Front - The Prophet Muhammed

Wednesday, August 24, 2016

دوسری قسط ای کوڈ (E. Code) کی شرعی حیثیت

دوسری قسط

ای کوڈ (E. Code) کی شرعی حیثیت

ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا شرعی حکم

از: مولانا اسلم اللہ خاں‏، مدرس الجامعة الاسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور

فقیہ العصر مولانا تقی عثمانی کی توضیح
الکوہل سے بنی ہوئی دواؤں کے بارے میں فرماتے ہیں: وحیث عمت البلوی فی ہذہ الأدویة فینبغي أن یوخذ فی ہذا الباب کمذہب الحنفیة أو الشافعی واللّٰہ اعلم ثم ہناک جہة أخری ینبغی أن یسأل عنہا خبراء الکیمیائی وہو أن ہذہ الکحول بعد ترکیبہا بأدویة أخری ہل تبقی علی حقیقتہا؟ أو تستحیل حقیقتہا وماہیتہا بعملیات کیمیاویة فان کانت ماہیتہا تستحیل بہذہ العملیات بحیث لا تبقی الکحل وانما تصیر شیئاً آخر فیظہر أن عند ذلک یجوز تناولہ باتفاق الأئمة لأن الخمر اذا صارت خلاً جاز تناولہا فی قولہم جمیعاً لاستحالة الحقیقة
(جب الکحل سے بنی ہوئی دواؤں کا استعمال عام ہوگیا اوراس قسم کی دوائیں تمام لوگوں کی ضرورت میں داخل ہوگئیں تو عموم بلوی والی فقہاء کی اصطلاح کے اعتبار سے بھی جائز ہوگا، پھر ایک اور رخ سے بھی مسئلہ پر بحث ہوسکتی ہے، جس سے کیمیاء کیمسٹری کے ماہروں سے دریافت کیا جاسکتا ہے ، وہ یہ کہ الکحل کو دوسری دواؤں سے ملانے کے بعد کیا وہ الکحل اپنی اصل شکل میں رہ جاتا ہے یا اس کی شکل اور حقیقت مختلف کیمیائی مراحل اور ادوار سے گذارنے کے بعد وہ شکل و حقیقت اس طرح بدل جاتی ہے کہ الکحل کچھ بھی نہ رہے، پس صرف دوسری چیز وہ دوائیاں (الکحل جس سے بدل گئی ہیں) رہ گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ الکحل جب اپنی حقیقت کھودیااور صرف دوائیاں رہ گئیں تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ شراب جب سرکہ بن جائے تو تبدیلیٴ ماہیت کی وجہ سے بالاتفاق جائز ہے، پھر آگے خنزیر کے اجزاء سے بنے جلاٹین سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان کان العنصر المستخلص من الخنزیر تستحیل ماہیتہ بعملیة کیمیاویة بحیث تنقلب حقیقتہ تماماً زالت حرمتہ ونجاستہ وان لم تنقلب حقیقتہ بقی علی حرمتہ ونجاستہ لأن انقلاب الحقیقة موثر فی زوال الطہارة والحرمة عند الحنفیة 
اگر خنزیر کے اجزاء سے بنا ہوا عنصر کیمیاوی تجزیہ سے اپنی پوری حقیقت بدل دے اور دوسری شکل اختیار کرلے تواس کی حرمت اور نجاست کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور اس کی اصلی شکل اور حقیقت باقی رہ جائے تو نجاست و حرمت کا حکم بھی باقی رہ جائیگا، اسلئے کہ طہارت و حرمت کے حکم کے بدل جانے میں حقیقت کا بدل جانا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة:۳۴۱)
الموسوعة الفقہیة کی صراحت
عصر حاضر کی مشہور اور معتبر فقہی انسائیکلوپیڈیا الموسوعة الفقہیة میں استحالہ کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے:
الاستحالة - تغیر الشیء عن طبعہ ووصفہ (استحالة ایک چیز کے اپنی طبیعت اور صفت بدل دینے کا نام ہے) اس کے بعد استحالہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے: فالاستحالة قد تکون بمعنی التحول کاستحالة الأعیان النجسة من العذرة والخمر والخنزیر وتحولہا عن أعیانہا وتغیر أوصافہا وذلک با الاحتراق أو بالتخلیل أو بالوقوع فی شیء
ترجمہ: (استحالہ کبھی کسی چیز کے اپنی حالت بدل دینے سے ہوتا ہے، جیسے گوبر شراب اور سور جیسی ناپاک چیزوں کا اپنی ذات سے پھرجانا اوران کی صفات کا بدل جانا، اور یہ تبدیلی کبھی چیز کے جلادینے سے یا شراب کو سرکہ بنانے سے یا کسی چیز میں ڈال دینے سے ہوتی ہے، پھر استحالہ کاحکم اس طرح بیان کیاگیا ہے: تحول العین وأثرہ فی الطہارة والحل (ایک چیز کے بدل جانے کا اثر اور حکم پاک اور حلال ہونے میں) ذہب الحنفیة والمالکیة وہو روایة عن أحمد الی أن نجس العین یطہر بالاستحالة فرماد النجس لایکون نجساً - ولا یعتبر نجسا ملح کان حماراً أو خنزیرا أو غیرہما ․․․․ ولأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة فینتفی بانتفائہا فاذا صار العظم واللحم ملحاً أخذ حکم الملح لأن الملح غیر العظم واللحم ونظائر ذلک فی الشرع کثیرة(الموسوعة الفقہیة:۱۰/۲۷۸)
ترجمہ: (حنفیہ مالکیہ اور (باعتبار ایک روایت کے) امام احمد اس طرف گئے ہیں کہ کوئی بھی نجس العین چیز اپنی حالت بدل دے تو پاک ہوجاتی ہے، ناپاک چیز کی راکھ ناپاک نہیں ہوتی اور وہ گدھا یا خنزیر یا کوئی بھی ناپاک جانورنمک بن جائے تو پھر ناپاک شمار نہیں ہوتا، کیونکہ شریعت نے ناپاکی کاحکم اس گندگی کی حقیقت پرلگایا تھا، جب وہ گندگی باقی نہیں رہی پوری طرح مٹ گئی تو گندگی کا حکم بھی ختم ہوجائے گا، پس جب وہ ناپاک گوشت اور پوست نمک بن جائے تواس پر نمک ہی کاحکم لگے گا، اس لئے کہ اب یہ صرف نمک رہ گیا ہے، گوشت پوست وغیرہ کچھ نہیں رہا کہ اس کا حکم لگے اس طرح کی مثالیں شریعت میں بہت سی ہیں۔
حضرات فقہاء و مفتیان کی ان روایات اور فتاویٰ سے صورت مسئولہ بالکل نکھر جاتی اور صاف ہوجاتی ہے کہ اگر صابون یا پیسٹ یا کیک اور بسکٹ یااسی طرح دیگر ماکولات و مشروبات میں اگر ناپاک چربی یا اسی قسم کی ناپاک اشیاء کی ملاوٹ ہوتی بھی ہے تو تین وجوہات کی وجہ سے اس کے جائز اور حلال ہونے میں کوئی شبہ یا خلجان نہیں رہ جاتا۔
