Front - The Prophet Muhammed

Friday, March 21, 2014

QARI AHMED ALI KI GIRIFT

Page 01

Page 02

Page 03

Page 04

Page 05

Page 06

Page 07

Page 08

Page 09

Page10

Page11

Page 12

Page13

Page14

Page15

Page16

Page 17

Wednesday, March 5, 2014

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ


مرزا غلام انگریز قادیانی اور اس کی ذریت پر لعنت بھیج کر پڑھیں

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ

س… ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آخر الزمان ہیں۔ یہ ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے، لیکن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ ان کی وفات کے بعد اور قیامت سے پہلے ایک نبی آئیں گے، حضرت مہدی رضی اللہ عنہ جن کی والدہ کا نام حضرت آمنہ اور والد کا نام حضرت عبداللہ ہوگا، تو کیا یہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں ہوں گے جو دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ میرے نانا محترم مولوی آزاد فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں فرما رہے تھے کہ قیامت سے پہلے حضرت مہدی رضی اللہ عنہ دنیا میں تشریف لائیں گے، لوگوں نے نشانیاں سن کو پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہ آپ تو نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراکر خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ کہہ رہی تھی میں اس دنیا میں دوبارہ آوٴں گا، اس کا جواب تفصیل سے دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

ج… حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔

ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔

یہ ہے وہ عقیدہ جس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ مجددین معتقد رہے ہیں۔ آپ کے نانا محترم نے جس خطبہ کا ذکر کیا ہے اس کا حدیث کی کسی کتاب میں ذکر نہیں، اگر انہوں نے کسی کتاب میں یہ بات پڑھی ہے تو بالکل لغو اور مہمل ہے، ایسی بے سروپا باتوں پر اعتقاد رکھنا صرف خوش فہمی ہے، مسلمان پر لازم ہے کہ سلف صالحین کے مطابق عقیدہ رکھے اور ایسی باتوں پر اپنا ایمان ضائع نہ کرے۔

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور کب ہوگا؟

اور وہ کتنے دن رہیں گے؟

س… امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور کب ہوگا؟ اور آپ کہاں پیدا ہوں گے؟ اور کتنا عرصہ دنیا میں رہیں گے؟

ج… امام مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کا کوئی وقت متعین قرآن و حدیث میں نہیں بتایاگیا۔ یعنی یہ کہ ان کا ظہور کس صدی میں؟ کس سال ہوگا؟ البتہ احادیثِ طیبہ میں بتایا گیا ہے کہ ان کا ظہور قیامت کی ان بڑی علامتوں کی ابتدائی کڑی ہے جو بالکل قربِ قیامت میں ظاہر ہوں گی اور ان کے ظہور کے بعد قیامت کے آنے میں زیادہ وقفہ نہیں ہوگا۔

امام مہدی رضی اللہ عنہ کہاں پیدا ہوں گے؟ اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت منقول ہے کہ مدینہ طیبہ میں ان کی پیدائش و تربیت ہوگی۔ مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت و خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگی۔ روایات و آثار کے مطابق ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی جب ان سے بیعتِ خلافت ہوگی، ان کی خلافت کے ساتویں سال کانا دجال نکلے گا، اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان کے دو سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں گزریں گے اور ۴۹ برس میں ان کا وصال ہوگا۔

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا زمانہ

س… لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پورا مضمون پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ اور حضرت عیسیٰ کے کفار اور عیسائیوں سے جو معرکے ہوں گے ان میں گھوڑوں، تلواروں، تیرکمانوں وغیرہ کا استعمال ہوگا، فوجیں قدیم زمانے کی طرح میدانِ جنگ میں آمنے سامنے ہوکر لڑیں گی۔ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ سے نو گھڑسواروں کو دجال کا پتہ معلوم کرنے کے لئے شام بھیجیں گے، گویا اس زمانے میں ہوائی جہاز دستیاب نہ ہوں گے۔ پھر یہ کہ حضرت عیسیٰ دجال کو ایک نیزے سے ہلاک کریں گے، اور یاجوج ماجوج کی قوم بھی جب فساد برپا کرنے آئے گی تو اس کے پاس تیرکمان ہوں گے۔ یعنی وہ اسٹین گن رائفل، پسٹل اور تباہ خیز بموں کا زمانہ نہ ہوگا۔ زمین پر انسان کے وجود میں آنے کے بعد سے سائنس برابر ترقی کر رہی ہے اور قیامت کے آنے تک تو اس میں قیامت خیز ترقی ہوچکی ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ، اللہ کے حکم سے چند خاص آدمیوں کے ہمراہ یاجوج ماجوج کی قوم سے بچنے کے لئے کوہِ طور کے قلعے میں پناہ گزیں ہوں گے، یعنی دنیا کے باقی اربوں انسانوں کو جو سب مسلمان ہوچکے ہوں گے، یاجوج ماجوج کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔ اتنے انسان تو ظاہر ہے اس قلعے میں بھی نہیں سماسکتے۔ میں نے کسی کتاب میں یہ دعا پڑھی تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ دجال سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بتائی تھی، مجھے یاد نہیں رہی۔ مندرجہ بالا وضاحتوں کے علاوہ وہ دعا بھی تحریر فرمادیں تو عنایت ہوگی۔

