. Entire Arabia entered the cool shade of Islam, and a revolution swept across the entire world, thereafter.
THE FINAL WILL
Some time before his death, Prophet Muhammad performed the pilgrimage of Haj along with 1,25,000 people. There, during the Haj, he announced his famous final will and parting exhortation. He said, “O People! After you die, you will be questioned about me as to whether I conveyed God’s religion and the truth to you. What will you say?”
The surging crowds responded, “We bear witness that, without doubt, you have conveyed it.”
He raised his finger towards the heavens and said thrice, “O God, be Thou Witness, be Thou Witness, be Thou Witness.”
Thereupon, the Prophet announced, “Those of you whom this true religion has reached, must convey it to those whom it has not yet reached. Let him who is present; convey it unto him who is absent.”
He also stated that there will be no prophet after him, that he was the last prophet – the
‘Narashans’, the ‘Antim-Avtaar’, the ‘last Buddha’, the ‘Parakletos’, the ‘Kalki-Avtaar’ whom people had been awaiting and about whom they knew all details and signs.
The Quran says:
“Those to whom We gave the Scripture (Jews and Christians) recognize him (Prophet Muhammad) as they recognize their sons. But, doubtless, a group of them conceal the truth while they know it (i.e., that he is the last prophet prophesied in all holy books).” (Quran-2-146)
EVERY SOUL’S OBLIGATION
It is now the bounden duty and a religious and human obligation upon every human soul till Doomsday, to worship One God, not to attach partners to Him, to accept His last Prophet Muhammad as the true prophet and follow the code and way of life brought by him. Doing this is called faith or Imaan. Without faith or Imaan, a person will burn in hell eternally after death.
SOME QUESTIONS
Some questions may crop up in your mind. For instance – Why at all should we believe in going to heaven or hell after death when we can’t see heaven or hell? In this regard, it will be most relevant to note that all ancient scriptures hold a vivid description of heaven and hell. This goes to prove that the concept of heaven and hell exists in all religions.
This can be better understood by a simple example: Someone tells a baby inside the mother’s womb, “Now look here, when you are out of here, you will get milk, you will cry and you will see many other things too.”
The baby may not believe this while he is still inside the womb. But no sooner does he emerge from the womb; he finds all those things which were told to him, to be true and right in front of his eyes. Our world too is in a state of pregnancy. When a person emerges from it after death, he opens his eyes in the next world and, like that new-born baby, finds all the things said to him to be true and very much in front of him.

A RIDDLE

Another question that might puzzle the mind can be: If all religions and religious scriptures are true, then why is it important to believe in and accept Islam? The answer to this poser is simple, especially if seen in the light of today’s system in the modern world. Take the example of our own country. We have a parliament and a constitution. We also had a string of Prime ministers like Nehru, Shastri, Indira Gandhi, Charan Singh, Rajiv Gandhi, V.P.Singh, Atal Bihari Vajpayee, etc.
Each one was a Prime minister in his own right. Each of them introduced come changes and laws in response to the need of his time, and these became an integral part of the country’s law. Now any change made in this law by the present Prime minister and his cabinet will automatically abrogate the related previous law on the same subject. It becomes mandatory for the citizens to accept this new, changed law. Now, if someone were to object and say that since Indira Gandhi was also a Prime minister, hence he will obey only the laws made by her and not the new laws framed by the new Prime minister, then obviously such a person would be taken as an enemy of the State and would incur indictment and punishment.
In the same manner, all religions and all religious texts appeared in their own times and each, in its own right, taught the same truth (of monotheism). But, now it is imperative for a person to believe in the last Prophet Muhammad and follow the final code of religion brought by him while, at the same time, believing and accepting all previous prophets and religions to be true. (Moreover, previous prophets were sent to their own people for their own times but Prophet Muhammad, being the last Prophet, has been sent for all mankind and for all times).
TRUE RELIGION IS ONLY ONE