پہلی بات یہ کہ دلائل شرعیہ کے ثبوت کے بغیر ملاوٹ مسلم نہیں، یعنی تسلیم نہیں کی جائے گی، جس کو حضرت مفتی نظام الدین صاحب نے بیان فرمایا کہ جب تک دلائل شرعیہ سے ملاوٹ ثابت نہ ہو اور یقینی نہ ہوجائے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے اس کی طرف یوں اشارہ فرماکہ جب تک معتبراوریقینی اطلاع نہیں ملتی، بات محض ظن و گمان کے درجہ کی چیز ہوتی ہے اور شریعت اس قسم کے محض احتمالی اور شکی باتوں پر احکام کا دارومدار نہیں رکھتی، اس لئے بھی کہ اصل اشیاء میں اباحت ہی ہے، تو تحریم کے لئے معقول اور قوی وجہ پایا جانا ضروری ہے، نیز الیقین لایزول بالشک ․
دوسری وجہ اگر ملاوٹ ہوئی بھی ہو اور ثابت بھی ہوجائے تو شرعی اصول استہلاک اور استحالہ، یعنی ایک چیز کا اپنی حالت بدل دینا نیز انقلاب العین اور تغیر ماہیت و حقیقت کا اصول نافذ ہوگا، جس کی تفصیلات دلائل و شواہد سمیت گذرچکی ہیں۔
اس بحث کے اختتام سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتویٰ سے چند اقتباسات پیش کردئیے جائیں جو بڑا مبسوط تشفی بخش اور بحث کے تمام گوشوں کو محیط ہے، نیز مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن صاحب اور علامہ انور شاہ کشمیری جیسی عبقری شخصیتوں کے تائیدی دستخط سے بھی مزین ہے۔
مفتی کفایت اللہ صاحب کا فتویٰ
(سوال) آج کل ولایتی صابون عموما استعمال کیاجاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اس وجہ سے اس کے استعمال میں تردد پیداہوگیا ہے، شرعی حکم سے مطلع فرماکر ممنون فرمایا جائے۔ وأجرکم علی اللّٰہ 
(۳۵۲) جواب: اوّل تو یہ امر محقق نہیں کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اگرچہ نصاریٰ کے نزدیک خنزیر کا استعمال جائز ہے، اور انہیں اس سے کوئی پرہیز واجتناب نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ صابون میں اس کی چربی ضرور ڈالی جاتی ہو، ظاہر ہے کہ یورپین کارخانے تجارت کی غرض سے صابون بناتے ہیں، اورایسے ذرائع مہیا کرتے ہیں جن سے ان کی مصنوعہ اشیاء کی تجارت میں ترقی ہو۔
آپ نے اکثر یورپین چیزوں کے اشتہاروں میں یہ الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے کہ ”اس چیز میں بنانے کے وقت ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے، اس چیز میں کسی مذہب کے خلاف کوئی چیز نہیں ڈالی گئی ہے، اس چیز کو ہر مذہب کے لوگ استعمال کرسکتے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔
ان باتوں سے ان کا مقصود کیاہوتا ہے؟ صرف یہی کہ اہل عالم کی رغبتیں اس چیز کی طرف مائل ہوں اوران کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات ان اشیاء کے استعمال میں مزاحم نہ ہوں، اور ان کی تجارت ہرقوم میں عام ہوجائے، اور یہی ہر تجارت کرنے والے کے لئے پہلا مہتم بالشان اصول ہے کہ وہ اپنی تجارت کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات کا لحاظ کرے، جن میں اس کی تجارت فروغ پذیر ہوسکتی ہے، اوراس کے مال کی کھپت ہے، اہل یوروپ جو ہندوستان اوراکثر اطراف عالم میں اپنا مال پھیلانا چاہتے ہیں، اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان ہر حصہ عالم میں بکثرت موجود ہیں، اور یہ کہ مسلمان خنزیر اور اس کے اجزاء کے استعمال کو حرام مطلق سمجھتے ہیں، پس موافق اصول تجارت ان کا اولین فرض یہ ہے کہ اشیاء تجارتی میں جن کی اشاعت و ترویج ان کا مطمح نظر ہے، ایسی چیزیں نہ ڈالیں جن کی خبر ہوجانے پر مسلمان ان چیزوں کے استعمال کو حرام سمجھیں اور ان کی تجارت کو ایک بڑا صدمہ پہنچے۔
میرا یہ مطلب نہیں کہ یورپین اشیاء میں ایسی چیزوں کا استعمال جو مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں غیرممکن ہے، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ یقینی طور پر معلوم نہ ہونے کی صورت میں گمان غالب یہ ہے کہ اصول تجارت کے موافق وہ ایسی چیزیں نہ ڈالتے ہوں گے، پس صرف اس بنا پر کہ یہ چیزیں یوروپ سے آتی ہیں اور اہل یوروپ کے نزدیک خنزیر حلال ہے، یہ خیال قائم کرلینا کہ ان میں ضروری طورپر خنزیر کی چربی پڑتی ہوگی یا پڑنے کا غالب گمان ہے صحیح نہیں، ہندو جن کے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثر تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پوتر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اس کے ان کے ہاتھ کی بنی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طورپر مسلمان استعمال کرتے ہیں اوراستعمال کرنا شرعا جائز بھی ہے، یہ کیوں! صرف اس لئے کہ چونکہ ہندو دکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار ہندومسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں، اور ہندوؤں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لئے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اور صاف رکھتے ہیں، تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو، اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں۔
یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے،جس پر بہت سے جزئیات کا حکم متفرع ہوتاہے، اور نہ صرف صابون بلکہ یوروپ کی تمام مصنوعات کی طہارت و نجاست اسی قاعدہ کے نیچے داخل ہے، ولایتی کپڑے اور بالخصوص رنگین کپڑے جو مسلمان عموماً استعمال کرتے ہیں، کسے خبر ہے کہ ان رنگوں میں کیا کیا چیزیں ملائی جاتی ہیں، اور کن پاک یا ناپاک اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے، لیکن قاعدئہ مذکورہ کی بنا پر ان چیزوں کا حکم بھی یہی ہے کہ جب تک یقینی طورپر یا بہ گمان غالب یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی ناپاک چیز ملائی جاتی ہے، ناپاکی کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