ج… انسانی تمدن کے ڈھانچے بدلتے رہتے ہیں، آج ذرائع مواصلات اور آلات جنگ کی جو ترقی یافتہ شکل ہمارے سامنے ہے، آج سے ڈیڑھ دو صدی پہلے اگر کوئی شخص اس کو بیان کرتا تو لوگوں کو اس پر “جنون” کا شبہ ہوتا۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سائنسی ترقی اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہے گی یا خودکشی کرکے انسانی تمدن کو پھر تیر و کمان کی طرف لوٹادے گی؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ دوسری صورت پیش آئے جس کا خطرہ ہر وقت موجود ہے اور جس سے سائنس دان خود بھی لرزہ براندام ہیں، تو ان احادیثِ طیبہ میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا جن میں حضرت مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

فتنہٴ دجال سے حفاظت کے لئے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھنے کا حکم ہے، کم از کم اس کی پہلی اور پچھلی دس دس آیتیں تو ہر مسلمان کو پڑھتے رہنا چاہئے، اور ایک دعا حدیث شریف میں یہ تلقین کی گئی ہے:

“اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔”

ترجمہ:…”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے ہر فتنے سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گناہ سے اور قرض و تاوان سے۔”

حضرت مہدی کے ظہور کی کیا نشانیاں ہیں؟

س… آپ کے صفحہ “اقرأ” کے مطابق امام مہدی آئیں گے، جب امام مہدی آئیں گے تو ان کی نشانیاں کیا ہوں گی؟ اور اس وقت کیا نشان ظاہر ہوں گے جس سے ظاہر ہو کہ حضرت امام مہدی آگئے ہیں؟ قرآن و حدیث کا حوالہ ضرور دیجئے۔

ج… اس نوعیت کے ایک سوال کا جواب “اقرأ” میں پہلے دے چکا ہوں، مگر جناب کی رعایتِ خاطر کے لئے ایک حدیث لکھتا ہوں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ: “ایک خلیفہ کی موت پر (ان کی جانشینی کے مسئلہ پر) اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا (یہ مہدی ہوں گے اور اس اندیشہ سے بھاگ کر مکہ آجائیں گے کہ کہیں ان کو خلیفہ نہ بنادیا جائے) مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (بیت اللہ شریف کے سامنے) ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔”

“پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکر “بیداء” نامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسادیا جائے گا، پس جب لوگ یہ دیکھیں گے تو (ہر خاص و عام کو دور دور تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ مہدی ہیں) چنانچہ ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔ پھر قریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا اور بڑی محرومی ہے اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو۔ پس حضرت مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں میں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق عمل کریں گے اور اسلام اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (یعنی اسلام کو استقرار نصیب ہوگا)۔ حضرت مہدی سات سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔” (یہ حدیث مشکوٰة شریف ص:۴۷۱ میں ابوداوٴد کے حوالے سے درج ہے، اور امام سیوطی نے العرف الوردی فی آثار المہدی ص:۵۹ میں اس کو ابن ابی شیبہ، احمد ابوداوٴد، ابویعلیٰ اور طبری کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔

Tuesday, March 4, 2014

اللّهُ قادرٌ على خلق البركة في زمانين أو مكانين في وقت واحد

بقلم : الشيخ الجليل المربي الكبير العلامة أشرف علي التهانوي
المعروف بـ "حكيم الأمة" المتوفى 1362هـ / 1943م
                                                    تعريب : أبو أسامة نور

لك أن تقول: إن اليوم الخامس من شهر شعبان لا يصادف بالنسبة إلى الثواب هو الآخر إلاّ يومًا واحدًا؛ ولكنه ينبغي أن تتأكد أن اليوم الخامس عشر لايقع إلاّ في يوم واحد باعتبار الحساب، غير أنّ الله عزَّ وجلَّ عندما يخلق في زمان، أو مكان فضيلةً لايعجز عن أن لايخلق مثلَها في زمان آخر أو مكان آخر؛ بل إنه يقدر على خلق مثلها في كل ليلة من الليالي وكل يوم من الأيام في أيّ مكان. فإذا قلت: إن الإمكان لايستلزم الوقوع. قلت: إنّ هناك نصوصًا تؤكد تحقّقَ هذا الإمكان، أي إن الله تعالى ما يضع لك من البركة في يوم ما يضعها للآخرين في غيره من الأيّام، الذي يرونهم – مثلاً – اليومَ الخامسَ . أَوَ هل يصعب عليه نقلُ البركة من ليلة إلى أخرى؟ إنّ قدرته تتمثل فيما يقول: "أُولـٰـئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّآتِهِمْ حَسَنَاتٍ" (الفرقان/70). أي إنه يُحَوِّل السيئاتِ حسناتٍ، والجرائمَ طاعاتٍ؛ فقد جاء في حديث ما معناه أن الله يسائل يوم القيامة عبدًا: أَوَ هل فعلت كذا؟ هل اقترفت معصية كذا؟. وهو – تعالى – يُعَدِّد لديه سيئاته الصغيرة ، وهو – العبد – يعترف بجميعها ويخشى في نفسه أنه تعالى لم يُعَدِّد بعدُ الكبائر، ولا أدري كيف يؤاخذني عليها؛ ولكنه تعالى – يقول له قبل التعرّض للكبائر: اِذهب فقد أعطيتك مقابل كل معصية حسنةً. وهنا يُعَدِّد العبدُ بنفسه معاصيه الكبيرة ويقول: ياربِّ ! إني قد ارتكبت معاصي أخرى كبيرة، وما تعرّضتَ لها، وإذا رحتَ تغفر سيّآتي وتعطيني حسنات مقابلَها، فأعطني مقابل هذه الكبائر هي الأخرى حسناتٍ.
       وذلك يحدثُ يومَ القيامة. أمّا مصداقُ "يُبَدِّلُ الله سيّآتهم حسناتٍ" في الدنيا أنه يُبَدِّل مَلَكاتِ السيّآت مَلَكاتِ حسناتٍ؛ فهو – تعالى – يُبَدِّل البخلَ سخاءً، والجهلَ علمًا. أمّا فيما يتعلق بالحسناتِ فإنه يُحَوِّل الماءَ دمًا، كما سَلَّط على قوم فرعون عذاب الدم، ويُحَوِّل الدمَ حليبًا، كما يُشَاهَد في ضروع النساء والشياه؛ فلا يُسْتَبْعَد أن يضع بركة يوم في يوم آخر.
       أمّا أنّ ذلك هل يقع فعلاً أم لا؟ فإنّ هناك نصوصًا تُؤَكِّد أنّ كلَّ قرية وكلَّ مدينة بركتُها مرهونةٌ باليوم الذي يكون الخامسَ عشرَ لديها هي؛ فقد جَاءَ في الحديث: "الصومُ يومَ تصومُون، والفطرُ يومَ تُفْطِرُون، والأضحى يومَ تُضَحُّون".
       وقد شَرَحَ الحديثَ سيّدي الأُستاذُ فقال: الحديثُ يعني أنَّ اليومَ الذي تصومونه عن تَحَرِّيكم أو تفطرون فيه عن تحرّيكم؛ فإنّه هو يوم الصيام ويوم الإفطار لدى الله عزَّ وجلَّ. أي إنّ الثواب والبركة اللَّذَين وضعهما الله لشهر رمضان وعيد الفطر وعيد الأضحى سيحظى بهما أهل كل قرية أو مدينة في الأيام التي هي أيام رمضان وعيد الفطر وعيد الأضحى لديهم .
       وعلى ذلك فاليوم الذي تصومونه مُتَحَرِّيْنَ أنّه هو اليوم الخامس عشر من شعبان، هو الذي يكون موثوقًا به لدى الله والليلة التي تسبقه هي ليلة الخامس عشر من شعبان ، واختلاف اليومين في المكانين لاعبرةَ به.