It is plain now that it is not correct to say that all religions lead a person to God or that only the paths (religions) are different while the goal is common. The reality is that truth is only one. Falsities can be many. Light can be only one continuous spectrum of unbroken radiance. Yes, light can be only one. Darkness and its shadows can be many! True religion, too, is only one. It was always one from the very dawn of time. And to believe in that one religion and only that religion, is Islam.
Religion never changes. It is only the internal laws (religious code) that changed with the times. And, these laws were changed only through God’s guidance sent through prophets.  When mankind is one species, our Lord God is also One, then the true path is also one. The Quran says: “The religion from God is only Islam.”
AN ADDITIONAL QUESTION
Yet another question could tug at your mind: Where is the proof that Prophet Muhammad is God’s true prophet and also the last prophet? The answer is plain and the proof is glaring:
  1.  The first proof is God’s own declaration that Prophet Muhammad is his true and last prophet. God announced this through His Word - the Quran. The Quran is the word of God. Now, to prove that the Quran is the word of God, in the first place, the Quran itself has given evidences and arguments as mentioned earlier. These arguments have been upheld and stood their ground as none of these could be refuted till date. It is this true book that has announced that Prophet Muhammad is the true and final prophet of God.
  2.  The second proof is the very person of Prophet Muhammad.  Every moment of his life is on record and exposed to the world. His entire life is but an open history book. No other man’s life and times have been thus chronicled and rolled our before the world as Prophet Muhammad’s life. His own sworn enemies and anti-Islamic historians too never alleged that he ever lied even in his private life about anything or anyone. His own countrymen swore to his honesty and integrity. How such a person who never lied in private, tell cans lies in the matter of religion and God? This true Prophet himself conveyed that he was the last prophet and that no prophet would come after him. He also did not give any prophecy (about any prophet after him).
  3.  The third proof is: - the Holy Scriptures of all religions. All religious scriptures contain prophecies about a last prophet, a last ‘Rishi’ ‘Antim Rishi’, ‘Narashans’, ‘Kaliki-Avtar’ and ‘Muhammad’ in Hindu scriptures (and by his own name and other names in Christian, Buddhist and other scriptures mentioned earlier) The signs of this last prophet (by which he can be recognized) have also been detailed in all these holy books, and they conform to Prophet Muhammad only.
PANDIT VED PRAKASH UPADHYAY
Pandit Ved Prakash Upadhyay (an expert on Holy Scriptures) has written that a person who does not accept Islam and does not believe in Prophet Muhammad (saw) and his religion is, actually, not a Hindu. The reason for this is that the Hindu scriptures have clearly instructed the people to accept the religion of Kalki-Avtar, the Narashans whenever he appears on this earth (just as other scriptures have instructed people to accept the last prophet).
Hence, any Hindu who truly believes in his own religious scriptures but does not believe in the Kalki-Avtar and his teachings will burn in hell-fire after death forever. There, he will be deprived of the sight of God. Rather, he will suffer God’s wrath. (Similarly, a person of any other religion too cannot be a true believer and follower of his own religion until and unless he believes and follows this last Prophet Muhammad because his own holy book has prophesied his coming and also instructs him to follow this last prophet.)
FAITH - A NEED
Come to think of it, faith is essential not only for the life after death but is needed in this world and this life too. It is a case of conscience, an obligation on man to worship One God. Anyone who deviates and parts company with God, and bows and kneels to others, is worse than an animal. Why? Even a dog lies faithfully only at his own Master’s door and pins all hopes on him alone. What a man is he who abandons his own true Master and Lord and bows away, right and left, here and there, at every other door!!
However, the hard fact is that a person needs faith more after death from where he will never return. There, he will not get a second death even if he were to beg for it. There, regrets and remorse will prove futile. If a man departs from this world without faith, then he will smoulder and burn in the consuming fires of hell without a break, forever. What happens when a tiny flame merely brushes us for a moment? We cry out in pain. How then will we be able to stand a blazing fire which is 70 times hotter than this world’s fire, and in which one will be roasted alive perpetually? There, when the skin will be burnt to a cinder, a new skin will at once replace it, to be burnt and replaced again. This process will be repeated continually. (Today, we know that pain - receptors are in the skin and the skin feels maximum pain) The torment of burning will be uninterrupted.
DEAR READERS!
My Dear Readers! We have no clue as to when death will strike. We are not sure even if we will be able to exhale the breath we have just inhaled or if we will be able to breathe in a new breath. Before death catches up with you, there is still a chance. Know and feel your foremost and supreme obligation. Without faith, neither is this present life a life worth the name nor will the post-death life be a worthy life.
Tomorrow, we will be ushered into our Lord’s Presence. There, the first question to be asked of us will be about faith. I have my own personal end too in this matter: On D-Day, that is, Judgment Day, I do not wish that you turn around and say, “I did not know. This fact was never conveyed to me.”
I trust that these sincere and true words have found a place in your heart. Then, come O Noble Soul, You my dear friend, possessor of a true heart and a true soul, come and make the Lord a Witness. With such a true heart as is acceptable to the Knower of hearts, come, acknowledge and pledge that –
Shahadah in Arabic
“Ash-hadu-an-la-ilaha-illallah-wa-ash-hadu-anna-Muhammadan-abduhu-wa-rasooluhu.”
Translation: “I testify that there is no God except the One God and I testify that Muhammad is the servant and Prophet of God.”
“I repent and turn away from rejection of God and I turn away from attaching partners to God. I turn away from all types of sins. I take a pledge that I will comply with the commands of my true Master and God Who has created me. I will also sincerely follow His true Prophet Muhammad.”
May God the Kind and Merciful keep you and me steadfast on this path until our last breath. Amen.
My Dear Friend! If you spend your life along with this belief and faith until the knock of death, then and only then will you realize and appreciate how this brother of yours has fulfilled the call of love for you.