اولاً: طہارت ونجاست کے باب میں کتب فقہیہ میں بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں، جن میں محض گمان اور شک کاکوئی اعتبار نہیں کیاگیا، ماہرین کتبِ فقہ پر یہ امر واضح ہے۔
ثانیاً : اگر اس امر کا ثبوت اورکوئی دلیل بھی موجود ہو کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، تاہم صابون کا استعمال جائز ہے، کیونکہ صابون میں جو ناپاک تیل یا چربی پڑتی ہے، وہ صابون بن جانے کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد فقہ کی کتابوں سے بہت سی روایات کی تخریج کے بعد (جن میں سے کچھ روایات پہلے گذرچکی ہیں) فرماتے ہیں:
ان روایات منقولہ سے امور ذیل بصراحت ثابت ہوگئے۔
(۱) انقلاب حقیقت سے طہارت و نجاست کا حکم بدل جاتا ہے۔
(۲) یہ حکم طہارت بانقلاب حقیقت امام محمد کا قول ہے، اوراسی پر فتویٰ ہے، اوراکثر مشائخ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
(۳) صابون میں روغن نجس یا چربی کی حقیقت بدل جاتی ہے، اورانقلاب عین حاصل ہوجاتا ہے (درمختار اور مجتبیٰ کی عبارتیں دیکھو)۔
پس اب سوال کاجواب واضح ہوگیا کہ صابون خواہ کسی چیز کی چربی یا روغن نجس سے بنایا جائے صابون بن جانے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے، اور اس کااستعمال جائز ہے، کیونکہ انقلاب حقیقت کی وجہ سے وہ چربی چربی اور روغن روغن نہ رہا، بلکہ صابون ہوکر پاک ہوگیا، جیسے مشک ہے کہ اصل میں خون ناپاک ہوتا ہے، لیکن مشک بن جانے کے بعد وہ پاک اور جائز الاستعمال ہوجاتا ہے، پس ولایتی صابون کے استعمال کے لئے اس تحقیقات کی کچھ ضرورت نہیں کہ اس کے اجزاء کیا ہیں؟ وہ پاک ہیں یا ناپاک؟ کیونکہ حقیقت صابونیہ اس کی طہارت کی کفیل ہے، جیسے کہ حقیقت مسکیہ اس کی طہارت کی ضامن ہے۔
اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ روایات مذکورہ سابقہ سے روغن نجس کے صابون کا پاک ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ یہ حکم روغن کے ساتھ خاص ہو کیونکہ اصل اس کی پاک ہے، ناپاکی باہر سے اسے عارض ہوئی ہے، پس اس سے خنزیر کی چربی کے صابون کا حکم نکالنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ خنزیر اوراس کے اجزاء نجس العین ہیں، تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ انقلاب عین سے پاک ہوجانا نجس العین اور غیر نجس العین دونوں میں یکساں طور پر جاری ہوتے ہیں، خون بھی نجس العین ہے، مشک بن جانے سے پاک ہوجاتا ہے، خود خنزیر کا انقلاب حقیقت کے بعد پاک ہوجانا بھی روایات ذیل سے ثابت ہے: ولا ملح کان حمارا أو خنزیرا ولا قذر وقع في بئر فصار حمأة لانقلاب العین بہ یفتی (درمختار) یعنی وہ نمک ناپاک نہیں جو دراصل گدھا یا خنزیر تھا۔ اور وہ پلیدی بھی جو کنویں میں گرکر کیچڑ بن جائے ناپاک نہیں، کیونکہ انقلاب حقیقت ہوگیا اسی پر فتویٰ ہے۔
قولہ لانقلاب العین علة للکل وہذا قول محمد وذکر معہ فی الذخیرة والمحیط أبا حنیفة (حلیة) (یعنی مصنف کا قول کہ انقلاب عین موجب طہارت ہے یہ گدھے اور خنزیر کے نمک اور پلیدی کے کیچڑ بن جانے کے بعد پاک ہوجانے کی دلیل ہے اور یہ امام محمد کا قول ہے، اور ذخیرہ اور محیط میں امام ابوحنیفہ کو بھی امام محمد کے ساتھ ذکر کیا ہے:
قال فی الفتح: وکثیر من المشائخ اختاروہ وہو المختار لأن الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومہا فکیف بالکل فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ونظیرہ في الشرع: النطفة نجسة وتصیر علقة وہی نجسة وتصیر مضغة فتطہر والعصیر طاہر فیصیر خمرا فینجس ویصیرخلاً یطہر فعرفنا أن استحالة العین تستتبع زوال الوصف 
ان نصوص فقہیہ سے امور ذیل ثابت ہوتے ہیں:
(۱) گدھا، خنزیر، کتا، انسان انقلاب حقیقت کے حکم میں سب برابر ہیں کچھ تفاوت نہیں۔
(۲) یہ نمک کی کان میں گرکر مریں یا مرے ہوئے گریں، دونوں حالتوں میں یکساں حکم ہے، یعنی میتہ جو بہ نص قرآنی حرام اورنجس ہے وہ بھی اسی حکم میں شامل ہے۔
(۳) انسان جس کے اجزاء سے بوجہ کرامت انتفاع حرام ہے اور خنزیر وہ میتہ جن سے بوجہ نجاست انتفاع حرام ہے، انقلاب حقیقت کے بعد ان پر انسان اور خنزیر و میتہ کا حکم باقی نہیں رہتا، بلکہ بعد انقلاب حقیقت پاک اورجائز الانتفاع ہوجاتے ہیں، جبکہ انقلاب حقیقت طاہرہ کی طرف ہو۔
(۴) نمک کی کان میں گرنے اور صابون کے دیگ میں گرنے کاحکم یکساں ہے، کیونکہ یہ دونوں صورتیں موجب انقلاب حقیقت ہیں، جیسا کہ کبیری شرح منیة کی عبارت میں صراحتاً مذکور ہے، ان امور کے ثبوت کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ خنزیر یا میتہ یاکتے کی چربی سے بنے ہوئے صابون کے جواز استعمال میں تردد کیا جائے، اور یہ شبہ کچھ وقعت نہیں رکھتا کہ خنزیر بہ نص قرآنی حرام اور نجس ہے، پس صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ ہے، جواب اسکا یہ ہے کہ یہ معارضہ نہیں، نص قرآنی نے خنزیر یا میتہ کو نجس بتایا ہے، لیکن نمک یا صابون بن جانے کے بعد وہ خنزیر یا میتہ ہی کہاں رہے، دیکھو شراب بہ نص قرآنی حرام و نجس ہے،اور سرکہ بن جانے کے بعد بالاتفاق وہ پاک و حلال ہوجاتی ہے، پس جس طرح کہ شراب منصوص النجاسة پر سرکہ بن جانے کے بعد طہارت و حلت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اسی طرح خنزیر کے صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اصل یہ ہے کہ شریعت نے جس حقیقت پر نجاست کا حکم لگایا تھا وہ حقیقت ہی نہیں رہی اور بعد انقلاب جو حقیقت متحقق ہوئی وہ شریعت کے نزدیک پاک ہے، پس یہ حکم طہارت بھی حکم شرعی ہے نہ غیر۔