التنديدُ بسلوك النساء اللاتي يعشن في بيوتهن
قَذِرَات، ويَتَوَجَّهْنَ إلى الخارج مُتَزَيِّنَات
       النساء اللاتي يتزينّ لإراحة أنفسهنّ أو إدخال السرور على قلوب أزواجهنّ، فيرتدين ثيابًا غاليةً وحلى فاخرة لا يأثمن، أمّا اللاّتي يرتدينها ليلفتن أنظار الناس إليهنّ، فهن يجنين الإثمَ. ودليلُ ذلك أنهن يبقين في بيوتهن قَذِرَات كنساء الطائفة المنبوذة حاملة القاذورات، وعندما يخرجن إلى مناسبات، يتزينّ كبناتِ الأُمَراء والأسرياء، كما يصنع الأُجَراءُ في مدينة "لكهنؤ"؛ حيث يكدحون طَوَالَ اليوم شادّين مآزرهم بـخرق – لا تستر إلاّ عوراتهم – ولكنهم في المساء يخرجون إلى الأسواق مرتدين ثيابًا فاخرة يقتنونها على الأجرة وفي جيوبهم بعض الفلوس التي يشترون ببعضها وجبةً من التنبول وببعضها قلادة من الأزهار، فيتصرّفون كأنهم أبناء أمراء.
       فلتلاحظ النساء أنهن عندما يُغَيِّرن ملابسهن ويرتدين ملابس جميلة فاخرة: ماذا ينوين من وراء ذلك؟ إذا كن ينوين إراحةَ أنفسهنّ وتطييبها، فلماذا لايلبسن الفاخرَ من الثياب وهنّ في بيوتهنّ. إن بعضهن يقلن: إنهن إنما يرتدين الملابس الجميلة ليكسبن الكرامة لأزواجهنّ. ولو سلّمنا هذا التأويل، لقلنا: إنّ الملابسَ الجميلةَ التي ارتديتنّ للمرة الأولى لكانت لتكفيكنّ في المرات اللاحقة، ولكنكن ترين أنّها لاتكفيكنّ؛ حيث إنّنا نرى أنكنّ ترتدين كلّ يوم حُلَلاً أخرى غير التي ارتديتنها للمرة الأولى، إذا مستكنّ حاجة إلى حضور مناسبات ليومين أو أيّام مُتَتَالِيات. على حين إن كرامة الأزواج كسبُها كان ممكنًا فيما إذا ارتدتينّ الملابس التي لبستنّها في المرة الأولى. وقد حرصتن على تغيير الملابس لحدّ أنكنّ تختارين أردية أخرى إذا لم يمكنكنّ تغيير الملابس كلّها لسبب أو آخر، حتى تَبْدُونَ في حَلَلٍ جديدة. ثمّ إنهن عندما يحضرن المناسبات يغتنمن جلوسهن في المجلس ويحرصن على عرض حليهنّ على غيرهن من النساء، وبعضُهنّ لهذا الغرض يكنّ حاسرات عن رؤوسهنّ، حتى تشاهدهن زميلاتهن من قمة رؤوسهنّ إلى أخمص أقدامهنّ. أما اللاتي يحتشمن منهنّ ولا يكتشفن رؤوسهن، فهنّ أيضًا يحتلن ليُرِين ما عليهنّ من الحليّ؛ فهنّ قد يحككن رؤوسهنّ عن عمد، وقد يحككن آذانهنّ. فاعلمن أنّ ذلك رياءٌ، وارتداء الثمين من الملابس والحليّ لهذا الغرض حرام. وهناك داءٌ عضال مستشر في النساء، وهو أنّهنّ عندما يحضرن مناسبةً يلقين نظرةً على حلّي وملابس جميع الحاضرات، من الرؤوس إلى الأقدام، حتى يعلمن ما إذا كانت هناك من هي أكثر وأحسن لباسًا أو حليةً منهنّ، وما إذا كنّ هنّ أقل وأردأ منها. إنّ ذلك هو الآخر رياءٌ وكبر ولايُوْجَدَان في الرجال مثلَما يُوْجَدَان في النساء؛ حيث إذا وُجِدَ عشرة رجال في مكان ما، فلا يفكر رجل منهم ما إذا كان هو أحسن لباسًا؛ فلا يذكر أبدًا جمالَ لباس أيّ من الحضور. أمّا النساء فإنهنّ عندما يُغَادِرن المجلس يتذكّرن دائمًا كمية وكيفية الحليّ والملابس. فليعلمن أن ارتداء المبلابس الجميلة لإبداء الزينة حرام.