A TEST OF FAITH
It is quite possible that you could be tested on account of your faith. But – truth always wins. In this world too, truth is destined to win the day. However, if some trials do happen to come your way, then go through them with the thought that life in this world is transient and meant to last only for a few days. The trials are a cipher, a shadow, a straw and too insignificant in the face of the comforts, luxuries, bliss and unimaginable pleasures of paradise forever and ever after death. And, of-course, the trials are nothing in comparison to gaining God’s pleasure and viewing Him face to face.
YOUR CALL
 A matter of exceptional importance stands out now. This truth, this faith, is the right and ‘trust’ of every other soul whom this ‘right’ has not yet reached. Hence, it is an obligation upon you too to pass forward this truth, this ‘trust and right’, much like a legacy, to those others to whom it belongs and who have not yet heard of it. You need to do this in all sincerity, good-will and well-meaning sympathy with the only end to save a brother or a sister from God’s wrath and from the fire and torments of hell.
Perform this ‘labour of love’ with a deep sense of compassion. Hand over the truth to others just as the dear Prophet did. At the same time, pray to God for their guidance, that they may realize and recognize the straight, true path.
Imagine, for a moment, this scene: A man is pacing near a blazing pit of fire. Just then, he sees a visually challenged man strolling ahead of him. This blind man, unaware of the pit of fire ahead, strays towards its edge and falls over it into the pit. The person behind has been watching him calmly all this while. He does not move. He neither calls out to the man, even once, to caution him nor does he move forward to hold him back or say, “Look out! Your path leads straight into a pit of fire.”
Do you think such a person deserves to be called a human being? The minimum requirement of humaneness, is to stop that blind person, hold his hands, pull him back, save him, assure and promise him thus, “As far as I can and as long as there’s life in my veins, I won’t let you fall in the fire.”
The point is clear. After accepting faith, every Muslim who has received the guidance of faith, the Prophet and the Quran, becomes duty-bound to do one thing. This ‘one thing’ is to set about the task of salvaging and extricating those souls who are still entangled and caught up in the fire of polytheism, who are attaching partners to God and are rejecting God (His Oneness).
Hold the hands of such people, or their feet if need be. Plead with them so that they adopt faith and do not keep blundering up the wrong path, following the wrong scent.
It is a fact that words coming from the depths of a sincere heart, words flowing with compassion and selflessness, surely touch and move another heart. It’s a ‘heart-to-heart’ matter. Even if a single person gains faith and finds God’s real, true door through you, then you are truly exonerated and stand vindicated. Indeed, then, you have truly worked the oracle. And that is exactly why God is so pleased with him who draws away another soul from polytheism (Shirk) and rejection of God (Kufr) and directs him onto the highway of truth.
Assume, for a while, that your own son has revolted against you and has joined the enemy ranks. Suddenly, a Good Samaritan turns up from nowhere. He counsels your son and, eventually, transforms your son back to his loyal, obedient self, and your son returns to you. How pleased would you be with that noble man who brought back your son to your fold! In much the same way, Our Lord God is singularly pleased when someone becomes a medium in conveying faith to another soul, and disperses the spark of faith further and further on, in every hole and corner and onto the four winds.
IN THE AFTER – GLOW OF FAITH

After accepting Islam and becoming the true servant of the true Lord and Master, you need to do certain things. To offer the five daily prayers, becomes your first duty. Learn them. Offer them. These prayers will radiate peace in your soul and will enhance your love for God. In the month of Ramazan, you must fast. If you are wealthy, you must contribute a part of your wealth to the needy, for that is their share. Finally, if you can afford it, you must go for the pilgrimage of Haj once in a life-time.
Beware! Watch out! Now, your head must not bow before anyone except God. You now need to steer clear of all prohibited things like alcohol, gambling, usury, pork, bribes, etc. However, you may freely enjoy all those pure gifts of God which He has made permissible.
You have, now, to read daily that pure Word of God, the Quran. You must also observe the ways of purification and hygiene. You must pray from the depths of your heart and soul for your friends, family and relatives and for all men and women walking on this earth, that they may live and die with faith because faith alone is the first and last anchor of human civilization and society.
In the dimly-lit corridors of times gone by, there once stood a great prophet of God. He was Prophet Ibrahim. In an incident, he was forced into a fire. He walked into the flames but not a hair of his was harmed! This was due to his faith. Today too, the power of faith can transform a fire into blossoms and can ward off any obstacle in the way of the true, glowing path.


If the faith of Ibrahim / could stir our hearts again
Fire and flames and embers all / would turn to flowers again.
Peace be upon you.