تنبیہ اول: یہ بات ضروری طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگرچہ خنزیر و میتہ وغیرہ کی چربی سے بنے ہوئے صابون کا استعمال جائز ہے، لیکن کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں ہے، کہ وہ خنزیر وغیرہ کی چربی سے صابون بنائے، کیونکہ قصدا ان چیزوں کو صابون بنانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں اوریہ جدا بات ہے کہ غیرمسلموں کے بنانے اور صابون بن جانے کے بعد استعمال جائز ہوجائے․․․․․ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم 
کتبہ الراجی رحمة ربہ محمد کفایت اللہ غفرلہ مدرس المدرسة الامینیہ
ہذا التحقیق صحیح، عزیز الرحمن عفے عنہ مفتی مدرسہ دیوبند
الجواب صحیح ، محمد انور عفا اللہ عنہ، دارالعلوم دیوبند
امام بخاری کا مذہب
امام بخاری نے ما یقع من النجاسات باب باندھا ہے اور مختلف صورتوں سے بحث کرتے ہوئے اس صورت سے بھی بحث کی ہے، ایک ناپاک چیز جب اپنی ہیئت بدل کر پاک چیز بن جائے تو وہ پاک اورجائز ہوجاتی ہے اور مشک والی روایت سے استدلال کیا ہے کہ شہید کے خون کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں شہید اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن سے بظاہر خون بہتاہوگا، لیکن اس سے مشک کی خوشبو پھوٹتی ہوگی:
وقال بعضہم مقصود البخاری أن یبین طہارة المسک ردا علی من یقول بنجاستہ لکونہ دما انعقد فلما تغیر عن الحالة المکروہة من الدم وہي الزہم وقبح الرائحة الی الحالة الممدوحة وہي طیب الرائحة المسک دخل علیہ الحل وانتقل من الحالة النجاسة الی حال الطہارة کالخمرة اذا تخللت (فتح الباری: ۱/۲۳۶)
ترجمہ: امام بخاری کا مقصد ان لوگوں پر رد ہے جو مشک کو اس لئے ناجائز کہتے ہیں کہ وہ بندھا ہوا خون ہے، ان کاجواب مقصود ہے کہ یہ ناپاک جما ہوا خون تھا، لیکن ناپاک حالت اور بدبو سے نکل گیا اور پاک اور خوشبو والی حالت میں بدل گیا، تو اب یہ بلاشبہ پاک اورجائزہے، جیسے کہ جب شراب سرکہ بن جائے۔
مذکورہ اشیاء میں ظاہر ہے کہ بسکٹ چاکلیٹ اور بیکری کی مصنوعات میں چربی کی صورت شکل مزہ کچھ نظر نہیں آتا، اس لئے یہ مسئلہ بالکل واضح ہے ان کے استعمال کو بلاتحقیق حرام قرار دینا اور اس پر زبردستی اوراصرار کرنا خواہ مخواہ کی زیادتی ہے اوراحکام شرعیہ کے ساتھ مخول اور ٹھٹھا ہے، البتہ شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے احتیاط اور تقویٰ کو اپنانا اولیٰ اور بہتر رہے گا۔
تیسری چیز جس کی طرف اخیر فتویٰ میں اشارہ کیاگیاکہ ان اشیاء کے استعمال کی اس قدر کثرت ہے کہ اس سے احتراز کرنا تقریباً ناممکن یا دشوار ضرور ہے،اس عموم البلوی میں داخل ہوگا یا (الحرج مدفوع المشقة تجلب التیسیر) کے ضمن میں داخل ہوگا۔
ملاوٹ کی تیسری صورت
تیسری صورت یہ کہ محض احتمال اور شبہ ہو ملاوٹ کاکوئی شرعی ثبوت نہ ہو، اس کا حکم دوسری صورت کے ضمن میں تفصیل سے گذرچکا ہے کہ ملاوٹ جب تک یقینی ثابت نہ ہوجائے محض گمان پر کوئی حکم شریعت نہیں لگاتی۔
ملاوٹ کی چوتھی صورت
چوتھی صورت یہ کہ کمپنیوں کی طرف سے مختلف چربیوں (حلال وحرام) ملانے کا احتمال ہو اس کی وضاحت نہ ہو کہ کس چیز میں کونسی چربی ملائی جارہی ہے۔
مذکورہ بالا صورت بظاہر مخدوش اور مشتبہ ہے، اس لئے احتیاطاً یہاں بھی یہی کہاجائے گا کہ انفرادی طورپر آدمی حتی المقدور پرہیز اوراحتیاط کو اپنائے، یہی بہتر اورمناسب ہے لیکن شرعی قانون کی بات وہی ہے جو اوپر مذکور ہوچکی ہے کہ محض شبہات کی بنیاد پر ساری چیزوں پر بے تحقیق حکم لگاکر امت کو مشقت میں ڈالنا عقل کے بھی خلاف ہے اور شریعت تو ویسے بھی بے بنیاد حکم لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، اوریہ مسئلہ بہت پرانے زمانہ سے چلا آرہا ہے۔
فرنگی پنیر کے بارے میں ابن تیمیہ کی تحقیق
علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس پر بحث فرمائی ہے کہ افرنچ (یعنی فرنگی اوریورپی ممالک) سے آئے ہوئے پنیر کے بارے میں اسی وقت سے دو باتیں مشہور تھیں، ایک یہ کہ اس میں خنزیر کے دودھ کا استعمال یا غیر مذبوحہ جانور کے پیٹ سے جما ہوا دودھ جودہی کی شکل کا ہوتا ہے، اس سے پنیر (Cheese) بنایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں علامہ نے یہ فرمایا کہ امت میں اس کا استعمال بلانکیر چلا آرہا ہے، حتی کہ صحابہ کے زمانہ میں مجوسیوں کا بنایا ہوا پنیر استعمال کیاجانا بھی عام ہوگیا تھا، جب کہ ان کے بارے میں یقینی معلوم تھا کہ وہ جانور ذبح نہیں کرتے اور باقی افرنگی اہل کتاب کا معاملہ مشکوک تھا کہ وہ کبھی ذبح کرتے ہیں کبھی ذبح نہیں کرتے اور پھر خنزیر کے پیٹ کا مادہ بھی اس میں استعمال کئے جانے کی خبر تھی،اس کے باوجود علماء اور فقہاء اور بزرگان دین نے اس کے جواز پر کبھی نکیر نہیں فرمائی۔
الثانی أنہم لایذکون ما تضع منہ الأنفخة بل یضربون رأس البقر ولا یذکونہ وأما الوجہ الثانی فقد علم أنہ لیس کل یعقرونہ من الأنعام یترکون ذکوٰتہ بل قد قیل انہم انما یفعلون ہذا بالبقر وقیل انہم یفعلون ذلک حتی یسقط ثم یذکونہ ومثل ہذا لایوجب تحریم ذبائحہم بل اذا اختلط الحلال بالحرام فی عدد لا ینحصر کاختلاط أختہ بأہل البلد واختلاط المیتة والمغضوب بأہل بلدة لم یوجب ذلک تحریم ما فی البلد کما اذا اختلط الاخت بالأجنبیة والمذکی بالمیتة فہذا القدر المذکور لا یوجب تحریم ذبائحہم المجہولة الحال وبتقدیر أن یکون الجبن مصنوعا من أنفخة میتة فہذہ المسئلة فیہا قولان أحدہما أن ذلک مباح طاہر کما ہو قول أبی حنیفة و أحمد احدی الروایتین، والثانی أنہ حرام نجس کقول مالک والشافعی الخ والمطہرون احتجوا بأن الصحابة أکلواجبن المجوس مع کون ذبائحہم میتة  (فتاویٰ ابن تیمیہ ۱۲/۵۳۳)