الهموم لا تفارق الإنسان


بقلم : معالي الدكتور عبد العزيز عبد اللّه الخويطر / الرياض
                                                                                                                           وزير الدولة وعضو مجلس الوزراء السعودي
                                                                                                                  

خلق الله الإِنسانَ وخلق معه الهمومَ؛ فهي لازمة له، لا تفارقه، وهو دائمًا ينتقل من هم إلى هم، ويخرج من هم إلى هم، يتغلب على هم ليبرز له هم؛ الهمّ يناور الإنسانَ، يأتيه من جهة، فإذا سدّه هذه الجهلة، جاءه من جهة أخرى، والهم بارع في المناورة، والمفاجأة والمباغتة، قد يتغلب الإِنسان على هم صغير، فيطل برأسه عليه هم كبير، وقد يتغلب عليه هم كبير فإذا انتصر عليه فوجئ بهم صغير.
       والهم يأتي للصغير والكبير، وللرجل والمرأة، وللغني والفقير، وللقادر والعاجز، وللحضري والبدوي، وللعالم والجاهل، وللحاكم والمحكوم، وللقوي والضعيف، وللعاقل والجاهل، وللذكي والغبي؛ لا ينجو منه أحد، ولا يسلم من ثقله إنسان.
       والهم حمل ثقيل، وعبء باهظ سواء كان صغيرًا أو كبيرًا، لأنه يبدو أن الله – سبحانه وتعالى – قد وضع في ذهن الإِنسان حيِّزًا معيّنًا، ليكون وعاءً للهموم إذا نزلت، وهذا الإِناء يمتلئ بالهم صغر الهم أو كبر؛ إن الهم يملأ هذا الإِناء، فإن كان الهمّ كبيرًا ضغط نفسه، ليستكمل داخل الحيز، وإذا كان صغيرًا انتفخ وملأ الحيز، فبمجرد ما يتبين من الحادث أنه هم يستعد الحيّز لاستقباله، وتبدأ جميع الحواس للعمل عليه، ومن أجله، ويصل صدى عملها إلى أجزاء في الجسم لا دخل لها بالذهن، ولكن تتجاوب معه، لأن الله – سبحانه وتعالى – ربطها به.
       فإذا انشغل الذهن بشيء صار التركيز عليه، وجاء في بؤرة التفكير، وانزوتِ الأمورُ الأخرى في الهامش، وتراجعت إلى الحاشية، حتى لا يكاد يشعر بها، أو يدري أنها موجودة، وقد تكون في الماضي القريب همّاً ملأ السمع والبصر، وأخذ حيّز الذهن بكامله، وإذا انشغل الذهن بهمّ ما تصرفت الأعضاء الأخرى والملكات تصرفًا منفصلاً عن المركز والبؤرة، وقد يصل تأثير التفكير إلى بعض أجزاء من الجسم فينبهها التنبيه الضار؛ لأنه أعملها أكثر من طاقتها، أو أخرجها عن النطاق المسموح لها به.
       فعمق التفكير قد يجعل الأيدي والأرجل تتصرف مستقلة عن الذهن، خلافًا للعادة، ولعملها الطبيعي؛ فقد تسير رجل الإِنسان به إلى غير الوجهة التي يريدها، فإذا ركب أداة من أدوات الاتصال والسير وجهته الشرق، فقد يجد نفسه في الغرب، وإذا كان في يده ورقة مهمة فقد يسهو عن التركيز عليها؛ لأن الهم صرف ذهنه إلى شيء آخر، ثم لا يلبث أن يجد أنه مزّق هذه الورقة، أو مصغها:
       أذكر أننا ونحن طلاب في البعثة في مصر، وكان وقت آخر الشهر، وكانت شمس المكافأة، التي نستلمها، في رؤوس العسبان، كما يقول المثل الدارج، وكان اليوم يوم خميس، وهو يوم العطلة للطلاب في أن يخرجوا للفسحة مساءً، ويتناولوا عشاءهم خارج دار البعثة، وهو محسوب لهم في المكافأة.
       وفسحة مساء الخميس معروف محتواها: عشاء وسينما وفسحة على النيل، والسينما تختار على أساس أن الفيلم جديد، وفي سينما وسط البلد، وهذه تكون غالبًا غاليةً، وعليها ازدحام يحتاج إلى حجز مسبق، ولا يقدم عليه الطالب إلا في أول الشهر، أو مدعوًّا من قبل قادم من مكة "مقرش"، أو أن الفيلم قديم فاتت رؤيته عندما كان في وسط المدينة، وانتُظر حتى انتقل إلى الضواحي، أو سبق أن رؤى داخل المدينة، واشتيق إلى رؤيته مرةً أخرى.
       وكنا في ليلة من ليالي الجمع، مساء الخميس، خمسة طلاب، أربعة من القاهرة، وواحد من الاسكندرية، وهذا الذي من الاسكندرية ضيف وفد علينا، ولابدّ من إكرامه، كما كان يكرمنا عندما نزوره، وإن كان في الغالب يكرمنا على حسابنا ومن جيوبنا، ويغالطنا في المصاريف، ويظن أننا لانعلم ونحن نعلم، وإن كان لايهمه أن نعلم أو لا نعلم؛ فالمبلغ خارج من جيوبنا خارج، وقد قرأنا عليه السلام، وهمنا الآن في طلب الدفعة الثانية، وإلحاحه عليها.