ترجمہ: دوسری صورت یہ ہے کہ افرنگی انفخہ بچھڑے کے پیٹ سے نکالے جانے والے رینٹ اور پنیر کے بارے میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ وہ لوگ جانورکو ذبح نہیں کرتے، بلکہ اس کا سرزمین سے یا دیوار سے زور سے مارتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مردار ہوجاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام جانوروں کو اس طرح نہیں مارڈالتے، بلکہ صرف گائے کے ساتھ کرتے ہیں، باقی جانور (بکری وغیرہ) ذبح کرتے ہیں اور یوں بھی کہاجاتا ہے کہ سرٹکرانا صرف گرانے کیلئے ہوتا ہے، پھرجب وہ سست ہوتا ہے تو پھر ذبح کرتے ہیں،اس طرح کے مخلوط اور مشتبہ چیزوں کو حرام نہیں کہا جائے گا، بلکہ جب حلال و حرام مخلوط ہوجائے اور امتیاز مشکل ہوجائے تو یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے کسی شہر میں مردار اور چوری اور غصب کے کچھ جانور عام جانوروں میں رل مل جائیں تو ظاہر ہے کہ ان چند غلط جانوروں کے مل جانے کی وجہ سے پورے جانوروں کو حرام نہیں کہا جائے گا، پھر اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ پنیر مردار جانوروں سے بنا ہے، تب بھی اس مسئلہ میں دو قول ہیں، ایک امام ابوحنیفہ اورامام احمد کی ایک روایت کہ یہ جائز اور پاک ہے، دوسرا قول امام شافعی ومالک کا کہ ناپاک اور ناجائز ہے، جائز قرار دینے والے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ مجوس کے بنے ہوئے پنیر کو استعمال کرتے تھے، جبکہ وہ ذبح کرنے کے عادی نہیں تھے۔
ولایتی پنیر کے بارے میں مفتی نظام الدین صاحب کا فتویٰ
افریقہ سے آئے ہوئے اسی قسم کی صورت حال کے بارے میں استفسار کے جواب میں حضرت فرماتے ہیں:
(سوال) جس طرح ملک میں اکثر کھانے پینے کی چیزیں غیرمسلم عیسائیوں یہودیوں کی فیکٹریوں میں بنتی ہے اور مسلمان ان کو خریدکر کھاتے ہیں، اسی طرح پنیر اپنے تمام اقسام کے ساتھ انہیں غیرمسلموں کے فیکٹریوں میں بنتا ہے اور مسلمان انہیں خریدکر کھاتے ہیں، الی أن․․․․․
اب سوال یہ ہے کہ غیرمسلم کے ذبیحہ سے کشیدہ انفخہ سے بنایا ہوا پنیر مسلمان کے لئے حلال ہے یا نہیں؟
(جواب) البیضة اذا وقعت من الدجاجة فی الماء والمرقة لا تفسدہ وکذا سبخلة وکذا الأنفخة وہی ماتکون فی معدة الرضیع من أجزاء اللبن طاہرة عند أبی حنیفة لاتفسد الماء ولاغیرہ واذا خرجت من شاة میتة سواء کانت جامدة أو مائعة وعندہما المائعة نجسة والجامدة متنجسة طہر بالغسل فیفسدان فی الماء وغیرہ الا اذ اغتسلت الجامدة أما لو خرجت من مذکاة فلا خلاف فی طہارتہا الخ
اس عبارت سے معلوم ہوا ہے کہ انفخہ جو گائے کے بچہ کے شکم سے یا بکری وغیرہ کسی بھی ایسے جانور سے جس کا گوشت حلال ہے وہ انفخہ اس جانور کے شکم سے شرعی طریقہ سے ذبح کرکے نکالا جائے تو وہ بالاتفاق حلال و پاک ہوتا ہے اس کا کھانا اور استعمال کرنا درست ہوتا ہے اورجو انفخہ ماکول اللحم ہی سے نکالا جائے، مگر بغیر شرعی ذبیحہ کے (مردار) جانور سے نکال دیا جائے تو صاحبین کے نزدیک حلال ہوتا ہے، امام صاحب کے نزدیک ہرحال میں اس کا استعمال درست ہوتا ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
(سوال) یہ کہ محکمہ زراعت و اقتصادیات کے ذمہ دار شخص نے بتلایا کہ پنیر بناتے وقت دودھ کو منجمد کرنے کے لئے خنزیر کے پیٹ سے کوئی سیال مادہ بھی استعمال ہوتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ اس ملک میں بھی استعمال ہوتا ہے یا نہیں؟ اور بعض ذمہ دار شخص نے بتایا کہ اب حیوانی رینٹ کے بجائے نباتاتی رینٹ استعمال ہوتاہے، تو کیا ایسی صورت حال میں پنیر کو مشکوک ٹھہراکر حرام سمجھا جائے یا دوسرے ذمہ دار کے انکار کی بنا پر اسے حلال ٹھہرایا جائے؟
(جواب) خنزیر مثل غلاظت کے ناپاک یعنی نجس العین اورحرام ہے، ذبح کے بعد بھی یہ پاک نہیں ہوتا، اس کے پیٹ سے کشید کیا ہوا کوئی مادہ سیال ہو یا منجمد پاک و حلال نہ ہوگا، ناپاک و حرام ہی رہے گا اوراس کا استعمال جس کھانے وغیرہ میں ہوجائے گا، وہ بھی ناپاک و حرام ہوجائے گا اوراس کا کھانا اوراس کا استعمال کرنا بھی درست اورجائز نہ رہے گا، البتہ جب تک حرام و ناپاک کی آمیزش کا ثبوت یقینی نہ ہوجائے اس وقت تک قطعی حرمت کا حکم نہیں دیا جائے گا لیکن احتیاط اولیٰ اور بہتر رہے گی مکروہ یا حرام نہ کہہ سکیں گے۔
اس طرح کے مخلوط حرام اور حلال دونوں قسم کے دودھ سے بنایا ہوا مشکوک اورمشتبہ پنیر کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس کے بارے میں آگے فرماتے ہیں۔ (حرمت کیلئے قطعی ثبوت ضروری ہے محض اندازہ سے حکم لگانے سے تمام علماء نے پرہیز کیا ہے)
غرض جب پنیر بنانے میں دونوں قسم کے (حرام و ناپاک اورحلال) رینٹ استعمال کرتے ہیں اور دراصل اشیاء میں حلت اوراباحت ہی ہے تو جب تک کسی پنیر کے بارے میں دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام و ناپاک رینٹ استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام و ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے۔ ہاں جب دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے جیسے یہ کہ پیکٹ وڈبہ پر ہی لکھا ہو یہ پنیر کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار شدہ ہے تواس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے یا مثلاً معتبر شہادت مل جائے کہ اس میں حرام وناپاک چیز ملی ہوئی ہے۔
نیز اس سلسلہ میں تجارتی اصول کے ماتحت ذمہ دار اشخاص کے بیان پر اعتماد کیا جائے گا، کیونکہ دنیوی اصول کے مطابق بھی تجارت کو سچائی اور دیانت ہی سے فروغ ہوتا ہے اس لئے بغیر وجہ شرعی کے کسی کو جھوٹا و دغاباز سمجھنا یا کہنا صحیح نہیں ہوگا ( منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۴۲)
پنیر کا مسئلہ اگرچہ کہ گوشت اور چربی کے مسئلہ سے جدا ہے، لیکن حلال وحرام کی آمیزش کی وجہ سے صورت حال چونکہ مشترک ہے، اس لئے مشتبہ ہونے کی صورت میں کس بات کااعتبار کیا جائے اورکونسی بات غیر معتبر ہوگی، اس کے اصول کو اس میں واضح کردیاگیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ناپاک چربی کی آمیزش والی چیزیں اگر اپنی حقیقت بدل دیں اور کسی پاک چیز کی شکل اپنالیں تو یہ دوسری صورت میں شامل ہوگا، جس کی تفصیل گذرچکی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بسکٹ کیک اور پیسٹ کی شکل میں بدل چکی ہے اور ناپاک چربی کی حقیقت بالکل ختم ہوچکی ہے، تو اب نہ اس کا رنگ روپ باقی ہے، نہ ہی ذائقہ اور شائبہ تو اس کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس پنیر والی صورت سے ملتی جلتی شکل ہے کہ جن چیزوں کا استعمال کیاجارہا ہے، ان میں ناپاک چیزوں کی ملاوٹ کا ثابت ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہی نہیں ہے، جب کہ کمپنیوں سے ہر طرح کی سینکڑوں قسم کی چیزیں (پاک اور ناپاک ملاوٹ والی) تیار ہوکر نکلتی رہتی ہیں تو کسی کے بارے میں جب تک کمپنی کی طرف سے یا عینی شاہدین کی طرف سے متعین طور پر نہ کہہ دیا جائے کہ اس میں ملاوٹ ہے، اس وقت تک ملاوٹ کا دعویٰ محض بلادلیل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے اور متعین طور پر ثابت ہونے کی صورت میں تبدیلی ماہیت کے ہونے کی وجہ سے جائز ہے، (بہت سے لوگ خود پنیر کا استعمال کرتے ہیں، اس مسئلہ میں ان کے لئے بھی مستقل رہنمائی ہے)
خلاصہ کلام یہ ہے حضرات علماء کرام مفتیان عظام کے سامنے کئی اصول و ضوابط ہیں، ان سب کا لحاظ کرنا ان کیلئے ضروری ہوتا ہے، ورنہ ایک ضابطہ کو لے کر باقی اصول سے صرف نظر کرنے کی صورت میں امت کیلئے دشواریاں اور مشکلات کھڑی ہوجانے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف شریعت کے بہت سے مصالح اور فوائد سے محرومی کا خطرہ ہے، اس لئے مسئلہ کے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی تفکر و تدبر کے ساتھ ساری صورتوں کو انھوں نے واضح کردیا ہے۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ ملاوٹ ثابت ہوجائے، تب بھی اصول وضوابط کی رو سے مسئلہ شرعیہ وہی ہے جو مذکور ہوا، اس لئے کہ فتویٰ میں سہولت و آسانی اور یسر مطلوب ہوتاہے، لوگوں کو مشقت تنگی و دشواری اورحرج میں ڈالنا ہرگز پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَج﴾ (یسروا ولاتعسروا) لیکن عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ناعاقبت اندیشی اور جلد بازی کا شکارہوکر یا جذبات سے مغلوبیت کے نتیجہ میں لوگ بائیکاٹ کی اور حرام ہونے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن عملی میدان میں جب بازار کی صورت حالی یہ سامنے آتی ہے کہ مارکیٹ پر انہیں یہودی، عیسائیوں کاقبضہ ہے اور یہی مخدوش و مشتبہ کمپنیاں ہرطرف چھائی ہوئی ہیں، ان کی مصنوعات سے ان شبہات والی مشتبہ چیزوں سے بچنا اپنے قبضہ سے باہر معلوم ہوتا ہے تو بے بسی کا شکار ہوجاتے ہیں، انجام کار شرعی مسئلہ ایک تماشہ اور اضحوکہ یا عجوبہ بن جاتا ہے، اس کا علاج اور تیربہدف نسخہ یہی ہے، جس کو قرآن وحدیث نے بتایا ہے کہ مسلمان خصوصاً یہود و نصاریٰ سے دوستی، ان پر بھروسہ، ان سے لین دین اور معاملات سے حتی الامکان بالکلیہ پرہیز کریں اوراپنے طور پر یا حکومتوں کے تعاون سے میدان عمل میںآ گے بڑھ کر ذرائع اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لیں، مارکیٹ پر اپنا قبضہ کریں اور جہاں تک ہوسکے خودکفیل ہونے کی کوشش کریں اورحکومتوں کو بھی بیدار کریں، بیداری کی تحریک چلائیں، عوام اور حکومتوں کو تفصیل سے بتائیں کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مارکیٹ پر قبضہ ملک و قوم کے لئے اور ملک کی اقتصادی حالت کیلئے انتہائی تباہ کن اور غربت اور بے روزگاری کو بڑھاوادینے والا ہے،تو دوسری طرف نت نئی بیماریوں کا جنم دینے والا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ملّی، دینی غیرت و حمیت کا اور ملکی و قومی مصالح کا مقتضا یہی ہے کہ ملک و قوم اورملت ان دشمنوں کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرے اوراپنی مصنوعات کو فروغ دے اور بیرونی مصنوعات یعنی یہود و نصاریٰ جو شروع سے سازشی طور پر دنیا کے مارکیٹ پر قبضہ کئے ہوئے اور ساری دنیا سے دولت سمیٹ کر ان کے کھاتوں میں منجمد ہورہی ہے، تو عوام کی اسی دولت سے وہ دنیا میں بدامنی انتشار اور خوں ریزی پھیلارہے ہیں۔
ان سب کا علاج یہی ہے کہ ان کے مقابلہ میں اپنی مصنوعات کو ہرطرف پھیلایا جائے تاکہ ماحول میں شفافیت برقرار رہے اور معاشرے کو سکون ملے۔ وما علینا الا البلاغ۔
اللہم ارنا الاشیاء کما ہی اللہم فقہنا فی الدین وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
$$$
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1، جلد: 91 ‏، ذی الحجہ 1427 ہجری مطابق جنوری 2007ء