       ومن جملة مغالطاته – حفظه الله – أنه كان يركبنا في الترام في الاسكندرية، ويأخذنا إلى الطابق الأعلى، ويدّعى أنّ هذا هو الدرجة الأولى، والقيمة فيها مضاعفة، وكنانغمض عيوننا، أملاً في خدمته لنا، وأجرةً لضيافته لنا فإسكانه لنا في شقته، وأملاً في السلامة من مقالبه، التي غالبًا لانسكت عليها، ونكيل له الصاع صاعين فيها، وهذه من كثرتها وطرافتها تستحق أن يكتب عنها منفردة .
       فكرنا بإكرام ضيفنا الذي تخرج فيما بعد طبيبًا، واستقرّ الرأيُ على أن نقضي الأمسية بالذهاب إلى شبرا؛ لأن هناك فيلمًا جميلاً انتقل إليها من داخل المدينة، وبعد السينما نعشى "سندويتشات" في أحد الأماكن المشهورة بساندويتشات الكِبَد والكلاوي (على الواقف). وهذا يعني أن علينا أن نوفر نقودًا لخمس تذاكر للسينما، وقريشات للعشاء، ومبالغ لتذاكر الذهاب والإِياب في الترام. وبعد جهد؛ لأننا في آخر الشهر، استطعنا أن نوفِّر المبلغ، ورغم توفره ظاهرًا إلا أنه نقص عن أن يوفر تذاكر إلى باب البعثة في العودة، وهذا يقتضي أن نسير كيلين أو ثلاثة على الأقدام في آخر الرحلة، وفي وقت متأخر من الليل.
       وذهبنا، ودخلنا السينما، وأكلنا السندويتشات، "وقطعنا" تذاكر العودة، وركبنا الترام، وجعلنا التذاكر مع أحدنا، وهو _رحمه الله – كان طالبًا في كلية العلوم، والكلية جادة، وهو جاد أيضًا، وهموم الدراسة تتوالى عليه، فمن هم إلى هم، ويبدو أن التفكير أخذ منه مأخذًا، استولى فيه على كل حواسّه، فأخذ دون شعور منه يقطع التذاكر إربًا إربًا، دون أن يدري ما يفعل، وكنا في غفلة عنه، نرقب عملية سرقة يقوم بها طفل أدخل نفسه في الجانب الأيسر من الترام، تحت أرجل الركَّاب، كما هي عادة النشّالين الصغار، وأخذ يعبث بجيوب ضيفنا كلما وجد الفرصة سانحةً، فنبهنا، بحركة خفية، ضيفنا، فتبيَّن أنه متنبه؛ وبمجرد أن وقف الترام ركل الضيف النشّال الصغير بقدمه، فهرب مغتنمًا السلامةَ، ولم يدر أنه لم يسلم، فجيوبُ ضيفنا كانت خاويةً على عروشها قبل أن يخرج من البيت، وانتهز ضيفُنا فرصةَ انشغال اللصّ الصغير الظريف بتفتيشه، واهتمامه الشديد بذلك؛ فأخذ الضيف يعبث بجيوب اللصّ بسلام، وأخذ قريشات و"مطوى"، "مقلمية" مبراة، وغنمها، وسرق المسروق السارق، وكانت حادثة طريفة، وقد فرحنا بهذه الثروة التي نزلت علينا من سماء جيب النشّال.
       وفي هذه اللحظة جاء المفتش الذي يتأكد من أن كل راطب معه تذكرته، والتفتنا إلى الذي معه التذاكر، وهو الذي يلي الجهة التي يأتي منها "الكمساري"قاطع التذاكر، والمفتش الذي يتأكد منها، وإذا بأخينا – رحمه الله – يبرز يده لنا، وفيها نثارة كأنها حبَّات الرُّزّ، لقد قطّعها قطعًا صغيرة حتى لم يعد لها صلة بالتذاكر، فاضطررنا أن نستفيد من مال السرقة – غفر الله لنا – ولكنه ثوب شامر، لا يستر العورة ، ولا يكفي إلا للمسافة التي قطعنا إلى "ميدان المحطة"، ومشينا بقية المسافة إلى الروضة، أميال وأميال؛ واللوم يُقذف ذات اليمين وذات الشمال، لائم يلقي باللوم على ممزّق التذاكر، ولائم يلقيه على مدخل مال الحرام على مال الحلال فأركسه، ومعتذر يلقي اللوم على الذين كانوا يشجعون على "عملية النشل" هذه، والآن يتنصلون منها، ولائم يلوم نفسه على أنه جاء مع هذه الشلة سيئة الحظ، وآخر يرد بأن يحمد الله فلن يجد أحسن منها، فغيرها لم يحظ بالسينما والسندويتش اللذيذ، وآخر يكابر ويقول "طلع بنكده" بهذا المشوار، الذي أبلى الحذاء، وهذا مهم، وأضاع الوقت، وجلب التعب، وعندما وصلوا دار البعثة منهكين متعبين مجهدين جائعين ناعسين انفجروا ضاحكين، وادخروا ما حدث للذكرى، وها هو يذكر.
       استطردنا ونحن نحاول أن نضع صورةً لعمل الأعضاء منفردة عن الذهن المركز على همّ من الهموم، وقد رأينا أثر ذلك واضحًا على التذاكر التي مُزِّقت شر مُمزَّق.
       وأحيانا تعاني المعدة من جراء الهمّ الذي ينزل بصاحبها، والتفكير الذي يأخذ عليه كل تركيزه؛ فتزيد عصارة المعدة وتؤذي جدرانها، وهي مادة كاوية قد تحدث قرحة يأتي منها أكبرُ هَمٍّ، فيصبح الإِنسان في هم متعدد الجوانب.
       وأحيانًا تتأثر بعض الغدد المفيدة من جراء الهمّ، فلا تقوم بعملها، وتأتي للإِنسان بأمراض تكون همًا جديدًا، فضعف الغدّة التي تزن حرق السكر تتسبب في داء السكري الذي لايكاد جزء من الجسم يسلم من أذاه.
       وهكذا يصبح حال كل جزء من الجسم يهمل، أو يجار عليه من جراء الهم الذي ينصرف إليه التفكير دون شعور، فيخرج الإِنسان من طور إلى طور، ومن حالة إلى حالة، ويصير أحيانًا شخصًا آخر غير من يعرفه الناس.
       والناس في الهمّ يختلفون فكل همّه بقدر همته ومستواه في الثقافة أو المجتمع، فما يهم شخصًا عاديًا قد لايحرك شعرة في إنسان مثقف، أو ذا منصب وهيئة، وقد يعجب الإِنسان من بعض الناس وهمهم، وما يقلقهم مما لا يعتبر عند الرائي أنه يستحق أن يأخذ من تفكير المعاني ما أخذه.
       ولدي مثل طريف عن إنسان ربما يوصف بأنه أقل من العادي، إذ أن تفكيره لم ينم مع جسمه نموًا متناسقًا، فأصبح ذهنه متأخرًا عن جسمه. وتعيّن فراشًا في إحدى المدارس، واعتاد أن يزورني، لصلة قديمة لي معه، في يوم معين من الأسبوع، وفي يوم من الأيام اتصل بي هاتفيًا، وهو عادة لا يستأذني في المجيء، وإنما يشعرني بعزمه على المجيء، وحدّد وقتًا لزيارة كان سيقوم بها لي لأمر مهم؛ وجاء، وهو في حالة غضب متناه، وقصّ علي القصةَ، ولم أكد أصدق أن هذا هو ما أهمه وأقلقه، واضطره أن يأتي في منتصف الأسبوع بدلاً من نهايته كالمعتاد:
       قال لي إن فلانًا المدرس في المدرسة يزعجتني كثيرًا، وأريدك أن تفصله حالاً، حتى أرتاح من أذاه؛ لأنه يحتاج إلى تأديب، ومثل هذا لايصلح معه إلا الطرد.
       فسألتُه عما فعله، ولدهشتي البالغة أجاب:
       "إني عادة أبدأ صبّ الشأي للمدرسين في غرفتهم أثناء الفسحة، وقبل أن أصل إلى المنتصف يكون هذا المدرّس قد أنهى فنجان الشأي، فلا يصبر إلى أن أعطي المدرسين الباقين، وإنما يناديني للأملأ فنجانه مرة أخرى، فإذا لم أستجب يبدأ يقرع الصينية بالفنجان، ويقلقني ويقلق الآخرين، وقد هددته بأنّي سوف أشكوه لوزير المعارف رأسًا، وأنه مطّ شفتيه استهتارًا، وزاد في القرع والأذى، والآن ليس له إلا الطرد.
       فأقنعتُه بأني أستطيع أن أجعله يقلع عن هذه العادة، وأن يعتذر إليه، لأن طرده سوف يضرّ بأولاده، وهم لم يؤذوه، بل قد يكونون في أذى من والدهم، وأنه يقرع لهم الفنجان مثلما يقرعه لك، وسوف أيضًا ننذره "ومن أنذر فقد أعذر".
       فهدأ روعه، وقبل الفكرة، وطبعًا اتصلتُ بالمدرس، ومن حسن الحظ أني أعرفه جيدًا، فأسرف في الاعتذار إليه، وأجاد فيما بعد حسن المعاملة، ورضي عنه رضى أزال ما بنفسه، ولكن همومه لاتنتهي، وكلما انتهى همّ بدأ هم؛ حتى لما تقاعد أصبح همه عن بعض ما يسمع عنه أو يراه في التليفزيون، وأحيانًا همومه تكبر مع هموم المسلمين في العالم مثل أمور الأفغان أو الصومال أو البوسنة والهرسك، وعنده دائمًا الحل على وزن حل مشكلته مع المدرس، حلاً جازمًا مستحيلاً!
       هذا هم صغير عند بعض الناس؛ ولكنه كان همّا كبيرًا عند آخرين:
       وهموم الكبار كبار، وفي كتب التراث منها الكثير، وسوف نأتي ببعض أمثلة عنها، فهي توضح الفكرة، وتحدد مستوى الهم.
       هم الحاكم نهضة بلده، وحمايتها، ونشر العدل بين رعيته، واستتباب الأمن، وتوفير الرخاء، وتعميم العلم، وتأمين الغذاء والصحة، وإيجاد ازدهار التجارة والزراعة، ورعاية المهن، والاهتمام بأمور الشباب والكهول، والرجال والنساء والصغار، ويأتيه الهم عندما يختل جانب من هذه الجوانب، ويكبر الصغير في عينه حتى يعالجه؛ والحاكم أقرب الناس لملازمة الهم له، ومكابدة هجماته، وتوقع نزلاته.