Thursday, August 4, 2016

Riyazul Quran ریاض القران


Riyazul Quran ریاض القران

By Molana Yunus Palanpuri Sahab D.B.


Link: ریاض القران

Monday, July 4, 2016

رشوت کا گناہ

جنگ 26 مئی 1978 ء
رشوت کا گناہ
شراب نوشی اور بدکار ی سے بھی زیادہ سنگین ہے
بعض برائیاں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں ایک شخص کے نزدیک وہ برائی ہے ۔ اور دوسرا اسے کوئی عیب نہیں سمجھتا لیکن رشوت ایک ایسی برائی ہوتی ہے جس کے بُرا ہونے پر ساری دنیا متفق ہے کوئی مذہب وملت، کوئی مکتب فکر یا انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ملے گا جو رشوت کو بدترین گناہ یا جرم نہ سمجھتا ہو ،حدیہ ہے کہ جو لوگ دن کے وقت دفتروں میں بیٹھ کر دھڑلے سے رشوت کا لین دین کرتے ہیں وہ بھی جب شام کو کسی محفل میں معاشرے کی خرابیوں پر تبصرہ کریں گے تو ان کی زبان پر سب سے پہلے رشوت کی گرم بازاری ہی کا شکوہ آئے گا اور اس کی تائید میں وہ (اپنے نہیں) اپنے رفقائے کار کے دوچار واقعات سنا دیں گے ، سننے والے یاتو ان واقعات پر ہنسی مذاق میں کچھ فقرے چست کردیں گے یا پھر کوئی بہت سنجیدہ محفل ہوئی تو اس میں غم و غصہ کا اظہار کیا جائے گا لیکن اگلی ہی صبح سے یہی شرکائے مجلس پورے اطمینان کے ساتھ اسی کاروبار میں مشغول ہوجائیں گے ۔
غرض رشوت کی خرابیوں سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود کوئی شخص جو اس انسانیت سوز حرکت کا عادی ہوچکا ہو اسے چھوڑنے کے لئےتیار نظر نہیں آتا اور اگر اس کے بارے میں کسی سے کچھ کہا جائے تو مختصر ساجواب یہ ہے کہ ساری دنیا رشوت لے رہی ہے تو ہم کیاکریں ؟ گویا ان کے نزدیک رشوت چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ پہلے دوسرے تمام لوگ اس برائی سے تائب ہوجائیں تب ہی چھوڑنے پر غور کرسکتا ہوں اس کے بغیر نہیں اور چونکہ رشوت لینے والے کے پاس بھی بہانہ ہے لہٰذا یہ تباہ کن بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے فرق یہ ہے کہ جب کوئی وباء پھیلتی ہے تو وہاں کوئی مریض یہ سوال نہیں کرتا کہ جب تک تمام دوسرے لوگ تندرست نہ ہوجائیں میں بھی صحت کی تدبیر نہیں کروں گالیکن رشوت کے بارے میں یہ استدلال ناقابل تردید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک استدلال نہیں ایک بہانہ ہے اور بات صرف یہ ہے کہ رشوت لینے والے کو اپنے اس عمل میں فوری طور سے کافی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے اس لئے نفس اس فائدے کو حاصل کرنے کے لئے ہزار حیلے بہانے تراش لیتا ہے لیکن آئیے ذرایہ دیکھیں کہ رشوت لینے میں واقعتاً کوئی فائدہ ہے بھی یانہیں؟ بظاہر تو رشوت لینے میں یہ کھلا فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کی آمدنی کسی زائد محنت کے بغیر بڑھتی جاتی ہے لیکن اگر ذراباریک بینی سے کام لیا جائے تو اس وقتی فائدے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک ٹائیفائڈ میں مبتلا بچے کو چٹ پٹی غذاؤں میں بڑا لطف آتا ہے لیکن بچے کے ماں باپ یا اس کے معالج جانتے ہیں کہ یہ چند لمحوں کا فائدہ نہ صرف اس کی تندرستی کو دور سے دور تر کردے گا بلکہ انجام کار اسے زیادہ طویل عرصہ تک لذیذ غذاؤں سے محروم ہوجانا پڑے گا۔
یہ مثال صرف رشوت کے اخروی نقصانات پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ ذراانصاف سے کام لیاجائے تو رشوت کے دنیوی نقصانات کے بارے میں بھی اتنی ہی سچی ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب معاشرے میں یہ لعنت پھیل جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی ایک جگہ سے کوئی رشوت وصول کرتا ہے تو اسے دسیوں جگہ خود رشوت دینی پڑتی ہے بظاہر تو وہ ممکن ہے کہ اسے آج سوروپے زیادہ ہاتھ آگئے لیکن کل جب اسے خود دوسرے لوگوں سے کام پڑیگا تو یہ سوروپے نہ جانے کتنے سو ہوکر خود اس کی جیب سے نکل جائیں گے۔
پھر رشوت کا یہ نقد نقصان کیا کم ہے کہ اس کی بدولت پورامعاشرہ بدامنی اور بے چینی کا جہنم بن جاتا ہے کیوں کہ کسی بھی ملک میں باشندوں کے امن وسکون کی سب سے بڑی ضمانت اس ملک کا قانون اور اس قانون کے محافظ ادارے ہی ہوسکتے ہیں لیکن جس جگہ رشوت کا بازار گرم ہو وہاں بہتر سے بہتر قانون بھی بالکل مفلوج اور ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے آج ہم معاشرے کی بدامنی کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون بنانے بیٹھتے ہیں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ اس قانون کو رشوت کے زہر سے کیسے بچایا جائے؟ چوری ، ڈاکے ، قتل ، اغواء ، بدکاری اور دھوکے فریب کے انسانیت کش حادثات سے آج ہرشخص سہما ہوا ہے لیکن یہ نہیں سوچتا کہ ان حادثات کے روز افزوں ہونے کا سبب درحقیقت وہ رشوت ہے جو ہر اچھے سے اچھے قانون کو چند نوٹوں کے عوض بیچ کر اس کی ساری افادیت کو خاک میں ملادیتی ہے اور جسے ہم نے اپنے روزمرہ کے طرزعمل سے شیر مادر بناکررکھ دیا ہے ۔
ہم نے اگر کسی مجرم سے رشوت لے کر اسے قانون کی گرفت سے بچالیا ہے تو درحقیقت ہم نے جرم کی اہمیت ، قانون کے احترام اور سزا کی ہیبت کو دلوں سے نکالنے میں مدددی ہے اور ان مجرموں کا حوصلہ بڑھایا ہے جو کل خود ہمارے گھر پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں ۔
ایک سرکاری افسر کسی سرکای ٹھیکہ دار سے رشوت لے کر اس کے ناقص تعمیری کام کو منظور کرادیتا ہے اور مگن ہے کہ آج آمدنی زیادہ ہوگئی ، لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس ناقص پل کی تعمیر پر اس نے صاد کرادیا ہے کل جب گرے گا تو اس کی کی زد میں خود وہ اور اس کے بچے بھی آسکتے ہیں ، جس ناقص مال کی بنی ہوئی سڑک اس نے منظور کرادی ہے وہ ہزارہا دوسرے افراد کی طرح خود اس کے لئے بھی عذاب جان بنے گی ، اور سب سےبڑھ کر یہ سرکاری کاموں کے سلسلے میں رشوت کے عام لین دین سے ہم نے سرکاری خزانےکو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا بارکوئی حکمراں ہی نہیں اٹھائے گا ، بلکہ اس کےنتائج زائد ٹیکسوں کی شکل میں ملک کے تمام باشندوں کو بھگتنے پڑیں گے جن میں ہم خود بھی داخل ہیں اس سے ملک میں گرانی بھی پیدا ہوگی ، خزانہ بھی کمزور پڑے گا ، ملک کے ترقیاتی کام بھی رکیں گے ، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی منزل بھی دور ہوگی ، اور دوسری اقوام ہمیں بدستور لقمئہ تر سمجھتی رہیں گی۔
یہ تو چند سرسری سی مثالیں تھیں ، لیکن اگر ہم ذرا اس رخ سے مزید سوچیں تو اندازہ ہوکہ رشوت کے لین دین کی بدولت ہم خود دنیا میں مستقل طور سے کن پیچیدہ مصائب اور سنگین مشکلات میں مبتلاہوگئے ہیں ؟