       وهناك حاكم من حكام الهند، كان مهتمًا بأمور رعيته، يتابعها بنفسه، وينظر إليها بعينه، ويصغي لها بسمعه، هجم عليه هم أقلقه؛ ولكنه سرعان ما أزاح كلكله عنه:
       يقول محمد بن الوليد الطرطوشي:
       "ولقد بلغنا أن ملكاً من ملوك الهند نزل به صمم، فأصبح مسترجعًا، مهتمًا بأمور المظلومين، وأنه لا يسمع استغاثتَهم، فأمر مناديه ألا يلبس أحد في مملكته ثوبًا أحمر إلا مظلوم، وقال:
       لئن منعتُ سمعي لم أمنع بصري، فكان من ظُلم لبس ثوبًا أحمر، ووقف تحت قصره، فيكشف ظلامته".(1)
       هم كبير أزاحه فكر ثاقب، ونية حسنة، وحب لشعبه خالص، فلم يستسلم للنازلة، ولم يتركها تأكل من جدار معدته، أو تصيب رأسه بالصداع، وأخلق بالكبير صاحب الهم الكبير أن يكون حمله كبيرًا.
       ونية الحاكم مهمة؛ فهي تلعب دورًا كبيرًا في نجاح الأعمال، والتغلب على الصعوبات، وقد قيلت في هذا أقوال حكيمة.
       قال وهب بن منبه:
       "إذا همّ الوالي بالجور، أو عمل به، أدخل الله النقص في أهل مملكته، وفي الأسواق والزرع والضرع، وكل شيء؛ وإذا همّ بالخير والعدل، أو عمل بــه، أدخل الله البركة في أهل مملكته كذلك" .(2)
       وهناك قصة في هذا المعنى، قد تكون رمزية، صيغت بهذه الصفة، حتى تؤدي دور الموعظة:
       "روي أن أبرويز نزل بامرأة متنكرًا، فحلبت بقرة لها، فرأى لبنًا كثيرًا، فقال للمرأة:
       كم يلزمك في السنة لهذه البقرة للسلطان؟
       قالت: درهم واحد.
       قال: وأين ترتفع؟ وبكم ينتفع منها؟
       قالت: ترتفع في أرض السلطان، ولي منها قوتي وقوت عيالي. فتفكر في نفسه وقال:
       إن الواجب أن تجعل أتاوة على الأبقار، فلأصحابها نفع عظيم منها.
       فما لبث أن قالت المرأة:
       أواه، إن سلطاننا همّ بجور.
       فقال لها أبرويز: ولم قالت [ذلك].
       قالت: إن درّ البقرة انقطع، وإن جور السلطان مقتض لجدب الزمان، كما أن عدله مقتض لخصب الزمان.
       فأقلع أبرويز عما همّ به، وتاب مما خطر بقلبه، وكان بعد ذلك يقول:
       إذا همّ الإِمام بجور ارتفعت البركة".(3)
       وقد يأتي همّ الحاكم وسط الليل من كلمة سمعها، أو خطرت في باله، فتدبرها، فأقلقه أحد مراميها، وقد يكون ذلك وهمًا؛ ولكن لابد من تبديده حتى يرتفع أذاه، وينزاح ثقله، وتبرد جمرته، وتخمد صيحته، ويخبو وقوده:
       قال يزيد بن مزيد:
       "أرسل إليّ الرشيد ليلاً يدعوني، فأوجستُ منه خيفةً؛ فقال:
       أنت القائل أنا ركن الدولة، والثائر لها، والضارب أعناق بغاتها؟ لا أمّ لك! أي ركن لك؟ وأي ثائر أنت؟، وهل كان منك إلا نفجة أرنب رعبت [منها] قطاة جثمت بمفحصها؟
       قال: قلت: يا أمير المؤمنين، ما قلتُ هذا، إنما قلت: أنا عبد الدولة، والفائز بها.
       فأطرق، وجعل ينحلّ غضبه عن وجهه؛ ثم ضحك فقلت: أَسَرُّ من هذا قولي:
       خلافـة الله في هـارون ثابتـة
                     وفي بنيـه إلى أن ينفخ الصـور
       إرث النبي لكم من دون غيركُم
                     حق من الله في القرآن مسطور
       فقال: يا فضل: أعطه مئتي ألف درهم قبل أن يصبح".(4)
       كلمات بلغ الرشيد أن أحد رجال دولته النابهين قالها، شم منها رائحةً أعطسته، فلم ينم معه همها، بل أحضر صاحبها، فحلّ عُقَد هذا الهم، وزاد بما أوجب إعطاءه إكرامًا.
       ولكن الهم وإن زال في بعض الأحيان مع الحاكم لايخلو من ذيول تبقى تسحب خلف الأمر، وقد حدث هذا مع الرشيد أيضًا:
       "غضب الرشيد على عبد الله بن مالك، ثم اتضحت له براءته، فعفا عنه. وكان عبد الله يرى فيه بعض الانقباض، فقيل له:
       إن عبد الله يشكو أثرًا باقيًا من تلك النبوة.
       فقال: إنا معشر الملوك إذا غضبنا على أحد من بطانتنا، ثم رضينا عنه، بقي لتلك الغضبة أثر لا يخرجه ليل ولا نهار".(5)
       ويكشف زياد بن أبيه عن مصادر الهم عنده فينبِّه حاجبه إليها، والذي يهمنا من النص الآتي أمران، هما اللذان يمكن أن يأتي الهم والقلق منهما وهمًا: "صارخ الليل لهمّ دهاه، وصاحب البريد"؛ أما الصلاة والطعام، فتوجبان الاهتمام وليس الهم:
       قال زياد لحاجبه:
       "وليتك حجابتي، وعزلتك عن أربع:
       المؤذن للصلاة، وصاحب الطعام؛ فإن الطعام إذا أعيد سخنهُ فسد، وصارخ الليل لشر دهاه، وصاحب البريد، فالتهاون بالبريد ساعة يخرم عمل سنة".(6)
       الأمران اللذان اهتم بهما زياد من بين الأربعة لا يأتيان بانتظام، ولا في وقت معين، أقل ما فيهما من الإزعاج أنهما يتسببان في إيقاظه من النوم، وقد لا يسمحان له بالعودة إليه من هول ما حملا مما لم يكن يتوقعه.
       ونموذج لِهَمِّ الحاكم عندما يكون ملتفتًا لأمر مهم، فيعترضه معترض، يفسد عليه حماسه، أو بلوغ غايته فيما قصده، وهيأ نفسه لنيله، وهذا يتمثل في القصة الآتية:
       وحدّث أبو عبيدة عن أبي عمرو بن العلاء قال:
       خطب ابن الزبير، فاعترض له رجل، فآذاه بكلمة، ثم طأطأ الرجل رأسه؛ فقال ابن الزبير:
       أين المتكلم؟ فلم يجبه.
       فقال: "قاتله الله ضبح ضبحة الثعلب، وقبع قِبعة القنفذ".(7)
       إن همّ عابر، وإقلاق موقت، اضطر ابن الزبير أن يقطع الخطبة وأن يلتفت إلى صاحب الكلمة، وأن يصفه بالوصف الذي لا بد أنه تمنى أن لم يكن أجبر عليه، لأنه أبدى حياله غضبه، وهو ما يضعف موقف الخطيب، خاصةً إذا كان حاكمًا.
       وهذا الموقف عابر، وهمّه صغير؛ ولكنه أخذ كل حيّز الهمّ عند ابن الزبير، وصرفه عن الخطبة التي هي همه الأساسي في هذا الموقف الجاد.
       ويأتي هم آخر منقطع، والجانب الأكبر منه شخصي؛ ولكنه يلمس في جانب منه الحكم، ويكون في الجانبين الشخصي والدولي همّ وأي هم:
       قال أبوالحسن المدائني:
       لما شدَّ عبد الملك أسنانه بالذهب قال:
       "لولا المنابر والنساء، ما باليتُ متى ما سقطت".(8)
       هذا همّ صغير، ولكنه بغياب غيره كبير؛ فهو في الهامش عند قيام ثائر، أو حدوث فتنة، أو خروج خارج، أو خبر سيء من الثغور. أما وكل ما حوله هادئ؛ فهذا الهم الصغير يأتي في بؤرة الشعور، وفي مقدمة الذهن في التفكير.
       ومن المضايقات التي يتعرض لها الحاكم بعض المواقف الغبية المفاجئة؛ لأنها تستوجب ظاهرًا الصبر، وإطالة البال، والحاكم في داخله يغلي، وما بين الداخل والخارج مرجل همّ يكاد ينفجر.
       قالوا :
       ومن النوكى ربيعة بن عِسْل، أحد بني عمرو ابن يربوع، وأخوه صبيغ بن عِسل. وفد ربيعة على معاوية، فقال له معاوية:
       ما حاجتك؟
       قال: زوِّجني ابنتك.
       قال: اسقوا ابن عِسل عسلاً.
       فأعاد عليه، فأعاد العسل ثلاثاً، فتركه وقد كاد ينقد بطنه.
       قال: فاستعملني على خراسان.
       قال: زياد أعلم بثغوره.
       قال: فاستعملني على شرطة البصرة.
       قال: زياد أعرف بشرطته.
       قال: فاكسني قطيفة، أوهب لي مئة ألف جذع لداري.
       قال: فدارك في البصرة، أو البصرة في دارك".(9)
       احتاج معاوية إلى صبر أيوب مع هذا الأحمق الذي تدرَّج في الطلب من طلب يد ابنة الخليفة إلى الاقتناع بالقطيفة، ومن الولاية إلى خشب يسقف به بيته، وطلبه كثير يبنى سقوف بيوت البصرة كلها. ورغم أن معاوية تحمّله طولَ الوقت بسخافاته وحمقه، إلا أن معاوية خابثه بسقيه العسلَ حتى كاد ينفجر بطنه. وهذا يري مدى حنق معاوية المكتوم، وهمّه الثقيل الذي جلبه هذا.
       هذه بعض مظاهر الهموم في التراث، اختيرت مُمَثِّلَةً لبعض الجوانب ولم نقترب من الهموم الكبرى للحكام؛ فهذه لا حصر لها في صفحات التاريخ.
*  *  *


(1) سراج الملوك : 174.
(2) سراج الملوك: 147.
(3) محاضرات الأدباء: 67.
(4) ربيع الأبرار: 1/744.
(5) ربيع الأبرار: 1/733.
(6) ربيع الأبرار: 1/733.
(7) الحيوان : 7/59.
(8) البيان والتبيين: 1/60.
(9) البيان والتبيين: 2/259.