رشوت کے یہ دنیوی نقصانات تو اجتماعی نوعیت کے ہیں اور بالکل سامنے کے ہیں ، لیکن اگر ذرا اور گہری نظر سے دیکھئے تو خاص رشوت لینے والے کی انفرادی زندگی بھی رشوت کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہتی ۔ حدیث میں ہے کہ :
لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم الراشی والمرتشی والرائش
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے رشوت دینے والے پر بھی ، رشوت لینے والے پر بھی اور رشوت کے دال پر بھی ۔
جس ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں بھی دعارئے خیر ہی کی ہو اس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی شخص پر لعنت بھیجنا معمولی بات نہیں ۔ اس کا اثر آخرت میں تو ظاہر ہوگا ہی ، لیکن دنیا میں بھی یہ لوگ اس لعنت کے اثر سے بچ نہیں سکتے ۔ چنانچہ جو لوگ معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈال کر حق داروں کا دل دکھا کر غریبوں کا حق چھین کر اور ملت کی کشتی میں سوراخ کرکے رشوت لیتے ہیں ۔ بظاہر ان کی آمدنی میں خواہ کتنا اضافہ ہوجاتا ہو، لیکن خوشحالی اور راحت وآسائش روپے پیسے کے ڈھیر، عالیشان کوٹھیوں ، شاندار کاروں اور اپ ٹو ڈیٹ فرنیچر کانام نہیں ہے ، بلکہ دل کے اس سکون اور روح کے اس قرار اور ضمیر کے اس اطمینا ن کا نام ہے جسے کسی بازار سے کوئی بڑی سے بڑی قیمت دے کر بھی نہیں خریدا جاسکتا ، یہ صرف اور صرف اللہ کی دین ہوتی ہے ، جب اللہ تعالیٰ کسی کو یہ دولت دیتا ہے تو ٹوٹے چھونپڑے ، کھجور کی چٹائی اور ساگ روٹی میں بھی دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا تو شاندار بنگلوں ، کاروں اور کارخانوں میں بھی نصیب نہیں ہوتی ۔
آج اگر آپ کو رشوت کے ذریعے کچھ زائد آمدنی ہوگئی ہے ، لیکن ساتھ ہی کوئی بچہ بیمار پڑگیا ہے تو کیا یہ زائد آمدنی آپ کو کوئی سکون دے سکے گی؟ آپ کی ماہانہ آمدنی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ،لیکن اگر اسی تناسب سے گھر میں ڈاکٹر اور دوائیں آنے لگی ہیں تو آپ کو کیا ملا؟اور اگر فرض کیجئے کہ کسی نے مرمارکر رشوت کے روپے سے تجوریاں بھر لیں ، لیکن اولادنے باغی ہوگر زندگی اجیرن بنادی ، داماد نے جینا دوبھر کردیا، یا اسی قسم کی کوئی اور پریشانی کھڑی ہوگئی تو کیا یہ ساری آمدنی اسے کوئی راحت پہنچاسکے گی ؟
واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باغی ہوکر روپیہ تو جمع کرسکتا ہے لیکن اس روپے کے ذریعے راحت وسکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں ، عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت پریشانیوں اور آفتوں کا ایسا چکر لے کر آتی ہے جو عمر بھر انسان کو گردش میں رکھتا ہے قرآن کریم نے”جولوگ یتیموں کامال ظلماً کھاتے ہیں وہ ایسے مصائب کا شکار کردئے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں لذیذ سے لذیذ غذا بھی آگ معلوم ہوتی ہے “۔
لہذا رشوت خوروں کے اونچے مکان اور شاندار اسباب دیکھ کر اس دھوکے میں نہ آنا چاہئے کہ کہ انہوں نے رشوت کے ذریعے خوش حالی حاصل کرلی ، بلکہ ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں ۔
اس کے برعکس جو لوگ حرام سے اجتناب کرکے اللہ کے دئیے ہوئے حلال رزق پر قناعت کرتے ہیں ، ابتداء میں انہیں کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں ، لیکن مآل کار دنیا میں بھی وہی فائدے میں رہتے ہیں، ان کی تھوڑی سی آمدنی میں بھی زیادہ کام نکلتے ہیں ، ان کے اوقات اور کاموں میں بھی برکت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دل کے سکون اور ضمیر کے اطمینان کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں ۔
اوپر رشوت کے جو نقصانات بیان کئے گئے وہ تمام تر دنیوی نقصانات تھے، اور اس لعنت کا سب سے بڑا نقصان آخرت کا نقصان ہے ، دنیا میں اور ہزار چیزوں میں اختلاف ہوسکتا ہے ، لیکن اس بارے میں کسی مذہب اور کسی مکتبِ فکر کا اختلاف نہیں کہ ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت ضرور آئے گی اگر بالفرض رشوتیں لے لے کر کسی شخص نے چندروز مزے اڑابھی لئے تو بالآخر اس کا انجام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ :
الراشی والمرتشی کلاهما فی النار
رشوت دینے والا اور رشوت لینے والادونوں جہنم میں ہوں گے۔
اور اس لحاظ سے رشوت کا گناہ شراب نوشی اور بدکاری سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ شراب نوشی اور بدکاری سے اگر کوئی شخص صدق دل کے ساتھ توبہ کرلے تو وہ اسی لمحے معاف ہوسکتا ہے ، لیکن رشوت کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے ہے ، اس لئے جب تک ایک ایک حقدار کو اس کی رقم نہ چکائے یا اس سے معافی نہ مانگے ، اس گناہ کی معافی کا کوئی راستہ نہیں ، عام طورسے جب انسان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اپنی آخرت کی فکر لاحق ہوہی جاتی ہے ، اگر اس وقت عارضی دنیوی مفاد کے لالچ میں ہم یہ گناہ کرتے رہے تو یقین کیجئے کہ موت سے پہلے ہی جب آخرت کی منزل سامنے ہوگی تو یہ اعمال دنیا کے ہر آرام وراحت کو مستقل عذاب جان بناکر رکھ دیں گے اور اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔
بعض لوگ یہ سوچتےہیں کہ اگر تنہا میں نے رشوت ترک کردی تو اس سے پورے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ لیکن یہی وہ شیطان کا دھوکہ ہے جومعاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،جب ہر شخص دوسرےکا انتظار کرے گاتومعاشرہ کبھی اس لعنت سے پاک نہیں ہوگا۔ آپ رشوت کو ترک کرکے کم ازکم خود اس کے دنیوی اور آخرت کے نقصانات سے محفوظ ہوسکیں گے اس کے بعد آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بنے گی کیا بعید ہے کہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس لعنت سے تائب ہوجائیں ، تاریکی میں ایک چراغ جل اٹھے تو پھر چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ تناور ہوسکتا ہے کہ اس سے پورا ماحول بقعئہ نور بن جائے پھر جب کوئی شخص اللہ کے لئے اپنے نفس کے کسی تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے ، دور دور سے ایک کام کو مشکل سمجھنے کے بجائے اسے کرکے دیکھئے ، اللہ تعالیٰ سے اس کی آسانی کی دعا مانگئے ۔ ان شاء اللہ اس کی مدد ہوگی ضرور ہوگی ، بالضرور ہوگی اور کیا عجب ہے معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو منتخب کیا ہو۔